Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 27 مئی، 2014

کتاب اللہ اور تصور ملکیت ۔ 7

   مال کے بارے میں اسلام کا بنیادی تصور کیا ہے ؟
        اسلام ،ایک عام فہم لفظ ہے جو آج کل زیادہ بولا جاتا ہے، کہ فلاں بارے میں اسلام کیا کہتا ہے ؟  جبکہ اسلا م بذات خود کچھ نہیں کہتا اس میں جو قول قابل تقلید ہیں وہ "قول اللہ" اور " قول رسول اللہ" ہیں۔ ان پر عمل کرنا اسلام ہے۔
  اب  "قول اللہ" اور " قول رسول اللہ" کے سامنے کسی فرد کی خواہ وہ صداقت اور تقویٰ کی منزل پر کیوں نہ ہو رائے قابل قبول نہیں ہو سکتی اور نہ ہم اسے قابل تقلید کہ سکتے ہیں ۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہم اللہ کے اس قول کے منکر ہوں گے۔

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَ‌سُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْ‌جُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّـهَ كَثِيرً‌ا ﴿21﴾الاحزاب 
  حقیقت میں تمھارے لئے رسول اللہ میں اسوۃ حسنہ ہے۔ جو اللہ اور یوم الاخر کے لئے رجوع کرتا ہے اور اللہ کی نصیحت (کتاب اللہ میں سے) کثرت سے کرتاہے۔
٭۔    اسوہ ء رسول پر عمل کرنے کے بارے میں خود  اللہ نے رسول اللہ سے کہلوایا ۔
قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ
 کہہ!
٭۔    نہ میں تم سے کہتا ہوں میرے پاس  اللہ کے خزانے (علم یا مال)     ہیں !
٭۔    نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں۔
٭۔    نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں ملک ہوں۔
٭۔    میں تو اسی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر وحی ہوئی۔

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ‌ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُ‌ونَ ﴿50﴾الانعام کہہ!
٭۔    کیا بے بصیرت اور با بصیرت دونوں برابر ہو سکتے ہیں۔
٭۔     کیا تم تفکر نہیں کر سکتے؟
     ہم بھی اسوہ ء رسول پر عمل کرتے ہوئے اسی کی اتباع کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں مال کے بارے میں اللہ نے مال کے بارے میں ایک مومن کو بنیادی تصور بتایا ہے 
إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۚ وَاللَّـهُ عِندَہُ أَجْرٌ‌ عَظِيمٌ ﴿15﴾ التغابن
بے شک تمھارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں اور اللہ کے نزدیک اجر عظیم ہےO
 فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرً‌ا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿16﴾ التغابن

پس اللہ سے ڈرو جتنا ہو سکے اور سنو اور اطاعت کرو اور اور اپنے نفسوں کے لئے خیر انفاق کرو اور جو کوئی بچ گیا نفس کی بخیلی سے۔ پس وہی فلاح پانے والے ہیں۔
٭۔     حیرت کی بات ہے کہ کائینات کے خزانوں کا مالک۔ اپنی مخلوق سے قرضہ مانگ رہا ہے۔

مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِ‌ضُ اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَ‌ةً ۚ وَاللَّـهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْ‌جَعُونَ ﴿245﴾ البقرۃ
 ہے کوئی جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟ اور وہ اس کے لئے اس کو کئی گناہ کر دے۔ اور اللہ قبض کرتا ہے اور بصط کرتا ہے اور اس کی رجوع ہے۔

إِن تُقْرِ‌ضُوا اللَّـهَ قَرْ‌ضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ شَكُورٌ‌ حَلِيمٌ ﴿17﴾التغابن
 اگر تم اللہ کو قرض حسنہ دو وہ تمھارے لئے اس کو دگنا کر دے گا اور تمھاری مغفرت(بھی) کرے گا اور اللہ شکور اور حلیم ہے۔
 مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّـهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿261﴾ البقرۃ
   جو لوگ فی سبیل اللہ اپنے مال انفاق کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے حبہ (بیج) کی مثال، جب اگتا ہے تو اس میں سات بالیاں ہوتی ہیں اور ہر بالی میں سو حبہ(بیج)۔ اور اللہ  کئی گناہ(1=700) کرتا ہے اپنی مرضی کے ساتھ۔ اور اللہ واسع اور علیم ہے۔

وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿195﴾البقرۃ
اور اللہ کی راہ میں انفاق کرو اور اپنے ہی ہاتھوں سے(انہیں روک کر) خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ بے شک اللہ محسنیں سے محبت کرتا ہے۔ 
٭۔   اللہ کو اس سے غرض نہیں کہ تمھارے حاکم تم سے رویوں میں کیسا برتاؤ رکھتے ہیں۔ البتہ وہ اِس عمل کا ضرور ردعمل ظاہر کرتا ہے جو وہ اپنی قوم کے ساتھ ” فی سبیل اللہ انفاق“ کا رویہ کیسے رکھتے ہیں۔ زبانی دعوے کرتے ہیں یا حقیقت میں  ” فی سبیل اللہ انفاق“  کرتے ہیں۔

هَا أَنتُمْ هَـٰؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَمِنكُم مَّن يَبْخَلُ ۖ وَمَن يَبْخَلْ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَن نَّفْسِهِ ۚ وَاللَّـهُ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَ‌اءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَ‌كُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُم ﴿38﴾محمد
آگاہ رہو تم وہ لوگ ہو! جنہیں دعوت دی جاتی ہے کہ فی سبیل اللہ انفاق کرو تو تم میں سے کچھ بخل کرتے ہیں۔ پس جو بخل کرتا ہے اپنے نفس سے (بخل کرتا ہے) اور اللہ تو غنی ہے اور تم فقراء ہو۔ اور اگر تم (دعوتِ انفاق فی سبیل اللہ سے) رکے رہو گے تو وہ(اللہ) تمھیں غیر قوم سے تبدیل کر دے گا اور وہ تمھاری طرح (بخیل) نہ ہوں گے۔


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭جاری ہے٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔