گذشتہ منگل کی بات ہے کہ ہماری دواؤں کا سٹاک ختم ہو چکا تھا، ہم اور بیگم ،محلے کے میڈیکل سٹور سے دوا لے کر کام چلا رہے تھے ، پنڈی جانے کی ہمت
نہ تھی ، کیوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اسلام
آباد میں میٹرو بس سسٹم ،کے آنے کا غلغلہ ، ہمیں
تعمیراتی کام پر کبھی اعتراض نہیں رہا ،
لیکن سڑکوں کے بند ہونے پر خیال آتا ہے
کہ میڈیا کے اس دور میں کیا ہمارے
پلانر ، عوام کو مطلع نہیں کر سکتے کہ کون
سی سڑک کب بند رہے گی ؟ خیر جانے دیں ۔
پروگرام بنا کہ پی اے ایف شاہین ، جاتے ہیں وہاں ڈاکٹر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سی ایم ایچ والی دوائیاں ہی دے ۔ کیوں کہ بیگم کو یہاں کے ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیاں سوٹ نہیں کرتیں ۔ خیر ہم وہاں پہنچے ، ڈاکٹر نے سب سنا اور پنڈی کی دوائیاں دیکھیں ، ان پر اعتراض کیا اور اپنی چھ ماہ پہلے تجویز کردہ دوائیاں ، اگلے تین مہینے کے لئے دہراتے ہوئے ، وٹامن ڈی کا ٹیکہ تجویز کر دیا ۔ جسے پیا بھی جا سکتا ہے اور بازو میں لگایا بھی جاسکتا ہے ، لیکن ڈاکٹر نے زور دیا کہ اچھے اثر کے لئے اسے بازو میں لگوائیں ۔ دوائیاں لیں ، بیگم نے ٹیکہ لگوایا اور گھر آگئے ۔
شام کو بیگم سو کر اٹھیں تو حالات نارمل تھے ۔دوسرے دن بدھ کو صبح طبیعت کی خرابی کا ذکرکیا ہم نے کہا ، شاید وٹامن ڈی کےٹیکہ کا اثر ہے اور بخار بھی تھا ، جمعرات کو دیر سے سو کر اٹھیں کچھ زیادہ ہم پر مہربان ہو گئیں ۔
" میں آپ کو اجازت دیتی ہوں دوسری شادی کر لیں " بیگم نے کہا
" نہیں بھئ ہمارا پروگرام تیسری اور چوتھی کا بھی ہے ، کم از کم پاکستان میں تین ماں باپ کے کندھوں سے لڑکیوں کا بوجھ اترے گا " ۔ ہم نے جواب دیا ۔
اور سمجھ گئے کہ ہماری ۔ " فیس بک " پر بے جا مصروفیت نے انہیں مشکوک کر دیا ہے ۔
" نہیں میں سیریس ہوں " انہوں نے کہا ۔
" تو ایسا کرتے ہیں کل جمعہ کا مبارک دن ہے ، کچہری جاتے ہیں اور سٹامپ پیپر پر اجازت نامہ لکھے دینا " ہم نے بھی اسی طرح جواب دیا ،
" میں آپ کو سادہ کاغذ پر لکھ دیتی ہوں " انہوں نے جواب دیا
پروگرام بنا کہ پی اے ایف شاہین ، جاتے ہیں وہاں ڈاکٹر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سی ایم ایچ والی دوائیاں ہی دے ۔ کیوں کہ بیگم کو یہاں کے ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیاں سوٹ نہیں کرتیں ۔ خیر ہم وہاں پہنچے ، ڈاکٹر نے سب سنا اور پنڈی کی دوائیاں دیکھیں ، ان پر اعتراض کیا اور اپنی چھ ماہ پہلے تجویز کردہ دوائیاں ، اگلے تین مہینے کے لئے دہراتے ہوئے ، وٹامن ڈی کا ٹیکہ تجویز کر دیا ۔ جسے پیا بھی جا سکتا ہے اور بازو میں لگایا بھی جاسکتا ہے ، لیکن ڈاکٹر نے زور دیا کہ اچھے اثر کے لئے اسے بازو میں لگوائیں ۔ دوائیاں لیں ، بیگم نے ٹیکہ لگوایا اور گھر آگئے ۔
شام کو بیگم سو کر اٹھیں تو حالات نارمل تھے ۔دوسرے دن بدھ کو صبح طبیعت کی خرابی کا ذکرکیا ہم نے کہا ، شاید وٹامن ڈی کےٹیکہ کا اثر ہے اور بخار بھی تھا ، جمعرات کو دیر سے سو کر اٹھیں کچھ زیادہ ہم پر مہربان ہو گئیں ۔
" میں آپ کو اجازت دیتی ہوں دوسری شادی کر لیں " بیگم نے کہا
" نہیں بھئ ہمارا پروگرام تیسری اور چوتھی کا بھی ہے ، کم از کم پاکستان میں تین ماں باپ کے کندھوں سے لڑکیوں کا بوجھ اترے گا " ۔ ہم نے جواب دیا ۔
اور سمجھ گئے کہ ہماری ۔ " فیس بک " پر بے جا مصروفیت نے انہیں مشکوک کر دیا ہے ۔
" نہیں میں سیریس ہوں " انہوں نے کہا ۔
" تو ایسا کرتے ہیں کل جمعہ کا مبارک دن ہے ، کچہری جاتے ہیں اور سٹامپ پیپر پر اجازت نامہ لکھے دینا " ہم نے بھی اسی طرح جواب دیا ،
" میں آپ کو سادہ کاغذ پر لکھ دیتی ہوں " انہوں نے جواب دیا
" نہ بابا ، آپ نے اپنے اس فیصلے سے رجوع کر
لیا تو ہم مارے جائیں گے " ہم نے
جواب دیا ،
اس وقت ، غالبا ہماری جنگ آخری لمحوں پر تھی گھمسان کا رن پڑھ رہا تھا ، بس دو تین کمنٹس کے بعد ، حریف یا تو ہمیں چت کر دیتا ، یا ہمیں "ان فرینڈ " کر دیتا ۔ بیوی کی اتنی اچھی تجویز سننے کے بعد لیپ ٹاپ کو ایک طرف کر دیا ، حریف سے یہ طعنہ سننا قبول کر لیا کہ ہم بھاگ گئے ، اور بیگم سے ان کی حتمی رائے سننے کے لئے ان کی طرف مکمل متوجہ ہوگئے ۔
" جی اب بتائیے ، کہ جال کس لئے پھینکا جا رہا ہے ؟ " ہم نے بیگم سے پوچھا ۔
" آپ صبح سے شام تک ، لیپ ٹاپ پر دنیا بھر سے رابطہ رکھتے ہیں ، ہنستےہیں ،مسکراتے ہیں، آپ کے چہرے پر ایک رنگ آتا ہے دوسرا جاتا ہے ۔ یہ سب کیا ہے ؟ " بیوی نے ایک ماہر نباض کی طرح پوچھا ۔
"اچھا پھر " ہم نے پوچھا
" آپ کی اس عادت نے ، کہ آگے چل کر دیکھتے ہیں ، ہمیں مروا دیا ۔ نہ یہ عادت ہوتی اور نہ آپ چار گلیاں چھوڑ کے ہماری گلی میں رشتہ ڈالتے " انہوں نے ہر ماہ کی طرح ادا کیا جانے والا جملہ ہمیں سنایا ۔
"بھئی ہماری اس عادت کی وجہ یہ یہ سانحہ نہیں ہوا ، بلکہ ہماری امی جان مرحومہ کی نگاہ انتخاب نے یہ ناگا ساکی والا دھماکہ کروایا "۔ہم نے جواب دیا ، اس پر غضب یہ کہ ہماری ساس ، ہمارے سالے اور سالیوں کے جملہ قرار دادی ووٹ بھی ہمارے حق میں اور آپ کے خلاف پڑے تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟ ، ویسی ہم تو راضی نہ تھے " ۔ہمیں معلوم تھا کہ آخری جملے کے بعد صورت حال کیا ہوگی ۔
قارئین ، اس کے بعد ، فیس بک سے زیادہ گھمسان کا رن پڑا ، جو ایک سال سے ہر ماہ پڑ رہا ہے ، یوں کہیں کہ ،بچوں کی شادیوں کے چھ مہینے بعد سے ،شروع ہوا اس سے پہلے تو ہم فالتو آدمی تھی ، کمرے کے ایک کونے میں بے ضرر سے پڑے رہتے تھے ، یہاں تک ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ گھر میں کون سی چیز کہاں پڑی ہے ، یہ بیگم کا شعبہ تھا لہذا انہی کا رہنے دیا ، بس ایک حکم ہم نے سختی سے نافذ کیا تھا کہ ہمارے گوشہ ء عافیت کی کوئی چیز نہ ہلائی جائے ، یہاں تک کہ رائیٹنگ ٹیبل ، کتابوں کی الماری اور کمپیوٹر ٹیبل پر پڑی ہوئی کسی چیز کو نہ ہلایا جائے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ !
تو جناب ہوا یہ کہ منگل کی شام ، ایک کراس چیک لکھ کر ہم نے اپنی میز پر اچھی خاصے وزن کے نیچے رکھا ، وہ بدھ کی صبح قریبا گیارہ بجے نہیں ملا تلاش کیا غائب ، گو کہ وہ کراس تھا اس پر نام بھی لکھا تھا کوئی اسے نکلوا بھی نہیں سکتا تھا ، ایک تو وہ چیک بک کا آخری چیک تھا اور دوسرا جن کو ہم نے دینا تھا گذشتہ چار سالوں میں ان کے بینک نے ہمارے چار چیک ، جن میں معمولی نہیں بلکہ ، بھیانک غلطیاں تھی وہ ہمارے بینک کو ادائیگی کے لئے بھجوادئیے ، چیکوں کو نہ وصول کرنے والے نے دیکھا اور نہ بینک کے ماہر افراد میں ، اور ہمارے بنک نے " چیک پر دستخط نہیں " کے ریمارکس کے ساتھ واپس بھجوادئیے اور ہمارا یہ چیک اسی بنک کا تھا ، جن سے یہ چار کوتاہیاں سرزد ہوئیں ، ہمیں خطرہ تھا کہ کہیں بنک کو اگر یہ چیک کسی اور نے پیش کیا تو بنک نے چیک ادا کر دیا تو یوں ہمیں اچھا خاصا نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ۔
ہمارے گھر میں ایک ماسی صفائی کرنے والی اور ایک ملازم تھا جو اتوار کو آیا تھا اور ابھی ایمانداری کی پرکھ کے لئے ٹریننگ پر تھا ۔ ہمارے اٹھنے سے پہلے ، ہماری میز " چمکا " چکا تھا اور ہم سے ایک نہایت ، فوجیانہ لیکچر سن چکا تھا ۔
خیر ہم نے بنک فون کرکے اس چیک کی سٹاپ پے منٹ کروائی اور مینیجر کو خصوصی ہدایت کی کہ جو بھی چیک پیش کرے اسے اپنے پاس روک لے اور ہمیں اس نمبر پر فون کرے ، چونکہ ہمارا خون کافی ابل چکا تھا لہذا ہم ذرا دیر کو بستر پر لیٹے اور آنکھ لگ گئی ۔گھنٹے بعد سو کر اٹھے تو بیگم کرسی پر بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھیں۔
ہمیں اٹھتا دیکھ کر بولیں ، "اپنے اور میرے لئے چائے بنوا لیں "۔
ہم نے ملازم کو تلاش کیا وہ گھر میں نہ ملا ، ہم سمجھے کہ شاید نزدیک بازاری میں کچھ لینے گیا ہے ، واش روم چلے گئے وہاں سے آدھے گھنٹے بعد نکلے تو ،
بیگم نے پوچھا ، " چائے کا بتا دیا تھا ؟"
"نہیں ، لڑکا غالباً بازار گیا ہے " ۔ ہم نے جواب دیا
" میں نے تو نہیں بھیجا ، شاید آگیا ہو ، دیکھیں باہر بیٹھا ہو " ۔انہوں نے کہا
اس وقت ، غالبا ہماری جنگ آخری لمحوں پر تھی گھمسان کا رن پڑھ رہا تھا ، بس دو تین کمنٹس کے بعد ، حریف یا تو ہمیں چت کر دیتا ، یا ہمیں "ان فرینڈ " کر دیتا ۔ بیوی کی اتنی اچھی تجویز سننے کے بعد لیپ ٹاپ کو ایک طرف کر دیا ، حریف سے یہ طعنہ سننا قبول کر لیا کہ ہم بھاگ گئے ، اور بیگم سے ان کی حتمی رائے سننے کے لئے ان کی طرف مکمل متوجہ ہوگئے ۔
" جی اب بتائیے ، کہ جال کس لئے پھینکا جا رہا ہے ؟ " ہم نے بیگم سے پوچھا ۔
" آپ صبح سے شام تک ، لیپ ٹاپ پر دنیا بھر سے رابطہ رکھتے ہیں ، ہنستےہیں ،مسکراتے ہیں، آپ کے چہرے پر ایک رنگ آتا ہے دوسرا جاتا ہے ۔ یہ سب کیا ہے ؟ " بیوی نے ایک ماہر نباض کی طرح پوچھا ۔
"اچھا پھر " ہم نے پوچھا
" آپ کی اس عادت نے ، کہ آگے چل کر دیکھتے ہیں ، ہمیں مروا دیا ۔ نہ یہ عادت ہوتی اور نہ آپ چار گلیاں چھوڑ کے ہماری گلی میں رشتہ ڈالتے " انہوں نے ہر ماہ کی طرح ادا کیا جانے والا جملہ ہمیں سنایا ۔
"بھئی ہماری اس عادت کی وجہ یہ یہ سانحہ نہیں ہوا ، بلکہ ہماری امی جان مرحومہ کی نگاہ انتخاب نے یہ ناگا ساکی والا دھماکہ کروایا "۔ہم نے جواب دیا ، اس پر غضب یہ کہ ہماری ساس ، ہمارے سالے اور سالیوں کے جملہ قرار دادی ووٹ بھی ہمارے حق میں اور آپ کے خلاف پڑے تو اس میں ہمارا کیا قصور ؟ ، ویسی ہم تو راضی نہ تھے " ۔ہمیں معلوم تھا کہ آخری جملے کے بعد صورت حال کیا ہوگی ۔
قارئین ، اس کے بعد ، فیس بک سے زیادہ گھمسان کا رن پڑا ، جو ایک سال سے ہر ماہ پڑ رہا ہے ، یوں کہیں کہ ،بچوں کی شادیوں کے چھ مہینے بعد سے ،شروع ہوا اس سے پہلے تو ہم فالتو آدمی تھی ، کمرے کے ایک کونے میں بے ضرر سے پڑے رہتے تھے ، یہاں تک ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ گھر میں کون سی چیز کہاں پڑی ہے ، یہ بیگم کا شعبہ تھا لہذا انہی کا رہنے دیا ، بس ایک حکم ہم نے سختی سے نافذ کیا تھا کہ ہمارے گوشہ ء عافیت کی کوئی چیز نہ ہلائی جائے ، یہاں تک کہ رائیٹنگ ٹیبل ، کتابوں کی الماری اور کمپیوٹر ٹیبل پر پڑی ہوئی کسی چیز کو نہ ہلایا جائے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ !
تو جناب ہوا یہ کہ منگل کی شام ، ایک کراس چیک لکھ کر ہم نے اپنی میز پر اچھی خاصے وزن کے نیچے رکھا ، وہ بدھ کی صبح قریبا گیارہ بجے نہیں ملا تلاش کیا غائب ، گو کہ وہ کراس تھا اس پر نام بھی لکھا تھا کوئی اسے نکلوا بھی نہیں سکتا تھا ، ایک تو وہ چیک بک کا آخری چیک تھا اور دوسرا جن کو ہم نے دینا تھا گذشتہ چار سالوں میں ان کے بینک نے ہمارے چار چیک ، جن میں معمولی نہیں بلکہ ، بھیانک غلطیاں تھی وہ ہمارے بینک کو ادائیگی کے لئے بھجوادئیے ، چیکوں کو نہ وصول کرنے والے نے دیکھا اور نہ بینک کے ماہر افراد میں ، اور ہمارے بنک نے " چیک پر دستخط نہیں " کے ریمارکس کے ساتھ واپس بھجوادئیے اور ہمارا یہ چیک اسی بنک کا تھا ، جن سے یہ چار کوتاہیاں سرزد ہوئیں ، ہمیں خطرہ تھا کہ کہیں بنک کو اگر یہ چیک کسی اور نے پیش کیا تو بنک نے چیک ادا کر دیا تو یوں ہمیں اچھا خاصا نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا ۔
ہمارے گھر میں ایک ماسی صفائی کرنے والی اور ایک ملازم تھا جو اتوار کو آیا تھا اور ابھی ایمانداری کی پرکھ کے لئے ٹریننگ پر تھا ۔ ہمارے اٹھنے سے پہلے ، ہماری میز " چمکا " چکا تھا اور ہم سے ایک نہایت ، فوجیانہ لیکچر سن چکا تھا ۔
خیر ہم نے بنک فون کرکے اس چیک کی سٹاپ پے منٹ کروائی اور مینیجر کو خصوصی ہدایت کی کہ جو بھی چیک پیش کرے اسے اپنے پاس روک لے اور ہمیں اس نمبر پر فون کرے ، چونکہ ہمارا خون کافی ابل چکا تھا لہذا ہم ذرا دیر کو بستر پر لیٹے اور آنکھ لگ گئی ۔گھنٹے بعد سو کر اٹھے تو بیگم کرسی پر بیٹھی قرآن پڑھ رہی تھیں۔
ہمیں اٹھتا دیکھ کر بولیں ، "اپنے اور میرے لئے چائے بنوا لیں "۔
ہم نے ملازم کو تلاش کیا وہ گھر میں نہ ملا ، ہم سمجھے کہ شاید نزدیک بازاری میں کچھ لینے گیا ہے ، واش روم چلے گئے وہاں سے آدھے گھنٹے بعد نکلے تو ،
بیگم نے پوچھا ، " چائے کا بتا دیا تھا ؟"
"نہیں ، لڑکا غالباً بازار گیا ہے " ۔ ہم نے جواب دیا
" میں نے تو نہیں بھیجا ، شاید آگیا ہو ، دیکھیں باہر بیٹھا ہو " ۔انہوں نے کہا
ہم نے تمام کمرے دیکھے شاید صفائی کر رہا ہو
، باہر دیکھا وہاں بھی نہیں تھا ، گھر واپس
داخل ہوتے ہوئے ،ہم نے ممٹی کی سیڑھیوں کی
طرف بے ارادہ دیکھا وہاں اس کا ایک پوٹلہ تھا وہ نظر نہیں آیا ۔ بیگم کو رپورٹ دی
انہوں نے کہا میں دیکھتی ہوں ، تھوڑی دیر بعدوہ کمرے میں داخل ہوئیں ۔
"میں آپ سے تنگ آچکی ہوں " انہوں نے غصے میں کہا
" کیا ہوا ؟ " ہم نے پوچھا
"میں آپ سے تنگ آچکی ہوں " انہوں نے غصے میں کہا
" کیا ہوا ؟ " ہم نے پوچھا
"ملازم کو ڈانٹنے کی کیا ضرورت تھی ؟ اپنی چیزیں خود سنبھال کر
رکھیں ، ایک تو ملازم نہیں ملتے ، اگر
ملتے بھی ہیں تو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ، یہ بھی بھاگ گیا ہے ۔ " بیگم نے جواب دیا
" لیکن یہ تو ایماندار تھا ، اس نے پانچ
وقت نماز کے وقت مسجد میں نماز پڑھنے کی چھٹی مانگی تھی ، اور پھر سنا ہے کہ اس
نے ، اخلاقیات کے تمام اصول برائے ملازمین
تمھیں بتائے تھے اور انٹرویو بھی تمہی نے لیا تھا " ہم نے انہیں یاد کرایا ۔
"اب میں کیا کروں ؟ اس نے تو یہی کہا تھا " بیگم نے بے بسی سے جواب دیا ۔
"کوئی بات نہیں کوئی اور دیکھ لیتے ہیں " ہم نے جواب دیا ۔
دوسرے دن یعنی جمعرات کو ہم نے بنک فون کیا ، تو معلوم ہوا کہ بدھ کو ایک بجے کسی نے چیک پیش کیا ، کیشیئر نے اس سے سوالات کئے اور اسے بیٹھنے کے لئے کہا ، اور خود مینیجر کے پاس گیا واپس آیا چیک پیش کرنے والے کوڈھونڈا تو وہ ندارد ، بنک والوں نے چیک منسوخ کر کے اپنے پاس رکھ لیا ۔
بیگم سے ان کی گذشتہ پینتیس سالوں کی دکھ بھری داستان سننے کے بعد ، جب وہ پر سکون ہوئیں ، تو ہم نے بتایا ، کہ کسی نے کل میز پر سے غائب ہونے والا چیک کیش کرانے کی کوشش کی ،تو ان کا منہ کھل گیا ،
" لوگ اتنا دھوکہ دیتے ہیں " بولیں
" کیا اس کا آپ کوتجربہ نہیں اور خصوصا ًشادی کے معاملے میں آپ سے کتنا بڑا دھوکا ہم نے کیا کہ ڈھائی سال منگنی رہنے کے باوجود ہم نے کس ضبط سے خود کو آپ سے چھپائے رکھا " ہم بولے
ایک چھوٹی سے پانی پت کی جنگ دوبار ہ شروع ہوئی جو بیگم کے آنسوؤں کی وجہ سے ہمارے ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوئی ۔ دوپہر کا کھاناکھا کر وہ سو گئیں اس کے بعد تو انھوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ، شام کو بیٹیاں آئیں تو انہوں نے ماں کی بپتا سننے کے بعد ہمیں آڑھے ہاتھوں لیا ، دوسرے دن یعنی جمعہ کو بھی ان کی طبیعت خراب ہوئی ، غالباً انہوں نے ، ملازم کی اس حرکت کو زیادہ ہی دل پر لگا لیا ، خیر اس دن ہم نے فریج میں چھوٹے چھوٹے پیالوں میں رکھے ہوئے بچے ہوئے سالن خود بھی ڈبل روٹی سے کھائے اور بیگم کو بھی دوائیوں کے ساتھ دئیے ، شام کو بیٹی نے انہیں کھانا کھلایا
ہفتے کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم سوئے تھے کہ ہمیں ، "نعیم ،نعیم " کی آوزیں آئیں اٹھ کر چاروں طرف دیکھا ، کوئی نہیں بستر سے اٹھے تو دیکھا کہ ، پائینی کے پاس نیچے بیگم لیٹی ہوئی تھیں ، پریشان ہو کر انہیں اٹھایا ،
پوچھا ، "کیا ہوا "۔
کہنے لگیں ، " چکر آیا اور گر گئی ہوں "
ہم نے انہیں بستر پر بٹھایا اور کہا، " یہاں بیٹھی رہو ، میں ابھی منہ دھو کر آتا ہوں ، ہم فوراً ہسپتال جاتے ہیں "
تھوڑی دیر میں چھوٹی بیٹی آگئی ، اس نے بلڈ پریشر اور شوگر چیک کرنے کا کہا ، دونوں چیک کئے نارمل تھے ، سیڑھیوں سے اترے تو ، ایبٹ آباد سے بیٹا ارمغان ،اس کی بیوی عائشہ اور ہماری تین ماہ کی پوتی انابیہ ، بھی پہنچ گئے ، ماں کا سن کر وہ بھی پریشان ہوگیا ، خیر بیٹی اور بہو کو کہا کہ وہ گھر میں انتظار کرے ، ہم ہسپتال جاتے ہیں اور انہیں صورت حال سے باخبر رکھتے ہیں ، میں اور بیٹا انہیں لے کر شاہین کمپلیکس گئے ،وہاں ڈاکٹر نے معائینہ کیا اور گلوکوز لگا دیا ، بیٹے کے ساس اور سسر ( کرنل مشتاق )بھی آگئے ۔ شام کو ہم بیگم کو واپس گھر لے آئے اب صورتِ حال یہ کہ ان کی یاداشت سے جمعرات سے آج یعنی بدھ تک کا ڈاٹا ، واش ہو گیا ۔
آج عشاء کے بعد ہم واک کرنے نکلے تو پوچھنے لگیں ، " مجھےعائشہ ( بہو )نے اور عروضہ (بیٹی) نے دوپہر کو جو باتیں بتائیں مجھے بالکل یاد نہیں ، کہ کون آیا کون گیا ، کیا کھایا ؟"
میں نے کہا ،"تمھیں یہ بھی یاد نہیں کہ تم نے کچہری جا کر ، مجھے سٹامپ پیپر پر اجازت دی ہے ، کہ میں تین شادیاں کر سکتا ہوں ، "
یہ سننا تھا ۔ کہ وہ پریشان ہوگئیں ، "نہیں آپ مذاق کر رہے ہیں"
"اب میں کیا کروں ؟ اس نے تو یہی کہا تھا " بیگم نے بے بسی سے جواب دیا ۔
"کوئی بات نہیں کوئی اور دیکھ لیتے ہیں " ہم نے جواب دیا ۔
دوسرے دن یعنی جمعرات کو ہم نے بنک فون کیا ، تو معلوم ہوا کہ بدھ کو ایک بجے کسی نے چیک پیش کیا ، کیشیئر نے اس سے سوالات کئے اور اسے بیٹھنے کے لئے کہا ، اور خود مینیجر کے پاس گیا واپس آیا چیک پیش کرنے والے کوڈھونڈا تو وہ ندارد ، بنک والوں نے چیک منسوخ کر کے اپنے پاس رکھ لیا ۔
بیگم سے ان کی گذشتہ پینتیس سالوں کی دکھ بھری داستان سننے کے بعد ، جب وہ پر سکون ہوئیں ، تو ہم نے بتایا ، کہ کسی نے کل میز پر سے غائب ہونے والا چیک کیش کرانے کی کوشش کی ،تو ان کا منہ کھل گیا ،
" لوگ اتنا دھوکہ دیتے ہیں " بولیں
" کیا اس کا آپ کوتجربہ نہیں اور خصوصا ًشادی کے معاملے میں آپ سے کتنا بڑا دھوکا ہم نے کیا کہ ڈھائی سال منگنی رہنے کے باوجود ہم نے کس ضبط سے خود کو آپ سے چھپائے رکھا " ہم بولے
ایک چھوٹی سے پانی پت کی جنگ دوبار ہ شروع ہوئی جو بیگم کے آنسوؤں کی وجہ سے ہمارے ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوئی ۔ دوپہر کا کھاناکھا کر وہ سو گئیں اس کے بعد تو انھوں نے اٹھنے سے انکار کر دیا ، شام کو بیٹیاں آئیں تو انہوں نے ماں کی بپتا سننے کے بعد ہمیں آڑھے ہاتھوں لیا ، دوسرے دن یعنی جمعہ کو بھی ان کی طبیعت خراب ہوئی ، غالباً انہوں نے ، ملازم کی اس حرکت کو زیادہ ہی دل پر لگا لیا ، خیر اس دن ہم نے فریج میں چھوٹے چھوٹے پیالوں میں رکھے ہوئے بچے ہوئے سالن خود بھی ڈبل روٹی سے کھائے اور بیگم کو بھی دوائیوں کے ساتھ دئیے ، شام کو بیٹی نے انہیں کھانا کھلایا
ہفتے کو صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم سوئے تھے کہ ہمیں ، "نعیم ،نعیم " کی آوزیں آئیں اٹھ کر چاروں طرف دیکھا ، کوئی نہیں بستر سے اٹھے تو دیکھا کہ ، پائینی کے پاس نیچے بیگم لیٹی ہوئی تھیں ، پریشان ہو کر انہیں اٹھایا ،
پوچھا ، "کیا ہوا "۔
کہنے لگیں ، " چکر آیا اور گر گئی ہوں "
ہم نے انہیں بستر پر بٹھایا اور کہا، " یہاں بیٹھی رہو ، میں ابھی منہ دھو کر آتا ہوں ، ہم فوراً ہسپتال جاتے ہیں "
تھوڑی دیر میں چھوٹی بیٹی آگئی ، اس نے بلڈ پریشر اور شوگر چیک کرنے کا کہا ، دونوں چیک کئے نارمل تھے ، سیڑھیوں سے اترے تو ، ایبٹ آباد سے بیٹا ارمغان ،اس کی بیوی عائشہ اور ہماری تین ماہ کی پوتی انابیہ ، بھی پہنچ گئے ، ماں کا سن کر وہ بھی پریشان ہوگیا ، خیر بیٹی اور بہو کو کہا کہ وہ گھر میں انتظار کرے ، ہم ہسپتال جاتے ہیں اور انہیں صورت حال سے باخبر رکھتے ہیں ، میں اور بیٹا انہیں لے کر شاہین کمپلیکس گئے ،وہاں ڈاکٹر نے معائینہ کیا اور گلوکوز لگا دیا ، بیٹے کے ساس اور سسر ( کرنل مشتاق )بھی آگئے ۔ شام کو ہم بیگم کو واپس گھر لے آئے اب صورتِ حال یہ کہ ان کی یاداشت سے جمعرات سے آج یعنی بدھ تک کا ڈاٹا ، واش ہو گیا ۔
آج عشاء کے بعد ہم واک کرنے نکلے تو پوچھنے لگیں ، " مجھےعائشہ ( بہو )نے اور عروضہ (بیٹی) نے دوپہر کو جو باتیں بتائیں مجھے بالکل یاد نہیں ، کہ کون آیا کون گیا ، کیا کھایا ؟"
میں نے کہا ،"تمھیں یہ بھی یاد نہیں کہ تم نے کچہری جا کر ، مجھے سٹامپ پیپر پر اجازت دی ہے ، کہ میں تین شادیاں کر سکتا ہوں ، "
یہ سننا تھا ۔ کہ وہ پریشان ہوگئیں ، "نہیں آپ مذاق کر رہے ہیں"
" میں نے کہا یاد کرو ، ذہن پر زور ڈالو
، میں گھر جاکر تمھیں اجازت نامے کی فوٹو کاپی دکھا دوں گا"
"اصلی کہاں ہے "، انہوں نے یک دم پوچھا ،
میں نے کہا ،"وہ محفوظ ہے اس کی فکر نہ کرو "
خیر جناب ان کی یاداشت کا کچھ حصہ واک کے دوران گھر ، پہنچے پہنچتے یاد آگیا ،
بولیں ، " مجھے یاد آگیا، کہ بدھ کے دن ملازم پر آپ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ، میں نے جمعرات کو غصے میں کہا تھا ، اب مجھ سے گھر کا کام نہیں ہوتا "
دل تو ہمار ا بہت چاہاکہ چٹکلہ چھوڑیں کہ ،
بیگم ملازم تو ملازم ہوتا ہے ، کوئی چالیس افغانی خاتون تمھاری مدد گار لے آتا ہوں ، اگر چالیس سالہ دستیاب نہ ہوئی تو بیس بیس کی دو سے بھی کام چل جائے گا ،
لیکن یہ چٹکلہ کبھی کے لئے ہم نے چھپا دیا اور ہنس کر چپ ہوگئے ،
میں نے کہا ،"وہ محفوظ ہے اس کی فکر نہ کرو "
خیر جناب ان کی یاداشت کا کچھ حصہ واک کے دوران گھر ، پہنچے پہنچتے یاد آگیا ،
بولیں ، " مجھے یاد آگیا، کہ بدھ کے دن ملازم پر آپ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ، میں نے جمعرات کو غصے میں کہا تھا ، اب مجھ سے گھر کا کام نہیں ہوتا "
دل تو ہمار ا بہت چاہاکہ چٹکلہ چھوڑیں کہ ،
بیگم ملازم تو ملازم ہوتا ہے ، کوئی چالیس افغانی خاتون تمھاری مدد گار لے آتا ہوں ، اگر چالیس سالہ دستیاب نہ ہوئی تو بیس بیس کی دو سے بھی کام چل جائے گا ،
لیکن یہ چٹکلہ کبھی کے لئے ہم نے چھپا دیا اور ہنس کر چپ ہوگئے ،
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ تبصرہ بلاگ کے ایک منتظم کی طرف سے ہٹا دیا گیا ہے۔
جواب دیںحذف کریںشگفتہ انداز میں لکھا
جواب دیںحذف کریں