جھوٹے مقدمہ میں موکل کی پیروی کرنا
قانون کی نظر میں جھوٹا مقدمہ وہ ہوتا ہے ۔کہ جس میں مدعی کے پاس کوئی ثبوت نہ ہوں یا مدعی جھوٹے ثبوت کے باعث مقدمے کو اپنے حق میں کروانا چاہتا ہو۔ مروج قانون کے مطابق اگر مدعی کی طرف سے پیش کی گئی جھوٹی شہادتوں کے باعث ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جج کے پاس کسی قسم کا صوابدیدی اختیار(Discretionary Power) نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹی شہادتوں کو قبول نہ کرے۔ کیونکہ جج کے فیصلے کا مکمل دارومدار شہادتوں پر ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ لالچی ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کے مال کو کسی نہ کسی طرح ہڑپ کر جائے خواہ یہ بذریعہ چوری ہو یا سینہ زوری ہو ۔ جو نہ صرف انسانی معاشرے میں قابل مذمت و سزا جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کونہ صرف اس گناہ سے بچانے کے لئے بلکہ دوسرے گناہوں سے بھی بچانے کے لئے اپنی کتاب میں اس کے لئے مثالیں بیاں کر دی ہیں۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (27) الزمر-39
اور ہم نے اس القرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔
جھوٹے مقدمہ میں موکل کی پیروی کرنے کے بارے میں کتاب اللہ میں، اللہ علیم و خبیر نے کیا مثالیں دی ہیں دیکھتے ہیں۔ جھوٹے مقدمے کے تین حصے ہوتے ہیں ۔
٭۔ جھوٹا مقدمہ ۔
٭۔ جھوٹے گواہ ۔
٭۔ جج کا فیصلہ (گواہی کی بنیاد پر) ۔
٭۔ جھوٹا مقدمہ
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ - (188) البقرۃ - 2
اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل (طریقے)کے ساتھ مت کھاؤ۔اور تم کھینچ کر لے جاؤ(الناس کو) اس (باطل طریقے) کے ساتھ احکام کی طرف(جھوٹے مقدمے میں) تاکہ تم لوگوں کے اموال میں سے ایک فریق (حصہ) گناہ کے ساتھ کھاؤ۔ اور تمہیں اس کا علم ہو۔
٭۔ جھوٹے مقدمہ کے جھوٹےگواہ
انسانی قانون شہادت کا یہ اصول ہے۔ گواہان جب بھی گواہی دینے کے لیئے بلائے جائیں تو نہ تو جھوٹی گواہی دیں اورنہ ہی وہ پیچھے (ڈر یا خوف یا لالچ یا رشتہ داری کے باعث) نہ ہٹیں ورنہ وہ شہادت نہ دینے یا چھپانے کے مجرم قرار پائے جائیں گے اور یہ اصول بلا تخصیص مسلم یا غیر مسلم معاشرے میں لاگو ہے۔ غیر مسلم معاشرے میں اسے معاشرتی اخلاقیات کہتے ہیں۔ جبکہ مسلمان کے لئے یہ اللہ کا حکم ہے اور کتاب اللہ میں درج ہے۔
گواہی کے لئے سخت اور واضح اصول ہیں۔ ہو بہو یہی اصول غیر مسلم معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ سوائے اس فرق کہ وہ اللہ کے ڈر سے قانون شہادت پر عمل نہیں کرتے۔ بلکہ ان کے مدنظر صرف اور صرف ضمیر ہے۔ ضمیر ایک قابل تغیر چیز ہے اس کے تغیرات میں ڈر، خوف، لالچ، رشتہ داری، نسلی تفاخر اور خونی رشتے شامل ہیں۔اور سچ صرف اپنی قوم کے لوگوں کے لئے بولتے ہیں دوسری قوم کے لئے وہ نہایت مکار اور دھوکے باز ہوتے ہیں ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مومن بھی اپنے مسلمان بھائی کوجھوٹا حق دلانے کے لئے دشمن قوم کے خلاف جھوٹی شھادت دے سکتا ہے؟
٭۔ جج کا فیصلہ (گواہی کی بنیاد پر) ۔
مروج قانون کے مطابق اگر مدعی کی طرف سے پیش کی گئی جھوٹی شہادتوں کے باعث ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جج کے پاس کسی قسم کا صوابدیدی اختیار(Discretionary Power) نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹی شہادتوں کو قبول نہ کرے۔ کیونکہ جج کے فیصلے کا مکمل دارومدار شہادتوں پر ہوتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود اگر جج انصاف کے حقداروں کے اعتماد پر پورا نہ اترے (یعنی بک جائے)، خوف کے باعث یا کسی وقتی مصلحت کے باعث گواہیوں کے متضاد فیصلہ دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اس اعتماد کو دھوکہ دیا جو مدعی نے اس پر کیا ۔ اور یہ اللہ کے نزدیک قابل گرفت ہے۔
وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ ﴿161﴾ آلِ عمران
ایک نبی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ(اعتماد کو) دھوکہ دے۔ اور اگر کوئی شخص دھوکہ دیتا ہے، تو وہ یوم القیامۃ جس کا اس نے دھوکا دیا۔اس (شئے) کے ساتھ آئے گا۔ پھر ہر نفس بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور اس پر ظلم نہیں ہو گا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴿ 16﴾ ق اور حقیقت میں ہم نے انسان کو خلق کیا اور ہم علم رکھتے ہیں جواس کے ساتھ اس کے نفس میں وسوسہ کرتا ہے۔ اور ہم حبل الورید میں سے اس کی طرف اقرب ہیں ۔
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿ 17﴾ ق
جب القا کرتے ہیں،دو القا کرنے والے دائیں اور بائیں سے بیٹھے ہوئے۔
قانون کی نظر میں جھوٹا مقدمہ وہ ہوتا ہے ۔کہ جس میں مدعی کے پاس کوئی ثبوت نہ ہوں یا مدعی جھوٹے ثبوت کے باعث مقدمے کو اپنے حق میں کروانا چاہتا ہو۔ مروج قانون کے مطابق اگر مدعی کی طرف سے پیش کی گئی جھوٹی شہادتوں کے باعث ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جج کے پاس کسی قسم کا صوابدیدی اختیار(Discretionary Power) نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹی شہادتوں کو قبول نہ کرے۔ کیونکہ جج کے فیصلے کا مکمل دارومدار شہادتوں پر ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ لالچی ہے اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کے مال کو کسی نہ کسی طرح ہڑپ کر جائے خواہ یہ بذریعہ چوری ہو یا سینہ زوری ہو ۔ جو نہ صرف انسانی معاشرے میں قابل مذمت و سزا جرم سمجھا جاتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کونہ صرف اس گناہ سے بچانے کے لئے بلکہ دوسرے گناہوں سے بھی بچانے کے لئے اپنی کتاب میں اس کے لئے مثالیں بیاں کر دی ہیں۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ہَذَا الْقُرْآنِ مِن کُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (27) الزمر-39
اور ہم نے اس القرآن میں ہر قسم کی مثالیں بیان کر دی ہیں تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں ۔
جھوٹے مقدمہ میں موکل کی پیروی کرنے کے بارے میں کتاب اللہ میں، اللہ علیم و خبیر نے کیا مثالیں دی ہیں دیکھتے ہیں۔ جھوٹے مقدمے کے تین حصے ہوتے ہیں ۔
٭۔ جھوٹا مقدمہ ۔
٭۔ جھوٹے گواہ ۔
٭۔ جج کا فیصلہ (گواہی کی بنیاد پر) ۔
٭۔ جھوٹا مقدمہ
وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا إِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ - (188) البقرۃ - 2
اور آپس میں ایک دوسرے کے اموال باطل (طریقے)کے ساتھ مت کھاؤ۔اور تم کھینچ کر لے جاؤ(الناس کو) اس (باطل طریقے) کے ساتھ احکام کی طرف(جھوٹے مقدمے میں) تاکہ تم لوگوں کے اموال میں سے ایک فریق (حصہ) گناہ کے ساتھ کھاؤ۔ اور تمہیں اس کا علم ہو۔
٭۔ جھوٹے مقدمہ کے جھوٹےگواہ
انسانی قانون شہادت کا یہ اصول ہے۔ گواہان جب بھی گواہی دینے کے لیئے بلائے جائیں تو نہ تو جھوٹی گواہی دیں اورنہ ہی وہ پیچھے (ڈر یا خوف یا لالچ یا رشتہ داری کے باعث) نہ ہٹیں ورنہ وہ شہادت نہ دینے یا چھپانے کے مجرم قرار پائے جائیں گے اور یہ اصول بلا تخصیص مسلم یا غیر مسلم معاشرے میں لاگو ہے۔ غیر مسلم معاشرے میں اسے معاشرتی اخلاقیات کہتے ہیں۔ جبکہ مسلمان کے لئے یہ اللہ کا حکم ہے اور کتاب اللہ میں درج ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ
لِلَّـهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا
أَوْ فَقِيرًا فَاللَّـهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ
تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ﴿135﴾ النساء
اے ایمان لانے والو! اللہ کے لئے (انسانوں کے لئے نہیں) قسط (انصاف)کے ساتھ ہے شھداء ہوتے
ہوئے قوامین ہو جاؤ! خواہ یہ تمھارے نفس، یا والدین اور الاقربین کے اوپر کیوں نہ
ہو۔ کوئی غنی ہو یا فقیر ، پس اللہ اُن دونوں کے ساتھ اُولیٰ (اوّل)ہے۔عدل کرتے
ہوئے خواہشات (Discretionary Thoughts) کی اتباع مت کرو! اگر
تم خرابی (Distort)کرو گے یا تم اعراض (Decline)
کرو گے۔ تو بے شک اللہ کوتمھارے اعمال کی خبر ہے۔ Oگواہی کے لئے سخت اور واضح اصول ہیں۔ ہو بہو یہی اصول غیر مسلم معاشرے میں بھی پائے جاتے ہیں۔ سوائے اس فرق کہ وہ اللہ کے ڈر سے قانون شہادت پر عمل نہیں کرتے۔ بلکہ ان کے مدنظر صرف اور صرف ضمیر ہے۔ ضمیر ایک قابل تغیر چیز ہے اس کے تغیرات میں ڈر، خوف، لالچ، رشتہ داری، نسلی تفاخر اور خونی رشتے شامل ہیں۔اور سچ صرف اپنی قوم کے لوگوں کے لئے بولتے ہیں دوسری قوم کے لئے وہ نہایت مکار اور دھوکے باز ہوتے ہیں ۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک مومن بھی اپنے مسلمان بھائی کوجھوٹا حق دلانے کے لئے دشمن قوم کے خلاف جھوٹی شھادت دے سکتا ہے؟
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ
شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ
لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿8﴾ المائدہ 5
اے وہ لوگو جو ایمان
لائے: تم اللہ کے لئے عدل سے شہادت (گواہی) دینے والے بنو۔ اور تمہیں
قوم کی دشمنی اس جرم سے آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل
کرو:: وہ تقوی کے قریب ہے۔ اور اللہ سے
ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ اس بات سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے
ہو۔ ٭۔ جج کا فیصلہ (گواہی کی بنیاد پر) ۔
مروج قانون کے مطابق اگر مدعی کی طرف سے پیش کی گئی جھوٹی شہادتوں کے باعث ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو جج کے پاس کسی قسم کا صوابدیدی اختیار(Discretionary Power) نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹی شہادتوں کو قبول نہ کرے۔ کیونکہ جج کے فیصلے کا مکمل دارومدار شہادتوں پر ہوتا ہے۔
لیکن اس کے باوجود اگر جج انصاف کے حقداروں کے اعتماد پر پورا نہ اترے (یعنی بک جائے)، خوف کے باعث یا کسی وقتی مصلحت کے باعث گواہیوں کے متضاد فیصلہ دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے اس اعتماد کو دھوکہ دیا جو مدعی نے اس پر کیا ۔ اور یہ اللہ کے نزدیک قابل گرفت ہے۔
وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ ﴿161﴾ آلِ عمران
ایک نبی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ(اعتماد کو) دھوکہ دے۔ اور اگر کوئی شخص دھوکہ دیتا ہے، تو وہ یوم القیامۃ جس کا اس نے دھوکا دیا۔اس (شئے) کے ساتھ آئے گا۔ پھر ہر نفس بدلہ دیا جائے گا جو اس نے کمایا اور اس پر ظلم نہیں ہو گا۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ ۖ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ﴿ 16﴾ ق اور حقیقت میں ہم نے انسان کو خلق کیا اور ہم علم رکھتے ہیں جواس کے ساتھ اس کے نفس میں وسوسہ کرتا ہے۔ اور ہم حبل الورید میں سے اس کی طرف اقرب ہیں ۔
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌ ﴿ 17﴾ ق
جب القا کرتے ہیں،دو القا کرنے والے دائیں اور بائیں سے بیٹھے ہوئے۔
مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ ﴿ 18﴾ ق
کوئی لفظ قول نہیں بنتا مگر اس کے
پاس رقیب(نگران) موجود ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭جاری ہے٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط - 4 : کتاب اللہ اور تصور ملکیت
قسط - 2 : کتاب اللہ اور تصور ملکیت
قسط - 1 : کتاب اللہ اور تصور ملکیت
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں