Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 26 مئی، 2014

نظم - رب کا شکر ادا کر بھائی - اسماعیل میرٹھی

رب کا شکر ادا کر بھائی

جس نے ہماری گائے بنائی

اُس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جِس نے پلائیں دودھ کی دھاریں

خاک کو اُس نے سبزہ بنایا
سبزے کو پھر گائے نے کھایا

کل جو گھاس چری تھی بَن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں

سُبحان اللہ دودھ ہے کیسا
تازہ، گرم سفید اور میٹھا

گائے کو دی کیا اچھی صورت
خُوبی کی ہے گویا مورت

دانہ دُنکا، بھوسی، چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہوکر
کیا ہی ٍغریب اور کیسی پیاری
  کو سدھاری صبح ہوئی جنگل

سبزے سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے

پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر

 
دوری میں جو دِن ہے کاٹا
بچے کو کِس پیار سے چاٹا

بچھڑے اُس کے بیل بنائے
جو کھیتی کے کام میں آئے

رَب کی حمد و ثنا کر بھائی
جِس نے ایسی گائے بنائی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔