ایک جُگنو اور بچّہ
چمکنے سے جگنو کے تھا ایک
سماں
ہوا پر اُڑیں جیسے چنگاریاں
ہوا پر اُڑیں جیسے چنگاریاں
پڑی ایک بچے کی ان پر
نظر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر
پکڑ ہی لیا ایک کو دوڑ کر
چمک دار کیڑا جو بھایا
اسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپا یا اُسے
تو ٹوپی میں جھٹ پٹ چھپا یا اُسے
وہ جھم جھم چمکتا ادھر سے
اُدھر
پِھرا کوئی رستہ نہ پایا مگر
پِھرا کوئی رستہ نہ پایا مگر
تو غمگین قیدی نے کی
التجا
کہ چھوٹے شکاری! مجھے کر رِہا
کہ چھوٹے شکاری! مجھے کر رِہا
جُگنو
خدا کے لئے چھوڑ دے چھوڑ
دے!
مِری قید کے جال کو توڑ دے
مِری قید کے جال کو توڑ دے
بچّہ
کروں گا نہ آزاد اُس وقت
تک
کہ میں دیکھ لوں دِن میں تیری چمک
کہ میں دیکھ لوں دِن میں تیری چمک
جُگنو
بچّہ
ارے چھوٹے کیڑے نہ دے دم
مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے
کہ ہے واقفیت ابھی کم مجھے
جگنو
یہ قدرت کی کاریگری ہے
جناب
کہ ذرّ ے کو چمکائے جوں آفتاب
کہ ذرّ ے کو چمکائے جوں آفتاب
مجھے دی ہے اس واسطے یہ
چمک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹَک
کہ تم دیکھ کر مجھ کو جاؤ ٹھٹَک
نہ الڑھ پنے سے کرو پائمال
سنبھل کر چلو آدمی کی سی چال
مولوی اسمٰعیل میرٹھی
مولوی اسمٰعیل میرٹھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں