Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 دسمبر، 2017

گوشہءِ سکون

 میں دوپہر کو پورچ میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ایک روسی نسل کا خوبصورت لیکن انتہائی تھکا ماندہ سا چھوٹا کتا کمپاؤنڈ میں داخل ہوا. اس کے گلے میں پٹہ بھی تھا. میں نے سوچا ضرور کسی اچھے گھر کا پالتو کتا ہے.
میں نے اسے پچكارا تو وہ پاس آ گیا. میں نے اس پر محبت سے ہاتھ پھیرا تو وہ دم ہلاتا  ہوا  دروازے  کے پاس پڑے فُٹ میٹ پر بیٹھ گیا  اور میری طرف دیکھنے لگا ۔
میں جب اٹھ کر اندر گیا تو وہ کتا بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا اور کھڑکی کے پاس اپنے پاؤں پھیلا کر بیٹھا اور میرے دیکھتے دیکھتے سو گیا.
میں نے بھی کمرے کا دروازہ بند کیا اور صوفے پر آ ن بیٹھا. تقریبا ایک گھنٹے نیند کے بعد کتا اٹھا اور دروازے کی طرف گیا تو اٹھ کر میں نے دروازہ کھول دیا. وہ باہر نکلا اور چلا گیا. .
اگلے دن اسی وقت وہ پھر آ گیا. کھڑکی کے نیچے ایک گھنٹہ سویا اور پھر چلا گیا. .
اس کے بعد وہ روز آنے لگا. آتا، سوتا اور پھر چلا جاتا. .
میرے ذہن میں تجسس دن با دن بڑھتا ہی جا رہاتھا کہ اتنا شریف، سمجھدار اور پیار کرنے والا کتا آخر ہے کس کا  ؟ اور کہاں سے آتا ہے؟
ایک روز میں نے اس کے پٹے میں ایک چٹھی باندھ دی. جس لکھ دیا: -
آپ کا کتا روز میرے گھر آکر سوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کیا؟
اگلے دن جب وہ پیارا چھوٹا سا کتا آیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پٹے میں ایک چٹھی بندھی ہوئی ہے.
اس  کونکال کر میں نے پڑھا. . اس میں لکھا تھا،
یہ بہت اچھا پالتو کتا ہے، میرے ساتھ ہی رہتا ہے لیکن میری بیوی کی دن رات کی جھک جھک ،بک بک کی وجہ وہ سے سو نہیں پاتا اور روز ہمارے گھر سے کہیں چلا جاتا ہے. . . . . . اگر آپ اجازت دے دیں تو میں بھی اس کے ساتھ ایک گھنٹہ  آرام کرنے آ جاؤں ... ؟؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭












بدھ، 13 دسمبر، 2017

امتِ کافران ۔ تیری پین دی سری ۔ ۔ ۔ ۔!

میں غالباً پانچ سال کا تھا جب لفظ ’’امتِ مسلمہ‘‘ میرے کانوں میں پہلی مرتبہ پڑا، اس وقت میں سمجھا یہ کسی عورت کا نام ہے (غضب خدا کا ایک تو عورت جان نہیں چھوڑتی)، تھوڑا بڑا ہوا تو  ریڈیو میں اس لفظ کے ساتھ کبھی کشمیر اور کبھی فلسطین کا ذکر سننے کو ملا، اس کی  کچھ سمجھ نہیں آئی، پھر نماز کے لئے مسجد میں جانا ہوا تو جمعے کے جمعے دعاؤں میں کشمیر کی آزادی، فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا احوال اور امت مسلمہ کے اتحاد کی باتیں کانوں میں پڑنے لگیں، اور تو کچھ پلے نہ پڑا البتہ یہ ضرور پتہ چل گیا کہ جب مولوی صاحب دعا مانگتے ہوئے فلسطین تک پہنچیں گے تو سمجھو دعا ختم ہونے والی ہے!
اِن دعاؤں کا پتہ عید اور دیگر تہواروں کے موقع پر پی ٹی وی کے خبرنامے سے بھی چلتا۔ اسکول جانے کیلئے جو وین ہمیں لینے آتی تھی اس کے ’’انکل‘‘ بہت پڑھے لکھے تھے، انہیں دنیا جہان کی باتو ں کا علم ہوتا تھا، ہم اُن سے ہر اوٹ پٹانگ بات پوچھتے اور وہ ہنستے ہوئے ہمیں ہر بات کا شافی جواب دیتے مگر ایک روز مجھے بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے الٹا مجھ سے ہی پوچھ لیا ،
"یار یہ فلسطین کا کیا مسئلہ ہے؟ "
تب مجھے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ یقیناً یہ کوئی گھمبیر مسئلہ ہے جو انکل کی سمجھ میں بھی نہیں آیا۔
اس زمانے میں ایران عراق جنگ، بیروت اور نگورنو کاراباخ کا بھی خبروں میں بہت ذکر سننے کو ملتا تھا، جنگ کی تو کچھ نہ کچھ شُد بد تھی البتہ پی ٹی وی کی نیوز کاسٹر کی زبان سے نگورنو کاراباخ سن کر لگتا جیسے وہ ،کالا باغ ڈیم کی بات کرنا چاہ رہی ہو مگر غلطی سے منہ سے کارا باخ نکل گیا ہو۔ رفتہ رفتہ یہ سب ازبر ہو گیا۔
اب کشمیر، فلسطین، مسلم امہ، ملت اسلامیہ، سازشیں.....جب یہ سب کچھ اکٹھا سننے کو ملتا تو سمجھ آ جاتی کہ جمعہ یا عید کی نماز کے بعد دعا ہو رہی ہے یا کہیں کسی احتجاجی جلسے کا احوال بیان کیا جا رہا ہے۔
اتنے برس بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں بس ذرا سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ اب روہنگیا کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، گویا پہلے ہم صرف کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعائیں کرتے تھے اب روہنگیا کے مسلمانوں کے لئے بھی کرتے ہیں۔
ایک اور تبدیلی اکتالیس مسلم ممالک کی متحدہ فوج کی شکل میں بھی آئی ہے مگر فی الحال اس اتحاد کا دعاؤں کی قبولیت میں فعال کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا سو مسلم امہ کو پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑے گا ۔ یعنی دعائیں ہی مانگنی پڑیں گی۔
ہاں یاد آیا، ایک چیز تنظیم برائے اسلامی ممالک (او آئی سی) نام کی بھی ہے مگر اس کا کام بھی فقط مذمتی قرارداد پاس کرنا ہے اور تنظیم یہ کام پوری تندہی سے برسہا برس سے انجام دے رہی ہے۔
’’مسلم امہ بے حس ہے اور اس میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں‘‘
یہ بات پہلے دانشوری کہلاتی تھی اب دودھ پیتے بچے کو بھی اس کا علم ہے سو ہم اس تفصیل میں نہیں جائیں گے اور چند نسبتاً نئے ایشوز کو لے کر مسلم امہ کا ماتم کریں گے۔ امت مسلمہ چونکہ ایک قسم کی بارہ مسالحے کی چاٹ ہے، ا ِس لئے ماتم کرتے ہوئے آپ کو ہر قسم کا مواد مل جاتا ہے، حجاب کی پابندی سے لے کر نوبیل انعام کی ناانصافی تک اور اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری سے لے کر روہنگیا کے قتل عام تک۔
مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا المیہ تو باقی امت سے بھی زیادہ ہے، ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو خوشحال اور محفوظ مستقل کی خاطر مغرب میں آ بسے ہیں، یہاں کی سہولتوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، قانون کی عملداری، گڈ گورننس اور شخصی آزادی بھی انہیں چاہئے مگر مغرب کی مادر پدر آزادی نہیں چاہئے بلکہ بچوں کو مارنے کا اختیار چاہئے، ساحل سمندر پر بکنی نہیں برقینی چاہئے، کالج میں اسکرٹ نہیں حجاب چاہئے،لڑکیوں کا  رشتہ گورے سے نہیں پاکستانی سے چاہئے۔البتہ مردوں کو آزادی ہے ، وہ گوری سے شادی کرسکتے ہیں، کیوں کہ اکثر سننے میں آیا ہے  کہ وہ اہل الکتاب ہیں ، وہ شراب بھی پیتی ہیں اور ھاٹ  ڈاگ بھی پورک والا کھاتی ہیں  ۔وہ شوہر کے گھر میں پورک نہیں کھاتی لیکن اگر میکے جائیں یا کسی سہیلی کے گھر  تو  چوکتی نہیں ۔
پورک ؟
آپ کو نہیں پتہ ؟
میں بتاؤں  !
میں نے اُس کا نام لیا تو  چالیس دن،  زبان ناپاک رہے گی ۔ اور میرے پیٹ میں ناپاک کھانا اترتا رہے گا ۔
نہ بابا،نا  !
دوسری طرف ہم جیسے ہیں جو خود کو امت مسلمہ کا جینوئن حصہ سمجھتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ تمام دنیا پر ہمارا قبضہ ہو اور اُس سے بھی پہلے ہماری تمنا ہے کہ تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں خود کو پرو کر کسی ایک خلیفہ کو منتخب کریں، جو سوا ارب مسلمانوں کا منتخب کردہ سپہ سالار ہو، گھوڑے کو ایڑ لگا کر وہ قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کا علاقہ مسلمانوں کے تصرف میں لے آئے، بحوالہ سلطنت عثمانیہ، حورم سلطان پارٹ ٹو۔
لیکن ایسا سمجھنے میں حرج کیا ہے ؟
ابھی کل عرب  ماؤں کے بچے مظاہرہ کر رہے تھے،  ڈونلڈ ڈک کے بیان کے خلاف اور نعرے لگا رہے تھے ۔
پاک فوج ، ڈوم آف راک کو بچاؤ !
ہم تمھارا انتظار کر رہے ہیں !
نہیں یقین آیا ۔
مجھے بھی نہیں آیا !
شائد عرب ماؤں  نے زنخے پیدا کرنا شروع کر دئے ہیں !
چلیں یہ  وڈیو سنیں !


کچھ مجاہد اس مشن کی تکمیل کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں مگر ظاہر کہ اس کام میں تھوڑا وقت لگے گا سو اُس وقت تک ہمارا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے مستقبل کا فیصلہ ہم سے پوچھ کر کیا جائے.....اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ہم امریکہ کو دھول تو چٹا ہی سکتے ہیں۔
ویسے بھی   اسرائیلیوں نے چالاکی دکھائی ہے ، کئی ناپاک  کھانے والی اشیاء کا نام ہی بدل دیا ہے ۔ جس میں خنزیر کی چربی شامل ہے ۔
ارے ہاں وہی جو اُس نے 1857 میں شامل کی تھی دلّی تخت پر قبضہ کرنے اور بہادر شاہ کو رنگون بھجوانے کی ۔
ویسے بھی مسلم امہ کو ٹرمپ پر بہت غصہ ہے، امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امت مسلمہ کے غیظ و غضب کو آواز دے دی ہے، اسے اندازہ ہی نہیں کہ مسلم امہ بپھر کر کیا کچھ کر سکتی ہے۔ بے شک ہم غریب ہیں پر بے غیرت نہیں۔
امریکی شہریت سے کم پر بکنے کو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کیا امریکہ کو نظر نہیں آتا کہ اس بیہودہ فیصلے کے خلاف مسلم امہ نے چھاتی پیٹ پیٹ کر اپنا کتنا برا حال کر لیا ہے- وہ تو شکر کرو کہ زنجیر زنی یا چھری زنی نہیں کی !
کیا امریکہ کو اندازہ ہے؟
کہ اُس کے فیصلے کے ردعمل کے طور پر اگر مسلم دنیا نے اسرائیل کے خلاف اتحاد بنا کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو  کیا ہوگا ؟
امریکی اسلحہ کی اتنی خریداری ہوگی ، اتنی خریداری !
کہ امریکی پرانے اسلحے کے گودام خالی ہوجائیں گے ، جو وہاں پڑا مجاہدین کا مارو یا مرجاؤ کے انتظار پر پڑا امریکی فیکڑیوں پر بوجھ بنا ہوا ہے ۔
اُمت، مسلمہ کے پاس ، پیسے کہاں سے آئیں گے اسلحہ خریدنے کے ؟
امریکہ کو نہیں معلوم کہ ،
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ھاشمی !
پہلے کب امریکہ کو پیسے دے کر اسلحہ خریدا تھا ؟
کریڈٹ کارڈ زندہ باد !
ہاں ہاں بھی ورلڈ بنک کا کریڈٹ کارڈ کی بات ہورہی ہے ۔
اگر کریڈٹ کارڈ  نہیں ملا تو ؟
کوئی بات نہیں !
امت مسلمہ کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگی جائیں گی۔
لاوڈ سپیکرز کا رُخ آسمان کی طرف کر کے ،اسرائیل اور امریکہ کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگی جائیں گی۔
سبز پگڑی اور لمبے چوغے والے  یروشلم کو فتح کرنے 
گھوڑے سوار ، نمودار ہوں گے ۔اور شائد کہیں سے صلاح الدین ایوبی ، کے لباس میں راحیل شریف  یروشلم  کی طرف جاتا نظر آئے ۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اب مجھے مسلم امہ کچھ کچھ مظلوم بھی لگتی ہے، اُس عورت کی طرح ہے جس کے سر سے ہر راہ چلتا ہوا شخص چادر نوچنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے قصور گنواتا ہے، اس کی خرابیوں کی تفصیل بیان کرتا ہے، اس کے زوال کے اسباب پر روشنی ڈالتا ہے اور پھر اسے کامیابی کا فارمولا بتا کر اپنی ہمدردی اور نیک نیتی کا ثبوت بھی دیتا ہے۔
دنیا میں جہا ں کہیں  میڈ اِن امریکہ یا انگلینڈ بم دھماکہ ہو تو مسلمان دعا مانگتے ہیں یااللہ کسی مسلمان کا نام نہ نکلے، کیوں کہ  جھٹ سے واقعہ دہشت گردی مانا جاتا ہے اور اگر یہ کسی غیر مسلم گوری چمڑی والے کا کام ہو تو اسے لاوارث، ذہنی مریض یا lone wolfکہہ کر دہشت گردی کے کھاتے سے نکال دیا جائے گا چاہے مشین گن دونوں ہاتھوں میں پکڑ ، ریمبو بن کر انسانوں کو   کٹا کٹک بنانا  شروع کر دے ۔
حالانکہ ہیں دونوں ذہنی مریض !
لیکن ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔
پہلے مسلم امہ کے پاس طاقت تھی وہ نعرہ لگاتی تھی ،
اسلام لے آؤ ، جزیہ دو یا جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔
اب امریکہ کہتا ہے ،
ہمارا ورلڈ آڈرر مانو ، دم دبا کر بیٹھے رہو  یا پتھر کے زمانے میں جانے کے لئے تیار ہوجاؤ !
ڈونلڈ ڈک کہتا ہے !
ہمارے پاس آج میرے پاس جگمگ کرتے شہر ہیں، جدید اسلحہ ہے، یونیورسٹیاں ہیں، سائنس دان ہیں، سپیس اسٹیشن ہیں، تمہارے پاس کیا ہے؟ امت مسلمہ :
تیری پین دی سری ۔ ۔ ۔ ۔!
"میرے پاس خادم حسین رضوی ہے"













خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔