حر مجاہد کیپٹن اربیلو فقیر غازی 1965 کی جنگ میں رضاکارانہ پھرتی کے لئے جب آیا تو کمانڈنٹ نے بھرتی سے انکار کردیا کہا کہ یہ لڑکا عمر میں چھوٹا اور دُبلا پتلا ہے اس سے رائفل بھی مشکل سے سنبھالی جائے گی، اربيلو فقیر اپنی برادری کے سردار کا بیٹا تھا اسکے ساتھ 500 سو غازیوں کا لشکر تھا جسنے اسکی شمولیت کے لیے احتجاج کیا تو اربیلو فقیر نے کہا۔
کمانڈر صاحب بُت نہیں لڑتے، غیرت لڑتی ہے۔
میں جو کاروائیاں کروں گا انکی خبریں آپ کو انڈین ریڈیو سے ملیں گی ۔
کمانڈر نے مجبوری میں اسے سلیکٹ کرلیا۔
انڈین ریڈیو آکاشوانی سے یہ خبریں نشر ہونے لگیں کہ پاکستانی سول کمیونٹی حُر مجاہدین کے جوانوں نے ہندوستان کا 22 سو مربع میل رقبہ قبضہ کر لیا ہے۔ انڈین آرمی کی پوری بٹالین ان کے قبضے میں ہے ۔
حر مجاہدین کی تعداد بہت کم لیکن جرات بہادری، پیر صاحب پگارا شہید کی انگریز کے خلاف گوریلا کارروائیوں کے تجربے اور علاقے سے واقفیت کی وجہ سے انڈین آرمی پر بھاری ثابت ہوئے۔
اربیلو فقیر نے نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں بتایا ۔
ہم پانچ پانچ مجاہدین کی ٹولیوں میں پوزیشن بدل بدل کے حملہ آور ہوتے انڈین آرمی کو ایسا محسوس ہوتا کہ ہم تعداد میں بہت زیادہ ہیں ۔
جب اُن سے پوچھا گیا۔ آپ کے پاس خوراک اور اسلحہ کیسے پہنچتا تھا؟
اربیلو فقیر کا کہنا تھا ۔
خوراک کی کوئی پروا نہیں تھی اور ہتھیار کچھ اپنا اور باقی انڈین آرمی کا چھینا ہوا استعمال کرتے رہے۔
جنگ ختم ہونے کے بعد عزازات کی تقریب میں دنیا نے دیکھا کہ تین شخصیات ایسی تھیں جو تمغہ لےکر واپس اپنی نشست پر بیٹھے تو ہال تالیوں سے گونجتا رہا۔
٭۔میڈیم نور جہاں۔
٭۔ ایم ایم عالم اور
٭۔ اربیلو فقیر غازی
صرف دو غازیوں کو ستارہ جرات سے نوازا گیا ایم ایم عالم جو تمام عمر اپنے لیے گھر خرید نہیں سکے اور اربیلو فقیر غازی جس کا ذکر کبھی بھی میڈیا میں قومی سرمائے اور ہیرو کی حیثیت میں نہیں کیا گیا۔
٭٭٭٭٭٭