Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 17 اکتوبر، 2013

بلوچستان



بلوچستان کے متعلق ان لوگوں سے مت پوچھو ، جو چھاپے کی مدد سے اپنی پرسیپشن بناتے ہیں اور پھر ڈائس پر آکر دھوں دھار تقریریں کرتے ہیں ۔
ان سے پوچھو جنھوں نے بلوچستان میں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گذارا ، ان کے اباء و اجداد کی ہڈیاں وہاں موجود ہیں ۔ پھر وہ وہاں سے ھجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔
اسلام آباد سے جاکر ، سیرینا ہوٹل میں جاکر ٹہرنا ، مقالے سننا ، موجیں اڑانا اور واپس آنا ۔

Image

ہماری طرح ، ذرا بس ایک جیپ میں ، چمن سے ژوب جاکر دکھائیں ۔ اپنی کار میں بچوں کے ساتھ کوئیٹہ دالبندین یا کوئیٹہ کراچی کا سفر کریں ۔ تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ ، معلوم ہو ۔
پاکستان ، کے سیرینیوں (سیرینا کے باسیوں ) نے ایک جملہ بنایا ہے ، دیگر کئی فلاوری جملوں کے طرح :
” conspiracy theories”
ڈھاکہ ہوٹل مشرقی پاکستان میں ، اس کا بیج خود قائد اعظم نے بویا تھا ،
پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی ، صرف اردو
یہ بیج 1971 دسمبر میں ایک تناور درخت بنانے کے لئے ۔ “لوہے کے ھاتھ” نے کام دکھایا ، میں نے یہ جملہ تاریخی کتابوں اور اخباروں میں پڑھا ، لیکن اس کی تلخی آج بھی ، “بنگلہ دیشیمحسوس کرتے ہیں ۔
بلوچستان میں ، پٹھان، بروہی (جن سے ان کی زمین بلوچوں نے چھینی) ، آرمینیا اور حبشہ سے آئے ہوئے مہاجر بلوچ ، اور سندھی بلوچ ۔ پانچ بڑی قومیں ، بلوچستان کا حصہ ہیں ۔ ان میں آبادکار شامل نہیں جنہوں نے ان پانچوں قوموں ، کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ۔
اس فورم میں بڑے بڑے سٹریجک سٹڈی کے ماہر ، مستقبل کی پلاننگ کے معمار اور فہم و ادراک و دانش و تدبر رکھنے والے ھضرات موجود ہیں ۔ لیکن اگر :
” conspiracy theories” سے نکل کر اگر ، بc کو پانچ بڑے انتظامی صوبوں میں تبدیل کر دیا جائے ۔ تو شائد اس امریکی نقشے ، کو صرف کاغذات کی حد تک ہی رہنا پڑے گا ۔
چھوٹا منہ بڑی بات :
بصورت دیگر یہ نقشہ ، اسی طرح اپنی تکمیل کو پہنچے گا ۔

1 تبصرہ:

  1. 1997، میں کوئیٹہ میں اوسی لوکیٹنگ تھا ، تربت میں الیکش ڈیوٹی کرنے کے بعد میں اور بی ایم، ڈیو آرٹلری ، اکیلے جیپ میں تربت سے کوئیٹہ آئے ۔ ہمیں چھپنے کی ضرورت نہیں تھی ، آوارآن کراس کرنے بعد ، تقریبا عصر کے بعد جیپ کا ٹائر پنکر ہو گیا – ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اس کے دس کلو میٹر کے بعد لیوی پوسٹ تھی ۔ گاؤں میں رکے پنکچر لگایا ۔ سرداروں اور ان کے موالیوں کی جیپیں ، اتی جاتی رہیں ، لیکن ایک بس آئی تربت سے خضدار جانے کے لئے ۔ تو گاؤں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ، معلوم ہوا کہ یہ بس صبح تین بجے تربت سے روانہ ہوئی تھی اور ہم کوئی سات بجے ۔ ایک بس خضدار سے تربت کے لئے 10 بجے جاچکی ہے ۔
    بس یہی زندگی تھی اس گاؤں بلکہ اس پوری سڑک کی جو خضدار سے تربت جاتی تھی ۔
    ٹائر والا ، ذہین بچہ تھا ، اس کو میں نے پیش کش کی کہ میں اسے ، کوئیٹہ نوکری دلواسکتا ہوں ۔ لیکن اس نے بتایا کہ سردار کی اجازت کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔ اس کا بڑا بھائی ، کراچی میں نوکری کرتا ہے ۔ لہذا مجھے سردار کی اجازت نہیں ۔
    ابھی ہم بات کر رہے تھے ایک خوبصورت سردار جیپ آکر رکی ایک نوجوان نے جیپ میں بیٹھے بیٹھے بلوچی میں پوچھا ۔ کس کی جیپ ہے ۔ ٹائر والے نے بتایا میجر صاحب کی ، وہ اتر کر میرے پاس آیا ہاتھ ملایا ۔ باتیں ہوئ جاتے ہوئے اس نے بلوچی میں ٹائر والے کو کچھ کہا ، پنکچر لگنے کے بعد میں نے اس سے رقم پوچھ تو بولا ، آپ سائیں کے مہمان ہو انہوں نے پیسے لینے سے منع کر دیا ہے ”
    مجھے سمجھ نہ آئی کیا کروں ۔
    بہرحال اس سے دو مرغیاں اور انڈے خریدے ، ان میں ٹائر کا خرچہ بھی شامل کرکے اس کودے دیا ، تاکہ دیکھنے والے یہی سمجھیں کہ خریداری کے پیسے دئیے ہیں ۔
    خضدار کی طرف چل پڑے ، میری آنکھیں دھندلا گئیں میں نے بی ایم ، کو جیپ چلانے کا کہا ۔ کیوں کہ مجھ سے آنسو ضبط نہیں ہو رہے تھے ۔
    سرداروں اور ان کے موالیوں کے چنگل میں جکڑے ہوئے ، یہ نوجوان اگر سردار کہے تو کسی کا بھی گلہ کاٹ سکتے ہیں ورنہ ان کا خاندان تباہ ہوجائے گا ۔ جس کو لے کر وہ کہیں بھاگ نہیں سکتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔