بلوچستان کے متعلق ان لوگوں سے مت
پوچھو ، جو چھاپے کی مدد سے اپنی پرسیپشن بناتے ہیں اور پھر ڈائس پر آکر دھوں دھار
تقریریں کرتے ہیں ۔
ان سے پوچھو جنھوں نے بلوچستان میں
اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گذارا ، ان کے اباء و اجداد کی ہڈیاں وہاں موجود ہیں ۔
پھر وہ وہاں سے ھجرت کرنے پر مجبور ہوئے ۔
اسلام آباد سے جاکر ، سیرینا ہوٹل
میں جاکر ٹہرنا ، مقالے سننا ، موجیں اڑانا اور واپس آنا ۔
ہماری طرح ، ذرا بس ایک جیپ میں ،
چمن سے ژوب جاکر دکھائیں ۔ اپنی کار میں بچوں کے ساتھ کوئیٹہ دالبندین یا کوئیٹہ
کراچی کا سفر کریں ۔ تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ ، معلوم ہو ۔
پاکستان ، کے سیرینیوں (سیرینا کے
باسیوں ) نے ایک جملہ بنایا ہے ، دیگر کئی فلاوری جملوں کے طرح :
”
conspiracy theories”
ڈھاکہ ہوٹل مشرقی پاکستان میں ، اس
کا بیج خود قائد اعظم نے بویا تھا ،
”
پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی ، صرف اردو”
یہ بیج 1971 دسمبر میں ایک تناور درخت
بنانے کے لئے ۔ “لوہے کے ھاتھ” نے کام دکھایا ، میں نے یہ جملہ تاریخی کتابوں اور
اخباروں میں پڑھا ، لیکن اس کی تلخی آج بھی ، “بنگلہ دیشی ” محسوس کرتے ہیں
۔
بلوچستان میں ، پٹھان، بروہی (جن سے
ان کی زمین بلوچوں نے چھینی) ، آرمینیا اور حبشہ سے آئے ہوئے مہاجر بلوچ ، اور
سندھی بلوچ ۔ پانچ بڑی قومیں ، بلوچستان کا حصہ ہیں ۔ ان میں آبادکار شامل نہیں
جنہوں نے ان پانچوں قوموں ، کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا ۔
اس فورم میں بڑے بڑے سٹریجک سٹڈی کے
ماہر ، مستقبل کی پلاننگ کے معمار اور فہم و ادراک و دانش و تدبر رکھنے والے ھضرات
موجود ہیں ۔ لیکن اگر :
‘
”
conspiracy theories” سے نکل کر اگر ، بc کو پانچ
بڑے انتظامی صوبوں میں تبدیل کر دیا جائے ۔ تو شائد اس امریکی نقشے ، کو صرف کاغذات
کی حد تک ہی رہنا پڑے گا ۔
چھوٹا منہ بڑی بات :
‘
بصورت دیگر یہ نقشہ ، اسی طرح اپنی
تکمیل کو پہنچے گا ۔
1997، میں کوئیٹہ میں اوسی لوکیٹنگ تھا ، تربت میں الیکش ڈیوٹی کرنے کے بعد میں اور بی ایم، ڈیو آرٹلری ، اکیلے جیپ میں تربت سے کوئیٹہ آئے ۔ ہمیں چھپنے کی ضرورت نہیں تھی ، آوارآن کراس کرنے بعد ، تقریبا عصر کے بعد جیپ کا ٹائر پنکر ہو گیا – ایک چھوٹا سا گاؤں تھا اس کے دس کلو میٹر کے بعد لیوی پوسٹ تھی ۔ گاؤں میں رکے پنکچر لگایا ۔ سرداروں اور ان کے موالیوں کی جیپیں ، اتی جاتی رہیں ، لیکن ایک بس آئی تربت سے خضدار جانے کے لئے ۔ تو گاؤں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی ، معلوم ہوا کہ یہ بس صبح تین بجے تربت سے روانہ ہوئی تھی اور ہم کوئی سات بجے ۔ ایک بس خضدار سے تربت کے لئے 10 بجے جاچکی ہے ۔
جواب دیںحذف کریںبس یہی زندگی تھی اس گاؤں بلکہ اس پوری سڑک کی جو خضدار سے تربت جاتی تھی ۔
ٹائر والا ، ذہین بچہ تھا ، اس کو میں نے پیش کش کی کہ میں اسے ، کوئیٹہ نوکری دلواسکتا ہوں ۔ لیکن اس نے بتایا کہ سردار کی اجازت کے بغیر ایسا ممکن نہیں ۔ اس کا بڑا بھائی ، کراچی میں نوکری کرتا ہے ۔ لہذا مجھے سردار کی اجازت نہیں ۔
ابھی ہم بات کر رہے تھے ایک خوبصورت سردار جیپ آکر رکی ایک نوجوان نے جیپ میں بیٹھے بیٹھے بلوچی میں پوچھا ۔ کس کی جیپ ہے ۔ ٹائر والے نے بتایا میجر صاحب کی ، وہ اتر کر میرے پاس آیا ہاتھ ملایا ۔ باتیں ہوئ جاتے ہوئے اس نے بلوچی میں ٹائر والے کو کچھ کہا ، پنکچر لگنے کے بعد میں نے اس سے رقم پوچھ تو بولا ، آپ سائیں کے مہمان ہو انہوں نے پیسے لینے سے منع کر دیا ہے ”
مجھے سمجھ نہ آئی کیا کروں ۔
بہرحال اس سے دو مرغیاں اور انڈے خریدے ، ان میں ٹائر کا خرچہ بھی شامل کرکے اس کودے دیا ، تاکہ دیکھنے والے یہی سمجھیں کہ خریداری کے پیسے دئیے ہیں ۔
خضدار کی طرف چل پڑے ، میری آنکھیں دھندلا گئیں میں نے بی ایم ، کو جیپ چلانے کا کہا ۔ کیوں کہ مجھ سے آنسو ضبط نہیں ہو رہے تھے ۔
سرداروں اور ان کے موالیوں کے چنگل میں جکڑے ہوئے ، یہ نوجوان اگر سردار کہے تو کسی کا بھی گلہ کاٹ سکتے ہیں ورنہ ان کا خاندان تباہ ہوجائے گا ۔ جس کو لے کر وہ کہیں بھاگ نہیں سکتے ہیں