معمول کے مطابق تہجد کے وقت آنکھ کھلی۔
زوجہ کو جگا کر وظیفہ زوجیت ادا کیا۔ زوجہ تھکن کا بہانہ بنا کر پھر سوگئی۔
احمق عورت۔ اسی لیے جہنم عورتوں سے بھری ہوگی۔۔
نہ نماز نہ روزہ۔
زوجہ کو جگا کر وظیفہ زوجیت ادا کیا۔ زوجہ تھکن کا بہانہ بنا کر پھر سوگئی۔
احمق عورت۔ اسی لیے جہنم عورتوں سے بھری ہوگی۔۔
نہ نماز نہ روزہ۔
غسل جنابت سے فراغت پا کر باداموں والے دودھ کے دو گلاس نوش کیے۔ تہجد اداکی۔ فجر تک کمر سیدھی کی۔ فجر ادا کرکے تھوڑی دیر کے لیے پھر آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو بچے سکول جاچکے تھے۔ہلکا پھلکا سا ناشتہ جو دو پراٹھوں، انڈوں کے خاگینے اور دیسی گھی کے حلوے پر مشتمل تھا، کیا۔
دکان پر جانے سے پہلے والدہ محترمہ کو سلام کرنے گیا۔ وہ شکایت کرنے لگیں کہ برآمدے میں گرمی لگتی ہے، پنکھا بھی نہیں ہے۔ بزرگ اور بچے میں کوئی فرق نہیں رہتا ، ہر وقت شکایت اور فرمائش۔ میں نے والدہ کی بات پر اللہ کے احکام کے مطابق اُف تک نہیں کیا اور خاموشی سے دکان کے لیے روانہ ہوگیا۔
صبح کے اوقات میں سڑکوں پر کافی رش تھا اور کچھ تاخیر بھی ہوگئی تھی۔ رستے میں دو جگہ اشارہ بھی توڑنا پڑا۔ ایک سائیکل والے کو ہلکی سی ٹکر بھی لگ گئی۔ اللہ کا لاکھ احسان کہ وہ گاڑی کے نیچے نہیں آیا۔ اللہ کریم کی مدد ہمیشہ شامل حال رہتی ہے۔ اگر وہ مر مرا جاتا تو بیٹھے بٹھائے لمبا خرچہ گلے پڑجاتا۔۔
الحمدللہ۔۔۔
دکان پر پہنچا تو فیقا دکان لگاچکا تھا۔ سارے دن میں اس نے بس یہی کام کرنا ہوتا ہے۔ صبح دکان کھول کے لگانا اور شام کو بند کرنا۔ یا گاہک کےساتھ ڈیلنگ کرنی۔۔ لیکن ان نیچ لوگوں کے نخرے ایسے ہیں کہ جیسے پوری دنیا سر پر اٹھائے چل رہے ہوں۔ دو ڈھائی سو تھان اٹھا کے باہر رکھنے اور پھر اندر رکھنے۔۔ یہ کوئی کاموں میں سے کام ہے؟ لیکن جب دیکھو ۔۔ شکایت۔۔پورے سات ہزار روپے ماہانہ صرف اس معمولی کام کے ملتے ہیں۔ ناشکرگذاری بھی کفر کے برابر ہوتی ہے۔ نام کے مسلمان۔۔
نہ توکل، نہ صبر نہ شکر۔
دکان میں داخل ہوتے وقت معمول کے مطابق، روزی میں برکت کے لیے سولہ دعائیں جو حضرت صاحب نے بتائیں تھیں ، وہ پڑھیں، اور ردّ بلا کے لیےدم کیا۔
فیقا معمول کے مطابق میرےگدّی پر بیٹھتے ہی چائے لینے چلا گیا۔ ہماری دکان کے ساتھ ہی ایک چائے والا ہے لیکن اس کی چائے اچھی نہیں ہوتی۔اس لیے تھوڑی دور سے چائے منگوائی جاتی ہے۔ یہی کوئی پیدل پندرہ منٹ کا راستہ ہے۔
حضرت صاحب کے خطبات کی کیسٹ لگائی۔ اللہ تعالی نے ان کو بے تحاشہ علم سے نوازا ہے۔ زبان میں جادو ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ان کا بیان سنے اور مرید نہ ہوجائے۔
حضرت صاحب بیان کررہے تھے کہ کیسے ایک دعا پڑھنے سے سب گناہ نہ صرف معاف ہوجاتے ہیں بلکہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں اور وہ بھی سو سے ضرب کھا کے۔
سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔
اللہ تعالی کتنے رحیم اور معاف کرنے والے ہیں۔۔
سبحان اللہ۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
گیارہ بجے کے قریب پھر سے بھوک محسوس ہونے لگی۔۔ ناشتہ بھی برائے نام ہی کیا تھا۔ جیدا بڑے مزے کے سری پائے بنا تا ہے۔۔ نہ نہ کرتے بھی چار نان کھا گیا۔پھر دو سیون اپ کی بوتلیں پی کر کچھ سکون ہوا۔
اس دفعہ گرمی بھی کچھ جلدی شروع ہوگئی ہے۔ دکان کے اندر ایک چھوٹا سا ائیر کولر رکھا ہوا ہے۔ اے سی خود ہی نہیں لگوایا کہ ٹیکس والے، کُتّوں کی طرح بُو سونگھتے ہوئے آجاتے ہیں۔ ایسی فاسق و فاجر حکومت کو ٹیکس دینا بھی حرام ہے۔ کرپٹ اور بے ایمان لوگ۔ ا س سے تو بہتر ہے کہ فوج کی حکومت آجائے۔
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے۔۔۔
ائیرکولر کے سامنے بیٹھتے ہی اونگھ سی آگئی۔۔
آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت قریب تھا۔بھاگم بھاگ مسجد پہنچا۔۔ طویل عرصے سے اذان دینے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اللہ اللہ۔۔ کیا روح پرور کیفیت ہوتی ہے۔
استنجاء کے لیے مسجد کے بیت الخلاء میں گیا تو وہ اوور فلو ہورہا تھا۔ بڑی مشکل سے کپڑوں کو نجاست سے بچایا۔
صفائی نصف ایمان ہے۔
اس کا ہمیشہ بہت خیال رکھناچاہیے۔
ظہر کی نماز سے فراغت کے بعد دوپہر کا کھانا کھایا۔ مرغ پلاؤ اور شامی کباب بھی اللہ تبارک و تعالی کی کیسی عمدہ نعمتیں ہیں۔۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاوگے۔۔۔
کھانے سے فراغت کے بعد فیقے کو کہا کہ وہ بھی کھانا کھالے، وہ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتا ہے۔
پتہ نہیں کیسی مہک ہوتی ہے اس میں کہ جی خراب ہونے لگتا ہے۔
اسی لیے اس کو منع کیا ہوا ہے کہ کھانا، دکان میں بیٹھ کر نہ کھایا کرے۔۔ بلکہ چائے والے کھوکھے کے سامنے پڑے بنچ پر بیٹھ کر کھالیا کرے۔
کھانا کھاتاہوئے بھی، ہڈ حرام، آدھ گھنٹہ لگادیتا ہے۔ ان جاہلوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایسے یہ اپنے رزق کو حرام کرتے ہیں۔ جہنم کا ایندھن۔
کھانے کے بعد قیلولہ کیا اور عصر سے پہلے مسجد میں حاضر تھا۔
اذان دینے کی سعادت حاصل کی۔ نماز سے فارغ ہوکے حضرت صاحب کے بتائے ہوئے ورد اور وظائف کرنے میں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا۔
واپس دکان پر پہنچا تو فیقے نے بتایا کہ دو تین گاہک بھگتائے ہیں ۔ پوری توجہ سے بل چیک کیے اور دکان میں موجود مال کی گنتی کی۔
اعتبار کا دور نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے کمزور ایمان والے لوگوں کا تو بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ جو اللہ تبارک و تعالی کو دھوکہ دینے کی کوشش کرسکتے ہیں وہ ہمارے جیسے گنہگاروں کو کیسے بخشیں گے؟
مغرب کی نماز ہمیشہ گھر کے قریب مسجد میں ادا کرتا ہوں۔اسی مسجد کی مسجد کمیٹی کا پچھلے سات سال سے بلامقابلہ صدر بھی ہوں۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکے گھر پہنچا تو بچے ٹی وی پر شاہ رخ خان کی فلم دیکھ رہے تھے۔
اچھا اداکار ہے۔ مجھے پسند ہے۔
ویسے بھی مسلمان ہے۔
اللہ اس کو اور کامیابیاں اور کامرانیاں عطا فرمائیں۔
رات کا کھانا، میں عشاء سے پہلے کھالیتا ہوں،
یہی حکم ہے۔
بھنڈی گوشت بنا ہوا تھا۔ خوب سیر ہوکے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد خربوزے کھائے۔ بہت میٹھے نکلے
ماشاءاللہ۔۔
حضرت صاحب نے ایک دفعہ بالمشافہ ملاقات میں بتایا تھا کہ خربوزے، قوت باہ کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں۔
حضرت صاحب کی تین بیبیاں ہیں اور تئیس بچے۔
نظربددُور۔
عشاء سے فراغت کے بعد والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضری دی۔
ان کی سُوئی ابھی تک اسی پر اٹکی ہوئی تھی کہ۔۔
پُتّر ، برآمدے اچ پکھّا لوادے۔۔
بہوت گرمی لگدی اے مینوں۔۔۔ ٘
میں نے دل میں سوچا کہ اس دفعہ عمرے سے واپسی پر یہ کام بھی ضرور کردوں گا۔
والدین کی خدمت میں ہی عظمت ہے۔
سونے کے لیے لیٹا تو زوجہ سے حق زوجیت کی ادائیگی کی خواہش ظاہر کی۔
اس نے حسب معمول چوں چرا کی تو اسے سمجھایا کہ کارثواب پر چوں چرا کرناگناہ عظیم ہے اور دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مجازی خدا کی خواہشات پر اپنا آرام قربان کیا جائے۔
بہرکیف، جب تہبند سنبھالتے ہوئے، بیت الخلاء جانے کےلیے اٹھا تو زوجہ سوچکی تھی۔
دکان پر جانے سے پہلے والدہ محترمہ کو سلام کرنے گیا۔ وہ شکایت کرنے لگیں کہ برآمدے میں گرمی لگتی ہے، پنکھا بھی نہیں ہے۔ بزرگ اور بچے میں کوئی فرق نہیں رہتا ، ہر وقت شکایت اور فرمائش۔ میں نے والدہ کی بات پر اللہ کے احکام کے مطابق اُف تک نہیں کیا اور خاموشی سے دکان کے لیے روانہ ہوگیا۔
صبح کے اوقات میں سڑکوں پر کافی رش تھا اور کچھ تاخیر بھی ہوگئی تھی۔ رستے میں دو جگہ اشارہ بھی توڑنا پڑا۔ ایک سائیکل والے کو ہلکی سی ٹکر بھی لگ گئی۔ اللہ کا لاکھ احسان کہ وہ گاڑی کے نیچے نہیں آیا۔ اللہ کریم کی مدد ہمیشہ شامل حال رہتی ہے۔ اگر وہ مر مرا جاتا تو بیٹھے بٹھائے لمبا خرچہ گلے پڑجاتا۔۔
الحمدللہ۔۔۔
دکان پر پہنچا تو فیقا دکان لگاچکا تھا۔ سارے دن میں اس نے بس یہی کام کرنا ہوتا ہے۔ صبح دکان کھول کے لگانا اور شام کو بند کرنا۔ یا گاہک کےساتھ ڈیلنگ کرنی۔۔ لیکن ان نیچ لوگوں کے نخرے ایسے ہیں کہ جیسے پوری دنیا سر پر اٹھائے چل رہے ہوں۔ دو ڈھائی سو تھان اٹھا کے باہر رکھنے اور پھر اندر رکھنے۔۔ یہ کوئی کاموں میں سے کام ہے؟ لیکن جب دیکھو ۔۔ شکایت۔۔پورے سات ہزار روپے ماہانہ صرف اس معمولی کام کے ملتے ہیں۔ ناشکرگذاری بھی کفر کے برابر ہوتی ہے۔ نام کے مسلمان۔۔
نہ توکل، نہ صبر نہ شکر۔
دکان میں داخل ہوتے وقت معمول کے مطابق، روزی میں برکت کے لیے سولہ دعائیں جو حضرت صاحب نے بتائیں تھیں ، وہ پڑھیں، اور ردّ بلا کے لیےدم کیا۔
فیقا معمول کے مطابق میرےگدّی پر بیٹھتے ہی چائے لینے چلا گیا۔ ہماری دکان کے ساتھ ہی ایک چائے والا ہے لیکن اس کی چائے اچھی نہیں ہوتی۔اس لیے تھوڑی دور سے چائے منگوائی جاتی ہے۔ یہی کوئی پیدل پندرہ منٹ کا راستہ ہے۔
حضرت صاحب کے خطبات کی کیسٹ لگائی۔ اللہ تعالی نے ان کو بے تحاشہ علم سے نوازا ہے۔ زبان میں جادو ہے۔ ہو نہیں سکتا کہ کوئی ان کا بیان سنے اور مرید نہ ہوجائے۔
حضرت صاحب بیان کررہے تھے کہ کیسے ایک دعا پڑھنے سے سب گناہ نہ صرف معاف ہوجاتے ہیں بلکہ نیکیوں میں بدل جاتے ہیں اور وہ بھی سو سے ضرب کھا کے۔
سبحان اللہ سبحان اللہ۔۔۔
اللہ تعالی کتنے رحیم اور معاف کرنے والے ہیں۔۔
سبحان اللہ۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
گیارہ بجے کے قریب پھر سے بھوک محسوس ہونے لگی۔۔ ناشتہ بھی برائے نام ہی کیا تھا۔ جیدا بڑے مزے کے سری پائے بنا تا ہے۔۔ نہ نہ کرتے بھی چار نان کھا گیا۔پھر دو سیون اپ کی بوتلیں پی کر کچھ سکون ہوا۔
اس دفعہ گرمی بھی کچھ جلدی شروع ہوگئی ہے۔ دکان کے اندر ایک چھوٹا سا ائیر کولر رکھا ہوا ہے۔ اے سی خود ہی نہیں لگوایا کہ ٹیکس والے، کُتّوں کی طرح بُو سونگھتے ہوئے آجاتے ہیں۔ ایسی فاسق و فاجر حکومت کو ٹیکس دینا بھی حرام ہے۔ کرپٹ اور بے ایمان لوگ۔ ا س سے تو بہتر ہے کہ فوج کی حکومت آجائے۔
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے۔۔۔
ائیرکولر کے سامنے بیٹھتے ہی اونگھ سی آگئی۔۔
آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت قریب تھا۔بھاگم بھاگ مسجد پہنچا۔۔ طویل عرصے سے اذان دینے کا شرف بھی حاصل ہے۔
اللہ اللہ۔۔ کیا روح پرور کیفیت ہوتی ہے۔
استنجاء کے لیے مسجد کے بیت الخلاء میں گیا تو وہ اوور فلو ہورہا تھا۔ بڑی مشکل سے کپڑوں کو نجاست سے بچایا۔
صفائی نصف ایمان ہے۔
اس کا ہمیشہ بہت خیال رکھناچاہیے۔
ظہر کی نماز سے فراغت کے بعد دوپہر کا کھانا کھایا۔ مرغ پلاؤ اور شامی کباب بھی اللہ تبارک و تعالی کی کیسی عمدہ نعمتیں ہیں۔۔
اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاوگے۔۔۔
کھانے سے فراغت کے بعد فیقے کو کہا کہ وہ بھی کھانا کھالے، وہ دوپہر کا کھانا گھر سے لاتا ہے۔
پتہ نہیں کیسی مہک ہوتی ہے اس میں کہ جی خراب ہونے لگتا ہے۔
اسی لیے اس کو منع کیا ہوا ہے کہ کھانا، دکان میں بیٹھ کر نہ کھایا کرے۔۔ بلکہ چائے والے کھوکھے کے سامنے پڑے بنچ پر بیٹھ کر کھالیا کرے۔
کھانا کھاتاہوئے بھی، ہڈ حرام، آدھ گھنٹہ لگادیتا ہے۔ ان جاہلوں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایسے یہ اپنے رزق کو حرام کرتے ہیں۔ جہنم کا ایندھن۔
کھانے کے بعد قیلولہ کیا اور عصر سے پہلے مسجد میں حاضر تھا۔
اذان دینے کی سعادت حاصل کی۔ نماز سے فارغ ہوکے حضرت صاحب کے بتائے ہوئے ورد اور وظائف کرنے میں تقریبا ایک گھنٹہ لگ گیا۔
واپس دکان پر پہنچا تو فیقے نے بتایا کہ دو تین گاہک بھگتائے ہیں ۔ پوری توجہ سے بل چیک کیے اور دکان میں موجود مال کی گنتی کی۔
اعتبار کا دور نہیں ہے۔ خاص طور پر ایسے کمزور ایمان والے لوگوں کا تو بالکل اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ جو اللہ تبارک و تعالی کو دھوکہ دینے کی کوشش کرسکتے ہیں وہ ہمارے جیسے گنہگاروں کو کیسے بخشیں گے؟
مغرب کی نماز ہمیشہ گھر کے قریب مسجد میں ادا کرتا ہوں۔اسی مسجد کی مسجد کمیٹی کا پچھلے سات سال سے بلامقابلہ صدر بھی ہوں۔
مغرب کی نماز سے فارغ ہوکے گھر پہنچا تو بچے ٹی وی پر شاہ رخ خان کی فلم دیکھ رہے تھے۔
اچھا اداکار ہے۔ مجھے پسند ہے۔
ویسے بھی مسلمان ہے۔
اللہ اس کو اور کامیابیاں اور کامرانیاں عطا فرمائیں۔
رات کا کھانا، میں عشاء سے پہلے کھالیتا ہوں،
یہی حکم ہے۔
بھنڈی گوشت بنا ہوا تھا۔ خوب سیر ہوکے کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد خربوزے کھائے۔ بہت میٹھے نکلے
ماشاءاللہ۔۔
حضرت صاحب نے ایک دفعہ بالمشافہ ملاقات میں بتایا تھا کہ خربوزے، قوت باہ کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں۔
حضرت صاحب کی تین بیبیاں ہیں اور تئیس بچے۔
نظربددُور۔
عشاء سے فراغت کے بعد والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضری دی۔
ان کی سُوئی ابھی تک اسی پر اٹکی ہوئی تھی کہ۔۔
پُتّر ، برآمدے اچ پکھّا لوادے۔۔
بہوت گرمی لگدی اے مینوں۔۔۔ ٘
میں نے دل میں سوچا کہ اس دفعہ عمرے سے واپسی پر یہ کام بھی ضرور کردوں گا۔
والدین کی خدمت میں ہی عظمت ہے۔
سونے کے لیے لیٹا تو زوجہ سے حق زوجیت کی ادائیگی کی خواہش ظاہر کی۔
اس نے حسب معمول چوں چرا کی تو اسے سمجھایا کہ کارثواب پر چوں چرا کرناگناہ عظیم ہے اور دنیا آخرت کی بھلائی اسی میں ہے کہ مجازی خدا کی خواہشات پر اپنا آرام قربان کیا جائے۔
بہرکیف، جب تہبند سنبھالتے ہوئے، بیت الخلاء جانے کےلیے اٹھا تو زوجہ سوچکی تھی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں