حضرت علی اس
بات کو جانتے تھے کہ یہ سبائی پارٹی ( اور شیعاً حضرات ) جو ان کے منہ پر بھی آپ کو
خدا کہنے سے باز نہیں آتے تھے .اور آپ نے اپنے دور خلافت میں 40 آدمیوں کو اس شرک
کی پاداش میں زندہ آگ میں جلا دیا تھا یہ لوگ حضرت کے مرنے کے بعد جب کہ کوئی روک
ٹوک نہ ہوتی آپ کی قبر مبارک پر کیسے کیسے تماشے کرتے ؟(پچھلی پوسٹ میں اس کا تفصیلی
ذکر کیا جا چکا ہے )
اس لئے آپ نے حضرت حسن کو وصیت کی تھی کہ میری لاش کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر دفن کرنا .اور حضرت حسن بھی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے .
اس لئے آپ نے حضرت حسن کو وصیت کی تھی کہ میری لاش کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر دفن کرنا .اور حضرت حسن بھی اس بات سے بخوبی آگاہ تھے .
1- حضرت حسن عراق سے مدینہ جانے لگے تو اپنے والد کی لاش کو صندوق میں ڈال کر اور
کافور ڈال کے ایک اونٹ پر رکھوا دیا تا کہ کسی نا معلوم مقام پر لے جا کر دفن کریں
.
2- مدینہ میں اپنی والدہ ماجدہ کے پہلو میں دفن کریں -
لیکن اگر حضرت علی کی وصیت پر غور کیا جائے ، تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی.یہ شہرت تو عام پھیل گئی تھی کہ حضرت حسن اپنے ساتھ ایک بڑا خزانہ بھی لے کر جا رہے ہیں ،جب یہ قافلہ بنی طے کے علاقہ سے رات کے وقت گزر رہا تھا تو ڈاکہ پڑ گیا اور ڈاکو دوسرے سامان کے ساتھ حضرت علی کی لاش والا صندوق بھی ہانک کر لے گیے.پھر پتہ نہیں چل سکا کہ ڈاکووں نے ان کی لاش کا کیا کیا اور کہاں دفنایا ؟
خطیب بغدادی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوے کہتے ہیں کہ نجف میں جس کو حضرت علی کی قبر سمجھا جاتا ہے اگر ان لوگوں کو پتہ چل جاۓ کہ یہ کس کی قبر ہے تو پتھر مار مار خود ہی یہ قبر گرا دیں .(جلد 1 صفحہ 138 .از تاریخ نجف) وہ آگے ذکر کرتے ہیں کہ یہ قبر رسول الله کے ایک مشہور صحابی مغیرہ بن شعبہ کی ہے جن پر شیعہ لوگ تبرّا کرتے ہیں .
حضرت علی کی قبر کا آج تک کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ کہاں ہے ؟
ابن خلکان نے بھی اس قبر کو مغیرہ بن شعبہ کی قبر بتایا ہے.اب شیعہ مورخین نے جس طرح اسے حضرت علی کی قبر ثابت کیا ہے وہ بھی سنیئے .
مصنف عمدہ الطالب نے کہا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کو حضرت علی کی ایک کرامت سے اس قبر کا حال معلوم ہوا اور انہوں نے یہ قبر بنوائی پھر اضد الدولہ ویلمی نے یہ مزار بنا دیا-
دے خوے، ایک آزاد اور بے لاگ مورخ لکھتے ہیں (گیارواں اڈیشن ، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا )
" وہ جگہ معلوم نہیں ہو سکی جہاں حضرت علی دفن ہوئے"
لیکن اگر حضرت علی کی وصیت پر غور کیا جائے ، تو یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی.یہ شہرت تو عام پھیل گئی تھی کہ حضرت حسن اپنے ساتھ ایک بڑا خزانہ بھی لے کر جا رہے ہیں ،جب یہ قافلہ بنی طے کے علاقہ سے رات کے وقت گزر رہا تھا تو ڈاکہ پڑ گیا اور ڈاکو دوسرے سامان کے ساتھ حضرت علی کی لاش والا صندوق بھی ہانک کر لے گیے.پھر پتہ نہیں چل سکا کہ ڈاکووں نے ان کی لاش کا کیا کیا اور کہاں دفنایا ؟
خطیب بغدادی اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوے کہتے ہیں کہ نجف میں جس کو حضرت علی کی قبر سمجھا جاتا ہے اگر ان لوگوں کو پتہ چل جاۓ کہ یہ کس کی قبر ہے تو پتھر مار مار خود ہی یہ قبر گرا دیں .(جلد 1 صفحہ 138 .از تاریخ نجف) وہ آگے ذکر کرتے ہیں کہ یہ قبر رسول الله کے ایک مشہور صحابی مغیرہ بن شعبہ کی ہے جن پر شیعہ لوگ تبرّا کرتے ہیں .
حضرت علی کی قبر کا آج تک کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ کہاں ہے ؟
ابن خلکان نے بھی اس قبر کو مغیرہ بن شعبہ کی قبر بتایا ہے.اب شیعہ مورخین نے جس طرح اسے حضرت علی کی قبر ثابت کیا ہے وہ بھی سنیئے .
مصنف عمدہ الطالب نے کہا ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کو حضرت علی کی ایک کرامت سے اس قبر کا حال معلوم ہوا اور انہوں نے یہ قبر بنوائی پھر اضد الدولہ ویلمی نے یہ مزار بنا دیا-
دے خوے، ایک آزاد اور بے لاگ مورخ لکھتے ہیں (گیارواں اڈیشن ، انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا )
" وہ جگہ معلوم نہیں ہو سکی جہاں حضرت علی دفن ہوئے"
پچھلی ایک پوسٹ(شیطان نامہ - قسط نمبر 36- واقعات کربلا محققانہ جائزہ
) میں معز الدولہ اور ویلمی خاندان کی پوری
ہسٹری حوالہ جات کے ساتھ بیان کی جا چکی ہے .اب آپ خود سوچیں کہ حضرت علی کی وفات
کے 350 سال بعد ایک شیعہ مورخ کا یہ خواب بیان کرنا اور ہارون الرشید کو کیا کرامت
نظر آئی کسی دوسری مستند تاریخ میں اس کا ذکر نہیں ملتا .پھر یہ بیان بھی تواریخ
میں ملتا ہے کہ وقت کے اماموں کو ان کی قبر کے بارے میں اپنے کشف اور کرامت کے
ذریعے پتہ چل گیا تھا ، یعنی امام اول اور امام دوئم جس خدشے کے تحت یہ مقام تدفین
چھپانا چاہتے تھے وہ بعد والے اماموں نے پورا کر دیا .
مس جویریہ سجاد کے ایک سوال کے جواب میں یہ بات از راہ تذکرہ نکل آئی کیوں کہ حضرت حسین کا سر حضرت علی کے قبر میں دفنانے کی بھی ایک روایت ان لوگوں نے گھڑی ہے ورنہ ہمارا یہ موضوع ہر گز نہیں تھا ہمارا موضوع تو جنگِ بصرہ (جمل) ، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے بعد واقعہ کربلا تاریخ کے آئینے میں بیان کرنا تھا- جوالْحَمْدُ لِلَّـهِ اب ختم ہونے کو ہے۔
مس جویریہ سجاد کے ایک سوال کے جواب میں یہ بات از راہ تذکرہ نکل آئی کیوں کہ حضرت حسین کا سر حضرت علی کے قبر میں دفنانے کی بھی ایک روایت ان لوگوں نے گھڑی ہے ورنہ ہمارا یہ موضوع ہر گز نہیں تھا ہمارا موضوع تو جنگِ بصرہ (جمل) ، جنگ صفین اور جنگ نہروان کے بعد واقعہ کربلا تاریخ کے آئینے میں بیان کرنا تھا- جوالْحَمْدُ لِلَّـهِ اب ختم ہونے کو ہے۔
تاریخ نہ سنی ہے نہ شیعہ نہ دیو بندی نہ اہل حدیث اور نہ ہی اسکا کوئی فرقہ یا مذھب ہے اس لیے ہماری بیان کردہ تاریخ کی زد میں شیعہ حضرات ہی نہیں آتے بلکہ سنی ، دیو بندی اور اہل حدیث کے عقائد پر بھی اس کی زد پڑتی ہے اور ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ ان خود ساختہ عقائد سے نکل کر قرآن کو اپنائیں اور اپنا تعارف صرف مسلمان کی حیثیت سے ہی کرائیں ہمارا تعلق کسی بھی فرقے سے نہیں اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہلاتے ہیں اور یہی کہلوانہ پسند کرتے ہیں.
کربلا کے مقتولوں کے سر کاٹ کر ان کی مشہوری کرنے کا بیان ابھی جاری ہے اگلی اقساط میں ملاحظہ فرمائیں.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
٭٭٭واپس ۔شیطان نامہ ۔ فہرست ٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں