Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 12 ستمبر، 2017

داستان باقر اور خانی-

  پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو باقر خانی کے نام سے واقف نہ ہو، چائے کے ساتھ تل اور دانے دار چینی سے مزین سوندھی اور کراری باقرخانی کا اپنا ہی مزہ ہے۔ لیکن، بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہ خستہ باقرخانی کہاں سے آئی؟ اسے باقرخانی کیوں کہتے ہیں اور یہ کیسے تیار کی جاتی ہے؟
 باقر خانی مغلئی دور کی ایک ایسی یادگار ہے جو مشرقی بنگال کے شہر ڈھاکہ میں پہلی دفعہ متعارف ہوئی اور رفتہ رفتہ پورے خطے میں مقبول ہو گئی۔ تاہم وہ شے جسے اس خطے کے طول و ارض میں پھیلے کروڑوں لوگ بلا تفریق رنگ و نسل نہایت ذوق و شوق سے کھاتے ہیں محض کھا کر بھول جانے والی کوئی چیز نہیں۔ 
یہ ایک ایسی پریم کتھا کی یادگار ہے جو سچ ہو نہ ہو دلچسپ ضرور ہے اگر بقول شاعر ایک شہنشاہ نے تاج محل بنا کر ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا ہے تو شاید متوسط اور غریب طبقے نے باقر خانی کی شکل میں عشق و محبت کی ایک کہانی کو امر کر کے حساب چکا دیا ہے۔ 
باقر خانی کسی ملکہ کے مزار کے مرمریں فرش کی طرح ٹھنڈی اور بے کیف نہیں ہے، بلکہ یہ زندگی کی حرارت سے بھرپور ایک ایسی شے ہے جو ڈھاکہ سے ڈسکہ۔ اور سلہٹ سے سیالکوٹ تک روزانہ کروڑوں لوگوں کے دسترخوان کی زینت بن کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے، انھیں لطف کیف اور خوشی دیتی ہے
 عام طور پر ناشتے میں استعمال ہونے والی باقر خانی کرکری پرت دار، پتلی اور روغنی ٹکیا ہے۔ جو میدہ، گھی اور دودھ سے تیار کی جاتی ہے۔ اس کے اوپر دانے دار چینی، خشخاش یا تل چھڑک کر اس کا ذائقہ مزید بڑھایا جاتا ہے۔ اس تندوری ٹکیا کے نام کے پیچھے باقر خان اور خانی بیگم کے عشق کی داستان ہے۔
 بہت سے دیگر پاکستانی کھانوں کی طرح باقرخانی بھی مغلوں کے کچن میں متعارف ہوئی۔ اٹھارویں صدی کے وسط میں بنگال کے شہروں میں باقرخانی بنائی اور کھائی جاتی تھی
  بنگال کے پہلے نواب مرشد قلی خان جو محمّد ہادی کے نام سے جانے جاتے تھے کا ایک لے پالک بیٹا آغا باقر خان کے نام سے تھا۔ بعد میں آغا باقر خان نواب سراج الدولہ کی فوج میں جنرل بنے اور چٹاگانک میں تعینات ہوئے۔ یہاں وہ آرام باغ کی خانی بیگم نامی ایک رقاصہ کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔  اور خانی بیگم بھی باقر خان کی دیوانی تھیں۔
 محبت کی اس داستان میں ایک اور درباری افسر زین الخان کی انٹری ہوئی۔ جب اس کو تمام تر کوششوں کے باوجود خانی بیگم کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملا تو اس نے خانی بیگم کو اغوا کر کے قید میں ڈال دیا۔ باقر خان نے جلد ہی خانی بیگم کو زین الخان کی تحویل سے آزاد کروا لیا۔ لیکن، ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا۔ خانی بیگم کے آزاد ہونے پر زین الخان روپوش ہو گیا اور اپنے قتل کی افواہ پھیلا دی۔ اس قتل کا الزام باقر خان اور خانی بیگم پر آیا، اس جرم میں دونوں کو سزائے موت سنائی گئی۔
 جب یہ خبر شہر میں پھیلی تو نان بائیوں نے باقر خان اور خانی بیگم سے عقیدت کے طور پر باقر خان کی پسندیدہ روٹی کو باقرخانی کا نام دے دیا۔ یہ باقرخانی جب بنگال سے پورے برصغیر میں پھیلی تو اس کے ساتھ باقر خان اور خانی بیگم کی محبت کی داستان بھی امرہو گئی۔ 
٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔