Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 ستمبر، 2017

لاہوری رنگ باز

 لاہوریوں کو یہ خطاب ممبئی اور کولکتہ کے تاجروں نے دیا تھا، ہندوستان میں اس وقت فارسی زبان رائج تھی، فارسی میں کسی بھی پیشے سے وابستہ لوگوں کو باز کہا جاتا تھا ہے مثلاً بیورو کریٹ کو فارسی میں کاغذ باز کہا جاتا ہے اور کبوتر پالنے والوں کو کبوتر باز، اس مناسبت سے رنگ بیچنے والے رنگ باز ہو گئے۔ چنانچہ کولکتہ اور ممبئی کے تاجر نیل کی صنعت سے وابستہ لاہوریوں کو ’’رنگ باز‘‘ کہنے لگے، اس زمانے میں کیونکہ لاہور کی زیادہ تر آبادی نیل کی صنعت سے وابستہ تھی۔ چنانچہ پورا لاہور رنگ باز ہو گیا، یہ رنگ بازی آج بھی لاہوری مزاج میں زندہ ہے-
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اکبر اور شاہ جہاں کے دور میں لاہور نیل کی دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہوتا تھا۔
 شہنشاہ اکبر نے لاہور کے قلعے سے ذرا فاصلے پر ہندوستان میں نیل کی پہلی باقاعدہ منڈی قائم کی، یہ منڈی اکبر کے نام پر اکبری منڈی کہلائی، لاہور کے مضافات میں میلوں تک نیل کے پودے تھے، لوگ ان پودوں کا ست نکالتے تھے، ست کو بڑی بڑی کڑاہیوں میں ڈال کر پکایا جاتا تھا، اس کا پاؤڈر اور ڈلیاں بنائی جاتی تھیں، یہ ڈلیاں ٹوکریوں اور بوریوں میں بند ہو کر اکبری منڈی پہنچتی تھیں، تاجروں کے ہاتھوں بکتی تھیں، گڈوں کے ذریعے ممبئی (پرانا نام بمبئی) اور کولکتہ (پرانا نام کلکتہ) پہنچتی تھیں، وہاں سے انھیں فرانسیسی اور اطالوی تاجر خریدتے تھے، جہازوں میں بھرتے تھے،  یہ نیل بعد ازاں اٹلی کے ساحلی شہر جنوا (Genoa) (یہ شہر جنیوا نہیں ہے) پہنچ جاتا تھا-
جنوا فرانسیسی شہر نیم (Nîmes)کے قریب تھا، جنوا اطالوی شہر ہے جبکہ نیم فرانسیسی، دونوں قریب قریب واقع ہیں، نیم شہر ڈی نیم کہلاتا ہے، ڈی نیم میں ہزاروں کھڈیاں تھیں، ان کھڈیوں پر موٹا سوتی کپڑا بُنا جاتا تھا۔
یہ کپڑا سرج کہلاتا تھا، سرج کپڑا بن کر جنوا پہنچتا تھا، جنوا کے انگریز اس کپڑے پر لاہور کا نیل چڑھاتے تھے، کپڑا نیلا ہو جاتا تھا، وہ نیلا کپڑا بعد ازاں درزیوں کے پاس پہنچتا تھا، درزی اس سے مزدوروں، مستریوں اور فیکٹری ورکرز کے لیے پتلونیں سیتے تھے، وہ پتلونیں بعد ازاں جنوا شہر کی وجہ سے جینز کہلانے لگیں، جینز پتلونیں مشہور ہو گئیں تو ڈی نیم شہر کے تاجروں نے جوش حسد میں اپنے کپڑے کو ڈی نیم کہنا شروع کر دیا، یہ ڈی نیم کپڑا آہستہ آہستہ ’’ڈینم‘‘ بن گیا، جینز اور ڈینم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اکٹھے ہوئے اور یہ ڈینم جینز بن گئے۔
جینز کے تین عناصر تھے، ڈی نیم کا کپڑا، لاہور کا نیل اور جنوا کے درزی، مغلوں کے دور میں اگر لاہور کا نیل نہ ہوتا تو شاید جینز نہ بنتی اور اگر بنتی بھی تو کم از کم یہ نیلی نہ ہوتی، جینز کا نیلا پن بہرحال لاہور کی مہربانی تھا، آپ آج بھی انگریزی کی پرانی ڈکشنریاں نکال کر دیکھ لیں، آپ کو ان ڈکشنریوں میں نیل کا نام لاہوری ملے گا، گورے اس زمانے میں نیل کو لاہوری کہتے تھے-
قدیم یونان اور روم کے لوگ جب نیل سے متعارف ہوئے تو ان کےلئے یہ ایک پرتعیش شے تھی‘ یونانیوں نے ہی سب سے پہلے نیل کیلئے Indikon کا لفظ استعمال کیا جس کا مطلب تھا انڈیا سے آنے والی پیداوار۔ یہ رنگ بعد ازاں انڈیا کی مناسبت سے انڈیگو بن گیا۔

فرانسیسی، اطالوی، پرتگالی اور ڈچ،  نیل کے لئے ہندوستان آتے تھے ۔
جب کہ برطانوی، مشرقی ساحلوں پر پائے جانے والے  گرم مصالحوں ، پٹ سن ، افیون  اور دیگر پیداوار کے لئے یہاں آئے اور پھر پورا ہندوستان پر بلاشرکت ِغیرے قابض ہو گئے  ۔ لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں، ہم ابھی اس دور کی بات کر رہے ہیں جب نیل لاہور کی سب سے بڑی تجارت تھا اور یہ لاہوری اور انڈیگو کہلاتاتھ۔ یہ ہزاروں میل کا زمینی اور سمندری فاصلہ طے کر کے جنوا پہنچتا تھا، جینز کا حصہ بنتا تھا اور پوری دنیا میں پھیل جاتا تھا لیکن پھر لاہور کے لاہوری نیل کو نظر لگ گئی۔ مغلوں نے نیل پر ٹیکس لگا دیا، یورپ نے مصنوعی رنگ ایجاد کر لئے اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے فرانسیسیوں، اطالویوں اور پرتگالیوں کو مار بھگایا اور یوں نیل کی صنعت زوال پذیر ہو گئی۔

نیل کی کاشت خالصتاً گہرے پانی میں ہوتی ہے‘ عموماً نیل کی فصل ایسی زمین میں کی جاتی ہے جس میں ریت کی مقدار بھی شامل ہو اور سب سے بڑھ کر پانی کی جلد اور بکثرت فراہمی بھی ضروری ہوتی ہے‘ اکثر نیل کی کاشت گندم کی کٹائی کے بعد ہوتی ہے۔ کاشت کے لئے نیل کا بیج ہمیشہ چھٹ کے ذریعے ڈالا جاتا ہے ایک ایکڑ کے لئے 20 کلو بیج درکار ہوتا ہے‘ بیج ڈالنے کے بعد عموماً 15 یا 20 مرتبہ پانی لگایا جاتا ہے لیکن اس میں کافی احتیاط برتنا پڑتی ہے جب نیل کے پودے نوخیز ہوں تو پانی کفایت سے اور رات کے وقت لگایا جاتا ہے تاکہ دھوپ سے گرم ہونے والا پانی انہیں برباد نہ کردے۔
نیل کی فصل میں کھاد کبھی کبھار ہی ڈالی جاتی ہے‘ نیل کی فصل کو کنویں یا جھلار کا پانی شاید ہی لگایا جاتا ہو‘ اس فصل کو نہری پانی سے کاشت کیا جاتا ہے۔ نیل کی فصل کی کٹائی خزاں میں ہونے کی وجہ سے نہروں کی بندش اس پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ پہلے سال کی کٹائی کرتے وقت زمین کے اوپر ڈنٹھلوں کو چھ انچ چھوڑ دیا جاتا ہے‘ اگلے سال انہی ڈنٹھلوں سے دوسری فصل حاصل کی جاتی ہے‘ نیل کی پہلی فصل ’’سروپ‘‘ جبکہ دوسری ’’منڈھی‘‘ کہلاتی ہے لیکن تیسرے سال نیل کی فصل کو بدبختی کی علامت سمجھا جاتا ہے‘ نیل کی فصل کبھی کبھار بغیر ہل چلائے بھی کاشت کرلی جاتی ہے جیسے دریا کے قریب موزوں نشیبی زمینوں یا چنے اور گندم کے وڈھ میں‘ سروپ اور منڈھی کی پیداوار تقریباً ایک جتنی ہوتی ہے۔
مئی کے تیسرے ہفتے میں زمین کو نہری پانی دیا جاتا ہے‘ منڈھیاں یکم اگست کے بعد کٹائی کے لئے تیار ہوتی ہیں اور سروپ اگست سے لے کر ستمبر کے آخر تک کاٹ لی جاتی ہے‘ اس کے بعد ’’ولوری‘‘ کا مرحلہ آتا ہے جس کے لئے تین پختہ حوض تیار کئے جاتے ہیں دو بڑے اور ان کے درمیان ایک چھوٹا‘ انہیں جوڑی کہا جاتا ہے۔ اس خطے میں لوگ نیل کی مجموعی پیداوار کا تخمینہ اس رقبے کے مطابق لگاتے ہیں جو حوضوں کا ایک سیٹ روز انہ وصول کرتا ہے۔
 نیل کے پودوں کو کٹائی کے بعد گٹھوں کی صورت باندھ لیا جاتا ہے اور بڑے والے حوض میں ڈنٹھلوں کو نیچے کی طرف کر کے کھڑا کر دیا جاتا ہے‘ ہر حوض میں 8 سے 10 گٹھے ہوتے ہیں۔ شام کے وقت حوضوں میں اتنا پانی چھوڑ دیا جاتا ہے کہ تمام پودے ڈوب جائیں‘ اوپر لکڑی کا ایک شہتیر رکھ دیا جاتا ہے تاکہ پودے پانی میں ڈوبے رہیں۔ کٹائی کے بعد پانی میں ڈبونے کا عمل جلد از جلد شروع کیا جاتا ہے۔
پودوں کو 24 گھنٹے پانی میں ڈبونے کے بعد پتوں سمیت باہر نکال لیتے ہیںحوض میں صرف مائع رہ جاتا ہے پھر ایک مزدور چپو نما آلے سے ایک گھنٹے تک اچھی طرح ’’بلوتا‘‘ ہے اسے ’’ولورنا‘‘ کہتے ہیں‘ اس کیلئے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے‘ اس کے بعد سارا شفاف پانی باہر نکال لیتے ہیں‘ حوضوں کے پیندوں میں صرف تلچھٹ رہ جاتی ہے‘ اب اسے چھوٹے والے حوض میں رات بھر کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے‘ صبح کو چھوٹے حوض سے پھر پانی نکالتے ہیں‘ تلچھٹ کو پورے احتیاط سے جمع کر کے ایک کپڑے میں باندھ لیا جاتا ہے اور ریت کے ڈھیر پر رکھ دیا جاتا ہے۔ آخر میں اسے دھوپ میں سکھاتے ہیں‘ ہاتھ سے گوندھتے ہیں اور پھر چھوٹی چھوٹی گولیوں کی شکل دے لیتے ہیں‘ اب نیل تیار ہو گیا ہےاس میں تھوڑا سا تیل ڈالنے سے نیل کا رنگ اور بھی گہرا ہو جاتا ہے۔
   بشکریہ - شیرانی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔