میرپورخاص میں شہر کے بیچوں بیچ ایک سکھ گرو دوارہ ( غلط العام گردوارہ) تقسیم سے پہلے قائم ہے ۔ جو میرپورخاص میں رہنے والے سکھوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا ۔ جس میں موجود جماعت اسلامی کے دفتر میں مہاجرزادہ نے کئی لیکچر سنے ۔ دو دن پہلے ایک دوست نے وٹس ایپ پر ایک مضمون ڈالا ۔
ہجرتوں اور دربدری پرکھوُں کے گھر چھوٹنے کے دُکھ- بھان سنگھ کیوں رویا ۔
یہ تحریر2015 دسمبر میں ڈان نیوز میں چھپی ، میر پور خاص اور بھان سنگھ آباد کا نام پڑھتے ہی یادوں کے چھپے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آنے لگے ۔آپ بھی پڑھئے مہاجرزادہ کی یاداشت کے ساتھ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بھان سنگھ کیوں رویا؟ بھان سنگھ کون ہے؟کہاں کا رہنے والا ہے؟وہ کب رویا؟اور کیوں رویا؟
یہ چار سوالات ہیں جن کے ہمیں جواب دینے ہیں۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ بھان سنگھ ایک سکھ ہے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ میرپور خاص کے رہائشی تھے۔
میرپور خاص میں ان کی حویلی اور بیٹھک بھی تھی۔
ان کی بیٹھک ایک بنگلے کی شکل میں تھی۔ بیٹھک کے عقبی حصے میں ایک اصطبل بھی تھا۔
ان کی رہائش گاہ اور بیٹھک کے اطراف میں ساری زمین ان کی ملکیت تھی۔ اس لیے اس علاقے کوبھان سنگھ آباد کہا جاتا تھا۔
مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بھان سنگھ کیوں رویا۔ اس سوال کا جواب ایک جملے میں ممکن نہیں۔سب سے پہلے ہمیں بھان سنگھ کے شہر میرپور خاص کا ایک تفصیلی جائزہ لینا ہوگا۔
میرپور خاص جیسا کہ نام سے ظاہر ہے میروں کا خاص علاقہ۔
تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان سے ہجرت کر کے میرپور خاص میں بسنے والے مہاجرین جو خطوط انڈیا یا پاکستان کے دیگر شہروں میں اپنے رشتے داروں کے نام بھیجتے تھے، تو گھر کے پتے کے ساتھ شہر کا نام میرپور خاص سندھ ضرور لکھتے تھے۔اسی طرح حیدرآباد میں بسنے والے مہاجرین حیدرآباد سندھ لکھتے تھے۔
( مجھے اچھی طرح یاد 1971 میں ،میں ماڑی پور میں بلاک 29 میں رہتا تھا کہ لیٹر بکس میں ایک پوسٹ کارڈ ملا ، جس پر انگلش میں ایڈریس لکھا تھا ۔اور انگلش بالکل ایسی لکھی تھی جیسی ڈاکٹر کے نسخے میں ہوتی ہے- پوسٹ آفس سے وہ ،میرپور جانے کے بجائے ماڑی پورآ گیا اورایڈریس ناصر صاحب کا تھا جوہمارے گھر سے چار گھر بعد رہتے تھے )۔
لہذا، انہیں یہ اندیشہ ہوتا تھا کہ میرپور آزاد کشمیر میں بھی ہے ۔جبکہ حیدرآباد انڈیا میں بھی ہے
کہیں غلطی سے ان کا بھیجا جانے والا خط حیدرآباد دکن یا میرپور آزاد کشمیر نہ چلا جائے اور وہاں سے آنے والے خط کے بارے میں بھی ان کا یہی خیال تھا۔
ایسا ہوتا تو نہیں تھا لیکن خطرہ تو تھا۔ بہرحال فی الوقت ہمارا موضوع ہے میرپور خاص اور بھان سنگھ۔ہم پہلے بتا چکے ہیں میرپور خاص میں سکھ آبادی میں کم ہی سہی لیکن تھے ضرور۔
شہر کے بالکل مرکز میں ان کا گرودوارہ تھا اور آج بھی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ گرودوارے میں جماعت اسلامی اور محکمہ اوقاف و متروکہ املاک کا دفتر ہے۔
گرودوارے کی پیشانی پر ایک تختی بھی آویزاں ہے جس پر غالباً گورمکھی تحریر ہے۔
گرودوارہ شہر کے وسط میں قائم ہے ۔مگر اب اس میں مختلف دفاتر قائم ہیں.
گذشتہ دنوں متروکہ وقف املاک پاکستان کے منتظم اعلیٰ جناب صدیق الفاروق کراچی پریس کلب تشریف لائے اور ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان سے ہجرت کرنے والے جن غیر مسلموں کی زمینوں، دکانوں، عبادت گاہوں پر جو ناجائز قبضے کیے گئے وہ خالی کروائے جائیں گے۔
اس موقع پر ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا میرپور خاص کے گرودوارے سے بھی قبضہ خالی کروایا جائے گا جس کے ایک حصے پر آپ کے اپنے دفتر کا قبضہ ہے؟
کیا گرودوارے کو سکھوں کے حوالے کیا جائے گا؟
تو جواباً انہوں نے فرمایا کہ چونکہ اب میرپور خاص میں سکھ موجود نہیں تو یہ عبادت گاہ کس کے حوالے کی جائے؟
اس کے بعد دوسرے سکھ بھی میر پورخاص چھوڑ گئے ہوں گے۔
بھان سنگھ کا میرپور خاص میں گھر تھا اور گھر کے نیچے دکانیں بھی۔
وہ بنیادی طور پر زمیندار تھے لیکن انہوں نے اپنے گھر کے نیچے دکانیں بھی بنائی تھیں۔
بھان سنگھ کی ان دکانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ آج 70 یا 80 سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی ان دکانوں کے دروازے اسی طرح کے بنے ہوئے ہیں۔جس طرز پر بھان سنگھ نے یہ دروازے بنوائے تھے۔ ان دروازوں کا کمال یہ ہے کہ یہ دو تہوں پر مشتمل ہیں۔
دروازے جب کھلتے ہیں تو دکان کا سائبان بن جاتے ہیں -اور جب بند کیے جاتے ہیں تو دروازہ بند ہوجاتا ہے۔
یہ دکانیں اور ان کے دروازے اب بھی موجود ہیں۔ انہی دروازوں کے اوپر ایک گھر کے آثار بھی ہیں ۔جس کی بیرونی دیوار کے اوپری وسطی حصے پر گھڑیال کا ڈھانچہ موجود ہے۔
وقت کی گرد میں گھڑیال کی اصل صورت غائب ہو گئی ہے -لیکن اس کی باقیات ڈھانچے کی صورت میں موجود ہیں۔گھڑیال کے اب صرف آثار رہ گئے ہیں۔دو تہوں والے دروازے ویسے ہی ہیں جیسےبھان سنگھ نے 70 سے 80 سال قبل لگوائے تھے-جماعتِ اسلامی کے بورڈ کے پیچھے گرودوارے کی تختی موجود ہے ۔جہاں تک گرودوارے کی بات ہے۔
تو وہ تو میرپور خاص میں موجود ہے۔
ابے بھائی سکھ تو ہیں نہیں گرودوارہ شہر کے بیچ میں ہے، اب جلدی سے گرودوارہ گراؤ اور دکانیں بناؤ۔تصویریں تو بن گئیں لیکن ہمارے لیے اسے پڑھنا ناممکن تھا۔
اس کے لیے ہم نے ممتاز نقاد، ادیب اور ترجمہ نگار اجمل کمال کو تصویریں ارسال کیں کہ ہماری مدد فرمائیں۔
انہوں نے یہ تصویریں انڈین پنجاب میں ان کے ایک دوست چرن جیت سنگھ تیجا کو بھیجیں۔ تختی کا ترجمہ انہوں نے یوں کیا:
تختی کا ترجمہ انہوں نے یوں کیا: ”اک اوں کار گُر پرشاد پنجابی سکھ
گرودوارہ میرپور خاص (Ekonkaar Gur Prashad Punjabi Sikh Gurudwara
Mirpurkhas).
( سکھوں کا یہ ایک منترا ،اونگ کر، ست گُر پرس ہے۔تصویر پر یا منترے کے الفاظ پر کلک کر کے اسے سنیئے )
ہم جب بھان سنگھ کے گھر کی تلاش میں میرپورخاص کے علاقے ۔بھان سنگھ آباد میں پہنچے تو ہم نے ان کے گھر اور بیٹھک کی تلاش کرلی تھی ۔لیکن ہمارے ذہن میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا کبھی بھان سنگھ دوبارہ لوٹ کر آئے اور اپنے گھر اور بیٹھک کا جائزہ لیا۔بھان سنگھ کے گھر کی موجودہ حالت ،بالاآخر ہم اس بیٹھک تک پہنچ گئے جہاں وہ رہتے تھے۔بیٹھک کے باہر ایک صاحب جنہوں نے اپنا نام حاجی رفیق بتایا، موجود تھے۔ہم نے ان سے کہا کہ بھان سنگھ کا گھر کون سا ہے۔انہوں نے انگلی کے اشارے سے ایک مکان کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ گھر اب عمر راجپوت صاحب کا ہے اور یہی گھر بھان سنگھ کا تھا۔ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے بھان سنگھ کو دیکھا ہے۔جواب میں انہوں نے اقرار میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ ہاں۔
1964 میں جب میں سات سال کی عمر کا بچہ تھا تو اچانک علاقے میں شور ہوگیا کہ بھان سنگھ آیا ہے ۔تو پھر میں نے دیکھا کہ ایک عمر رسیدہ سکھ پگڑی پہنے اس گلی میں آیا، کچھ دیر بعد وہ گھر سے باہر چلا گیا۔ یہ گھر اس وقت علوی ایڈووکیٹ کا تھا۔بعدازاں انہوں نے یہ گھر عمر راجپوت کو فروخت کر دیا تھا۔اب اس گھر میں عمر راجپوت رہتے ہیں۔باقی تفصیل آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں۔ہم نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عمر راجپوت باہر تشریف لائے۔ہم نے ان سے درخواست کی کہ ہمیں بھان سنگھ کی بیٹھک دیکھنی ہے جو اب آپ کا گھر ہے۔ انہوں نے کہا بیٹا آؤ۔
ہم گھر میں داخل ہوئے اور تصویریں بنائیں، اور پھر عمر صاحب سے پوچھا کہ کیا کبھی بھان سنگھ یہاں واپس لوٹ کر آئے؟"ہاں آئے تھے، 2004 کی بات ہے، دن کے کوئی 12 بجے کا وقت ہوگا۔گھر کے دروازے پر دستک ہوئی، بیٹا اختر تمہیں تو اندازہ ہے یا نہیں لیکن ایک طے شدہ بات ہے کہ میں بڈھا ہو گیا ہوں اور ریٹائرڈ بھی، بچے اور ان کے بچے صبح کو اپنے دفاتر اور اسکولوں کی جانب چلے جاتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھر میں ہوتا ہوں اس لیے دروازے پر دستک ہو تو پہنچتے پہنچتے خاصی دیر لگ جاتی ہے۔"لیکن جب میں نے دروازہ کھولا تو ایک معمر شخص جو تقریباً نوے کے پیٹے میں تھا، دروازے پر ایک ادھیڑ عمر عورت، جس کا تعارف اس نے اپنی بیٹی کی حیثیت سے کروایا، کھڑا تھا۔عمر رسیدہ شخص مجھ سے بولا بھان سنگھ کا گھر یہی ہے۔
میں نے کہا ہاں۔ آپ کو کس سے ملنا ہے۔تو وہ بولے میں بھان سنگھ ہوں۔ کیا میں اپنا گھر دیکھ سکتا ہوں تو میں نے کہا کیوں نہیں، اور میں انھیں گھر کے اندر لے آیا۔"میں نے اپنے باورچی سے کہا کہ چائے وغیرہ کا بندوبست کرے گھر کے مالک آئے ہیں۔باورچی گھر کے اندورنی حصے کی طرف چلا گیا۔اس کے بعد فقط اتنا ہوا کہ دو سے لے کر پانچ منٹ تک بھان سنگھ اور وہ ادھیڑ عمر لڑکی گھر کے در و دیوار پر ہاتھ پھیرتے رہے، چومتے رہے اور اس دوران روتے رہے۔
میں نے کہا ،آپ بیٹھیں میں چائے لے کر آتا ہوں ۔لیکن جب میں واپس آیا تو نہ بھان سنگھ تھا اور نہ اس کی بیٹی۔میں دوڑتا ہوا گلی میں آیا اور بھان سنگھ بھان سنگھ پکارتا رہا، لیکن گلی میں خاموشی اور سناٹا تھا۔"ہاں ! ایک بات اور۔ بھان سنگھ آباد کا سرکاری نام اب اورنگ آباد ہے۔لیکن لوگ اب بھی اس علاقے کو بھان سنگھ آباد پکارتے اور لکھتے ہیں۔"
تصاویر بشکریہ عمران شیخ
٭٭٭٭٭٭٭
مہاجر زادہ ۔1964 میں اپنی والدہ اوربہن بھائیوں کے ساتھ میرپور خاص آیا۔لیکن اِس سے پہلے وہ دو دفعہ دادی کی زندگی میں آیا۔ جس کی کچھ کچھ جھلکیاں ذہن میں موجود تھیں۔ ریلوے سٹیشن سے خالہ زاد بہن ور بھائی کے ساتھ تانگے میں آتے ہوئے ، امی اور خالہ زاد بھائی کی باتیں سُن رہا تھا ۔ تو معلوم ہوا کہ کھڈی مل کے بعد سیٹلائیٹ ٹاون تک سڑک کے کنارے بھان سنگھ کی زمین پر مہاجروں نے گھر اور دکانیں بنا لی ہیں ۔ جو کچی تھیں اور واحد سرخ اینٹوں کی منقش حویلی بھان سنگھ کی تھی ، جس کے سامنے دکانیں ، پیچھے تالاب ، کنواں اور کھڈی مل تھی جو کپاس سے دھاگا اور سوتی کپڑا بنایا کرتی ، بڑی مل شہر میں تھی ، مول چند کا باغ جہاں، راجپوتانہ ، مہاراشٹرا اور دیگر علاقوں سے مہاجر آئے ، ان کے لئے یہاں پہلا کیمپ لگا ۔ پھر سیٹلائیٹ ٹاون کا سروے ہوا اور 150 گز کے کوارٹر بنے ۔اور مہاجروں کو الاٹ کئے گئے، بلاک 29 کا کوارٹر نمبر 396 چچا اکرام الدین کو الاٹ ہوا ۔ جو سیٹلائیٹ ٹاؤن کی پلاننگ کرنے والی کمپنی میں سروئیر تھے ۔
چچا کے گھر سے دروازوں میں سے گذرتے بڑے آرام سے خالہ کے گھر پہنچ جاتے جو دادی کے گھر سے شارٹ کٹ 250 گز تھا اور سڑک پر سے 300 گز دور تھا ۔اور بھان سنگھ کی حویلی ایک میل دور شہر کی طرف تھی اور سول ہسپتال ہمارے گھر سے کوئی سوا میل دور تھا ۔ سول ہسپتال کے پاس ریلوے پھاٹک عبور کرتے ہی مولچند کا باغ شروع ہو جاتا جو لمبائی میں جوہڑوں تک تھا اورچوڑائی میں 12 ووٹ والے ، پاور سٹیشن تک تھا۔ بھانسنگھ کی زمین کوئی آدھا میل تک تھی اور چوڑائی میں جہاں جوہڑ ختم ہوتے تھے اُس سے تھوڑا آگے تھی ۔ یہاں فصل بھی ہوتی اور آم اور دیگر پھلوں ، کھرنی ، املی ، جنگل جلیبی اور دیگر درخت بشمول کیکر بھی ہوتے تھے ۔ اُس کے بعد نہر تک کیکر اور شیشم کے درخت تھے ۔ زمین کی زرخیزی کا یہ عالم تھا کہ ہر طرف درختوں کی بہتات تھی ، کیوں کہ زمین میرواہ سے نکلنے والی جرواری شاخ سے سیراب ہوتی ۔ ہمارے گھر سے تالاب کی طرف ایک بڑ کا بہت بڑا درخت تھا اور اُس سے آگے شمشان تھا ۔ جہاں ہندو اپنے مردے جلاتے ۔یہ علاقہ آسیب زدہ مشہور تھا ۔ تالابوں کی کھدائی کے بعد بھی کئی لوگوں کو رات کو چلانے کی آوازیں جو میرے خیال میں ہم جیسے شریر بچے رات کو کھیلتے وقت یا اُس سڑک سے گذرتے وقت آوازیں نکالتے، سب گھروں کی مین اور پچھلی گلی میں کھلنے والے دروازوں پر زنجیر والہ کنڈی ہوتی ، رات کو کالا دھاگا باندھ کردور جا کر کھینچے اور گھر والوں کو ڈراتے۔
سیٹلائیٹ ٹاؤن کا یہ نقشہ مہاجر زادہ نے اپنی یاداشت سے بنایا ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭