Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 6 دسمبر، 2022

توتو اور دادا بابا کی ٹوپی

  پیارے دوستو۔ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے دادا بابا کی ٹوپی بہت پسندہے ۔

جب صبح صبح دادا بابا یا دادی ماں میرا پنجرہ کھولتی ہیں تو میں اُڑ کر اُن کی ٹوپی پر آبیٹھتا  ۔ٹھنڈے موسم میں یہ ٹوپی مجھے بہت اچھی لگتی ، پھر دادا بابا اپنا ھاتھ بڑھاتے تو میں اُن کے ہاتھ پر بیٹھ جاتا ہوں۔ دادا بابا اور دادی ماں بہت اچھے ہیں ، میں  کافی عرصے سے اُنہی کے ساتھ ہوں۔

جب بہت چھوٹا تھا ۔پہلے میں اپنے بابا اور ماما کے ساتھ رہتا تھا ۔ پھر ایک دن میری ماما کو کچھ ہو گیا وہ چپ چاپ لیٹی ہوئی تھی میں اُس کے پروں میں دُبکا ہوا تھا ، وہ ٹھنڈی ہو رہی تھی ، میرے بابا نے اُسےکھینچ کر اُٹھا  یاتو وہ   گھر سے باہر  نکل گئی ۔ بابا چلانے لگامجھے سمجھ نہیں آرہی ۔ صبح بابا ، ماما کواُٹھاتا  وہ اسی طرح اُڑ جاتی اور اپنی چونچ میں میرا کھانا لے کرآ تی۔ 

اُس دن بابا کو معلوم نہیں کیا ہوا وہ زورزور  سے چلا رہا تھا۔ میں نے گھر سے نیچے جھانکا تو ماں خاموش لیٹی ہوئی تھی اور بابا اُسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔میں دوبارہ گھر میں دُبک گیا۔ بابا کا شور سُن کر کسی کی آواز آئی ۔ مٹھو کیا ہوا ؟ کیوں شور مچا رہے ہو ؟ ارے یہ کیا ہوا ؟
پھر پنجرے کا دروازہ کھلا ، ایک ہاتھ نے پہلے بابا کو پکڑا اور ایک چھوٹے پنجرے میں ڈالا پھر مجھے گھر سمیت اٹھایا اور بابا کے ساتھ رکھ دیا  ۔ 

دادا بابا کیا ہوا ؟۔کسی بچی کی آواز آئی ۔
برفی ،توتو کی ماما اللہ کے پاس چلی گئی شاید رات بہت سردی تھی۔ میں توتو اور اِس کے بابا کو چِکس کے کمرے میں رکھ دیتا ہوں ۔وہاں گرمی ہے ۔
دادا بابا بولے

لیکن توتو کو کھانا کون کھلائے گا ؟ ایک آواز آئی ۔

دادی ماں ، اُس کا بابا کھلائے گا ۔ اور کون ؟

پھر ہمیں ایک کمرے میں لے کیا جہاں چوں چوں کی آواز آرہی تھی۔ وہ کمرہ گرم تھا ۔

بابا ،یہ دادا بابا اور دادی ماں کون ہوتے ہیں ؟ میں نے پوچھا ۔

بابا کے بابا کو دادا بابا  اور بابا کی ماما کو دادی ماں کہتے ہیں ۔ بابا نے بتایا۔

واؤ ، اِس کا مطلب کے کہ یہ میرے بھی دادا بابا اور دادی ماں ہیں ۔میں خوشی سے بولا۔ 

اِس سے پہلے بابا جواب دیتے کہ اچانک اندھیرا چھا گیا اور مجھے سردی لگنے لگی ۔ بابا گھر سے باہر نکلے ، اندھیرے میں ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا تھا، مجھے گھر سے باہر بابا کی آواز آئی،  گھر کِس طرف ہے مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ۔ میں کیسے آؤں؟      

   مجھے بہت سردی لگنے لگی       تھوڑی دیر بعد ، دادا بابا کی آواز آئی ، ارے لائٹ چلی گئی ہے توتو ،تو ٹھنڈ   میں نہیں بچے گا۔ میں اِسے اپنے کمرے میں لے جاتا ہوں اور کھانا بھی کھلاتا ہوں ۔

دادا بابا نے مجھے نکالنے کے لئے میرا گھر اُٹھایا کہ کھلے دروازے سے بابا باہر اُڑ گیا ۔اُس کے بعد بابا سے میں نہیں ملا ۔دادا بابا مجھے لے کر ایک بڑے کمرے میں آئے ۔ مجھے  ماما کی چونچ کی طرح کی ایک چیز سے بڑا مزیدار کھاناکھلایا ۔ اور مجھے گرم ہوا کےسامنے  رکھ دیا۔ بس اُس دن سے میں دادا بابا اور دادی ماں کے ساتھ رہتا ہوں ۔ یہ دونوں مجھے بہت پیار کرتے ہیں ۔

دادا بابا ایک میز پر بیٹھے ، اور ایک روشن سکرین کے سامنے کچھ کرتے ، اُس پر بدلتے رنگ مجھے بہت بھاتے ۔

جب اچانک اُس سکرین کے پیچھے سے آواز آتی تو میں ڈر کر یا توپردے پر بیٹھ جاتا یا دادی ماں کے سر پر ۔

ان کے ایک چھوٹی پوتی بھی ہے ، برفی ، جومجھے بہت تنگ کرتی ہے ۔میں بھی اُسے خوب نچاتا ہوں ۔جب وہ رونے کی ایکٹنگ کرتی ہے تو میں دادا بابا کی ٹوپی پر آبیٹھتا ہوں اور وہ پکڑ کر مجھےاپنی پوتی کو دے دیتے   ہیں وہ مجھے مٹھی میں بند کر کے گھماتی ہے۔ لیکن جونہی وہ مٹھی ڈھیلی کرتی ہے میں اُڑ کر دادا بابا کے مائیک کے سٹینڈپر بیٹھ جاتا وہ میرے پیچھے دوڑتی میں اُڑ کر پردے پر بیٹھ جاتا ۔

مجھے   کمرے سے باہر جانا بہت پسندہے لیکن دادا بابا کہتے ہیں کہ کوّے تمھیں کھا جائیں گے  اور کبھی کبھی دادی ماں مجھے پنجرے میں باہر لے جا کر دھوپ میں رکھ دیتی ہیں۔ میں خوب اپنے پروں کو جھاڑتا ہوں ۔

آج پتا ہے کیا ہوا ؟

آج کوئی بھی کمرے میں نہیں تھا میں اکیلا بور ہو رہا تھا ۔دادا بابا  لاؤنج  میں آئے میں فوراً اُن کی ٹوپی پر جا بیٹھا ۔ وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئے ، اُنہوں نے ٹوپی اتار کر رکھی   ڈریسنگ  ٹیبل پر رکھی اور اپنے کمرے کے  واش روم میں چلے گئے۔تھوڑی دیر بعد نکلے میں ٹوپی پر بیٹھا تھا ، اُنہوں نے ہاتھ بڑھایا میں اُن کے ہاتھ پر جا بیٹھا اُنہوں نے  ٹوپی پہنی اورمجھے لے کر  لاؤنج  میں آگئے ۔ 

توتو یہاں بیٹھو ، میں برفی کو لے آؤں اور دادا بابا کمرے سے چلے گئے ۔

تھوڑی دیر بعد دادی ماں کمرے میں آئیں ۔پھر جب وہ باہر نکلنے لگیں تو میں اُن کے سر پر نہیں بیٹھا بلکہ آرام سے اُن کی سویٹر پر بیٹھ گیا ،  اُنہیں پتا تک نہ چلا، جب وہ گھر کا جالی والا  دروازہ کھول  رہی تھیں تو میں انتظار کر رہا تھا اور خوفزدہ بھی تھا کہ اُنہیں پتہ نہ چل جائے کہ میں اُن کے سوئیٹر پر بیٹھا ہوں۔

تو دوستو جوں ہی وہ  گھر سے باہر نکلیں میں  پھُر  سے اُڑا  اور جھولے پر بیٹھ گیا۔ 

اُف کیا بتاؤں کہ مجھے کتنا مزہ آرہا تھا۔ 

دادی ماں نے جو  مجھے دیکھا تو ایک چینخ ماری،  میں ڈر کر اُڑا اور سامنے والے درخت پر بیٹھ گیا ۔

 واپس آؤ تو تو ، واپس آؤ ، نہیں تو کوّے تمھیں کھا جائیں گی ۔دادی ماں چلائیں ۔

 مجھے تو کوئی کوّا نظر نہیں آرہا تھا۔ خیر میں نے اُڑان بھری اورچھت مینڈیر پر جا بیٹھا ۔ 

حمزہ اِسے پکڑو۔ دادی ماں نے حمزہ کو کہا  ۔

اِس  سے پہلے کہ حمزہ آگے بڑھتا ایک خوفناک کوّے نے مجھ پر حملہ کیا ۔ میں تیزی سے اُڑ کرجامن کے درخت پر جا بیٹھا۔ میں اپنی پھرتی پر خوش ہو رہا تھا کہ ایک اور کوّا جامن کے درخت میں گھُس آیا ۔ حمزہ نے شور مچایا ، وہ اُڑ گیا لیکن میں وہاں سے اُڑا اور  آم کے درخت پر جا بیٹھا۔ 

 تھوڑی دیر بعد گاڑی کی آواز آئی ،   تو دادا بابا کو گاڑی سے اترتے دیکھا ۔ میرا دل چاھا کہ دادا بابا کی ٹوپی پر جا بیٹھوں ، مگر برفی کو گاڑی سے اترتا دیکھ کر اپنا ارادہ بدل دیا اور سامنے بہت سارے درخت تھے اُن کی طرف اُڑا ، کہ آواز آئی ، "آنٹی وہ جا رہا ہے"۔

دادا بابا نے پوچھا ،"کیا ہوا "؟

۔"توتو اُڑ گیا ، اب اُن درختوں کی طرف چلا گیا ہے "۔دادی ماں بولیں ۔

اب وہ نہیں آئے گا ،کوّے اُسے مار دیں گے " دادا بابا بولے ۔

ایسا نہ بولیں میرے دل کو کچھ ہو جائے گا، میں اُسے بہت پیا ر کرتی ہوں ۔ دادی ماں بولیں ۔

دادی ماں میں بھی کرتی ہوں، اب کیا ہوگا؟ برفی بولی ۔دادا بابا  ، اُسے لے کر آئیں ۔

چل جھوٹی ، میں نے دل میں سوچا ۔ مجھے تنگ کرتی ہو یہ کیسا پیار ہے ؟

    میں ایک درخت سے دوسرے درخت پھر تیسرے درخت پر اُڑتا، سچ بہت مزہ آرہا تھا ۔لیکن ظالم کوّے میرے پیچھے پڑ جاتے ، جب میں خوب تھک گیا تو مین گیٹ کے سامنے بڑے درخت پر آکر بیٹھ گاجہاں کبوتر بیٹھے ہوئے تھے ۔

آنٹی توتو آگیا ۔ حمزہ کی آواز آئی    

درخت کے نیچے دادا بابا ،، دادی ماں اور برفی جمع ہوگئے ، حمزہ نے اشارہ کرکے سب کو دکھایا ۔ لیکن میں اُن کو نظر نہیں آرہا تھا ۔ کہ اتنے میں ایک گلہری میری طرف بڑھی اور اپنی ناک مجھے سونگھنے کے لئے بڑھائی ، میں نے اُس کی ناک پر کاٹنے کی کوشش کی تو وہ دور بھاگ  گئی ۔ تب سب نے مجھے دیکھا ، دادی ماں نے اپنی پیاری آواز میں مجھے پکارا۔ 

تو تو ، میری جان ،اب آجاؤ۔  دادی ماں نے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ آؤ میری تسبیح سے کھیلو۔ 

لیکن میر موڈ واپس آنے کا نہیں تھا ۔

برفی نے آواز دی توتو آجاؤ اب میں تنگ نہیں کروں گی ، سچی ۔

مجھے معلوم تھا کہ یہ نہیں مانے گی اور مجھے ضرور تنگ کرے گی ۔ 

دادی ماں نے کہا ، اِس کا پنجرہ اسے دکھاؤ یہ پہچان کر آجائے گا ۔

  دادا بابا نے مجھے پنجرہ دکھا   یا ، اُس میں میر کھانا پڑا تھا ۔ لیکن مجھے بھوک نہیں تھی ،پیار سے سیٹیاں  بجائیں ، آوازیں دیں لیکن میں درخت پر بیٹھا اپنے پر سنوارتا تھا ۔ پھر یہ سب لوگ تھک گئے تو مجھے ترس آ گیا ۔ میں اُڑ کر ٹیلیفون پر آکر بیٹھ گیا ۔ اور ان سب کو دیکھ کر مزے لے رہا تھا ۔

دادا بابا نے مجھے اپنی ٹوپی دکھائی ۔میرا دل تو چاھا لیکن میں ، بیٹھا رہا ۔

 میں کیوں اُڑ کر آؤں ،دادا بابا میرے پاس آئیں ۔میں نے سوچا اور میں دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گیا ۔اور ایک لمبی انگڑائی لی ۔

دادا بابا سمجھ گئے ، اُنہوں نے ایک لمبے ڈنڈے پر اپنی ٹوپی میرے پاس کی۔

 یہ ہوئی نا بات ، میں  فوراً اُڑ کر ٹوپی پر بیٹھ گیا ۔ 

دادا بابا نے آہستہ آہستہ ڈنڈا نیچے کیا اور ٹوپی میرے پنجرے کے عین  دروازے  کے پاس لے آئے۔پنجرے میں میرا کھانا، دال سیو، نمک پارے کا چورا اور  ریوڑیوں پر لگے ہوئے تل بھی تھے ، میں سوچ رہا تھا کہ اندر جاؤں ۔کہ   
  دادی ماں  کی آواز آئی  ، اب پکڑ کر پنجرے میں بند کر دیں ۔

واہ یہ کیا بات ہوئی ، میں فوراً اُڑ کر درخت پر بیٹھ گیا۔

دادی ماں   چلائیں ، تیزی دکھاتے نا ، اب پھر اُڑ گیا ہے۔

توتو ، اچھے توتو تنگ نہی  کرتےرات ہو رہی ہے اندھیرا ہو جائے گا اور تمھیں ٹھنڈ بھی لگے کی شاباش آجاؤ ، کہتے ہوئے دادا بابا نے، ایک چھوٹے ڈنڈے پر   ٹوپی آگے بڑھائی ۔

میں شرافت سے دادا بابا کی ٹوپی پر آکر بیٹھ گیا ۔ دادا بابا نے اُسی طرح مجھے اٹھایا اور دادی ماں کوکہا دروازہ کھولے رکھیں میں اور توتو گھر میں آرہے ہیں ۔ 

دادا بابا نے چالاکی یہ دکھائی کہ سب سے پہلے مجھ سمیت ٹوپی اند کی ، جونہی میں اندر آیا دادی ماں نے ایک دم دروازہ بند کر دیا۔میں واپسی کے لئے اُڑا لیکن جالی  کے دروازے میں پھنس گیا ، دادی ماں نے پکڑا اور مجھے ڈانٹتے ہوئے، نالائق  تمہیں کوے کھا جاتے یا سردی سے مر جاتے ، ہم سب روتے رہتے  ۔

مجھے پیار کیا اور  ٹی وی لاونج میں لے آئیں ۔پھر  مجھے میرے پنجرے میں بندکر دیا ۔

میں دو گھنٹے سے اُڑتا پھر رہا تھا ۔ سخت بھوک اور پیاس لگی تھی ۔مزے سے پانی پیا اور کھانا کھایا ۔ تھوڑی دیر بعد دادا باباآئے ۔ اور مجھے کھول دیا میں اُڑ کر اُن کے کندھے پر آبیٹھا ۔اور اپنے دادا بابا کو  بے تحاشا  پیاری کرنے لگا ۔ 


   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔