کسان زمین بیچتا کیوں ہے؟
اس کا حل کیا ہے یعنی اس کو کیسے روکا جا سکتا
ہے؟
کسان کو یہ وجوہات بہت زیادہ تنگ کرتی ہیں۔
۔1۔ پانی کی بندش،
پانی کا آسانی سے دستیاب نہ ہوپانا، دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے والا
ملک، اور لاہور سے چالیس کلو میٹر دور تک لاہور سے نکلتی نہر کا پانی کسان
تک نہ پہنچے تو کسان زمین کو کبھی بھی بچا نہیں سکے گا۔ یہ سب ایک بہترین
اور منظم مافیہ کی سازش ہے جنہوں نے نہر ی نظام کو یرغمال بنا کر لوگوں کی
زمینوں کو بنجر بنایا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر کسان کو پیسوں کا لالچ دے
کران کی زمین ہتھیا لی جاتی ہے۔ جب کسان کے پاس نہیں ہے تو اس کی زمین ایک
رہائشی پلاٹ ہی ہے اور اس سارے عمل میں حکومت کی سرپرستی کسان کی بجائے
مافیہ کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ یعنی زرعی زمین کو رہائشی اسکیم میں بدلنے کی
اجازت حکومت ہی دیتی ہے۔ نہ بھی اجازت ہو تو اس کام کو روکنا بھی انہی
کےدائرہ اختیار میں ہوتا ہے لیکن وہ ایسا نہ کرکے مافیہ کی سرپرستی کرتے
ہیں۔
۔2 ۔ کسی نے کسان سے پوچھا کہ آپ نے اس مرتبہ کیا لگایاہے۔ جواب دیا
گندم لگائی ہے۔ پھر سوال پوچھا کہ کھا لی ہے یا ابھی کھانی ہے۔ (یعنی ابھی
صرف بیج بویا ہے اور اس سوال کا کیا مطلب ہوا ) ۔ اس نے جواب دیا جی کھا
چکے ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو گندم کسان نے ابھی صرف بیج بو کر
لگائی ہی ہے وہ قرض لے کر کھا بھی چکا ہے کہ جب گندم بکے گی تو آپ کو پیسے
ادا کردوں گا۔ یہ حال کسان کا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجوہات میں سے مہنگائی
تو ایک چھوٹا سا پہلو ہے۔
۔3۔
سپرے، کھاد، بیج اور دیگر اخراجات جن سے کسان کو فائدہ ہونا چاہیے تھا وہ
صرف کمپنیوں کوفائدہ دے رہے ہیں وہ بھی لانگ ٹرم،اور کسان زمینیں بیچتا جا رہا ہے تاکہ اپنی ضروریاتِ زندگی پوری کرے ۔ے۔
آج صرف انہی پہلوؤں کا احاطہ کرکے ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔
پانی
کی فراہمی ایک اہم مسئلہ ہے اس کا حل کیا ہے؟
کسان پانی کو ٹیوب ویل کی
مدد سے بھی نکال سکتا ہے۔ڈیزل والا کام اگرچہ مفید نہیں ہے لیکن سولر والا
ٹیوب ویل مفید ہے۔ اگرچہ وہ بھی مناسب حل نہیں ہے ۔ کیونکہ زمینی پانی کو
جس تیز رفتاری سے ٹیوب ویلز کی مدد سے نکالا جا رہا ہے اس کی وجہ سے زمینی
سطح کافی نیچے جاچکی ہے اور وہ بھی الارمنگ ہے۔ تو اس کا حل کیا ہے؟
سب
سے پہلا کام کسان کو ملچنگ والا کرنا چاہیے۔کسی
بھی چیز سے زمین کو ڈھانپنے کے عمل کو ملچنگ کہتے ہیں اور ایسا مواد جو
قدرتی طور پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گل سڑ کر مٹی میں مل جائے اسے آرگینک
ملچ کہتے ہیں۔ خود کوپرماکلچر/پکنک پر مکمل
شفٹ کرلیں تو بہترین ہے ورنہ کم از کم ملچنگ ضرور کریں تاکہ پانی کم سے کم
استعمال ہو۔ اپنی زمین یا رقبہ پر اونچی جگہ پر بارش کے پانی کو محفوظ
کرنے کے لئے حوض لازمی بنائیں جو کہ پختہ نہ ہو۔ اور پانی اس سے رس کر زمین
میں بھی جاتا رہے اور بوقت ضرورت کسان کھیت میں بھی استعمال کرسکے۔ ملچنگ
اور بارش کے پانی کو محفوظ بنا کر کسان پانی کی مد میں ہونے والے اخراجات
کو بچا سکتا ہے۔
دوسرا کام جو کسان کو مہنگا ئی کی وجہ سے مجبور کرتا ہے
کہ وہ کھیتی چھوڑے اور زمین بیچ کر جلدی پیسہ ہاتھ میں کرے اور کوئی اور
کاروبار کرلے۔ وہ ہے ہر دن ، روز مرہ کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ، اور
اسی میں تیسر ا پہلو بھی شامل کرتے ہیں کہ سپرے ، کھاد اور بیجوں کی قیمتیں
بھی یقینا بہت زیاد ہ ہیں اور ہر روز وہ بھی بڑھتی ہی نظر آتی ہیں۔
اس
کا پہلا حل تو حکومت کے پاس ہوتا ہے لیکن وہ اگر اس میں دلچسپی نہیں لیتے
تو کسان کیا کرے؟ آئیں اس کے لئے ایک مثال پر نظر ڈالتے ہیں تاکہ بات کو
سمجھنے میں آسانی ہو سکے ۔
ایک ستر اسی سال کی دیسی اماں سے کسی نے کہا ،
اماں کیا کریں مہنگائی بہت ہے۔ اماں کہتی پتر مجھے تو کہیں مہنگائی نظر
نہیں آتی۔ اماں اپنی بات کو جاری رکھتی ہے۔ پتر میں جوانی میں بھی ایک کلو
دیسی گھی کی قیمت سے ایک سوٹ خرید لیتی تھی اور آج بھی اسی طرح ایک کلو
دیسی گھی کی قیمت پر سوٹ خرید لیتی ہوں تو مجھے تو مہنگائی کہیں نظر نہیں
آتی۔یہ بارٹر سسٹم کہلاتا ہے ۔
اب آتے ہیں اس کے حل کی طرف، کسان تو کیا ہم سب کو واپس آرگینک
کھیتی کی طرف آنا پڑے گا۔ ہمیں ہر وہ فضول کام چھوڑنا پڑے گا جو صرف اور
صرف چند امیر لوگوں کو مزید امیر کرنے پر کام کررہا ہے۔ ( ہمارے ٹیکس سے
چلنے والی حکومت امیر نہیں بھی ہوپاتی۔ تو اس کو چلانے والے بھی امیر ہوہی
جاتے ہیں) ۔ لیکن میری یہاں مراد چند لوگ وہ ہیں جو فیکٹریوں کے مالک ہیں ۔
اس پر بھی ایک مثال لیں ۔
ایک گاؤں جس کے کل گھر 1000 ہیں۔ اور فی گھر
راشن میں ماہانہ صرف 1000 روپے کی چینی آتی ہے جو کہ پانچ سے سات افراد
سہولت کے ساتھ کھا جاتے ہیں۔ تو 10 لاکھ کی چینی ماہانہ آتی ہے ۔ اور
سالانہ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے کی چینی صرف ایک گاؤں کھا جاتا ہے۔ اور میرے
ضلع میں 600 سے زائد گاؤں ہیں۔(حساب خود لگالیں ) ۔ شہروں کی مثال اس لئے
نہیں دی کہ وہاں میرا کیلکولیٹر جواب دے جاتا ہے۔ اسی طرح پتی ، گھی اور
دیگر چیزیں دیکھیں تو پیسہ کہاں جارہا ہے اور مہنگائی کہاں سے آرہی ہے سب
سمجھ میں آجائے گا۔
حل اس کا وہی ہے۔ ایک گاؤں کو رول ماڈل ، اِس طرح بنا لیں کہ تہیہ کرلیں کہ ہر چیز گاؤں میں تیار کریں گے اور کچھ
بھی باہر سے نہیں خریدیں گے۔ کسان کو اپنے کھانے کی چیز کم از کم خود
اُگانی چاہیے۔ ہم اس میں بھی اتنے زیادہ سست ہوچکے ہیں کہ نہ تو اپنا اگا
پاتے ہیں اور اگر اگا لیا تو اسی کو واپس مہنگا کرکے بیچنے کے لئے منڈی کی
طرف جا پہنچتے ہیں۔
سبزی دس روپے کلو میں خود جا کر شہر میں بیچ کر آتے ہیں
اور ہمارے گھر کے ساتھ والا ہمسایہ اسی سبزی کو سو روپے میں واپس خرید رہا
ہوتا ہے۔
اب
حل کی طرف فائنل بات ، پکنک کے طریقہ پر کام کریں تو کھاد، سپرے کے پیسے
بچیں گے۔ پرانے طریقوں پر چلیں تو ایکڑ میں سے کچھ رقبہ بیچ والا خود چھوڑ
کر اپنے لئے اور ہمسایوں کے لئے بیچ خود تیار کرسکیں گے۔ مقامی بیج نہ صرف
کامیاب رہے گا بلکہ کھاد اور دیگر چیزوں سے جان چھڑوالیں گے تو زمین بھی
اپنی اصل حالت میں واپس آجائے گی۔ حل چلانے سے باز رہیں گے تو زمین کے کیڑے
مکوڑے اپنے حصے کا کام کرکے آپ کی زمین کو زرخیز بھی بنا دیں گے۔ قدرتی
کھیتی پر واپس آجائیں گے تو دوائیوں کے پیسے بھی بچیں گے۔ خود بھی صحت مند
رہیں گے اور آپ کے علاقے کے لوگ بھی۔ کام خود کررہے ہوں گے تو جو فٹنس لیول
آپ کا ہوگا وہ بھی قابل رشک ہوگا۔
صرف اتنا خیال اپنا کر لیں ، نہ آپ کو مہنگائی لگے گی۔ نہ آپ کی صحت خراب ہوگی۔ اور نہ ہی آپ کو زمین بیچنا پڑے گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭