عثمانی تاریخ کے اوراق میں بے شمار واقعات ایسے موجود ہیں جنہیں پڑھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے، مگر ان میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو سائنس، جرات، اختراع اور انسان کے ازلی خواب "آسمان کو چھونے" کا حسین امتزاج ہے؟
یہ واقعہ عثمانی سلطنت کے نامور سیاح اولیاء جلبی نے اپنی عظیم تصنیف "سياحت نامہ" میں بیان کیا ہے۔ اس داستان کا مرکزی کردار ہے:لغاری حسن جلبی، وہ شخص جس نے چارسو سال پہلے 1933 میں انسان کے فضاء میں جانے کے خواب کو حقیقت کے قریب لا کھڑا کیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سلطنتِ عثمانیہ کے توپ کاپی محل(موجودہ عجائب گھر) میں شہزادی قايا دخترِ سلطان مراد چہارم کی پیدائش کی تقریبات جاری تھیں۔ اس جشن کے دوران حسن جلبی نے ایک ایسے کارنامے کا دعویٰ کیا جو انسانی عقل سے ماورا تھا۔سرائے برونو استنبول توپ کاپی محل کے نیچے کی عمارت سے پروازکی ۔،
اس نے سات ہاتھ لمبا راکٹ تیار کیا، جس میں پچاس اوقیہ(140 پونڈ) بارود بھرا گیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وہ خود اس 7 پروں والے راکٹ پر سوار ہونا چاہتا تھا۔
جب جشن اپنے عروج پر پہنچا تو حسن جلبی حاضرِ دربار ہوا۔ اولیاء جلبی کے مطابق وہ سلطان کے سامنے نہایت پُراعتماد انداز میں کھڑا ہوا اور ہنستے ہوئے کہا:
یا مولاي! أستودعك الله، أنا ذاهب للتحدث مع عيسى عليه السلام!۔
اے میرے بادشاہ! میں آپ کو الوداع کہنا چاہتا ہوں، میں عیسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرنے جا رہا ہوں! ۔
یہ کہہ کر اس نے راکٹ پر سوار ہو کر اپنے آپ کو آسمان کے حوالے کر دیا۔ ملازمین نے آگ جلائی، بارود نے شعلہ پکڑا اور راکٹ ایک دھماکے کے ساتھ آسمان کی طرف لپکا۔ حاضرین کی سانسیں تھم گئیں۔ سلطان مراد چہارم خود حیرت سے کھڑا رہ گیا۔
اولیاء جلبی لکھتے ہیں کہ راکٹ اتنی بلندی تک گیا کہ نیچے کھڑے لوگ اس کے نشان کو مشکل سے دیکھ پاتے تھے۔ یہ پرواز اس دور کی سائنسی حدود سے کہیں آگے تھی۔ جب بارود ختم ہوا۔تو راکٹ سمندر کے اوپر پہنچ چکا تھا اور نیچے آتے وقت اُس کے 7 پر کھل گئے اور وہ باحفاظت سمندر میں لغاری حسن جلبی سمیت سمندر میں گر گیا اور حسن جلبی تیر تا ہوا ، واپس محل میں آگیا ۔ وہ نہ گھبرایا، نہ تھکا، بلکہ نہایت محبت بھرے انداز میں ہنستے ہوئے سلطان سے کہا:۔
مولاي! إن عيسى عليه السلام يسلّم عليك!۔
میرے آقا! عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سلام کہا ہے!۔
سلطان اس شوخی پر مسکرا اٹھا۔ اس نے حسن جلبی کو ایک تھیلی سونے کی انعام میں دی اور اسے انکشیری فوج کے عالی مرتبے "سباہیہ" میں شامل کر لیا۔ ساتھ ہی اسے روزانہ ستر اقجہ تنخواہ مقرر کی گئی، جو اس دور میں ایک معزز ترین منصب تھا۔ صدیوں بعد، 1998 میں ناروے کے ممتاز اسکالر اور Norwegian Aviation Museum کے ڈائریکٹر موریتز رُوافک نے ایک انٹرویو میں حیرت انگیز انکشاف کیا۔ انہوں نے امریکی اخبار Weekly World News کو بتایا کہ "انسان کی خلاء کی طرف پہلی حقیقی کوشش ایک ترک شخص "حسن جلبی" نے کی تھی۔" رُوافک کے مطابق حسن جلبی کا راکٹ جدید سائنس کے معیار پر نہایت قابلِ توجہ تھا۔ وہ دو حصوں پر مشتمل تھا:۔
ایک نچلا حصہ جس میں چھ چھوٹے راکٹ لگے تھے جو ابتدائی دھماکے کے لیے استعمال ہوئے۔ دوسرا اوپر کا حصہ جس پر حسن جلبی سوار تھا اور جو تقریباً 275 میٹر (900 فٹ) کی بلندی تک اٹھا۔یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ عثمانی دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وہ سفر جاری تھا جو آج سپیس اور ناسا تک پہنچ چکا ہے۔
ترک مؤرخین احمد آق کوندوز اور سعید اوزتورک نے اپنی تحقیق "الدولة العثمانية المجهولة" میں اس واقعہ کا جامع ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ یہ محض ایک قصہ نہیں بلکہ دستاویزی حقیقت ہے، ایسی حقیقت جو عثمانیوں کی سائنسی ذہانت کا روشن ثبوت ہے۔ حسن جلبی کی پرواز انسان کی اُس فطری خواہش کا مظہر ہے جس نے کبھی زمین پر قناعت نہیں کی۔ وہ خواہش جو کبھی لیونارڈو ڈاونچی کے خاکوں میں جھلکی، کبھی عباس ابن فرناس کے پروں میں اور کبھی عثمانی عہد میں حسن جلبی کے راکٹ پر سوار ہو کر آسمان کی طرف بڑھ گئی۔
استنبول میرے پروں کے نیچے، نامی فلم 1996 میں بنائی گئی جس میں لغاری حسن جلبی اور اُس کے بھائی ھزارفن لغاری کی اُڑان کے بارے میں تھی۔ جس میں جدید مرکبات جیسے ویلڈنگ ، ایلو مینیئم وغیرہ کے بغیر محفوظ اُڑان کی ۔
آج ہم سپر سانک جیٹ، سیٹلائٹس، خلائی اسٹیشن اور مریخ مشنز کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں، مگر شاید دنیا بھول چکی ہے کہ صدیوں پہلے استنبول کی گلیوں سے ایک آدمی اٹھا تھا جو خواب دیکھنے کی جرات رکھتا تھا۔ اس نے راکٹ بنایا، اس پر خود بیٹھا اور آسمان کی طرف لپک گیا، یہ اعلان کرتے ہوئے کہ "انسان کی پرواز ہمیشہ زمین کی محدود چھتوں سے آگے سوچنے کا نام ہے۔" حسن جلبي… وہ شخص جس کی جرات نے وقت، سائنس اور عقل کو حیرت زدہ کر دیا اور یہی ہے انسان کی پہلی راکٹ پرواز کی اصل کہانی۔ جس کا مسافر اور بانی ایک مسلمان تُرک تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭










































