Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 18 نومبر، 2025

پہلی انسانی، راکٹ پر پرواز

عثمانی تاریخ کے اوراق میں بے شمار واقعات ایسے موجود ہیں جنہیں پڑھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے، مگر ان میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جو سائنس، جرات، اختراع اور انسان کے ازلی خواب "آسمان کو چھونے" کا حسین امتزاج ہے؟
یہ واقعہ عثمانی سلطنت کے نامور سیاح اولیاء جلبی نے اپنی عظیم تصنیف "سياحت نامہ" میں بیان کیا ہے۔ اس داستان کا مرکزی کردار ہے:لغاری  حسن جلبی، وہ شخص جس نے چارسو سال پہلے 1933 میں انسان کے فضاء میں جانے کے خواب کو حقیقت کے قریب لا کھڑا کیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سلطنتِ عثمانیہ کے توپ کاپی محل(موجودہ عجائب گھر)  میں شہزادی قايا دخترِ سلطان مراد چہارم کی پیدائش کی تقریبات جاری تھیں۔ اس جشن کے دوران حسن جلبی نے ایک ایسے کارنامے کا دعویٰ کیا جو انسانی عقل سے ماورا تھا۔سرائے برونو استنبول   توپ کاپی محل کے نیچے کی عمارت  سے پروازکی ۔،

 اس نے سات ہاتھ لمبا راکٹ تیار کیا، جس میں پچاس اوقیہ(140 پونڈ) بارود بھرا گیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ کہ وہ خود اس 7 پروں والے  راکٹ پر سوار ہونا چاہتا تھا۔ جب جشن اپنے عروج پر پہنچا تو حسن جلبی حاضرِ دربار ہوا۔ اولیاء جلبی کے مطابق وہ سلطان کے سامنے نہایت پُراعتماد انداز میں کھڑا ہوا اور ہنستے ہوئے کہا: 
 
یا مولاي! أستودعك الله، أنا ذاهب للتحدث مع عيسى عليه السلام!۔ 

 اے میرے بادشاہ! میں آپ کو الوداع کہنا چاہتا ہوں، میں عیسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرنے جا رہا ہوں! ۔ 

یہ کہہ کر اس نے راکٹ پر سوار ہو کر اپنے آپ کو آسمان کے حوالے کر دیا۔ ملازمین نے آگ جلائی، بارود نے شعلہ پکڑا اور راکٹ ایک دھماکے کے ساتھ آسمان کی طرف لپکا۔ حاضرین کی سانسیں تھم گئیں۔ سلطان مراد چہارم خود حیرت سے کھڑا رہ گیا۔

 اولیاء جلبی لکھتے ہیں کہ راکٹ اتنی بلندی تک گیا کہ نیچے کھڑے لوگ اس کے نشان کو مشکل سے دیکھ پاتے تھے۔ یہ پرواز اس دور کی سائنسی حدود سے کہیں آگے تھی۔ جب بارود ختم ہوا۔تو   راکٹ سمندر کے اوپر پہنچ چکا تھا  اور نیچے آتے وقت اُس کے 7 پر کھل گئے  اور وہ باحفاظت سمندر  میں لغاری  حسن جلبی  سمیت سمندر میں  گر گیا   اور  حسن  جلبی تیر تا ہوا  ، واپس محل میں آگیا ۔ وہ نہ گھبرایا، نہ تھکا، بلکہ نہایت محبت بھرے انداز میں ہنستے ہوئے سلطان سے کہا:۔  

 مولاي! إن عيسى عليه السلام يسلّم عليك

میرے آقا! عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کو سلام کہا ہے!۔

 سلطان اس شوخی پر مسکرا اٹھا۔ اس نے حسن جلبی کو ایک تھیلی سونے کی انعام میں دی اور اسے انکشیری فوج کے عالی مرتبے "سباہیہ" میں شامل کر لیا۔ ساتھ ہی اسے روزانہ ستر اقجہ تنخواہ مقرر کی گئی، جو اس دور میں ایک معزز ترین منصب تھا۔ صدیوں بعد، 1998 میں ناروے کے ممتاز اسکالر اور Norwegian Aviation Museum کے ڈائریکٹر موریتز رُوافک نے ایک انٹرویو میں حیرت انگیز انکشاف کیا۔ انہوں نے امریکی اخبار Weekly World News کو بتایا کہ "انسان کی خلاء کی طرف پہلی حقیقی کوشش ایک ترک شخص "حسن جلبی" نے کی تھی۔" رُوافک کے مطابق حسن جلبی کا راکٹ جدید سائنس کے معیار پر نہایت قابلِ توجہ تھا۔ وہ دو حصوں پر مشتمل تھا:۔

 ایک نچلا حصہ جس میں چھ چھوٹے راکٹ لگے تھے جو ابتدائی دھماکے کے لیے استعمال ہوئے۔ دوسرا اوپر کا حصہ جس پر حسن جلبی سوار تھا اور جو تقریباً 275 میٹر (900 فٹ) کی بلندی تک اٹھا۔

یہ بیان ثابت کرتا ہے کہ عثمانی دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کا وہ سفر جاری تھا جو آج سپیس اور ناسا تک پہنچ چکا ہے۔

 ترک مؤرخین احمد آق کوندوز اور سعید اوزتورک نے اپنی تحقیق "الدولة العثمانية المجهولة" میں اس واقعہ کا جامع ذکر کیا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ یہ محض ایک قصہ نہیں بلکہ دستاویزی حقیقت ہے، ایسی حقیقت جو عثمانیوں کی سائنسی ذہانت کا روشن ثبوت ہے۔ حسن جلبی کی پرواز انسان کی اُس فطری خواہش کا مظہر ہے جس نے کبھی زمین پر قناعت نہیں کی۔ وہ خواہش جو کبھی لیونارڈو ڈاونچی کے خاکوں میں جھلکی، کبھی عباس ابن فرناس کے پروں میں اور کبھی عثمانی عہد میں حسن جلبی کے راکٹ پر سوار ہو کر آسمان کی طرف بڑھ گئی۔

استنبول میرے پروں کے نیچے،  نامی فلم 1996 میں بنائی گئی جس میں لغاری حسن جلبی اور اُس کے بھائی  ھزارفن لغاری  کی اُڑان کے بارے میں تھی۔ جس میں جدید مرکبات جیسے ویلڈنگ ، ایلو مینیئم وغیرہ کے بغیر محفوظ اُڑان کی ۔

 آج ہم سپر سانک جیٹ، سیٹلائٹس، خلائی اسٹیشن اور مریخ مشنز کا ذکر بڑے فخر سے کرتے ہیں، مگر شاید دنیا بھول چکی ہے کہ صدیوں پہلے استنبول کی گلیوں سے ایک آدمی اٹھا تھا جو خواب دیکھنے کی جرات رکھتا تھا۔ اس نے راکٹ بنایا، اس پر خود بیٹھا اور آسمان کی طرف لپک گیا، یہ اعلان کرتے ہوئے کہ "انسان کی پرواز ہمیشہ زمین کی محدود چھتوں سے آگے سوچنے کا نام ہے۔" حسن جلبي… وہ شخص جس کی جرات نے وقت، سائنس اور عقل کو حیرت زدہ کر دیا اور یہی ہے انسان کی پہلی راکٹ پرواز کی اصل کہانی۔ جس کا مسافر اور بانی ایک مسلمان  تُرک تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 26 ستمبر، 2025

کرنسی کی ابتداء

  ڈالر : ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ معروف کرنسی ہے، امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا، فجی، نیوزی لینڈ اور سنگا پور کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے ممالک میں بھی ڈالر کا استعمال ہوتا ہے، ڈالر کا قدیم نام جوشمز دالر سے لیا گیا ہے، یہ اس وادی کا نام ہے، جہاں سے چاندی نکال کر سکے بنائے جاتے تھے۔ جس کیوجہ سے سکوں کا نام بھی اسی وادی کے نام پر رکھ دیا گیا۔ بعد ازاں اس نام سے جوشمز نکال دیا گیا اور صرف دالر رہ گیا جو بعد میں ڈالر کہلانے لگا۔

 دینار : دینار لاطینی لفظ دیناریئس سے نکلا ہے، ، جو چاندی کے قدیم رومی سکے کا نام ہے اب کویت، سربیا، الجیریا، اردن و دیگر ممالک میں دینار ہی استعمال کیا جاتا ہے

 روپیہ : روپیہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چاندی یا ڈھلی ہوئی(ساختہ) چاندی کے ہیں۔

ریال : ریال لاطینی لفظ ریغالس سے اخذ کیا گیا ہے جس کا تعلق شاہ خاندان سے ہوتا ہے عرب ممالک میں سے عمان، قطر، سعودی عرب اور یمن وغیرہ میں ریال استعمال ہوتا ہے ۔ اس سے قبل ہسپانوی کرنسی کو رئیل کہا جاتا تھا۔
لیرا : اٹلی اور ترکی میں لیرا نامی کرنسی رائج ہے، یہ ایک لاطینی لفظ لبرا سے نکالا گیا ہے۔
کرونا : کرونا کو لاطینی کرونا سے نکالا گیا ہے، جس کا مطلب تاج یا کراؤن ہے، شمالی یورپ کے مختلف ممالک میں کرونا نامی کرنسی استعمال ہوتی ہے، سوئیڈن، ناروے، ڈنمارک، آئسلینڈ اور اسٹونیا یہاں تک کہ چیک جمہوریہ میں بھی۔
پاؤنڈ : پھر برطانیہ کا مشہور زمانہ پاؤنڈ ہے جو دراصل لاطینی لفظ ”پاؤنڈس“ سے نکلا ہے جو وزن کو ہی کہتے ہیں۔ برطانیہ کے علاوہ، مصر، لبنان، سوڈان اور شام میں بھی کرنسی پاؤنڈ کہلاتی ہے۔
پیسو : میکسیکو کی کرنسی پیسو ہے۔ جو ایک ہسپانوی لفظ ہے جس کا معنی بھی یہی ہیں یعنی ”وزن“۔
 
 : چینی یوان، 

جاپانی ین اور کورین وون کی ابتدا ایک چینی حرف سے ہوئی ہے، جس کا مطلب ہے ”گول“ یا ”گول سکہ“۔رویبل
ہنگری کرنسی : ہنگری کی کرنسی فورینٹ کا نام اطالوی لفظ فائیو رینو سے اخذ کیا گیا ہے۔

  فلورنس، اٹلی میں سونے کے سکے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ اس سکے پر ایک پھول کی مہر کھدی ہوتی تھی۔لیکن اب لیرا اور یورو استعمال ہوتے ہیں 

روس کا سکہ روبیل بھی دراصل چاندی کو وزن کرنے کا ایک پیمانہ ہے ۔
رینڈ : جنوبی افریقہ  کی کرنسی رینڈ کا نام وٹ واٹرز رینڈ پر رکھا گیا ہے، جو جوہانسبرگ کا ایک قصبہ ہے، جو سونے کےذخائر کی وجہ سے مشہور ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعرات، 25 ستمبر، 2025

23 ہزار سال پرانی انسانی تعمیر




  گیزا کے اہراموں کو الوداع - دنیا کا قدیم ترین انسانی تعمیر 23,000 سال پرانی ہے اور جس نے مصر کے اہراموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔

یونان وہ جگہ ہے جہاں یہ دریافت ہوئی تھی، خاص طور پر تھیوپیٹرا نامی غار میں، جہاں سائنسدانوں نے دنیا میں انسانوں کا بنائی ہوئی  ایک  قدیم ترین تعمیر دریافت کی ۔ یہ ایک پتھر کی دیوار تھی جو 23,000 سال پہلے، اہرام مصر کے وجود سے 16000 سال پہلے بنائی گئی تھی۔
  تھیوپیٹرا غار ہے جو تھیسالی کے علاقے میں واقع ہے۔ اس جگہ نے سائنس دانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کی توجہ انسانوں کے بنائی ہوئی تعمیر کی وجہ سے حاصل کی ہے، لیکن کسی ڈھانچے کی نہیں… تاریخ میں سب سے قدیم  تعمیر ملی ہے  وہ صرف پتھروں کا باقاعدہ ڈھیر نہیں  بلکہ ایک دیوار ہے ، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیوار ایک خاص وجہ سے بنائی گئی تھی: غار کے داخلی دروازے کو جزوی طور پر بند کر دیا گیا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ممکن ہے کہ اُس وقت کے انسان برفانی دور کے دوران جمنے والی سردی سے خود کو بچانا چاہتے تھے۔
سائنسدانوں نے ایک طریقہ استعمال کیا جس کا نام آپٹکی اسٹیملیٹڈ لومینیسینس   ہے۔  اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے کہ آخری بار کب معدنی اناج، جیسے دھول یا ریت، سورج کی روشنی کے سامنے آئے تھے۔ اس سے یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ دفن شدہ اشیاء یا سورج کی روشنی سے محفوظ رہنے والی چیزیں کتنی پرانی ہیں، اس طرح سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دیوار  تقریباً 23,000 سال پہلے بنائی گئی تھی ۔یہ غار نہ صرف اس کے اندر پائی جانے والی قدیم  دیوار  کی وجہ سے اہم ہے،
 ماہرین آثار قدیمہ نے  دریافت کیا کہ  تھیوپیٹرا 13000 سال سے زیادہ عرصے  پہلے آباد تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان وہاں اتنے لمبے عرصے تک مقیم رہے۔ 

آثار قدیمہ کے ماہرین کو غار کی زمین پر مختلف اوقات کی باقیات بھی ملی ہیں، جیسے: کیمپ فائر، پتھر کے اوزار اور بچوں کے قدموں کے نشان۔
پتھر کی دیوار کے ہزاروں سال بعد تک انسانی ساختہ کوئی دوسری تعمیر  نہیں تھی۔ اس کے بعد جو پایا گیا وہ ترکی میں واقع تھا، جو کہ 7,400 قبل مسیح میں آباد ایک بستی تھی۔ اسے منظم ہونے والے اولین شہروں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔
اس مقام سے، یورپ میں دیگر قدین ترین  تعمیرات  پائی گئیں  جو 5,000 اور 3,000   قبل مسیح کے درمیان تعمیر کیے گئے تھے، جیسے انگلینڈ میں دنیا بھر میں مشہور پتھر کے زمانے کی تعمیرات ۔
جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس تعمیر نے اس سوچ  کو تبدیل کر دیا ہے جو آثار قدیمہ کے ماہرین نے  دیواریں تراشنے  کی پہلی کوششوں کے بارے میں سوچا تھا۔ اب، وہ جانتے ہیں کہ، ان کے یقین سے بھی پہلے، انسان ذہین، تخلیقی اور سماجی طور پر منظم تھے تاکہ اپنے ماحول کو تبدیل کر سکیں اور زندہ رہنے کے لیے پناہ گاہیں بنائیں۔ (منقول)

٭٭٭٭٭

بدھ، 10 ستمبر، 2025

دنیا سے پولیو کا خاتمہ

سنہ 1950 میں، پولیو ویکسین کے معجزے سے پہلے، بچے لوہے کے پھیپھڑوں کی بکس میں قطار در قطار میں پڑے رہتے تھے - جو اپنی بھنبھناہٹ کے ساتھ ہسپتال نما جیل میں مشینی زندگی کی ڈور کے سہارے جینے لگے۔ پولیو خوفناک رفتار کے ساتھ آبادی میں پھیل گیا تھا، جس نے سب سے زیادہ بچوں کو مارا تھا۔ ایک دن، ایک بچہ صحن میں بھاگ رہا ہو سکتا ہےاگلے دن اُن کے پھیپھڑے مزید سانس لینے کے قابل نہیں رہنے دیا ۔

لوہے کے پھیپھڑوں کے چیمبرمیں بند، صرف ان کے سر ہی نظر آتے ہیں، مشین کی سانسوں کی ہچکی اور آوازیں انہیں زندہ رکھتے ہوئے ہوا کو اِن کے پھیپڑوں کے اندر اور باہر کرتی تھیں ۔ کچھ بچوں کے لیے، یہ عارضی تھا، بحالی کے لیے ایک ہفتہ یا مہینہ ۔ دوسروں کے لیے، یہ مہینوں، یہاں تک کہ سالوں کے لیے گھر بن گیا۔

ان مشینوں میں بچوں کی تصویراُس وقت کی یاد دہانی جب ایک وائرس نہ صرف صحت بلکہ سانس لینے کا آسان ترین عمل بھی چھین سکتا تھا۔ والدین چوکس رہتے، ڈاکٹروں اور نرسوں نے بڑے پیمانے پر پمپوں کو ایڈجسٹ کیا، اور پورے وارڈز کو زندہ رہنے کے میکانکی دل کی دھڑکن کے ساتھ استوار کیا گیا۔

پولیو کی ابتدا پولیو وائرس سے ہوتی ہے، جو قدرتی طور پر صرف انسانوں میں پایا جاتا ہے اور ہزاروں سالوں سے موجود ہے، جس کی ابتدائی تصویریں قدیم آرٹ میں پائی جاتی ہیں۔ یہ وائرس فیکل اورل ٹرانسمیشن یا سانس کی بوندوں کے ذریعے پھیلتا ہے، خوراک، پانی یا سطحوں کو آلودہ کرتا ہے اور انسانوں میں بیماری کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ یہ وائرس قدیم ہے، یورپ اور ریاستہائے متحدہ میں بڑے پھیلاؤ 19ویں صدی کے آخر تک نہیں ہوئے، جس کی وجہ سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا ۔
تاہم، 1949 میں جان اینڈرز، فریڈرک رابنز، اور تھامس ویلر نے لیبارٹری کی ترتیب میں انسانی پٹھوں اور بافتوں میں پولیو کا سبب بننے والے وائرس کو کلچر کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ یہ پولیو کے خلاف ویکسین کی راہ میں ایک اہم قدم بن گیا۔
سنہ 1950 کی دہائی میں اس بیماری پر قابو پانے کے لیے ویکسین کی تیاری شروع کی گئی ۔ 

پھر، 1955 میں، جوناس سالک کی ویکسین آ گئی۔ اس کے ساتھ لوہے کے پھیپھڑوں کے دور کا سست اختتام ہوا۔ ابھی تک پیدا ہونے والے لاکھوں بچوں کے لیے، ویکسین کا مطلب آزادی ہے بغیر خوف کے ہنسنے، دوڑنے اور سانس لینے کی صلاحیت ویکسین کی بدولت قائم ہے ۔
ویکسین کے وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے سے پہلے دو سالوں میں، امریکہ میں پولیو کے کیسز کی اوسط تعداد 45,000 سے زیادہ تھی۔ 1962 تک، یہ تعداد کم ہو کر 910 تک پہنچ گئی تھی۔ ایک معجزاتی کارکن کے طور پر سراہا جانے والے، سالک نے کبھی بھی ویکسین کو پیٹنٹ نہیں کیا اور نہ ہی اپنی دریافت سے کوئی پیسہ کمایا، اس بات کو ترجیح دی کہ اسے زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے۔

ہر سال ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن پولیو کے جراثیم کو ندی نالوں سیوریج لائن سے ڈھونڈھ کر تلف کرواتی ہے اور نومود بچوں کو، ملکی ہیلتھ آرگنائزشنوں کی مدد سے مفت ویکسین پلواتی ہے۔ 21 اگست 2026 تک پاکستان میں پولیو کے 21 کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ یہ کیسز بنیادی طور پر صوبہ خیبر پختونخواہ میں رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 2024 میں 72 کیسز رجسٹر ہوئے تھے ۔


جوناس سالک نے 1955 میں پہلی کامیاب غیر فعال پولیو ویکسین (آئی پی وی) ایجاد کی، جس کے بعد البرٹ سبین کی طرف سے تیار کردہ ایک کامیاب زبانی لائیو ٹینیویٹ ویکسین جو 1961 میں تجارتی استعمال میں آئی۔

اس کے اہم کام کے باوجود، سالک کو امریکن اکیڈمی آف سائنسز کی رکنیت کے لیے واضح طور پر روکا گیا اور اسے کبھی نوبل انعام نہیں دیا گیا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے سے پہلے کے دوسرے سائنس دانوں کی شراکت کو معمولی سمجھا اور یہاں تک کہ اس نے اپنی ہی ریسرچ ٹیم کی کوششوں کو بھی کم کیا۔

 ٭٭٭٭٭

ہفتہ، 24 مئی، 2025

پاکستان میں خاموش ماہرین کا سائنسی انقلاب

 1998 میں پاکستان نے امریکی کروز میزائل کو صحیح سلامت زمین پر اُتارا تھا، یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک خاموش انقلاب تھا۔ ایک ایسا واقعہ کہ جس نے امریکی انٹیلیجنس کو بھی حیران کر کے رکھ دیا۔ اُس وقت امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرتے ہوئے درجنوں "ٹوماہاک کروز میزائل" فائر کیے، جن میں سے چند پاکستان کی فضائی حدود سے گزرے۔ 

پاکستانی ایئر ڈیفنس سسٹم نے فوری ردعمل دیا اور ایک میزائل کو بغیر کسی تباہی کے زمین پر اُتار لیا۔ یہ میزائل اپنی مکمل ساخت میں تھا، جس نے پاکستان کو پہلی بار دنیا کی جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے قریب لا کھڑا کیا۔ ماہرین نے اس میزائل کو تفصیل سے سمجھا، اس کی ساخت، نیویگیشن سسٹم، وار ہیڈ اور ایندھن کی اقسام کا مطالعہ کیا، اور یہی بنیاد بنی پاکستان کے اپنے "بابر کروز میزائل" کی۔

 آج اگر پاکستان دنیا کے چند بہترین کروز میزائل بنانے والے ممالک میں شامل ہے، تو اس کی بنیاد اسی لمحے میں رکھی گئی تھی ۔
دوسری بار جب امریکہ نے پاکستان کے سارے ریڈار سسٹم کو جام کرکے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا جسکا دوران آپریشن پاکستان کو پتہ بھی نہیں چل سکا اور آپریشن کے بعد امریکہ نے پاکستان کو اس کی مکمل تفصیلات سے آگاہ کیا۔

لیکن دوران آپریشن قدرت ایک بار پھر پاکستان پر مہربان ہوئی امریکہ کا ایک جدید ترین ہیلی کاپٹر دیوار سے ٹکرا کر کریش ہوگیا اور امریکی فوجی اسے بم سے اڑا کر چلے گئے لیکن پاکستان کے سائینس دان اس تباہ شدہ ہیلی کاپٹرکے ملبے سے اس جدید ٹیکنالوجی کی کھوج لگانےمیں کامیاب گئے اور ملنے والے کچھ شواہد نے پاکستان اور چائینہ کو ملکر جدید ترین ریڈار جامع کرنے کی صلاحیت بنانے کے قابل بنا دیا جسکی بدولت پاکستان نے آج دنیا کی سب سے جدید ٹیکنالوجی کی لڑائی میں ایسی عظیم فتح حاصل کی کہ دنیا کے ہوش اڑ گئے۔

پاکستان پر حملہ کرنے والے انڈیا نے دنیا کے 900 سو کے قریب جدید ترین اسرائیلی ساختہ ڈروان سے پاکستان پر یلغار کردی جو پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہیک کر لئے گئے اور انڈین فوج کے کنٹرول سے نکل گئے اور آسمان میں کٹی پتنگ کی طرح آزاد اڑنے لگے جس کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے اور 6 گھنٹے کی بیٹری ختم ہوتے ہی زندہ سلامت پاکستان کی زمین پر جگہ جگہ گرنے لگے بعض ڈروان اڑتے اڑتے افغانستان اور ایران بھی پہنچ گئے تھے۔

 انڈیا کا مقصد تھا پاکستان ان ڈروان کو گرانے کے لئے میزائل استعمال کرے گا جس سے پاکستان کے میزائل سسٹم کہاں کہاں موجود ہے اسکا پتہ چل جائیگا لیکن پاکستان نے اس جدید ٹینکنالوجی کی بدولت ان کے اس حربے کو بھی ناکام کیا تمام ڈروان کو بھی بحفاظت اتار لیا گیا اور جواب میں اپنے ڈروان انڈیا پر چھوڑ دئیے انڈیا نے میزائلوں کی بارش کرکے وہ گرائے جس سے پاکستان کو اسکے تمام میزائل سسٹم کے اڈوں کا پتہ چل گیا جسکو بعد میں پاکستان نے میزائل حملہ اور طیاروں کے زریعے بمباری کرکے تباہ کردیا اب جب کہ اسرائیلی ساختہ ہارپون  جدید ڈرونز    پاکستانی حدود میں اتارے گئے ہیں۔

 تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ ان شاء اللہ، ان سے حاصل ہونے والا تکنیکی علم ایک اور دفاعی سنگ میل ثابت ہو گا۔

٭٭٭٭٭٭٭




بدھ، 16 اپریل، 2025

لوٹو ، لوٹو دنیا کو لوٹو ۔امریکی قزاق


٭امریکی تاریخ کی سب سے بڑی مالی چالاکی کل کے دن دن دہاڑے ہوئی جیسے کوئی عام بازار ہو سب کچھ میڈیا اور لوگوں کے سامنے اور کرنے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود ملک کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ 
امریکہ جیسا ملک کیسے ایک منڈی بن گیا۔ بازار ہل گئے۔امریکی اسٹاک مارکیٹ سے قریب دس کھرب ڈالر اُڑ گئے ۔
 چین کے ساتھ تجارتی جنگ چلی ۔ٹیکس بڑھتے بڑھتے چینی مال پر 125 فیصد تک پہنچ گئےلوگوں نے خوف سے اپنے حصص بیچنے شروع کیے ۔
سٹاک  مارکیٹ  کا حال ایسا ہوا جیسے کوئی پرانی مالیاتی تباہی لوٹ آئی ہو! جب سب کچھ نیچے گر چکا تھا ۔ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ایپ پر لوگوں کو مشورہ دیا خرید ، خرید لو ! یہ موقع نہیں ملے گا -
 نو اپریل کی صبح ۔ ساڑھے نو بجے - ٹرمپ نے ٹویٹ کیا : "یہ اچھا وقت ہے DJT خریدنے کے لیے" یہ ٹرمپ کی اپنی کمپنی ہے یعنی وہ اپنی کمپنی کے شیئرز خریدنے کا اشارہ دے رہا تھا صرف چار گھنٹے بعد - ٹرمپ نے اچانک اعلان کیا کہ جن 90 ممالک پر ٹیکس لگایا تھا ۔ وہ اب 90 دن کے لیے مؤخر کیے جا رہے ہیں ۔
 سٹاک مارکیٹ میں بزنس  کرنے والے ، چڑیوں کی طرح ہوتے ہیں ذرا سا کھٹکا ہوا ، پھر سے اُڑ گئے ۔ خطرہ ٹلا، دانے پھینکے گئے تو ایک ایک کرکے آنا شروع ہوگئے اورمیدان بھرنے لگا ۔
 کرپٹو کرنسی  کی کمپنی ٹرمپ 18 جنوری  کو آسمانی بلندیوں کو چھو رہی تھی ۔ 100 ڈالر میں ٹرمپ کوئن خریدنے والوں کا سرمایہ 120 ڈالر تک پہنچ چکا تھا ٹرمپ کوائین رینک میں 129 سے 47 پر آگیا ۔ ٹرمپ نے حلف اٹھایا ۔کوائین 129 ڈالر سے 85 ڈالر پر آگئی اور اب 8 ڈالر پر رینگ 53 ہے۔ ٹرمپ نے حلف سے پہلے اربوں ڈالر کما لئے سٹاک مارکیٹ میں، ٹرمپ کی کمپنی DJT کے شیئرز ایک دن میں 22 فیصد بڑھ گئے ٹرمپ کی ذاتی دولت میں صرف ایک گھنٹے میں چار سو پندرہ ملین ڈالر کا اضافہ ہوا یہ سب ایک منصوبہ تھا کچھ لوگوں نے بڑی مقدار میں گرتے ہوئے سودے خریدے ۔ کیوں کہ اِن کو ٹپ مل چکی تھی خریدوخریدو جلدی خریدو ۔ 
ٹرمپ کے ارب پتی تاجروں اور سیاستدانوں نے جھولیاں پھیلا دیں اور شیئر اُن کی جھولیوں میں گرنا شروع ہو گئے۔ اور نقصان کس کا ہوا؟
 عام خریداروں کا ، جنہوں نے ٹرمپ پر بھروسا کیا، اس امید میں کہ وہ صدر بنتے ہیں امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائے گا اسٹاک مارکیٹ میں "پمپ اینڈ ڈمپ" کی پالیسی ، یعنی پہلے قیمت گراؤ۔ ستا خریدو-پھر اچانک قیمتیں چڑھاؤ -اور خوب کمائی کرو جبکہ باقی سب کو ڈوبا چھوڑ دو- کھربوں ڈالر، عام لوگوں سے نکل کر امیروں کی جیب میں چلے جاتے ہیں -
 یہ سب ایک حکمت عملی تھی ۔ کہ جن لوگوں نے ڈونیشن دے کر ٹرومپ کے ووٹ بنائے ۔ ٹرمپ اُنہیں ضرور فائدہ دے گا ۔ دنیا سمجھرہی تھی کہ ٹرمپ صرف دباؤ ڈال کرامریکہ کی معاشی پالیسیوں کو بہتر بنا رہا تھا تاکہ دوسرے ممالک سے بہتر معاہدے ہوں ۔ لیکن ڈالر سمیٹنے کا فیصلہ کئی دن پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بس اعلان کا وقت چنا گیا-
 سب سے بڑا دھماکہ وہ ویڈیو تھی جو وائٹ ہاؤس کے اندر سے لیک ہوئی جس میں ٹرمپ ہنستے ہوئے دو لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے-
  یہ دو ارب ڈالر کما گیا - اور یہ نو سو ملین - برا تو نہیں نا؟  ان میں سے ایک تھا چارلس شواب ارب پتی سرمایہ کاراور ٹرمپ کا قریبی اس کے بعد کانگریس میں ہنگامہ ۔ سینیٹرز نے ٹرمپ کو بدعنوان اور دھوکے باز کہا - اور مطالبہ کیا کہ اس پر کارروائی ہو لیکن وائٹ ہاؤس نے کہا ، 
 صدر کو حق ہے کہ وہ مارکیٹ کو تسلی دے
  اور اب وال اسٹریٹ پر کمپنیاںٹرمپ کی ٹویٹس کو پڑھ کراپنی الگوردمز بنا رہی ہیں یعنی صدر خود اب مارکیٹ کا اشارہ بن چکا ہے۔
 اب سوچنے کی بات یہ ہےکیا ایک ملک اتنی آسانی سےکسی صدر کو اجازت دے سکتا ہےکہ وہ بازار کو ہلا دے اور خود ارب پتی بن جائے؟ 
یہ صرف اسکینڈل نہیںیہ ایک ایسا زلزلہ ہےجس نے عوام کی جمع پونجی چھین لیاور دولت کا رخ امیروں کی طرف موڑ دیا ایک انگلی کی حرکت سےاور وائٹ ہاؤس کے ایک اشارے سے ۔
 لوٹو ، لوٹو دنیا کو لوٹو 
٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 11 اپریل، 2025

ہیلن کیلر

 ٭مارچ 1924 میں، ہیلن کیلر نے ایک خط لکھا جس نے آج بھی دنیا میں تہلکہ مچا یا ہوا ہے۔ بچپن سے ہی بہری اور نابینا، کیلر نے اپنی زندگی اس بات کی  وضاحت میں گزاری تھی کہ کیا ممکن تھا۔

 لیکن ایک شام، اپنے خاندان کے ساتھ ایک ریڈیو کے ارد گرد جمع ہوئی، وہ بالکل غیر متوقع طور  پر نیویارک کی میوزیکل کمپنی  سمفنی ایک تجربہ کرنے والی تھی۔اور بیتھووین کی نویں سمفنی   لائیو پرفارم کر رہی تھی۔   

کمرے میں موجود کسی نے مشورہ دیا کہ وہ وائبریشن  محسوس کرنے کے لیے اپنا ہاتھ ریڈیو ریسیور پر رکھے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے وجہ سے انکار کیا اور خوبصورتی کی نئی تعریف کی۔ اپنی انگلیوں کو ریسیور کے ڈایافرام پر ہلکے سے آرام کرنے کے ساتھ، کیلر نے وائبریشن سے زیادہ محسوس کیا۔ اس نے اس تجربے کو "میری روح کے خاموش ساحلوں پر مخالف  آواز کا ایک پرشور  سمندر" کا فہم بتایا۔ تھرتھراہٹ اور تال کے نمونوں کے ذریعے، اس نے کارنیٹ کی نبض، ڈھول کیدھم دھم اور وایلن کے ریشمی بہاؤ کو محسوس کیا۔ جب یہ کورس بیتھوون کے فاتح "اوڈ ٹو جوائے" میں بڑھ گیا، تو اس نے کہا کہ یہ سننے کے مترادف ہے جیسے "ایک ہم آہنگ سیلاب میں فرشتوں کی آوازیں آتی ہیں۔" وہ سن نہیں رہی تھی- جس طرح سے ہم اسے اپنے کانوں  سے  سمجھتے ہیں۔   اس نے موسیقی کو صرف اپنی انگلیوں پر نہیں بلکہ اپنے دل میں محسوس کیا۔ اس نے خوشی، اداسی، خاموشی، اور طاقت کو پہچان لیا   ۔  اس کے باجود کہ ہیلن کے کانوں  کے کانوں تک ایک بھی نوٹ نہیں پہنچا۔ اور اپنے خط کے سب سے پُرجوش اقتباسات میں سے ایک میں، ہیلن کو  یہ یاد آیا کہ بیتھوون بھی بہرا تھا۔

 اس نے کہا، "میں اس کی بجھتی ہوئی روح کی طاقت پر حیران ہوں جس کے ذریعے اس نے اپنے درد سے دوسروں کے لیے ایسی خوشی پیدا کی۔ ایک صدی بعد، وہی خوشی زندہ رہتی ہے — کیونکہ اس نے ثابت کیا کہ فن کی کوئی حد نہیں ہے، اور انسانی روح خوبصورتی کو ان طریقوں سے محسوس کر سکتی ہے جس کی الفاظ کبھی بھی پوری طرح وضاحت نہیں کر سکتے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 



ہفتہ، 22 مارچ، 2025

دل کی گلیاں اور مٹھاس کی آوارگی

 لپڈ پروفائل کیا ہے؟

 ایک مشہور ڈاکٹر نے بہت اچھے طریقے سے لپڈ پروفائل کی وضاحت کی اور منفرد انداز میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک خوبصورت کہانی شیئر کی۔ تصور کریں کہ ہمارا جسم ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر میں سب سے بڑا مسئلہ کولیسٹرول ہے۔ اس کے کچھ ساتھی بھی ہیں۔

٭۔ ٹرائگلیسرائیڈ۔جرم میں اس کا اہم ساتھی ہے - ان کا کام سڑکوں پر گھومنا، افراتفری پھیلانا اور سڑکیں بلاک کرنا ہے۔

 دل اس شہر کا مرکز ہے۔ تمام راستے دل کی طرف جاتے ہیں۔اور دل سے نکلتے ہیں ۔  جب یہ پریشانیاں بڑھنے لگیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ وہ دل کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 لیکن ہمارے باڈی ٹاؤن میں بھی ایک پولیس فورس تعینات ہے  اچھا پولیس والا, ایچ ڈی ایل  ان بدمعاشوں کو پکڑ کر جیل (جگر) میں ڈال دیتا ہے۔ پھر جگر انہیں ، پیشاب کے راستے جسم سے نکال دیتا ہے۔

 لیکن ایک بُرا پولیس والا بھی ہےجو اقتدار کا بھوکا ہے یعنی  ایل ڈی ایل۔ ان شرپسندوں کو جیل سے باہر لے جاتا ہے اور انہیں واپس سڑکوں پر آنے دیتا ہے۔ 

جب اچھا پولیس اہلکار ایچ ڈی ایل نیچے چلا جاتا ہے، تو پورا شہر تباہ ہو جاتا ہے۔ ایسے شہر میں کون رہنا چاہے گا؟ 

کیا آپ ان شرپسندوں کو کم کرکے اچھے پولیس والوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں؟

  چلنا شروع کریں ۔ 

 ہر قدم کے ساتھ ایچ ڈی ایل بڑھے گا، اور کولیسٹرول، ٹرائگلیسرائیڈ اور ایل ڈی ایل جیسے شرارتیں کم ہوں گی۔ آپ کا جسم (شہر) دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ 

آپ کا دل - شہر کا مرکز - شرپسندوں کی رکاوٹ (ہارٹ بلاک) سے محفوظ رہے گا۔ اور جب دل صحت مند ہوگا تو آپ بھی صحت مند رہیں گے۔ لہذا جب بھی آپ کو موقع ملے – چلنا شروع کریں!۔

 سلامت رہیں... اور آپ کی اچھی صحت کی خواہش کرتے ہیں۔اپنے لپڈ پروفائل کو پوری کوشش کر کے باڈر لائن سے نیچے رکھیں ۔سخت احتیاطی  تدابیر کریں ۔


یہ مضمون آپ کو   ایچ ڈی ایل (اچھے کولیسٹرول)  کو بڑھانے اور ایل ڈی ایل (خراب کولیسٹرول) کو کم کرنے کا بہترین طریقہ بتاتا ہے یعنی پیدل چلنا۔ ہر قدم      ایچ ڈی ایل (اچھے کولیسٹرول)کو بڑھاتا ہے۔ تو - چلو، آگے بڑھو اور آگے بڑھتے رہو۔

 ان چیزوں کو کم کریں:-  . نمک . شکر ، صاف کیا ہوا آٹا ،دودھ کی مصنوعات،پروسیسرڈ فوڈز ۔
یہ چیزیں روزانہ کھائیں:-   سبزیاں،دالیں، پھلیاں،گری دار میوے ،ٹھنڈے دبائے ہوئے تیل ، پھل۔

۔ تین چیزیں بھولنے کی کوشش کریں:آپ کی عمر ،آپ کا ماضی،آپ کی شکایات چار

 اہم چیزیں اختیار کریں: آپ کا خاندان ،آپ کے دوست ،مثبت سوچ ،صاف ستھرا اور  بہترین  گھر۔ 

تین بنیادی چیزیں جن کو اپنانا ہے:  ہمیشہ مسکراتے رہیں ،اپنی رفتار سے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں کریں۔ ، اپنا وزن چیک کریں اور کنٹرول کریں۔ 

طرز زندگی کی چھ ضروری عادات جو آپ کو اپنانی چاہئیں:۔

٭۔ پانی پینے کے لیے پیاسے ہونے تک انتظار نہ کریں۔٭۔  اس وقت تک انتظار نہ کریں جب تک کہ آپ آرام کرنے کے لیے تھک نہ جائیں۔  

٭۔طبی ٹیسٹ کے لیے اپنے بیمار ہونے تک انتظار نہ کریں۔  

 ٭۔معجزات کا انتظار نہ کریں، خدا پر بھروسہ رکھیں۔  

٭۔کبھی بھی اپنے آپ پر اعتماد نہ کھوئیں ۔

٭۔ مثبت رہیں اور ہمیشہ ایک بہتر کل کی امید رکھیں۔ 

اگر آپ کے اس عمر گروپ (45-80 سال) کے دوست ہیں تو براہ کرم انہیں بھیجیں۔

 اسے ان تمام اچھے بزرگ شہریوں کو بھیجیں جنہیں آپ جانتے ہیں۔ 

خدا آپ کو بہت برکت دے۔ 🙏 🌹🌹🌹🙏 

٭٭٭٭٭٭٭ 

بدھ، 5 مارچ، 2025

امریکی عوام کو بینکوں کی چنگل سے 1933 میں آزادی

  ٭1933 میں امریکہ کے صدر فرینکلن روزویلٹ نے ملک کے تمام بینک بند کر دیے۔ پورے ملک میں ایک ہفتے کے لیے کوئی بینک نہیں کھلا۔ لوگوں پر اپنی جمع پونجی کھونے کا خوف طاری تھا۔ پورا مالیاتی نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ لیکن اسی بحران کے بیچ ایک ایسا قانون وجود میں آیا جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا کے مالیاتی نظام کو سنبھالا۔ یہ تھا "گلاس-اسٹیگل ایکٹ"۔  سینیٹرکارٹر گلاس اورنمائیندہ  ہنری بی اسٹیگل اس کے"کو سپانسر"تھے۔   

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ حالات کیسے بنے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکہ تیزی سے دنیا کی اقتصادی طاقت بن چکا تھا۔ کیوں کہ جنگ عظیم اوّ ل کی کامیابی کے بعد امریکی عوام کا اعتماد  زیادہ  ہو  چکا تھا۔ فیڈرل ریزرو کے قیام نے مالی نظام کو بہت مستحکم بنا دیا تھا۔ ایسے میں 1920 کی دہائی میں بینکوں نے عام لوگوں کے پیسے لے کر اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیے۔ وال اسٹریٹ پر نفع کی لالچ نے بینکرز کو جنونی بنا دیا تھا۔ وہی پیسہ جو کسان، مزدور اور چھوٹے کاروباری اپنے کھاتوں میں رکھتے تھے، بینکرز نے اسی سے اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیلنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب 1929 میں اسٹاک مارکیٹ گری تو بینکوں کے پاس عوام کے پیسے واپس کرنے کے لیے کچھ نہ بچا۔ لوگ اپنے پیسے لینے دوڑے، بینک بند ہونے لگے، اور تیس کی دہائی میں نو ہزار سے زیادہ بینک دیوالیہ ہو گئے۔
 ٭1929 کے مالیاتی بحران میں بینکرز نے ایک کارٹیل بنا کر منظم فراڈ کیا۔ بحران سے پہلے والے سالوں میں وال اسٹریٹ کے بڑے بینکرز جیسے جے پی مورگن، نیشنل سٹی بینک اور گولڈمین سیکس نے مل کر پول آپریشنز   چلائے، جس میں وہ کسی کمپنی کے شیئرز کی مصنوعی طور پر قیمت بڑھاتے تھے۔ یہ کام وہ خفیہ اتحاد بنا کر کرتے تھے، جہاں وہ ایک مخصوص ٹریڈر کے ذریعے شیئرز کی خریدوفروخت اپنے ہی گروپ کے مختلف اکاؤنٹس میں کرتے، جس سے مارکیٹ میں مصنوعی طور پر ڈیمانڈ کا تاثر پیدا ہوتا۔
اس بحران کے تحقیقاتی کمیشن کا نام وکیل فرڈیننڈ  پیکورا  کے نام پر "پیکورا کمیشن" تھا۔ اس کمیشن کی سماعتوں کے دوران جے پی مورگن کے خلاف جو خطرناک انکشافات سامنے آئے، ان میں یہ الزام بھی تھا کہ مورگن اور اس کے پارٹنرز نے 1929 سے 1931 کے درمیان اپنی پسندیدہ کلائنٹ لسٹ کو شیئرز کی خریداری کی خفیہ معلومات فراہم کیں، جبکہ عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ کمیشن کے سامنے یہ بھی انکشاف ہوا کہ مورگن کی کمپنی نے اپنے اعلیٰ عہدیداروں اور دوستوں کو خصوصی رعایتی شرح پر شیئرز فروخت کیے، جبکہ عام سرمایہ کاروں کو مکمل قیمت ادا کرنی پڑی۔
اس دوران یہ بینکرز اپنے زیراثر میڈیا کو ہدایت دیتے کہ وہ مثبت خبریں شائع کریں، جس سے چھوٹے سرمایہ کار قرض لے کر ان شیئرز میں پیسہ لگانے لگتے۔ جب شیئرز کی قیمتیں عروج پر پہنچ جاتیں، تو یہی بینکار خاموشی سے اپنے شیئر بیچ کر منافع کما لیتے، جبکہ چھوٹے انوسٹر اور عام لوگ دیوالیہ ہو کر قرضوں میں جکڑے جاتے۔
 پیکورا کمیشن  میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ مورگن اور اس کے ساتھی بینکاروں نے ٹیکس چوری کے لیے آف شور کمپنیاں قائم کی ہوئی تھیں، اور انہوں نے 1930 اور 1931 میں بھی، جب ملک سخت کساد بازاری کا شکار تھا، اپنے لیے کروڑوں ڈالر کے بونس اور ڈویڈنڈ نکالے۔ سینیٹر پیکورا نے ثبوت پیش کیے کہ مورگن کی کمپنی نے اپنے منتخب کردہ صارفین کو شیئرز کی ایسی پیشکشیں کیں جو عام عوام کے لیے دستیاب نہیں تھیں۔
کریش کے بعد فیڈرل ریزرو، جو خود انہی بینکاروں کے زیر اثر ادارہ تھا، نے سخت مالیاتی پالیسی اپنا کر صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا۔ فیڈ(FED) نے سود کی شرح بڑھا دی اور کرنسی کی فراہمی کم کر دی، جس سے بینکوں نے قرضے واپس مانگنا شروع کر دیے اور ہزاروں بینک دیوالیہ ہو گئے۔ اس طرح بینکرز نے نہ صرف بحران سے پہلے بڑا منافع کمایا، بلکہ بحران کے بعد سستی ہوئی جائیدادیں اور شیئرز خرید کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کیا، جبکہ عام عوام کو تباہی کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب امریکی عوام کا مالیاتی نظام پر سے مکمل اعتبار اٹھ چکا تھا۔ لاکھوں لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہو چکے تھے۔ روزویلٹ نے جب مارچ 1933 میں صدارت سنبھالی تو اس کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ عوام کا اعتماد کیسے بحال کیا جائے۔ اس کا پہلا قدم تھا "بینک ہالیڈے" یعنی ملک بھر کے تمام بینکوں کی عارضی بندش۔ مقصد یہ تھا کہ حکومت ہر بینک کا حساب کتاب دیکھے، کمزور بینکوں کو بند کرے، اور مضبوط بینکوں کو دوبارہ کھولے۔

لیکن اصل انقلاب اس کے بعد آیا۔ 16 جون 1933 کو گلاس-اسٹیگل ایکٹ پاس ہوا۔ اس قانون کے دو بڑے حصے تھے جنہوں نے امریکہ کی معیشت کو ایک نئی بنیاد دی۔ پہلا حصہ یہ تھا کہ بینکوں کے دو حصے کر دیے گئے۔ ایک وہ جو عوام سے جمع پیسہ لیتے اور قرض دیتے، اور دوسرا وہ جو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے۔ اب کوئی بینک دونوں کام ایک ساتھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ تقسیمِ اس لیے کی گئی تاکہ عوام کے پیسے کو سٹے بازی میں نہ لگایا جا سکے۔
دوسرا بڑا قدم تھا  فیڈرل ڈیپازٹ انشورنس کارپوریشن کا قیام۔ اس ادارے نے عام لوگوں کے بینک کھاتوں کو حکومت کی ضمانت دے دی۔ اسکا مطلب تھا کہ اگر کوئی بینک بند ہو بھی جائے تو عوام کے پیسے ایک حد تک محفوظ رہیں گے۔ اس نے عوام کے دلوں میں دوبارہ اعتماد پیدا کیا۔
ان دونوں اقدامات نے معیشت میں نئی روح پھونک دی۔ چند مہینوں میں بینکوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو گیا۔ لوگ دوبارہ اپنے پیسے بینکوں میں جمع کرانے لگے۔ کاروباروں کو قرض ملنے لگا، اور معیشت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی۔
یہ قانون صرف مالی اصلاح نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک پیغام تھا۔ حکومت نے واضح کر دیا کہ اب بینکرز کو عوامی فلاح پر فوقیت نہیں دی جائے گی۔ وال اسٹریٹ کے بڑے بینکوں کو الگ کر دیا گیا، اور ان کے منافع کے کھیل پر حد لگا دی گئی۔ جے پی مورگن جیسے بڑے اداروں کو اپنی کمرشل اور انوسٹمنٹ بینکنگ الگ الگ کرنی پڑیں۔ امریکہ کی تاریخ میں حکومت نے پہلی بار کھل کر مالیاتی اشرافیہ کے خلاف عوام کے مفاد میں قدم اٹھایا تھا۔ 
 ٭1930 کی دہائی کے اس بحران نے امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو ایک بنیادی سبق دیا کہ مالیاتی نظام کو بینکرز کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے تباہی آتی ہے۔ لہٰذا ریاست کا ریگولیٹری کردار بیحد ضروری ہے۔ گلاس-اسٹیگل ایکٹ نے یہی کردار حکومت کے ہاتھ میں دیا۔ اب مرکزی بینک، وفاقی ادارے اور کانگریس سب کے پاس اختیار تھا کہ وہ بینکوں کی نگرانی کریں، غلطیاں روکیں اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں۔
اس قانون کے اثرات حیران کن تھے۔ 1934 کے بعد امریکہ میں بینکوں کا دیوالیہ ہونا تقریباً ختم ہو گیا۔ اگلی کئی دہائیوں تک امریکی مالیاتی نظام دنیا کا سب سے مستحکم نظام بن گیا۔ یہی استحکام آگے چل کر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی عالمی قیادت کی بنیاد بنا۔ بریٹن ووڈز کا نظام، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سب اسی مضبوط بینکاری ڈھانچے پر کھڑے ہوئے۔
امریکہ نے اپنی مضبوط مالی ساکھ کے بل پر دنیا کو ڈالر میں باندھ دیا۔ اب سونا نہیں بلکہ امریکی بینکوں پر اعتماد عالمی تجارت کا محور بن گیا۔ یورپ، جاپان، اور بعد میں پوری مغربی دنیا نے امریکی انداز کے بینکنگ اصول اپنائے۔ اور یوں ایک مغربی مالیاتی نظام وجود میں آیا جس کی بنیاد سینیٹر گلاس اور سینیٹر اسٹیگل نے رکھی تھی۔
بینکاروں کو گلاس-اسٹیگل ایکٹ کبھی پسند نہیں آیا، اور انہوں نے فوری طور پر اس کے توڑ نکالنے شروع کر دیے۔ انہوں نے انوسٹمنٹ بینکنگ اور کمرشل بینکنگ کے درمیان قانونی دیواریں گرانے کے لیے نئی قسم کی مالیاتی ایجادات کیں۔ شیل کمپنیاں قائم کی گئیں، آف بیلنس شیٹ ٹرانزیکشنز کا سہارا لیا، اور بینکوں نے خود کو "ہولڈنگ کمپنیز" کے طور پر ریگولیٹ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے کانگریس میں زبردست لابنگ کی، جہاں یہ دلائل دیے کہ ان پابندیاں کی وجہ سے امریکی بینک عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کی مسلسل کوششوں سے آخرکار 1999 میں گلاس-اسٹیگل ایکٹ کو ختم کر دیا گیا۔ جس نے بینکوں کو وہ تمام آزادیاں واپس دلائیں جو انہیں 1929 کے بحران سے پہلے حاصل تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی مالیاتی نظام کا ڈیزائن ہی ایسا تھا کہ اس کا فائدہ آخرکار امیر ترین طبقے کو ہی پہنچنا تھا۔ بینکرز نے تو پہلے ہی سب کچھ لوٹ لیا تھا۔ بحران کے بعد ان کی طاقت میں اور اضافہ ہوا۔ جہاں عام عوام نے اپنی جمع پونجی اور روزگار کھوئے، وہیں بینکاروں نے سستے داموں جائیدادیں اور شیئرز خرید کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کیا۔
گلاس-اسٹیگل ایکٹ کے بعد عوام کے ساتھ کھلم کھلا فراڈ کا سلسلہ بند ہوا، جس سے عام امریکیوں کو بے پناہ استحکام ملا۔ لوگوں نے محنت کر کے پیسے کمائے، معیار زندگی بہتر ہوا، اور امریکہ کئی دہائیوں تک مسلسل خوشحالی کا دور دیکھنے میں کامیاب رہا۔ درمیانی طبقے کو پہلی بار حقیقی مالیاتی تحفظ ملا، چھوٹے بینک بھی محفوظ ہو گئے، اور ملک نے معاشی عروج دیکھا۔ یہ استحکام تقریباً ستر سال تک قائم رہا، گلاس-اسٹیگل ایکٹ کے خاتمے کے بعد بینکرز نے وہی فراڈ مختلف فنانشل پراڈکٹس بنا کر شروع کیا اور نتیجہ وہی نکلا جو 1929 کے بحران میں نکلا تھا۔ 2008 کی کساد بازاری کا 1929 کی کساد بازاری سے موازنہ کیا جائے تو آپ کو ایک جیسی تصویریں نظر آتی ہیں۔ 1929 کی تصویریں بلیک اینڈ وائٹ تھیں جبکہ 2008 میں رنگین ہیں اور اتنی پراثر کہ کوئی ایکٹ معیشت کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔
آج پھر امریکہ کو اسی سوال کا سامنا ہے جو روزویلٹ کے سامنے تھا۔ ریاست کس کے مفادات کی حفاظت کرے گی، عوام کے یا بینکرز کے؟ بدقسمتی سے روزویلٹ کی جگہ اسوقت بینکرز کے نمائیندے حکومت میں ہیں۔ سینیٹر گلاس ،   مددگاراسٹیگل  اور پیکورا جیسے وکیل بننے بھی بند ہو چکے ہیں۔٭٭٭٭٭


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔