سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر عربوں نے دوسری جنگ عظیم کی اتحادی فوجیوں کے ساتھ مل کر شہنشاہ جارج پنجم کی سر براہی میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ یروشلم میں کنگ سلومن کا تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی دیوار گریہ سمیت ،یہودیوں کی ملکیت بن گیا ۔جس کے لئے ایک کہانی تخلیق کی گئی ۔ درد اور دکھوں میں لپٹی کہانی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ 10 جون 1916 کی بات ہے۔برٹش مہم جو فوج کی قیادت میں جنرل آرچی بالڈ مرے اورشریف مکہ شاہ حسین ابن علی کے درمیان ، عثمانیہ ترکوںکو خطہ عرب سے نکالنے کا ایک معاہد ہوا ۔ جس پر ۔بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔
اُس بغاوت کو ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا نام دیا گیا۔ ثَوْرٌعربی میں میں بھینسے کو کہتے ہیں اورثَوْرَة بغاوت کو ۔
باغی بھینسے 1919 میں حسین ابن علی شاہ اردن کی قیادت میں اپنا ترنگا پرچم لہراتے دمشق پر قابض ہوگئے۔
برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری میک موہن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی،
ہنری میک موہن معلوم ہے کہ کس رائل انڈین انفنٹری رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر تھا؟
پنجاب فرنٹئیر فورس (1843) ۔میں 1885 میں جائن کیا اور فرسٹ سکھ رجمنٹ جو 1901 میں پنجاب کے سکھوں اور پٹھانوں سے مل کر بنائی گئی تھی میں پوسٹ ہوا ۔پھر وہاں سے پنجاب سول سروس کمیشن پنجاب میں ٹرانسفر ہوا ۔میجر ہنری میک موہن ،بہترین اردو ، پنجابی اور پشتو جانتا تھا پھر اِس نے عربی میں مہارت حاصل کی۔
جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیارکرنا تھا۔ کتنی عجب بات ہے کہ بغاوت مسلمان کر رہے تھے لیکن اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارت کار تیار کر رہے تھے۔
یہ پرچم ایک برطانوی انٹیلیجنس آ فیسر کرنل مارک سائیکس (سفارت کار) نے تیار کیا۔ مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔
مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا اس میں چار رنگ شامل تھے۔ اس میں سیاہ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ رخ تھا۔
سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی اور سبز رکنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ شاہ حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چناگیا جو جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی۔
پرچم بھی تیار ہو گیا اور بغاوت بھی شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا۔ عثمانی افواج لڑیں اور یروشلم کے اطراف میں شہید ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق 25 ہزار تھی۔ لیکن یہ افواج بے بس ہو گئیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں مگر ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔
پہلی وجہ عرب بغاوت تھی۔ ایک طرف برطانوی اور اس کی اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں۔ دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔سلطنت عثمانیہ باہر کے دشمنوں سے تو شاید نمٹ لیتی لیکن جب اپنے ہی اپنوں کے خلاف ہو گئے تو سلطنت عثمانیہ بے بس ہو گئی۔
دوسری وجہ ہندوستان سے گئے فوجی تھے جو اتنی وافر تعداد میں تھے کہ اس نے اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ فیلڈ مارشل کلاڈ اچنلک نے بعد میں اعتراف بھی کیا کہ ہندوستان کے فوجی ہمیں میسر نہ ہوتے تو ہم دونوں جنگ عظیم ہار گئے ہوتے۔ جب یروشلم میں مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی ۔تو پنجاب کے پیروں کی گدیاں سرکار انگلشیہ کی فتح کا جشن منا رہی تھیں۔
یہاں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے صرف ہندو اور سکھ فوجی تھے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ اس کام میں مسلمان فوجی بھی پیش پیش تھے کیونکہ ہندوستان میں یہ فتوی آ چکا تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت پر ترکوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق تو شریف مکہ کا ہے۔
آج شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ جب القدس مسلمانوں سے چھن گیا اور سلطنت عثمانیہ کو یہاں شکست ہو گئی تو برطانوی فوج کا جو پہلا دستہ شہر میں داخل ہوا وہ ”نعرہ تکبیر“ بلند کرتے ہوے داخل ہوا۔
11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بے ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے عرب تھے اور ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم،آج بھی مصر، اردن، سوڈان، کویت، امارات، شام، لیبیا اور یمن کا قومی پرچم ہے۔فلسطین کا پرچم بھی اسی پرچم کی ایک شکل ہے۔
اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے القدس مسلمانوں سے چھین کر برطانوی فوج کے حولے کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے دشمن کو یروشلم میں گھسنے کا موقع دیا اور آج اسی پرچم تلے مسلمان صہیونیوں کے مظالم کے خلاف بے بسی سے سراپا احتجاج ہیں۔
بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ شریف مکہ اردن کے شاہ حسین ابن علی نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو خود کو خلیفہ قرار دے ڈالا۔ پورے چاؤ سے’الثورۃ العربیہ الکبری‘ چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔
ان کا اقتدار بعد میں سمٹ کر اردن تک رہ گیا گیا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بادشاہ سلامت ایک دن مسجد اقصی میں داخل ہوئے اور کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ کچھ عرصہ مسجد اقصی ان کے زیر انتظام رہی بعد میں اسرائیل نے یروشلم شہر پر بھی قبضہ کر لیا اورب اب صرف کاغذی طور پر مسجد اقصی اردن کے شاہی خاندان کے زیر انتظام ہے۔
غلطیاں یقینا سلطنت عثمانیہ سے بھی ہوئی ہوں گی، تبھی تو بغاوت ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی، اسرائیل جیسی سفاک تو نہ تھی۔القدس کے مسلمانوں پر یوں ظلم تو نہ کرتی تھی۔
اسی بغاوت کے پرچم تلے خود مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کو اسی یروشلم میں شکست دی اور تب سے اب تک انہیں سُکھ کا ایک دن نہیں ملا۔ وہی پرچم اٹھا کر اب وہ اپنے معصوم بچوں کے لاشوں پر سوگوار کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
Britain in Palestine 1917-1948
https://www.youtube.com/watch?v=hOJqLTc6RkU
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں