Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 20 جولائی، 2011

شیبانی خان کے ہاتھوں ذوالفقار مرزا کے آباء کو جوتے پڑنے کے بعد بیان

 29 جون 1948ء کو چوہدری قادربخش مجسٹریٹ کی عدالت میں ایک عجیب و غریب مقدمہ پیش ہوا اس مقدمے میں مہاجر کیمپ میں مقیم میاں بیوی پر سرکاری خیمے کا کچھ کپڑا کاٹنے کا الزام تھا۔ پولیس کی حراست میں اس جوڑے نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس کیمپ میں پچھلے پانچ ماہ سے مقیم ہیں ہمارے جسموں پر پہنے ہوئے کپڑے پرانے اور بوسیدہ ہوکر اس بری طرح پھٹ چکے تھے جس سے ہمارے جسم جگہ جگہ سے بری طرح ننگے ہو رہے تھے اور ہم دن کے وقت کیمپ سے پانی اور کھانا لینے کیلئے باہر بھی نہیں نکل سکتے تھے جب دو دن کی بھوک اور پیاس سے مرنے لگے تو مجبوراً اپنے خیمے کا ٹکڑا پھاڑ لیا جسے ہم باری باری اپنے جسموں کے گرد لپیٹ کر راشن اور پانی کیلئے باہر لائن میں لگتے ہیں اس وقت بھی ہم نے اپنے جسموں کو ان ٹکڑوں سے ڈھانپا ہوا ہے ساتھ ہی انہوں نے اپنے جسموں کے گرد اوڑھی ہوئی خیمے کے کپڑے کی بنی ہوئی وہ چادریں اٹھا دیں جس سے جگہ جگہ سے پھٹے اور گھسے ہوئے لباس سے ان کے ننگے جسم بری طرح جھانک رہے تھے۔ یہ وہی مہاجر تھے جنہوں نے پاکستان کیلئے ووٹ دیا، اپنا گھر دیا، اپنے ماں باپ بہن بھائی اور بچے قتل کروائے، اپنے کھیت دیئے، کاروبار دیا، دکانیں دیں سب سے بڑھ کر اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑیں جن کا آج کوئی نام ونشان نہیں

 انہی کے بارے میں ذوالفقار مرزا نے اپنے ”دوست کے دوست “شاہی سید کی ”پر تکلف “دعوت کھانے کے بعد انتہائی غضب ناک لہجے میں فرمایا 

”یہ اردو بولنے والے بھوکے ننگے سندھ میں مہاجر بن کر آئے انہیں ہم نے کھانے کو دیا اب یہ ہمارے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔

 میری کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں سے اپیل ہے کہ ان کم بختوں کو باہر نکال دو“۔ 

نیک مقصد کیلئے اپنا گھر بار چھوڑنے والے ہیں اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لا سکتے۔ چودہ سو سال پہلے بھی جو دین کیلئے رات کی تاریکی میں چھپ کر جان بچاتے ہوئے مدینہ کی طرف نکلے ان کے پاس بھی کچھ نہیں تھا اسی طرح یہ لوگ بھی اس لئے خالی ہاتھ نکلے تھے کہ انہیں بتایا گیا تھا یہ نیا وطن جہاں تم جا رہے ہو اسلام کیلئے بنایا گیا ہے۔

  مرزا صاحب کا تعلق اس ٹولے سے ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت جب دہلی، نارتول، مہندر گڑھ ، الور، بھرت پور، نابھہ، جند، ، بمبئی سے یہ بھوکے ننگے مہاجر کراچی پہنچے تو 10جون کو سندھ کے وزیر تعلیم پیر الٰہی بخش نے اعلان کر دیا کہ پنجاب اور گودھرا کے علا وہ دیگر مقامات سے آنے والوں کو مہاجرین نہیں سمجھا جائے گا اور انہیں کسی بھی قسم کی سہولت دینے سے انکار کر دیا گیا۔

 بھارت سے ہجرت کرکے آئے ہوئے ان چند بھوکے ننگے مہاجروں میں قائد اعظم محمد علی جناح ہیں جو بمبئی سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے اور اپنی ساری جائیداد پاکستان کے نام کر دی۔

 لیاقت علی خان اپنی تمام جاگیر اور محلات ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آئے اور جب گولی لگنے کے بعد آپریشن ٹیبل پر پہنچے تو ڈاکٹروں نے دیکھا کہ ان کی بنیان جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی۔

حبیب فیملی ہندوستان سے اپنے ساتھ بینک اور انشورنس کمپنی اور کراچی میں صنعتوں کیلئے مشینری لے کر آئی، آدم جی اپنے ساتھ کمرشل بینک اور جیوٹ ملیں لے کر آئے۔

 باوانی، ولیکا، فینسی، ،حئی سنز، میمن اور دہلی کمیونٹی کے لوگوں نے کروڑوں روپے ساتھ لا کر کراچی میں صنعتوں کا جال بچھا د یا۔

ناظم آباد، گلشن دہلی مرکنٹائل فاران روہیل کنڈ جیسے عالیشان اور بڑے بڑے پلازے یہ سب ان ننگوں بھوکوں نے تعمیر کئے کراچی بھر میں اسپتال اور اسکول قائم کئے جہاں ہر زبان بولنے والے پاکستانی کو مفت علاج اور تعلیم کی سہولت ہے۔ 

روزنامہ جنگ کراچی نے اپنے 18جولائی 1949کے اداریئے میں سندھی لیڈران اور عوام سے اپیل کرتے ہوئے لکھا تھا

سندھی عوام کو چاہئے کہ وہ مہاجرین کی مظلومیت اور مشکلات کا برادرانہ احساس کریں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے مہاجرین کی دل آزاری ہو اور ان کے زخموں کو مزید ٹھیس پہنچے۔ مہاجر خاندان اپنے ہمراہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کا جو سرمایہ لے کر آئے ہیں اس کی بدولت ایک دن پورے صوبہ سندھ کی رونق اور خوش حالی کو چار چاند لگ جائیں گے۔

اور سب نے دیکھا کہ پورے پاکستان سے جس کو روزگار کی ضرورت ہوئی وہ کراچی چلا آیا اور کراچی کی صنعت و تجارت اور تعمیرات نے پورے پاکستان کو اپنے اندر سمو لیا آج پنجابی او ر پختون بھائی لاکھوں کی تعداد میں یہاں آباد ہیں لیکن کراچی کا دل چھوٹا نہیں ہوا۔

 لیکن یکم مئی 1950 کو اس وقت کے ایک مرکزی وزیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا۔

” اب مزید مہاجرین کی آباد کاری کیلئے گنجائش نہیں رہی اگر فالتو مہاجرین کراچی سے نہ گئے تو کراچی شہر غلاظت کا ڈھیر بن جائے گا انہوں نے مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ میں آج ہی دہلی سے پہنچا ہوں بھارت میں حالات بہتر ہو گئے ہیں اس لیئے یہ مہاجرین اب اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں بھارتی حکومت ان کا خیر مقدم کرے گی۔

 اور اس پریس کانفرنس کے ایک ماہ بعد دو جون کو سندھ حکومت نے مرکزی حکومت کو مطلع کرتے ہوئے مہاجرین کی آباد کاری کے اپنے حصے کے پچاس فیصد اخراجات برادشت کرنے سے انکار کر دیا۔جس سے چند روز بعد لالو کھیت، بزرٹا لائنز کے علا قوں میں قائم جھونپڑیوں سے سندھ حکومت نے 33 ہزارمہاجرین کو زبردستی بے دخل کرتے ہوئے کھلے آسمان تلے پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔

 جولائی میں کراچی میں موسلا دھار بارشیں شروع ہو گئیں اور موسم کی سختی اور وبائی امراض سے ان میں سے 166 افراد لقمہ اجل بن گئے ان میں ہندوستان سے زندہ بچ کر آنے والی اکیلی عورت کی کل کائنات اس کے دو بچے بھی شامل تھے۔

 ذوالفقار مرزا صاحب کی ایسی ہی حرکتوں اور اب ان کی تقریر کے بعد کراچی شہر کی کچھ دیواروں پر کراچی کو صوبہ بنانے کی جو چاکنگ کی گئی ہے اس پر کچھ لوگ لاشوں کے ڈھیر لگانے کی بات کر رہے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ،

کراچی کو صوبہ بنانے کا مطالبہ آج سے 58 سال قبل پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ نے 21-22 اکتوبر 1953کو اپنے صوبائی اجلاس میں کیا تھا۔

 بائیس اکتوبر کو کراچی مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں احمد ای ایچ جعفر نے کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کی قرار داد پیش کی جس کے حق میں 81 اور مخالفت میں صرف 3 ووٹ آئے۔

(منقول)

٭٭٭٭٭٭۔

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔