Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 25 دسمبر، 2017

گوشہءِ سکون

 میں دوپہر کو پورچ میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ایک روسی نسل کا خوبصورت لیکن انتہائی تھکا ماندہ سا چھوٹا کتا کمپاؤنڈ میں داخل ہوا. اس کے گلے میں پٹہ بھی تھا. میں نے سوچا ضرور کسی اچھے گھر کا پالتو کتا ہے.
میں نے اسے پچكارا تو وہ پاس آ گیا. میں نے اس پر محبت سے ہاتھ پھیرا تو وہ دم ہلاتا  ہوا  دروازے  کے پاس پڑے فُٹ میٹ پر بیٹھ گیا  اور میری طرف دیکھنے لگا ۔
میں جب اٹھ کر اندر گیا تو وہ کتا بھی میرے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا آیا اور کھڑکی کے پاس اپنے پاؤں پھیلا کر بیٹھا اور میرے دیکھتے دیکھتے سو گیا.
میں نے بھی کمرے کا دروازہ بند کیا اور صوفے پر آ ن بیٹھا. تقریبا ایک گھنٹے نیند کے بعد کتا اٹھا اور دروازے کی طرف گیا تو اٹھ کر میں نے دروازہ کھول دیا. وہ باہر نکلا اور چلا گیا. .
اگلے دن اسی وقت وہ پھر آ گیا. کھڑکی کے نیچے ایک گھنٹہ سویا اور پھر چلا گیا. .
اس کے بعد وہ روز آنے لگا. آتا، سوتا اور پھر چلا جاتا. .
میرے ذہن میں تجسس دن با دن بڑھتا ہی جا رہاتھا کہ اتنا شریف، سمجھدار اور پیار کرنے والا کتا آخر ہے کس کا  ؟ اور کہاں سے آتا ہے؟
ایک روز میں نے اس کے پٹے میں ایک چٹھی باندھ دی. جس لکھ دیا: -
آپ کا کتا روز میرے گھر آکر سوتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کیا؟
اگلے دن جب وہ پیارا چھوٹا سا کتا آیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے پٹے میں ایک چٹھی بندھی ہوئی ہے.
اس  کونکال کر میں نے پڑھا. . اس میں لکھا تھا،
یہ بہت اچھا پالتو کتا ہے، میرے ساتھ ہی رہتا ہے لیکن میری بیوی کی دن رات کی جھک جھک ،بک بک کی وجہ وہ سے سو نہیں پاتا اور روز ہمارے گھر سے کہیں چلا جاتا ہے. . . . . . اگر آپ اجازت دے دیں تو میں بھی اس کے ساتھ ایک گھنٹہ  آرام کرنے آ جاؤں ... ؟؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭












بدھ، 13 دسمبر، 2017

امتِ کافران ۔ تیری پین دی سری ۔ ۔ ۔ ۔!

میں غالباً پانچ سال کا تھا جب لفظ ’’امتِ مسلمہ‘‘ میرے کانوں میں پہلی مرتبہ پڑا، اس وقت میں سمجھا یہ کسی عورت کا نام ہے (غضب خدا کا ایک تو عورت جان نہیں چھوڑتی)، تھوڑا بڑا ہوا تو  ریڈیو میں اس لفظ کے ساتھ کبھی کشمیر اور کبھی فلسطین کا ذکر سننے کو ملا، اس کی  کچھ سمجھ نہیں آئی، پھر نماز کے لئے مسجد میں جانا ہوا تو جمعے کے جمعے دعاؤں میں کشمیر کی آزادی، فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا احوال اور امت مسلمہ کے اتحاد کی باتیں کانوں میں پڑنے لگیں، اور تو کچھ پلے نہ پڑا البتہ یہ ضرور پتہ چل گیا کہ جب مولوی صاحب دعا مانگتے ہوئے فلسطین تک پہنچیں گے تو سمجھو دعا ختم ہونے والی ہے!
اِن دعاؤں کا پتہ عید اور دیگر تہواروں کے موقع پر پی ٹی وی کے خبرنامے سے بھی چلتا۔ اسکول جانے کیلئے جو وین ہمیں لینے آتی تھی اس کے ’’انکل‘‘ بہت پڑھے لکھے تھے، انہیں دنیا جہان کی باتو ں کا علم ہوتا تھا، ہم اُن سے ہر اوٹ پٹانگ بات پوچھتے اور وہ ہنستے ہوئے ہمیں ہر بات کا شافی جواب دیتے مگر ایک روز مجھے بڑی حیرت ہوئی جب انہوں نے الٹا مجھ سے ہی پوچھ لیا ،
"یار یہ فلسطین کا کیا مسئلہ ہے؟ "
تب مجھے پہلی مرتبہ اندازہ ہوا کہ یقیناً یہ کوئی گھمبیر مسئلہ ہے جو انکل کی سمجھ میں بھی نہیں آیا۔
اس زمانے میں ایران عراق جنگ، بیروت اور نگورنو کاراباخ کا بھی خبروں میں بہت ذکر سننے کو ملتا تھا، جنگ کی تو کچھ نہ کچھ شُد بد تھی البتہ پی ٹی وی کی نیوز کاسٹر کی زبان سے نگورنو کاراباخ سن کر لگتا جیسے وہ ،کالا باغ ڈیم کی بات کرنا چاہ رہی ہو مگر غلطی سے منہ سے کارا باخ نکل گیا ہو۔ رفتہ رفتہ یہ سب ازبر ہو گیا۔
اب کشمیر، فلسطین، مسلم امہ، ملت اسلامیہ، سازشیں.....جب یہ سب کچھ اکٹھا سننے کو ملتا تو سمجھ آ جاتی کہ جمعہ یا عید کی نماز کے بعد دعا ہو رہی ہے یا کہیں کسی احتجاجی جلسے کا احوال بیان کیا جا رہا ہے۔
اتنے برس بعد بھی حالات جوں کے توں ہیں بس ذرا سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ اب روہنگیا کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، گویا پہلے ہم صرف کشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کے لئے دعائیں کرتے تھے اب روہنگیا کے مسلمانوں کے لئے بھی کرتے ہیں۔
ایک اور تبدیلی اکتالیس مسلم ممالک کی متحدہ فوج کی شکل میں بھی آئی ہے مگر فی الحال اس اتحاد کا دعاؤں کی قبولیت میں فعال کردار ادا کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا سو مسلم امہ کو پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنا پڑے گا ۔ یعنی دعائیں ہی مانگنی پڑیں گی۔
ہاں یاد آیا، ایک چیز تنظیم برائے اسلامی ممالک (او آئی سی) نام کی بھی ہے مگر اس کا کام بھی فقط مذمتی قرارداد پاس کرنا ہے اور تنظیم یہ کام پوری تندہی سے برسہا برس سے انجام دے رہی ہے۔
’’مسلم امہ بے حس ہے اور اس میں اتحاد نام کی کوئی چیز نہیں‘‘
یہ بات پہلے دانشوری کہلاتی تھی اب دودھ پیتے بچے کو بھی اس کا علم ہے سو ہم اس تفصیل میں نہیں جائیں گے اور چند نسبتاً نئے ایشوز کو لے کر مسلم امہ کا ماتم کریں گے۔ امت مسلمہ چونکہ ایک قسم کی بارہ مسالحے کی چاٹ ہے، ا ِس لئے ماتم کرتے ہوئے آپ کو ہر قسم کا مواد مل جاتا ہے، حجاب کی پابندی سے لے کر نوبیل انعام کی ناانصافی تک اور اسرائیل کی غیر قانونی آبادکاری سے لے کر روہنگیا کے قتل عام تک۔
مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا المیہ تو باقی امت سے بھی زیادہ ہے، ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو خوشحال اور محفوظ مستقل کی خاطر مغرب میں آ بسے ہیں، یہاں کی سہولتوں اور آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، قانون کی عملداری، گڈ گورننس اور شخصی آزادی بھی انہیں چاہئے مگر مغرب کی مادر پدر آزادی نہیں چاہئے بلکہ بچوں کو مارنے کا اختیار چاہئے، ساحل سمندر پر بکنی نہیں برقینی چاہئے، کالج میں اسکرٹ نہیں حجاب چاہئے،لڑکیوں کا  رشتہ گورے سے نہیں پاکستانی سے چاہئے۔البتہ مردوں کو آزادی ہے ، وہ گوری سے شادی کرسکتے ہیں، کیوں کہ اکثر سننے میں آیا ہے  کہ وہ اہل الکتاب ہیں ، وہ شراب بھی پیتی ہیں اور ھاٹ  ڈاگ بھی پورک والا کھاتی ہیں  ۔وہ شوہر کے گھر میں پورک نہیں کھاتی لیکن اگر میکے جائیں یا کسی سہیلی کے گھر  تو  چوکتی نہیں ۔
پورک ؟
آپ کو نہیں پتہ ؟
میں بتاؤں  !
میں نے اُس کا نام لیا تو  چالیس دن،  زبان ناپاک رہے گی ۔ اور میرے پیٹ میں ناپاک کھانا اترتا رہے گا ۔
نہ بابا،نا  !
دوسری طرف ہم جیسے ہیں جو خود کو امت مسلمہ کا جینوئن حصہ سمجھتے ہیں، ہماری خواہش ہے کہ تمام دنیا پر ہمارا قبضہ ہو اور اُس سے بھی پہلے ہماری تمنا ہے کہ تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں خود کو پرو کر کسی ایک خلیفہ کو منتخب کریں، جو سوا ارب مسلمانوں کا منتخب کردہ سپہ سالار ہو، گھوڑے کو ایڑ لگا کر وہ قطب شمالی سے قطب جنوبی تک کا علاقہ مسلمانوں کے تصرف میں لے آئے، بحوالہ سلطنت عثمانیہ، حورم سلطان پارٹ ٹو۔
لیکن ایسا سمجھنے میں حرج کیا ہے ؟
ابھی کل عرب  ماؤں کے بچے مظاہرہ کر رہے تھے،  ڈونلڈ ڈک کے بیان کے خلاف اور نعرے لگا رہے تھے ۔
پاک فوج ، ڈوم آف راک کو بچاؤ !
ہم تمھارا انتظار کر رہے ہیں !
نہیں یقین آیا ۔
مجھے بھی نہیں آیا !
شائد عرب ماؤں  نے زنخے پیدا کرنا شروع کر دئے ہیں !
چلیں یہ  وڈیو سنیں !


کچھ مجاہد اس مشن کی تکمیل کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں مگر ظاہر کہ اس کام میں تھوڑا وقت لگے گا سو اُس وقت تک ہمارا مطالبہ ہے کہ اسرائیل کے مستقبل کا فیصلہ ہم سے پوچھ کر کیا جائے.....اور اگر یہ بھی مشکل ہے تو مغربی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ہم امریکہ کو دھول تو چٹا ہی سکتے ہیں۔
ویسے بھی   اسرائیلیوں نے چالاکی دکھائی ہے ، کئی ناپاک  کھانے والی اشیاء کا نام ہی بدل دیا ہے ۔ جس میں خنزیر کی چربی شامل ہے ۔
ارے ہاں وہی جو اُس نے 1857 میں شامل کی تھی دلّی تخت پر قبضہ کرنے اور بہادر شاہ کو رنگون بھجوانے کی ۔
ویسے بھی مسلم امہ کو ٹرمپ پر بہت غصہ ہے، امریکی صدر نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے امت مسلمہ کے غیظ و غضب کو آواز دے دی ہے، اسے اندازہ ہی نہیں کہ مسلم امہ بپھر کر کیا کچھ کر سکتی ہے۔ بے شک ہم غریب ہیں پر بے غیرت نہیں۔
امریکی شہریت سے کم پر بکنے کو ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ کیا امریکہ کو نظر نہیں آتا کہ اس بیہودہ فیصلے کے خلاف مسلم امہ نے چھاتی پیٹ پیٹ کر اپنا کتنا برا حال کر لیا ہے- وہ تو شکر کرو کہ زنجیر زنی یا چھری زنی نہیں کی !
کیا امریکہ کو اندازہ ہے؟
کہ اُس کے فیصلے کے ردعمل کے طور پر اگر مسلم دنیا نے اسرائیل کے خلاف اتحاد بنا کر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو  کیا ہوگا ؟
امریکی اسلحہ کی اتنی خریداری ہوگی ، اتنی خریداری !
کہ امریکی پرانے اسلحے کے گودام خالی ہوجائیں گے ، جو وہاں پڑا مجاہدین کا مارو یا مرجاؤ کے انتظار پر پڑا امریکی فیکڑیوں پر بوجھ بنا ہوا ہے ۔
اُمت، مسلمہ کے پاس ، پیسے کہاں سے آئیں گے اسلحہ خریدنے کے ؟
امریکہ کو نہیں معلوم کہ ،
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ھاشمی !
پہلے کب امریکہ کو پیسے دے کر اسلحہ خریدا تھا ؟
کریڈٹ کارڈ زندہ باد !
ہاں ہاں بھی ورلڈ بنک کا کریڈٹ کارڈ کی بات ہورہی ہے ۔
اگر کریڈٹ کارڈ  نہیں ملا تو ؟
کوئی بات نہیں !
امت مسلمہ کی کامیابی کے لئے دعائیں مانگی جائیں گی۔
لاوڈ سپیکرز کا رُخ آسمان کی طرف کر کے ،اسرائیل اور امریکہ کی توپوں میں کیڑے پڑنے کی دعائیں مانگی جائیں گی۔
سبز پگڑی اور لمبے چوغے والے  یروشلم کو فتح کرنے 
گھوڑے سوار ، نمودار ہوں گے ۔اور شائد کہیں سے صلاح الدین ایوبی ، کے لباس میں راحیل شریف  یروشلم  کی طرف جاتا نظر آئے ۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اب مجھے مسلم امہ کچھ کچھ مظلوم بھی لگتی ہے، اُس عورت کی طرح ہے جس کے سر سے ہر راہ چلتا ہوا شخص چادر نوچنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے قصور گنواتا ہے، اس کی خرابیوں کی تفصیل بیان کرتا ہے، اس کے زوال کے اسباب پر روشنی ڈالتا ہے اور پھر اسے کامیابی کا فارمولا بتا کر اپنی ہمدردی اور نیک نیتی کا ثبوت بھی دیتا ہے۔
دنیا میں جہا ں کہیں  میڈ اِن امریکہ یا انگلینڈ بم دھماکہ ہو تو مسلمان دعا مانگتے ہیں یااللہ کسی مسلمان کا نام نہ نکلے، کیوں کہ  جھٹ سے واقعہ دہشت گردی مانا جاتا ہے اور اگر یہ کسی غیر مسلم گوری چمڑی والے کا کام ہو تو اسے لاوارث، ذہنی مریض یا lone wolfکہہ کر دہشت گردی کے کھاتے سے نکال دیا جائے گا چاہے مشین گن دونوں ہاتھوں میں پکڑ ، ریمبو بن کر انسانوں کو   کٹا کٹک بنانا  شروع کر دے ۔
حالانکہ ہیں دونوں ذہنی مریض !
لیکن ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں۔
پہلے مسلم امہ کے پاس طاقت تھی وہ نعرہ لگاتی تھی ،
اسلام لے آؤ ، جزیہ دو یا جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ۔
اب امریکہ کہتا ہے ،
ہمارا ورلڈ آڈرر مانو ، دم دبا کر بیٹھے رہو  یا پتھر کے زمانے میں جانے کے لئے تیار ہوجاؤ !
ڈونلڈ ڈک کہتا ہے !
ہمارے پاس آج میرے پاس جگمگ کرتے شہر ہیں، جدید اسلحہ ہے، یونیورسٹیاں ہیں، سائنس دان ہیں، سپیس اسٹیشن ہیں، تمہارے پاس کیا ہے؟ امت مسلمہ :
تیری پین دی سری ۔ ۔ ۔ ۔!
"میرے پاس خادم حسین رضوی ہے"













بدھ، 29 نومبر، 2017

29 نومبر 2017 کی ڈائری- فقیری بیگن


 کل بوڑھے نے " کس نے کھا نا    ۔ ساڈہ کھانا  "  کے شعری کیپشن سے ،   فقیری بیگن کی تصویر فیس بُک کی  جو اُس نے  عین دوپہر  تناول کئے ، بطور ثبوت تصویر ساتھ لَف ہے ۔
محبت کرنے والے دوستوں نے کمنٹس دئے ، بوڑھا محظوظ ہوا ۔
اچھی بھتیجی ڈاکٹر رابعہ خرم درانی نے سوال  پوچھ ڈالا :

سر آنٹی سے بینگن کے دہی رائتہ کی ریسپی پوچھ کر پوسٹ کر دیں۔

آنٹی کیا بتاتیں ؟
38 سال ، اُس کے ساتھ رہتے  رہتے ، آدھا شیف تو بوڑھا بھی ہوگیا ،
اور کھانا پکانے کے بنیادی اصولوں سے واقف ہے ، کنسلٹنٹ تو پہلے ہی تھا ،
لہذا انڈے کو پانی میں تَلا جائے یا تیل میں , کھا نا  تو بوڑھے نے ہے نا !
اب رہی بیگن کو پکانے   کا طریقہ ہائے  جات :
بیٹی ، بینگن کی وسعت، فقیری بینگن سے راجہ ومہاراجہ سے شاہی بینگن تک ہے،
تصویر میں فقیری بینگن ہیں ، جنہیں جلدبازی میں بنایا جاتا ہے ، جب کے خاتون خانہ کے پاس کھانا بنانے کا وقت نہ ہو !

بینگن کے قتلے باریک قتلے کاٹیں ، اُنہیں توے پر دھیمی آنچ میں تلیں ۔ پلیٹ میں ڈالیں اوپر حسب ذائقہ ، نمک اور مرچ چھڑک دیں  (شوہر پر نہیں بیگن پر ) -
دہی الگ پیالے میں ساتھ رکھیں روٹی کے ساتھ،
شوہر کودیں ، چادر پہنیں اور یہ کہتے ہوئے ، اپنے کام پر نکل جائیں ،
"کھا کر برتن سنک میں رکھ دیں  ،اور بچی ہوئی روٹی ہاٹ پاٹ میں رھنا "
شوہرفوٹو کھینچ کر فیس بک پر ڈال دے ، کہ چلو کچھ کا تودل للچائے اور مشہوری بھی ہو،
اب شوہر کی مرضی کہ  نوالے سے بینگن توڑ کر کھائے یا ،  ساتوں قتلے دہی میں ڈبو دے خوب مکس کرے  اور کھائے ، تڑکا لگانے کی ضرورت  ہے مگر  تڑکا تو شوہر کو لگا ہے !
تو  بیٹی ، یہ بینگن اور دہی کہلائے گا   ! 
اگر  ان قتلوں کو کاٹ کر دہی میں ملائے ، تو  بینگن کا فقیری دہی رائتہ کہلایا جائے گا ۔
پہلی صورت میں چاہے  ،
بینگن کو دہی میں ملا کر کھائیں اور
یا   دہی کو بینگن میں ملا کر کھائیں !
رال  ٹپکانے والوں کے لئے ،  مزہ دونوں میں ہے !
٭۔ مہاراجوں کے چھپرکٹ پر لے جانے کے لئے ، اِس میں تمام مصالحے ملا دیئے جائیں۔
٭ ۔ حیدر آبادی نوابوں کے دسترخوان پر رکھنے کے لئے املی کا اضافہ کیا جاتا ہے ۔ اور
٭- شاہی دسترخوان کی زینت بنانے کے لئے ، خُشک میوہ جات ملا دیں ۔
مگر رہیں گے ، بینگن کے قتلے ، بیگن کاسالن اور بگھارے بیگن۔

لیکن اگر وقت ہو تو بیگن سے(بیگم سے نہیں)  انتقام لینا ہو ، تو بازو اوپر چڑھائیں اور اُبلے ہوئے بینگن کا خوب کچومر نکالیں تو وہ بخیر انجام بھرتہ بن جائے گا ۔ یا بینگن سے وکھری ٹائپ کا انتقام لینا ہو تو    آگ پر بھون لیں ،
گیس کی آگ میں وہ مزہ کہاں جو کوئلوں کی آگ  میں ہے ۔کوئلوں کے تڑکے  ، ارے نہیں دھوئیں کے تڑکے سے کام چل جائے گا !
اب اگر وہ تمام مصالحے و میوہ جات جو بینگن میں ڈالیں ، وہ اگر لان میں اُگی ہوی گھاس توڑ کر اُس میں ڈال دیں تو  گھاس  بھی  وہی لذت پاتی ہے   جو پالک میں ہے  !


نوٹ: ڈاکٹر ، صرف فقیری نسخہ جات ،  برائے ترکیبِ ہائے  بینگن   استعمال کریں ! 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مزید پڑھیں :  بگھارے بیگن 




منگل، 28 نومبر، 2017

صحاح ستّہ کے مصنفین کی مذموم کوششوں کی چند جھلکیاں

مسلمانوں  میں   یہ  عقیدہ   ہے کہ القرآن آج جس شکل میں ہم تک موجود ہے یہ بعینہ ویسا ہی ہے جیسا کہ خود محمد صلعم پر نازل ہوا  کیوں کہ اِس کی  حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے اٹھا رکھا ہے۔
اگرچہ مسلمانوں  سے نکلا شیعاً فرقہ، اپنی روایات کی روشنی میں اس عقیدے کا قائل نہیں،

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُواْ يَفْعَلُونَ [6:159]
پڑھیں :  الدین میں فرق کرنے والے شیعا!
  باقی 72 فرقے  قرآن کی حفاظت و تدوین کو اللہ کی براہ راست ذمہ داری ہی سمجھتے ہیں۔
لیکن جب اُن کے عقیدے کے مطابق ،  اُن کے مذھب کی عمارت کا جائزہ لیتے ہیں جن کی بنیادیں انسانی لکھی ہوئی انسانی ہدایات کی کتابوں نے تھام رکھی ہے-  جنہیں صحاح ستّہ کہا جاتا ہے ۔
جب اپنے دین کو مضبوط کرنے کے لئے  اِن  انسانی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے  ،کہ اِن کتابوں کے مطابق :
1- قرآن کی پہلی آیت   اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ اور آخری آیت  الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا  تھی جو حجتہ الوداع 10 ہجری  میں نازل ہوئی، جس کے بعد قرآن مکمل ہوگیا  ۔

 1- محمدﷺ کو جبرائیلِ امین نے قرآن حفظ کروایا اور دو بار رمضان میں سنا بھی ۔
2- اصحاب صفّہ کا کام ، چبوترے پر بیٹھ کر قرآن کی آیات کو حفظ کرنا تھا
3- ایک جنگ میں کئی حفّاظ شہید ہوگئے ،اور بعد کی جنگوں میں بھی حفّاظ  شہید ہوئے ، تو قرآن کی کتابت کا خیال آیا ۔
4- سب سے پہلے  جو قرآن جمع کیا وہ حفّاظ سے نہیں بلکہ دیگر ذرائع استعمال کئے گئے ،
حضرت ابُوبکر صدیقؓ                      کا قرآن تھا ، جو حضرت عمرؓ   کے پاس گیا ۔ حضرت عثمان نے جس مسودہ کو منظور کیا وہ حضرت حفضہ  (بنتِ عمرؓ ) کا تھا ۔ جبکہ مسودہ ابنِ ابوطالب کے علاوہ دیگر مسودات بھی تھے ۔
5- حضرت عثمان   کا جو مسودہ منظر عام آیا :
ا - مکمل نہیں (بخاری )
ب۔ کئی آیات بکری کھا گئی (بخاری)

 ج- اُس کے مطابق  نہیں جیسا نزول ہوا (صحاح ستّہ )
 د- 6666 آیات تھیں (اب 6348 آیات ہیں بشمول 112 دفعہ   ہر آیت کے شروع میں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ )
 ک۔ اعراب و نقاط نہیں تھے ، کیوں کہ خطِ کوفی میں تھا  (پانچ سو افراد پر مشتمل ، کوفہ اُن دنوں علم و فضل کا مرکز تھا ، کیوں کہ سارے علامہ وہاں جمع تھے، نہج البلاغہ سُن رہے تھے  اورابنِ ابوطالب کے قرآن سے استفادہ کر رہے تھے )
 ل۔ حضرت عثمانؓ ، اُسی کی تلاوت کرتے ہوئے شہید ہوئے ، اُس پر خون کے نشان ہیں (وہ نسخہ توپ کاپی عجائب گھر ترکی میں ہے اور  بخارا میوزیم میں بھی ہے )   ۔
م- حضرت عثمانؓ  کا یہ مصحف 
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ  سے لے کر مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک ہے  ، 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

صحاح ستّہ  کی تحقیق  سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ قرآن جس موجودہ شکل میں موجود ہے یہ بالکل اس شکل میں نہیں ہے جو خود پیغمبر اسلام کی زندگی تک پایا جاتا تھا ۔ 
نیز یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خدا کی اس آخری الہامی کتاب کے دعویٰ ہونے کے باوجود، اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی اپنی پیشرو کتب کی طرح پوری نہیں کی جا سکی۔کیسے ؟ آئیں آگے چلتے ہیں  :

1-  یہی روایت،سنن ابو داود، کتاب النکاح، باب ھل یحرم ما دون خمس رضعات، حدیث: ۲۰۶۲ میں بھی ہے ۔
کہ یہ قرآن کا حصہ تھی ۔
جب رسول اللہ کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔   جبکہ  حجتہ الوداع  ، آیک آیت کے آخری ٹکڑے کا دن تھا :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالْدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلاَّ مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِالْأَزْلاَمِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلاَمَ دِينًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ فَإِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ [5:3]   نوٹ : موجودہ ترتیب کے مطابق یہ الکتاب کی 702 آیت ہے
جبکہ مشہور خادمِ رسول حضرت انس بن مالک نے گواہی دے رکھی ہے :
“اللہ نے رسول اللہ کی وفات سے پہلے مسلسل وحی اتاری اور آپ کی وفات کے قریبی زمانے میں تو بہت وحی نازل ہوئی، پھر اس کے بعد رسول اللہ وفات پا گئے۔گویا   وحی  10 ذی الحج 9 ھجری سے 12 ربیع الاول  11 ہجری میں بھی نازل ہوئیں !


افسوس کہ وفات النبی کے انتہائی قریب نازل ہونے والی وحی اور آیات کی حفاظت کا مناسب انتظام نہ ہو سکا اور وہ مختلف حادثات کا شکار ہو کر ضائع ہوتی رہیں۔ چنانچہ ایک ایسے ہی حادثہ میں وہ آیات بھی ضائع ہوئیں جو کہ نبی کی وفات کے وقت لکھی ہوئی آپ کے بستر پر موجود تھیں۔
2۔دو آیات بکری کھا گئی ! 

(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب رضاع الکبیر، حدیث:۱۹۴۴،  مسند احمد:۶/۲۲۹،  مسند ابی یعلیٰ:۴۵۸۷،۴۵۸۸)
اس روایت سے تو مزید واضح ہے کہ آیت رضاعت کے علاوہ آیت رجم بھی نبی صلعم کی زندگی میں نہ صرف یہ کہ تلاوت ہو رہی تھی بلکہ یہ دونوں آیات، محمد صلعم کی وفات تک کاشانہ نبوی میں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی موجود تھیں۔ مگر اس بکری کو چونکہ اس بات کی سمجھ ہی نہ تھی کہ یہ قرآن کی آیات براہ راست حفاظت الٰہی میں ہیں، اس لئے وہ اس کاغذ کو ہی کھا گئی جس پر یہ آیات لکھی ہوئی موجود تھیں اور آج کا موجودہ قرآن اِن آیات سے محروم ہے ۔
مزید پڑھیں :   رضاعت اور رجم 

صرف یہی نہیں کہ نبی صلعم کی حیات کے فوراً بعد جو آیات حفاظت الٰہی کے زیر اثر نہ رہ سکیں وہی اس حادثے کا شکار ہوئیں بلکہ یہ سلسلہ اس کے کافی بعد بھی  اللہ کی آیات میں صحاحِ  ستّہ کے مصنفین نے قطع و برید کا سلسلہ جاری رکھا ۔
3-  سورۃ شعراء کی آیات :



فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ ﴿26/213
وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
﴿26/214

وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ﴿ 26/215 


اس سلسلے کی روایات ملاحظہ فرمائیں:
اوپر پیش کی گئی روایت میں جس آیت کے نازل ہونے کو ابن عباس (عبداللہ بن عباس بن عبد المطلب  پیدائش  3 قبل ھجری وفات  68 ہجری طائف  )  نے پیش کیا ہے وہ سورۃ شعراء کی آیت ہے لیکن ہمارے موجودہ قرآن کے نسخوں میں یہ آیت صرف،  وَأَنذِرْعَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ  کے الفاظ تک ہی ہے اور اس کے آگے کے الفاظ  وَ رَھطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ موجود نہیں ہیں۔


 ابن عباس کا اس آیت کو ان الفاظ کے ساتھ پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس آیت میں وَرَھطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے الفاظ بھی شامل تھے۔ اگر سلسلۂ سند کو دیکھا جائے تو ابن عباس نے یہ روایت اور یہ آیت مشہور تابعی، اپنے شاگرد سعید بن جبیر(پیدائش 44 ہجری  وفات 95 ہجری  کوفہ )   کے سامنے بیان کی ہے۔
جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ ابن عباس، دور تابعین تک اور سعید بن جبیر اپنے دور تک سورۃ الشعراء کی اس آیت کو
 وَ رَحْطُکَ مِنْھُمِ الْمُخْلِصِیْنَ کے اضافے کے ساتھ بیان کرتے تھے،  جو بعد میں نہ جانے کس وقت قرآن سے مکمل طور پر محو کر دی گئی -
اور یہ بھی صحاح ستّہ کے مطابق ، قرآن کی انہیں آیات میں شامل کردی گئی  جن پر اللہ کی حفاظت میں ہونے کی ذمہ داری پوری نہ ہو سکی۔

 4۔موجودہ الکتاب میں سورۃ النساء کی ایک آیت کچھ یوں درج ہے:
لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً وَكُـلاًّ وَعَدَ اللّهُ الْحُسْنَى وَفَضَّلَ اللّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا [4:95]
مگر براء بن عازب (پیدائش قبل 23 ہجری  مکہ ۔ وفات 70 ہجری  کوفہ )   نزدیک یہ آیت، ابنِ مکتوم کی وجہ سے ، اس طرح نازل ہوئی تھی:
یعنی آیت رسول اللہ نے  اِس طرح بتائی  : 
لاَّ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ غَيْرُ أُوْلِي الضَّرَرِ
 لیکن کاتبِ وحی نے ڈنڈی ماری  اور  اِس طرح تبدیلی کر کے الکتاب میں شامل کردی -
لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [4:95]
اور حفّاظ نے ایسے ہی حفظ کیا ۔
اور صدیوں سے  بخاری کے مطابق  القرآن کی غلط تلاوت ہو رہی ہے-

جبکہ اللہ کا دعویٰ ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
[15:9]



تو پھر نعوذ باللہ  ، یہ آیت     تو پھر  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  !
آگے چلتے ہیں ، اور صحاح ستّہ  کی مزید پھلجڑیا ں پڑھتے ہیں ۔ جو  ملحدوں ، توہینِ رسالت کرنے والوں کے لئے ھاٹ کیک ہیں ۔
اگر ہمت ہے تو   کرسچئین محقق  جے سمتھ کی    دو گھنٹے کی  یہ وڈیو دیکھیں ۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند نہ کریں !

Islam is founded on Lies & Deception

 کرسچئین محقق  جے سمتھ اور مسلمان سکالر  ادیب اکسل  کے دو گھنٹے اور 55 منٹ کا  مباحثہ

 مباحثے   کا پہلا جے سمتھ کاحصہ ، جو میں نے ایڈٹ کر کے یو ٹیوب پر اَپ لوڈ  کیا ہے دیکھیں۔

IS THE QUR'AN FROM GOD OR FROM MAN J Smith 01

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
5۔ ابو سعید خدری کی ایک روایت میں کہا ہے:

محمد صلعم نے خود بیان کیا کہ “اَللہ الوَاحِدُ الصَّمَدُ  ” قرآن مجید کا ایک تہائی حصہ ہے۔
اب صرف اتنا غور فرمائیے کہ “اَللہ الوَاحِدُ الصَّمَدُ”  الکتاب کی کون سی سورۃ کی آیت ہے؟
دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یہ فضیلت سورہ اخلاص کی ہے کہ یہ تہائی القرآن ہے ،  تو پھر سورۃ اخلاص میں یہ آیت کہاں گئی جس کی طرف محمد صلعم نے بطور خاص اشارہ کیا؟
کیا یہ بھی تو انہیں آیات میں سے نہیں جو تدوینِ قرآن کے وقت لکھنے سے رہ گئیں؟

  لیکن ایسا نہیں ہے ، جس الکتاب کو  روح القدّس نے محمدﷺ  پر اللہ کی طرف سے نازل کیا  اور  روح القدّس  نے  خود حفظ  کروایا  اور محمدﷺ  سے سنا کہ وہی وصول کیا گیا جو اُنہیں دیا گیا  اور اللہ کے منتخب ایمان والوں کو حفظ کروایا ، اور یہ سلسلہ  ءِ حفاظت الذکر ،صدیوں سے رواں دواں ہے ۔
پڑھیں:  الذِّكْرَ کے حافظون کون ہیں ؟ 
صحاح ستّہ کے  مصنفین  نے پوری کوشش کی کہ وہ  رسول اللہ کے پائے استقامت کو اکھاڑ دیں ، لیکن  حفّاظ نے اُن کی ایک نہ چلنے دی  ۔ آج بھی   الکتاب  کی پوری دنیا اُسی طرح تلاوت کی جارہی ہے ، جیسےاللہ نے نازل کی -

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 26 نومبر، 2017

بائبل (قدیم و جدید)الْكِتَابَ کی مُتَشَابِهَاتٌ ہیں ؟

بہت سے احباب نے شکوہ کیا کہ آپ  ، اِن کتابوں میں  بائبل (قدیم اور جدید) کو کیوں شامل کرتے ہیں ؟


بائبل (قدیم اور جدید)کو اِن کُتب میں شامل کرنے کا  مقصد  الکتاب کی  چند آیات، جن میں اللہ نے روح القدّس  کے ذریعے محمدﷺ کو اپنا حتمی لائحہءِ عمل بتا دیا  :
1- الکتاب کی اہمیت :
 
ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ   ﴿2/2
 وہ    الْكِتَابُ اِس میں کوئی رَيْبَ  نہیں  أَلْمُتَّقِيْنَ  کے لئے ہدایت ہے 

2-الکتاب کب سے  المتقین میں باعثِ ہدایت ہے !
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا ﴿4/54
کیا   لوگ حسد کرتے رہتے ہیں ، جواللہ نے اپنے فضل  میں سے اُن  کو عطا کیا  ؟   پس حقیقت میں ہم نے آلِ ابراہیم کو الْكِتَابَ  اور  الْحِكْمَةَ عطا کی  اور ہم نے اُن  عظیم ملک عطا کیا ۔ 

 وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ   ﴿2/53
اور جب  ہم نے موسیٰ کو   الْكِتَابَ اور الْفُرْقَانَعطا کی  تاکہ تم  (بنی اسرائیل) ھدایت  پاؤ !



 وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ﴿3/48
 اور وہ (اللہ)    اُسے( عیسیٰ ابنِ مریم )  کو    الْكِتَابَ اورالْحِكْمَةَ اور التَّوْرَاةَاور  الْإِنجِيلَ کا  علم دے گا

کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ:
  آلَ إِبْرَاهِيمَ کو ملنے والی      الْكِتَابَ اورالْحِكْمَةَ ،    موسیٰ  کو  ملنے والی      الْكِتَابَاور الْفُرْقَانَ اور عیسیٰ ابنِ مریم کو    الْكِتَابَاورالْحِكْمَةَ اور التَّوْرَاةَاور  الْإِنجِيلَ کا   علم  ، ترجمہ اور تفسیر ہو کر  بائبل (قدیم و جدید ) میں تبدیل کر دیا گیا ۔  یا-
   بائبل (قدیم و جدید )       الْكِتَابَ اورالْحِكْمَةَ  اور التَّوْرَاةَ اور  الْإِنجِيلَ کی  مُتَشَابِهَاتٌ  ہیں ؟
لہذا یہی  
مُتَشَابِهَاتٌ   صاح ستّہ میں اسرائیلیات  کے نام سے شامل کردی گئیں !



3- النَّبِيُّونَ (بشمول محمدﷺ ) کواُن کے ربّ کی طرف سے نازل کی جانے اور ہم پر نازل ہونے والی   وہی الکتاب میں فرق نہ کرتے ہوئے مسلمان رہنا  !
 قُولُواْ آمَنَّا بِاللّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿2/136

وہ کہیں!   ہم اللہ  کے ساتھ  ایمان لائے اور اُس (الْكِتَاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس  (الْكِتَاب) پر    جو إِبْرَاهِيمَ  اورإِسْمَاعِيلَ  اور إِسْحَقَ  اوريَعْقُوبَ  اور   الأَسْبَاطِ کی طرف اتاری گئی اور جو (الْكِتَاب)  مُوسَى اور عِيسَى   کو عطا کی گئیں اور النَّبِيُّونَ کو ان کے ربّ کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم اُن میں سے کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے، اور ہم اُس کے مسلمان ہیں !

 4-الکتاب کا حقِ تلاوت   (قرءت نہیں) اور تلاوت سے انکار  !
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَـئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ   ﴿2/121
 وہ لوگ جنہیں ہم نے  الْكِتَابَ دی ہے وہ اُس کی تلاوت کرتے رہتے ہیں ، جیسا  اُس کی تلاوت کا حق ہے ، وہ اِس (الْكِتَابَ )   کے ساتھ ایمان رکھنے والے ہیں ، اور جو کوئی  اِس  (الْكِتَابَ )   کے ساتھ اور جو کوئی  اِس  (الْكِتَابَ )   کے ساتھ، کُفر کرتا رہتا ہے وہ    الْخَاسِرُونَ میں ہیں ۔

  5-الکتاب کی قرءت (تلاوت نہیں)  محمدﷺ  سے قبل ہو رہی ہے!
فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَؤُونَ الْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿10/94
   پس  اگر تجھے شک ہو جائے جو ہم نے تیری طرف نازل کیا ہے ، پس اُن لوگوں سے سوال کر جو تجھ سےقبل  الْكِتَابَ کی قرءت کر رہے ہیں ۔ حقیقت میں تیرے پاس الحق ، تیرے ربّ کی طرف سے آچکا ہے ، (الْكِتَابَ کی صورت میں )   پس   الْمُمْتَرِينَ میں سے مت ہوجانا ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 اگر ہم الکتاب کی بالا آیات پڑھیں تو یہ 100 فیصد حق ہے کہ الکتاب آلِ براہیم او ر  النَّبِيُّونَ کو   اللہ نے عطا کی  اوریہ آیت ہم آج پڑھ رہے ہیں  کہ  محمدﷺ  سےقبل ایمان والے اُس کی قرءت کر رہے ہیں ! 
  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


یہ تو اللہ کا فضل ہے ، کہ محمدﷺ  کو   اللہ کی طرف روح القدّس   نے   اور رسول اللہ نے ،  اللہ  کے منتخب کردہ  حفّاظ کو   الکتاب ، پورے اعراب و نقاط  کے ساتھ حفظ کی اور  کروائی ،
ورنہ ، صاح ستّہ کے مصنفین نے پوری کوشش کی تھی ، کہ الکتاب کو مشکوک بنا دیا جائے  جس کی ابتداء  الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے لے کر انتہا      مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک  ہوتی ہے  ، جو نہ تبدیل  کی جاسکی  اور نہ ہی کی جاسکے گی ۔

اور بالا  انسانی تصنیف  کی ہوئی کتابوں ( اِن کی تشریحات ، مقدمات یا تلخیصات  میں پائے جانے والے بیانات ہیں ۔ جن کو   الکتاب میں دی گئی ،  اللہ کی آیات پر محمدﷺ کے نام کو استعمال کرتے ہوئے  فوقیت دی  گئی ۔



خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔