٭٭٭٭٭٭٭
Pages
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)
جمعہ، 23 اکتوبر، 2020
ہفتہ، 17 اکتوبر، 2020
آن لائن خریداری ڈرل مشین
اِس طرح شروع کی کہ وٹس ایپ کے ایک اشتہار نے بوڑھے کی اشتہائےجبلتِ تالیف کے بعد تخلیق و ترتیب بڑھا دی اور بوڑھے نے 16 اکتوبر کو ، یہ آن لائن آرڈر کر دیا ۔
Cordless Roto matic Grinder & Drill- Rs:4990/-
جو 20 اکتوبر کو بوڑھے کے ہاتھ میں تھا ،بوڑھے نے پیکٹ کھولا ۔ اشیاء دیکھیں ، غصہ آیا ۔ پیغام وٹس ایپ کیا :۔
اِس ڈسپلے میں جو وڈیوز لگائی ہیں اُس میں سے یہ تین چیزیں ، بمع بلیڈ اور اٹیچ منٹ مجھے نہیں ملیں
آپ کا جو اشتہار ہے اُس کے مطابق تمام چیزیں مجھے ملنی چاھئیں ، ورنہ آپ دھوکا دہی کے مرتکب ہوئے ہیں ۔کہ اشتہار میں کچھ دکھایا اور چیزیں کچھ اور بھجوائیں ۔
یہ پیغام بھجوا کر ۔
بوڑھے نے منی گرائینڈ ر چلایا جو 30 سیکنڈ چل کر بند ہو گیا ۔ بوڑھا پریشان ، کہ پانچ ہزار روپے دھویں میں اُڑ گئے ؟؟
گرو جی کی بات یاد آگئی ، کہ آن لائن کبھی شاپنگ نہ کریں !۔
خیر وٹس ایپ پر پیغام ڈالا ۔
آپ کی ڈرل صرف 30 سیکنڈ چل کر بند ہوگئی ۔
کیا آپ کا راولپنڈی میں کوئی سروس سینٹر ہے ؟
جواب ملا ، ہمارا کوئی راولپنڈی میں سروس سینٹر نہیں ۔ آپ کِس چیز کی بات کر رہے ہیں ؟ ہمیں ایک چھوٹی سی کلپ بنا کر سینڈ کر دیں ۔
بوڑھے نے یہ کلپ بھیج دی ، وٹس ایپ کے پیغامات چلتے ہے ۔
ایک طویل وٹس ایپ کی جنگ شروع ہو گئی اور ٹی وی شاپی ۔کے منتظم اسامہ کو یہ ، لکھا:۔
آپ کی ڈرل صرف 30 سیکنڈ چل کر بند ہوگئی ۔ کیا آپ کا راولپنڈی میں کوئی سروس سینٹر ہے ؟
لیکن آپ نے لکھا ہم کچھ نہیں کر سکتے !
کیا آپ بے ایمانی سے گھٹیا چیزیں فروخت کرنے کے اشتہار دے رہے ہیں ؟
! یہ نہ سمجھیں کہ میں درگزر کر دوں گا ! مجھے یقینی کوئی حل چاھئیے
اور اشتہار بھجوایا ۔
پہلے میں تمام سوشل میڈیا پر آپ کے خلاف لکھوں گا ۔ اُس کے بعد جو بھی قانونی کاروائی میرے بس میں ہو سکی آپ کے خلاف کروں گا ۔
خیر ، اسامہ کا بھلا ہو کہ اُس نے ڈرل واپس منگوائی۔اور مجھے 28 نومبر کو ، اچھی ڈرل مشین بھجوا دی ۔
:۔ میں نے لکھا
اسامہ جی : میرے پاس ایک بہتر ڈرل مشین اور دیگر ٹولز ہیں ، یہ میں نے چھوٹی اشیاء کے لئے منگوائی تھی ۔
خیر ، اسامہ نے معذرت کر دی ، کہ یہ اُن کے پاس نہیں ہیں اگر آئے تو میں آپ کو بھجوا دوں گا ۔
جمعرات، 15 اکتوبر، 2020
الَّذِينَ آمِنُوا کو الَّذِينَ كَفَرُوا میں مت دھکیلیں
الَّذِينَ آمِنُوا کو الَّذِينَ كَفَرُوا میں مت دھکیلیں ۔شکریہ
منگل، 13 اکتوبر، 2020
پھانسی گھاٹ اور جلّاد
جلاد کے پاس پھانسی دینے والے شخص کیلئے آدھا منٹ سے بھی کم وقت ہوتا ہے اس میں وہ قیدی کے سر پر ٹوپی(ماسک ) چڑھاتا ہے اور اس کے بعد گلے میں رسہ ڈال کر لیور کھینچنا شامل ہے۔ ایک پھانسی پانے والے مجرم کیلئے ضروری ہے کہ اسے 25منٹ تک لٹکایا جائےلیکن جلاد کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کی جان کب نکلی ؟
لال مسیح ایک’’ ریٹائرڈ جلاد‘‘ ہے اس نے اپنی 27 سالہ پولیس کی نوکری میں 750 لوگوں کو پھانسیاں دیں، یکی گیٹ لاہور میں 1955ء کو پیدا ہونے والا لال مسیح معروف جلاد تارا مسیح کا سالا ہے اور اپنے خاندانی جلاد ہونے پر آج بھی فخر کرتاہے۔تارا مسیح وہ جلاد ہے جس کے والد نے معروف حریت پسند باغی بھگت سنگھ کو پھانسی دی تھی اور خود تارا مسیح نے پاکستان کے مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا جس کا معاوضہ اُس دور کی حکومت وقت نے مبلغ 25 روپے ادا کیے۔
اپنے بہنوئی تارا مسیح کی وفات کے بعد لال مسیح 1984ء میں بطور جلاد پولیس میں بھرتی ہوا۔ جلاد کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک سفاک شخصیت کا تصور ابھرتاہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ لوگ صرف سرکاری احکامات کی پابندی کرتے ہیں، انہیں نہیں پتا ہوتا کہ جس کی زندگی کا یہ خاتمہ کرنے جارہے ہیں وہ سزا کا حق دار تھا یا نہیں۔انہیں صرف اپنی ڈیوٹی اد ا کرناہوتی ہے۔
لال مسیح کے مطابق پاکستان میں پھانسی کے وقت چار لوگ مجرم کے پاس موجود ہوتے ہیں جس میں کیس کا جج، ایس پی اور کچھ پولیس کے آدمیوں کے ساتھ ایک ڈاکٹر بھی شامل ہوتا ہے۔ عموماً ایس پی، پھانسی پانے والے سے اس کی آخری خواہش پوچھتا ہے ، زیادہ تر مجرم اپنے بچوں کو پیار پہنچانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
سال 1985تک پھانسی کا یہ عمل مجرم کے لواحقین کو بھی لائیو دیکھنے کی اجازت تھی تاہم سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو نے پہلی بار یہ آرڈر دیے کہ لواحقین کو اپنے پیاروں کی پھانسی کا سارا عمل دکھانے کی بجائے صرف ڈیڈ باڈی ان کے حوالے کی جائے۔
لال مسیح کے مطابق جب مجرم کو پھانسی گھاٹ کے سامنے لایا جاتا ہے تو اسے ایک کالے رنگ کا ماسک پہنا دیا جاتا ہے تاہم مجرم اس ماسک میں سے باہر کا دھندلا سا منظر دیکھ سکتا ہے۔جب مجرم کو ماسک پہنایا جاتا ہے توپھانسی گھاٹ پر گھمبیر خاموشی چھا جاتی ہے حتیٰ کہ ایس پی صاحب بھی پھانسی کی اجازت محض ہاتھ ہلا کر دیتے ہیں۔
لال مسیح نے بتایا کہ مجرم کو پھانسی گھاٹ پر لانے کے بعداس کی گردن میں رسی باندھنا بھی جلاد کے فرائض میں شامل ہے ، یہ رسی اس انداز سے باندھی جاتی ہے کہ کسی بھی صورت مجرم کا سر اس کی گرہ میں سے نہ نکل سکے۔جب لال مسیح کسی مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچنے لگتا تو اس کے کان میں آہستہ سے کہتا ’’مجھے تمہاری موت کی نہ کوئی خواہش ہے نہ سروکار، میں تو صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہوں‘‘ یہ سب کچھ چیک کرنے کے بعد وہ لیور کے سٹینڈ کے پاس چلا جاتا اور ایس پی کی اجازت کا انتظار کرتا۔
اجازت ملتے ہی لال مسیح لیور کھینچتا اور مجرم کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھل جاتا ، مجرم کی گردن لکڑی کے فریم میں پھنس جاتی اور اس کا جسم تقریباً پانچ فٹ نیچے ہوا میں لٹکنے لگتا ۔ لال مسیح کے مطابق پھانسی پانے والے کے جسم کو تیس منٹ تک لٹکائے رکھنا ضروری ہوتاہے ، اس کے بعد اس کے لٹکے ہوئے جسم کے ہاتھ کالے ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے، بعد ازاں ڈاکٹر مجرم کی موت کی تصدیق کرتاہے، متعلقہ جج کاغذات پر سائن کرتا ہے اور لاش ورثا کے حوالے کر دی جاتی ہے ۔
لال مسیح نے بے شمار قاتلوں سے لے کر ، ٹاپ کے دہشت گردوں اور اشتہاریوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسیاں دیں جن میں کئی پھانسیاں اس نے سرعام دیں۔
لال مسیح کی تنخواہ 450 روپے تھی تاہم اسے پورا پاکستان گھومنے کا موقع ملا کیونکہ عموماًمجرم کو مجرم کے علاقے کی قریبی جیل میں ہی پھانسی دی جاتی ہے اس لیے جہاں جہاں پھانسیاں ہوتی تھیں لال مسیح کو طلب کرلیا جاتا تھا.
لال مسیح کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ’’جلادی‘‘ دور میں ڈاکٹر، بینکار اور دیگر پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بھی تختہ دار پر لٹکایا ہے۔اس نے بتایا کہ سر عام پھانسیاں عام طور پر جنوبی پنجاب میں دی جاتی رہی ہیں جس میں مظفر گڑھ ، میانوالی اور ملتان شامل ہیں، اس کا کہنا ہے کہ ایک دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ ایک موٹے مجرم کو پھانسی دینے کے لیے لیور کھینچا تو تو رسی ہی ٹوٹ گئی تاہم ایسی صورت میں پھر یہ پولیس کا کام ہوتا ہے کہ وہ آدھے مرے ہوئے مجرم کو دوبارہ پھانسی گھاٹ پر لے کر آئے۔ لال مسیح کے مطابق کم وزن والے مجرم اکثر رسی کے ساتھ لہراتے رہتے تھے لیکن ان کی جان نہیں نکلتی تھی لہذاان کی تکلیف ختم کرنے کے لئے اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نیچے جائے اور مجرم کے پاؤں پکڑ کر خود بھی لٹک جائے۔ یوں 110 کلوگرام کا لال مسیح جب دبلے پتلے مجرم کے پیرپکڑ کر لٹکتا تھا تو واقعی مجرم کی ’’تکلیف‘‘ رفع ہوجاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ پھانسی پانے والے مجرم کے مرنے کی نشانی یہ ہوتی ہے ہے کہ اس کے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں ، پھانسی صبح صادق کے وقت پو پھوٹنے سے قبل دی جاتی ہے۔ پھانسی دینے کے بعد رسہ جھول رہا ہوتا ہے جیسے ہی رسہ ساکن ہوتا ہے جلاد کو پتہ چل جاتا ہے کہ قیدی کی جان نکل چکی ہے۔پھانسی کے بعد ڈاکٹر تصدیق کرتا ہے اور سب سے پہلے قیدی کے ٹخنے پر زور لگاتا ہے پھر اس کے بعد نیچے اتار کر تسلی سے اس کا چیک اپ کرتا ہے کہ کہیں جان باقی تو نہیں مگر جلاد اپنے تجربے کی بنیاد پر دیکھ لیتا ہے کہ قیدی کی جان کس وقت نکلی ۔
بعض قیدیوں کی جان جلدی نکل جاتی ہے اور بعض کی بہت مشکل سے نکلتی ہے۔ جلاد کا کہنا تھا کہ پھانسی کے رسے کے ساتھ ایک فالتورسہ بھی لٹکایا جاتا ہے کیونکہ جج اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اس وقت تک لٹکاؤ جب تک جان نہ نکلے ، یہ بات بالکل غلط ہے کہ رسہ ٹوٹنے پر قیدی کو چھوڑ دیا جاتا ہے، رسہ چاہے 4بار ہی کیوں نہ ٹوٹے جان ضرور نکالی جاتی ہے۔ ویسے تو رسہ ٹوٹنا ناممکن ہوتا ہے کیونکہ یہ وہ رسہ ہوتا ہے جس سے دس وہیلر ٹرک کھینچا جاتا ہے۔
لال مسیح بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے ایک ہی وقت میں پانچ آدمیوں کو ایک ساتھ پھانسی دی۔ اُس نے بتایا کہ اس نے زندگی میں سب سے کم عمر پھانسی ایک لڑکے کو دی جس کی عمر 16یا17 سال تھی اور وہ اپنی منگیتر کو قتل کرنے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا اور سب سے زیادہ عمر کی پھانسی تقریباً 55 سالہ شخص کو دی جس نے اپنے بھائی کا قتل کیا تھا۔
لال مسیح کو ایک دفعہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران اپنے ایک رشتہ دار کو بھی پھانسی دینا پڑی۔
نوٹ: ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ پھانسی علی الصبح ہی کیوں دی جاتی ہے؟
۔ مختصرا” جواب یہ ہے کہ۔۔۔
پھانسی کے لئے صبح کا وقت ہوتاہے کیونکہ اس وقت انسان کے جسم کے اعضاء سکون میں ہوتے ہیں اور اس کو تکلیف کم ہوتی ہے جب کہ اس کی نسبت دن میں اعضاء سخت ہوتے ہیں اور تکلیف زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ مجرم کے حمایتوں کی طرف سے غم و غصہ کرنے کا خطرہ ہوتا ہے جب کہ صبح کے وقت سب سو رہے ہوتے ہیں اس لئے صبح کے وقت کو پھانسی دینے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے ۔ یہ انگریزوں کے دور سے چلا آرہا ہے کیونکہ انگریزوں کی دی گئ اکثر پھانسیوں پر عوام کے رد عمل اور شدید احتجاج کا خدشہ ہوتا تھا اس لئے ایسا وقت مقرر کیا گیا جس وقت عوام محو خواب ہوں۔
بشکریہ : نجیب عالم
٭٭٭٭٭٭
پیر، 12 اکتوبر، 2020
بت پرستوں کے لئے -یزدانی اور اہرمانی پیغامات
بُت سب سے پہلے ذہنوں میں بنائے جاتے ہیں اُن چالاک اور فطین انسانوں کی طرف سے جب وہ دیکھتے ہیں کہ کمزور و بے بس کا خدا اُن کی مدد نہیں کرتا ۔
تو وہ کی مدد کے لئے اُن کی پریشانی حل کرنے کا بت اُن کے ذہنوں میں بناتے ہیں ۔
جیسے :
٭- غریبوں کے لئے ۔ دولت کا بت ۔
٭- کمزوروں کے لئے - انتقام کا بُت ۔
٭- بیماروں کے لئے ۔ شفا کا بُت -
٭- لاچاروں کے لئے -طاقت کا بُت-
٭- بے اولادوں کے لئے - اولاد کا بُت-
٭- بھوکے کے لئے - رزق تقسیم کرنے والا بُت
اُور اِن سب سے اوپر - حاکمیت کا بُت ۔
اِن کے علاوہ بے شمار دوسرے بُت انسانی مرادوں کے لئے بنائے جاتے ہیں-
کچھ لوگوں کے لئے اُن دیکھے خدا یا اُس کے نائیبین پر یقین کرنا مشکل ہے- تواُن کے بُت تراشے جاتے ہیں جو اُن کے سامنے موجود ہوتے ہیں ، پتھروں اور قبروں کی صورت میں ، جن پر کامیابی سے پہلے اور کامیابی کے بعد بلیدان اور چڑھاوے لازمی قرار دیئے جاتے ہیں ۔
تمام بتوں سے منسوب ، معجزات اور کرشمے نشر و اشاعت کے ایجنٹوں سے زمانہءِ قدیم سے پھیلائے جارہے ہیں اور جاتے رہیں گے ، جو بڑی دلجمعی سے یہ کام کرتے چلے آ رہے ہیں ۔
چالاک اور فطین انسان خود کو خدا کا منتخب فرد یعنی پیغامبر ظاہر کرواتے ہیں ۔ جن کے پاس الھامی پیغامات خدا کی طرف سے آتے ہیں ۔
خدائے یزداں (نیکی) ہو یا اہرمن (برائی) یا
اُن دونوں کو کنٹرول کرنے والا خدائے یکتا ۔
خدائے یکتا کی یکتائی سے کسی انسانی مذہب سے انکار نہیں کیا جاسکتا ، جو انسانوں کے لئے انسانوں ہی کے ذریعے (یزدانی اور اہرمانی) پیغامات میں ردو بدل کرتا رہتا ہے ۔
جن کی الھامی وضاحت پر ایک خاص طبقہ مامور ہوتا ہے- جس میں شامل افراد کو آپ کسی بھی نام یا صفت سے موسوم کر سکتے ہیں ۔
جب کہ انسانوں کے لئے یہ وضاحت، کائینات میں نہیں اُنہی کے ارد گرد بکھری ہوئی ہے ۔
جِس کے لئے عقل و تدبّر کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭٭٭٭
ہفتہ، 10 اکتوبر، 2020
شگفتگو - آپ کے اندر ایک ہیرو ہے
" شاباش جاؤ"۔
نمّو حیرت سے دنگ رہ گیا۔نمّو اِسی ادبی محفل میں صبح اخبار پڑھ کر سناتا تھا اوراب بھگایا جا رہا ہے۔کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے ، نمّو ڈھیٹ بن چھت کی منڈیر پر بیٹھ گیا ،اور بولا،
" آپ لوگ ابنِ صفی پڑھ رہے ہیں نا ؟"
اُن چاروں کا منہ ایسا کھلا ،جیسا بچوں کا منہ ،چینی چُرا کر کھانے پر ، امّی کے ہاتھوں پکڑے جانے پر کھلتا تھا ۔
"میں بھی کہانی سنوں گا"نمّو بولا
آنکھوں ہی آنکھوں میں فیصلہ ہوا۔"
ٹھیک ہے لیکن تم نے اگر یہ بات، کہ ہم چھت پر بیٹھ کر عمران سیریز پڑھتے ہیں ، کسی کو بتائی تو پٹائی کروں گا" خالو بولے۔
”عمران نے کہا وہ چوہا کالا صفر میرا کیا بگاڑے گا میں اُسے چٹکی بجاتے بل سے باہر گھسیٹ لوں گا“۔
عمران کی یہ بڑھک،اپنے باس بلیک زیرو کے بارے میں سنتے ہی خوف سے جولیا، صفدر اور جوزف کے منہ خوف سے کھل گئے“
نمّو نے خالو سے کہا ، " خالو مجھے دیں میں پڑھتا ہوں "۔
جی ہاں یہ خفیہ ادبی محفل ابنِ صفی کے جاسوسی ناول، عمران سیریز کے پڑھنے اور سننے والوں کی تھی۔ جو سرِ محفل پڑھنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا۔ کتب فروشوں کے پاس پہلے سے چوّنی جمع کرادی جاتی تھی۔تاکہ ناول پہنچے ہے محبانِ عمران سیریز کو مل جائے ۔
عمران اور میجر آفریدی مرحوم ابنِ صفی کے دو ایسے طلسماتی کردار تھے۔
اکیڈمی میں پہلے دن جب نمّو نے اپنا سارا سامان سر پر اُٹھا کر پورے پریڈ گراونڈ کا چکر لگایا تو ذہن نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ اکیڈمی میں افسربننے آیا ہے۔اُس پر مزید ستم یہ کہ بہتریں سوٹ زمین پر لوٹ پوٹ ہونے کے بعد، پہننے کے قابل نہیں رہا۔ اکثر مستقبل کے افسران نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر دوسال یہی کچھ ہوتا رہا تو اِس سے بہتر ہے کہ واپس سویلین لائف میں جایا جائے۔جہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔
یہاں تو ایسا لگتا تھا کہ سینئرز،میں کوئی ظالم بے چین روح حلول کر چکی ہے۔
بہر حال اِس دو سالہ زندگی میں تخیلاتی ہیرو عمران اور آفریدی کی جگہ، حقیقی ہیروز کا مطالعہ شروع کیا۔ جن میں خالد ؓبن ولید، موسیٰ بن نصیر، صلاح الدین ایوبی، میک آرتھر، منٹگمری، رومیل،لارنس آف عریبیہ، ماتا ہری، سلطان ٹیپو شہید اور پاکستانی نشانِ حیدر، نجانے کون کون سپاہیانہ تاریخ کے انمٹ کردار تھے ، اِن میں سے جو جنگوں میں مارے گئے انہوں نے ہیرو ازم کی تکمیل کی، جو بچ گئے انہوں نے یااُن کے بعد والوں نے، جنگوں میں مارے والوں کے واقعات عام آدمی کے لئے محّیرالعقول انداز میں قلمبند کئے۔
اکیڈمی میں کم و بیش ہر کیڈٹ کے بستے پر مختلف رنگوں میں پیرا ٹروپر یا کمانڈو ونگ، کی تصویرکے نیچے ، من جانبازم یا Heroes die young لکھا ہوتا تھا۔ کالج کے لابالی اور کھلنڈرے طالبعلموں کو، حکم کا گیارہواں پتا بنانے کے لئے، جس دھیمی رفتار سے سائیکو لاجیکل طریق کار اختیار کیا جاتا ہے۔ وہ فوجی زندگی کا صدیوں کا نچوڑ ہے۔
یعنی”فوجی+اسباب+ٹارگٹ“ انِ تینوں کو ایک مناسب وقت میں ہم آہنگ ہوجائے تو مقصد حاصل ہوتا ہے -
ہفتہ، 3 اکتوبر، 2020
مُنّا بھائی ایم بی بی ایس!
" ہاں یہاں نئے طلبا و طالبات کے ساتھ یہ ہوتا رہتا ہے۔ کچھ تو غش کھا کر چکرا کر گر بھی پڑتے ہیں لیکن پھر جب ہر دن یہی کام کرنے کے لئے آنا پڑتا ہے تو رفتہ رفتہ سب عادی ہوجاتے ہیں۔"
ڈاکٹر صاحب کو کچر کچر پیٹس چباتے اور چائے کے گھونٹ لیتے دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ یہ کس طرح یہ سب کھا پی رہے ہیں؟
صرف ڈاکٹر صاحب ہی نہیں ڈائسیکشن سے فارغ ہوکر آنے والے لڑکے لڑکیاں بھی سنیکس اور چائے سے محظوظ ہورہے تھے۔
خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔