Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

ہفتہ، 22 مارچ، 2025

دل کی گلیاں اور مٹھاس کی آوارگی

 لپڈ پروفائل کیا ہے؟

 ایک مشہور ڈاکٹر نے بہت اچھے طریقے سے لپڈ پروفائل کی وضاحت کی اور منفرد انداز میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک خوبصورت کہانی شیئر کی۔ تصور کریں کہ ہمارا جسم ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر میں سب سے بڑا مسئلہ کولیسٹرول ہے۔ اس کے کچھ ساتھی بھی ہیں۔

٭۔ ٹرائگلیسرائیڈ۔جرم میں اس کا اہم ساتھی ہے - ان کا کام سڑکوں پر گھومنا، افراتفری پھیلانا اور سڑکیں بلاک کرنا ہے۔

 دل اس شہر کا مرکز ہے۔ تمام راستے دل کی طرف جاتے ہیں۔اور دل سے نکلتے ہیں ۔  جب یہ پریشانیاں بڑھنے لگیں تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ وہ دل کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 لیکن ہمارے باڈی ٹاؤن میں بھی ایک پولیس فورس تعینات ہے  اچھا پولیس والا, ایچ ڈی ایل  ان بدمعاشوں کو پکڑ کر جیل (جگر) میں ڈال دیتا ہے۔ پھر جگر انہیں ، پیشاب کے راستے جسم سے نکال دیتا ہے۔

 لیکن ایک بُرا پولیس والا بھی ہےجو اقتدار کا بھوکا ہے یعنی  ایل ڈی ایل۔ ان شرپسندوں کو جیل سے باہر لے جاتا ہے اور انہیں واپس سڑکوں پر آنے دیتا ہے۔ 

جب اچھا پولیس اہلکار ایچ ڈی ایل نیچے چلا جاتا ہے، تو پورا شہر تباہ ہو جاتا ہے۔ ایسے شہر میں کون رہنا چاہے گا؟ 

کیا آپ ان شرپسندوں کو کم کرکے اچھے پولیس والوں کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں؟

  چلنا شروع کریں ۔ 

 ہر قدم کے ساتھ ایچ ڈی ایل بڑھے گا، اور کولیسٹرول، ٹرائگلیسرائیڈ اور ایل ڈی ایل جیسے شرارتیں کم ہوں گی۔ آپ کا جسم (شہر) دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ 

آپ کا دل - شہر کا مرکز - شرپسندوں کی رکاوٹ (ہارٹ بلاک) سے محفوظ رہے گا۔ اور جب دل صحت مند ہوگا تو آپ بھی صحت مند رہیں گے۔ لہذا جب بھی آپ کو موقع ملے – چلنا شروع کریں!۔

 سلامت رہیں... اور آپ کی اچھی صحت کی خواہش کرتے ہیں۔اپنے لپڈ پروفائل کو پوری کوشش کر کے باڈر لائن سے نیچے رکھیں ۔سخت احتیاطی  تدابیر کریں ۔


یہ مضمون آپ کو   ایچ ڈی ایل (اچھے کولیسٹرول)  کو بڑھانے اور ایل ڈی ایل (خراب کولیسٹرول) کو کم کرنے کا بہترین طریقہ بتاتا ہے یعنی پیدل چلنا۔ ہر قدم      ایچ ڈی ایل (اچھے کولیسٹرول)کو بڑھاتا ہے۔ تو - چلو، آگے بڑھو اور آگے بڑھتے رہو۔

 ان چیزوں کو کم کریں:-  . نمک . شکر ، صاف کیا ہوا آٹا ،دودھ کی مصنوعات،پروسیسرڈ فوڈز ۔
یہ چیزیں روزانہ کھائیں:-   سبزیاں،دالیں، پھلیاں،گری دار میوے ،ٹھنڈے دبائے ہوئے تیل ، پھل۔

۔ تین چیزیں بھولنے کی کوشش کریں:آپ کی عمر ،آپ کا ماضی،آپ کی شکایات چار

 اہم چیزیں اختیار کریں: آپ کا خاندان ،آپ کے دوست ،مثبت سوچ ،صاف ستھرا اور  بہترین  گھر۔ 

تین بنیادی چیزیں جن کو اپنانا ہے:  ہمیشہ مسکراتے رہیں ،اپنی رفتار سے باقاعدہ جسمانی سرگرمیاں کریں۔ ، اپنا وزن چیک کریں اور کنٹرول کریں۔ 

طرز زندگی کی چھ ضروری عادات جو آپ کو اپنانی چاہئیں:۔

٭۔ پانی پینے کے لیے پیاسے ہونے تک انتظار نہ کریں۔٭۔  اس وقت تک انتظار نہ کریں جب تک کہ آپ آرام کرنے کے لیے تھک نہ جائیں۔  

٭۔طبی ٹیسٹ کے لیے اپنے بیمار ہونے تک انتظار نہ کریں۔  

 ٭۔معجزات کا انتظار نہ کریں، خدا پر بھروسہ رکھیں۔  

٭۔کبھی بھی اپنے آپ پر اعتماد نہ کھوئیں ۔

٭۔ مثبت رہیں اور ہمیشہ ایک بہتر کل کی امید رکھیں۔ 

اگر آپ کے اس عمر گروپ (45-80 سال) کے دوست ہیں تو براہ کرم انہیں بھیجیں۔

 اسے ان تمام اچھے بزرگ شہریوں کو بھیجیں جنہیں آپ جانتے ہیں۔ 

خدا آپ کو بہت برکت دے۔ 🙏 🌹🌹🌹🙏 

٭٭٭٭٭٭٭ 

بدھ، 5 مارچ، 2025

امریکی عوام کو بینکوں کی چنگل سے 1933 میں آزادی

  ٭1933 میں امریکہ کے صدر فرینکلن روزویلٹ نے ملک کے تمام بینک بند کر دیے۔ پورے ملک میں ایک ہفتے کے لیے کوئی بینک نہیں کھلا۔ لوگوں پر اپنی جمع پونجی کھونے کا خوف طاری تھا۔ پورا مالیاتی نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ لیکن اسی بحران کے بیچ ایک ایسا قانون وجود میں آیا جس نے نہ صرف امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا کے مالیاتی نظام کو سنبھالا۔ یہ تھا "گلاس-اسٹیگل ایکٹ"۔  سینیٹرکارٹر گلاس اورنمائیندہ  ہنری بی اسٹیگل اس کے"کو سپانسر"تھے۔   

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ حالات کیسے بنے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد امریکہ تیزی سے دنیا کی اقتصادی طاقت بن چکا تھا۔ کیوں کہ جنگ عظیم اوّ ل کی کامیابی کے بعد امریکی عوام کا اعتماد  زیادہ  ہو  چکا تھا۔ فیڈرل ریزرو کے قیام نے مالی نظام کو بہت مستحکم بنا دیا تھا۔ ایسے میں 1920 کی دہائی میں بینکوں نے عام لوگوں کے پیسے لے کر اسٹاک مارکیٹ میں لگا دیے۔ وال اسٹریٹ پر نفع کی لالچ نے بینکرز کو جنونی بنا دیا تھا۔ وہی پیسہ جو کسان، مزدور اور چھوٹے کاروباری اپنے کھاتوں میں رکھتے تھے، بینکرز نے اسی سے اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کھیلنا شروع کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب 1929 میں اسٹاک مارکیٹ گری تو بینکوں کے پاس عوام کے پیسے واپس کرنے کے لیے کچھ نہ بچا۔ لوگ اپنے پیسے لینے دوڑے، بینک بند ہونے لگے، اور تیس کی دہائی میں نو ہزار سے زیادہ بینک دیوالیہ ہو گئے۔
 ٭1929 کے مالیاتی بحران میں بینکرز نے ایک کارٹیل بنا کر منظم فراڈ کیا۔ بحران سے پہلے والے سالوں میں وال اسٹریٹ کے بڑے بینکرز جیسے جے پی مورگن، نیشنل سٹی بینک اور گولڈمین سیکس نے مل کر پول آپریشنز   چلائے، جس میں وہ کسی کمپنی کے شیئرز کی مصنوعی طور پر قیمت بڑھاتے تھے۔ یہ کام وہ خفیہ اتحاد بنا کر کرتے تھے، جہاں وہ ایک مخصوص ٹریڈر کے ذریعے شیئرز کی خریدوفروخت اپنے ہی گروپ کے مختلف اکاؤنٹس میں کرتے، جس سے مارکیٹ میں مصنوعی طور پر ڈیمانڈ کا تاثر پیدا ہوتا۔
اس بحران کے تحقیقاتی کمیشن کا نام وکیل فرڈیننڈ  پیکورا  کے نام پر "پیکورا کمیشن" تھا۔ اس کمیشن کی سماعتوں کے دوران جے پی مورگن کے خلاف جو خطرناک انکشافات سامنے آئے، ان میں یہ الزام بھی تھا کہ مورگن اور اس کے پارٹنرز نے 1929 سے 1931 کے درمیان اپنی پسندیدہ کلائنٹ لسٹ کو شیئرز کی خریداری کی خفیہ معلومات فراہم کیں، جبکہ عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ کمیشن کے سامنے یہ بھی انکشاف ہوا کہ مورگن کی کمپنی نے اپنے اعلیٰ عہدیداروں اور دوستوں کو خصوصی رعایتی شرح پر شیئرز فروخت کیے، جبکہ عام سرمایہ کاروں کو مکمل قیمت ادا کرنی پڑی۔
اس دوران یہ بینکرز اپنے زیراثر میڈیا کو ہدایت دیتے کہ وہ مثبت خبریں شائع کریں، جس سے چھوٹے سرمایہ کار قرض لے کر ان شیئرز میں پیسہ لگانے لگتے۔ جب شیئرز کی قیمتیں عروج پر پہنچ جاتیں، تو یہی بینکار خاموشی سے اپنے شیئر بیچ کر منافع کما لیتے، جبکہ چھوٹے انوسٹر اور عام لوگ دیوالیہ ہو کر قرضوں میں جکڑے جاتے۔
 پیکورا کمیشن  میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ مورگن اور اس کے ساتھی بینکاروں نے ٹیکس چوری کے لیے آف شور کمپنیاں قائم کی ہوئی تھیں، اور انہوں نے 1930 اور 1931 میں بھی، جب ملک سخت کساد بازاری کا شکار تھا، اپنے لیے کروڑوں ڈالر کے بونس اور ڈویڈنڈ نکالے۔ سینیٹر پیکورا نے ثبوت پیش کیے کہ مورگن کی کمپنی نے اپنے منتخب کردہ صارفین کو شیئرز کی ایسی پیشکشیں کیں جو عام عوام کے لیے دستیاب نہیں تھیں۔
کریش کے بعد فیڈرل ریزرو، جو خود انہی بینکاروں کے زیر اثر ادارہ تھا، نے سخت مالیاتی پالیسی اپنا کر صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا۔ فیڈ(FED) نے سود کی شرح بڑھا دی اور کرنسی کی فراہمی کم کر دی، جس سے بینکوں نے قرضے واپس مانگنا شروع کر دیے اور ہزاروں بینک دیوالیہ ہو گئے۔ اس طرح بینکرز نے نہ صرف بحران سے پہلے بڑا منافع کمایا، بلکہ بحران کے بعد سستی ہوئی جائیدادیں اور شیئرز خرید کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کیا، جبکہ عام عوام کو تباہی کے حوالے کر دیا گیا۔
یہ وہ لمحہ تھا جب امریکی عوام کا مالیاتی نظام پر سے مکمل اعتبار اٹھ چکا تھا۔ لاکھوں لوگ اپنی جمع پونجی سے محروم ہو چکے تھے۔ روزویلٹ نے جب مارچ 1933 میں صدارت سنبھالی تو اس کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ عوام کا اعتماد کیسے بحال کیا جائے۔ اس کا پہلا قدم تھا "بینک ہالیڈے" یعنی ملک بھر کے تمام بینکوں کی عارضی بندش۔ مقصد یہ تھا کہ حکومت ہر بینک کا حساب کتاب دیکھے، کمزور بینکوں کو بند کرے، اور مضبوط بینکوں کو دوبارہ کھولے۔

لیکن اصل انقلاب اس کے بعد آیا۔ 16 جون 1933 کو گلاس-اسٹیگل ایکٹ پاس ہوا۔ اس قانون کے دو بڑے حصے تھے جنہوں نے امریکہ کی معیشت کو ایک نئی بنیاد دی۔ پہلا حصہ یہ تھا کہ بینکوں کے دو حصے کر دیے گئے۔ ایک وہ جو عوام سے جمع پیسہ لیتے اور قرض دیتے، اور دوسرا وہ جو اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے۔ اب کوئی بینک دونوں کام ایک ساتھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ تقسیمِ اس لیے کی گئی تاکہ عوام کے پیسے کو سٹے بازی میں نہ لگایا جا سکے۔
دوسرا بڑا قدم تھا  فیڈرل ڈیپازٹ انشورنس کارپوریشن کا قیام۔ اس ادارے نے عام لوگوں کے بینک کھاتوں کو حکومت کی ضمانت دے دی۔ اسکا مطلب تھا کہ اگر کوئی بینک بند ہو بھی جائے تو عوام کے پیسے ایک حد تک محفوظ رہیں گے۔ اس نے عوام کے دلوں میں دوبارہ اعتماد پیدا کیا۔
ان دونوں اقدامات نے معیشت میں نئی روح پھونک دی۔ چند مہینوں میں بینکوں پر عوام کا اعتماد بحال ہو گیا۔ لوگ دوبارہ اپنے پیسے بینکوں میں جمع کرانے لگے۔ کاروباروں کو قرض ملنے لگا، اور معیشت آہستہ آہستہ بہتر ہونے لگی۔
یہ قانون صرف مالی اصلاح نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر بھی ایک پیغام تھا۔ حکومت نے واضح کر دیا کہ اب بینکرز کو عوامی فلاح پر فوقیت نہیں دی جائے گی۔ وال اسٹریٹ کے بڑے بینکوں کو الگ کر دیا گیا، اور ان کے منافع کے کھیل پر حد لگا دی گئی۔ جے پی مورگن جیسے بڑے اداروں کو اپنی کمرشل اور انوسٹمنٹ بینکنگ الگ الگ کرنی پڑیں۔ امریکہ کی تاریخ میں حکومت نے پہلی بار کھل کر مالیاتی اشرافیہ کے خلاف عوام کے مفاد میں قدم اٹھایا تھا۔ 
 ٭1930 کی دہائی کے اس بحران نے امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو ایک بنیادی سبق دیا کہ مالیاتی نظام کو بینکرز کے رحم و کرم پر چھوڑنے سے تباہی آتی ہے۔ لہٰذا ریاست کا ریگولیٹری کردار بیحد ضروری ہے۔ گلاس-اسٹیگل ایکٹ نے یہی کردار حکومت کے ہاتھ میں دیا۔ اب مرکزی بینک، وفاقی ادارے اور کانگریس سب کے پاس اختیار تھا کہ وہ بینکوں کی نگرانی کریں، غلطیاں روکیں اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں۔
اس قانون کے اثرات حیران کن تھے۔ 1934 کے بعد امریکہ میں بینکوں کا دیوالیہ ہونا تقریباً ختم ہو گیا۔ اگلی کئی دہائیوں تک امریکی مالیاتی نظام دنیا کا سب سے مستحکم نظام بن گیا۔ یہی استحکام آگے چل کر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کی عالمی قیادت کی بنیاد بنا۔ بریٹن ووڈز کا نظام، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، سب اسی مضبوط بینکاری ڈھانچے پر کھڑے ہوئے۔
امریکہ نے اپنی مضبوط مالی ساکھ کے بل پر دنیا کو ڈالر میں باندھ دیا۔ اب سونا نہیں بلکہ امریکی بینکوں پر اعتماد عالمی تجارت کا محور بن گیا۔ یورپ، جاپان، اور بعد میں پوری مغربی دنیا نے امریکی انداز کے بینکنگ اصول اپنائے۔ اور یوں ایک مغربی مالیاتی نظام وجود میں آیا جس کی بنیاد سینیٹر گلاس اور سینیٹر اسٹیگل نے رکھی تھی۔
بینکاروں کو گلاس-اسٹیگل ایکٹ کبھی پسند نہیں آیا، اور انہوں نے فوری طور پر اس کے توڑ نکالنے شروع کر دیے۔ انہوں نے انوسٹمنٹ بینکنگ اور کمرشل بینکنگ کے درمیان قانونی دیواریں گرانے کے لیے نئی قسم کی مالیاتی ایجادات کیں۔ شیل کمپنیاں قائم کی گئیں، آف بیلنس شیٹ ٹرانزیکشنز کا سہارا لیا، اور بینکوں نے خود کو "ہولڈنگ کمپنیز" کے طور پر ریگولیٹ کرنا شروع کیا۔ انہوں نے کانگریس میں زبردست لابنگ کی، جہاں یہ دلائل دیے کہ ان پابندیاں کی وجہ سے امریکی بینک عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکتے۔ ان کی مسلسل کوششوں سے آخرکار 1999 میں گلاس-اسٹیگل ایکٹ کو ختم کر دیا گیا۔ جس نے بینکوں کو وہ تمام آزادیاں واپس دلائیں جو انہیں 1929 کے بحران سے پہلے حاصل تھیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی مالیاتی نظام کا ڈیزائن ہی ایسا تھا کہ اس کا فائدہ آخرکار امیر ترین طبقے کو ہی پہنچنا تھا۔ بینکرز نے تو پہلے ہی سب کچھ لوٹ لیا تھا۔ بحران کے بعد ان کی طاقت میں اور اضافہ ہوا۔ جہاں عام عوام نے اپنی جمع پونجی اور روزگار کھوئے، وہیں بینکاروں نے سستے داموں جائیدادیں اور شیئرز خرید کر اپنی دولت میں مزید اضافہ کیا۔
گلاس-اسٹیگل ایکٹ کے بعد عوام کے ساتھ کھلم کھلا فراڈ کا سلسلہ بند ہوا، جس سے عام امریکیوں کو بے پناہ استحکام ملا۔ لوگوں نے محنت کر کے پیسے کمائے، معیار زندگی بہتر ہوا، اور امریکہ کئی دہائیوں تک مسلسل خوشحالی کا دور دیکھنے میں کامیاب رہا۔ درمیانی طبقے کو پہلی بار حقیقی مالیاتی تحفظ ملا، چھوٹے بینک بھی محفوظ ہو گئے، اور ملک نے معاشی عروج دیکھا۔ یہ استحکام تقریباً ستر سال تک قائم رہا، گلاس-اسٹیگل ایکٹ کے خاتمے کے بعد بینکرز نے وہی فراڈ مختلف فنانشل پراڈکٹس بنا کر شروع کیا اور نتیجہ وہی نکلا جو 1929 کے بحران میں نکلا تھا۔ 2008 کی کساد بازاری کا 1929 کی کساد بازاری سے موازنہ کیا جائے تو آپ کو ایک جیسی تصویریں نظر آتی ہیں۔ 1929 کی تصویریں بلیک اینڈ وائٹ تھیں جبکہ 2008 میں رنگین ہیں اور اتنی پراثر کہ کوئی ایکٹ معیشت کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو رہا۔
آج پھر امریکہ کو اسی سوال کا سامنا ہے جو روزویلٹ کے سامنے تھا۔ ریاست کس کے مفادات کی حفاظت کرے گی، عوام کے یا بینکرز کے؟ بدقسمتی سے روزویلٹ کی جگہ اسوقت بینکرز کے نمائیندے حکومت میں ہیں۔ سینیٹر گلاس ،   مددگاراسٹیگل  اور پیکورا جیسے وکیل بننے بھی بند ہو چکے ہیں۔٭٭٭٭٭


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔