Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 7 ستمبر، 2014

صدارتی اور پارلیمانی نظام کا توازن

آج کل ملک کے دو باغی ، "فساد فی الارض " کامنصوبہ لے کر پاکستان میں گذشتہ بیس دنوں سے ، ایک ہی قسط کا ڈرامہ بار بار دکھا رہے ہیں ۔ اپنی اِس  گذری ہوئی زندگی پر جب نظر ڈالتا ہوں ، تو ایسا لگتا ہے کہ ہم عالمی ہاتھوں میں ناچنے والی کٹھ پتلیاں ہیں ۔
٭- پہلی جنگِ عظیم ،دوسری جنگِ عظیم ، عرب اسرائیل جنگ ، ویتنام جنگ یہ سب ایک وسیع کینوس کے تناظر میں لڑی 
گئیں ۔ جس میں شوشلزم کا ہوّا دنیا کو ایک خوفناک عفریت بنا کر دکھایا گیا ۔
 
٭- اِس عفریت میں بھری گئی ، ہواکو خارج کرنا لازمی تھا لہذا یہ کام ، اسلام اور کفر (سوشلزم)  کے اختتام پر 1985 میں ہوا ۔ جب جہاد پاکستانی مسلمانوں پر امریکہ کی طرف سے فرض کیا گیا ۔ تمام اسلامی جماعتوں کے عفریتوں کے پہلے سے نکلے ہوئی سنپولیوں  میں ہوا بھر کر اُسے  سوشلزم کے سامنے کھڑا کر دیا ، اُس وقت دنیا کو معلوم ہوا کہ تمام دہشت گردی کے سوتے  ، مسلمانوں سے پھوٹتے ہیں ،  
٭- ہندوستان کی پر امن  تقسیم میں پاکستان میں  خون کا رنگ انہی عالمی طاقتوں نے بھرا ، ہندوؤں  کا بغض تو سمجھ آتا تھا ، کہ اُن کا اٹوٹ انگ  ، ٹوٹ گیا ۔ جیسے بنگلہ دیش کی آزادی (علیحدگی) پر پاکستانی ٹوٹ ٹوٹ کر روئے ، اسی طرح  ہندو بھی پاکستان کی آزادی (علیحدگی) پر روئے ۔  لیکن پاکستان میں مسلمان ایک امن پسند قوم کا دعویٰ کرنے کے باوجود خون کی ہولی کھیلنے پر کیوں تیار ہوئے اور اب تک ہیں ۔
"گردن موڑ دوں گا- کچا چپا جاؤں گا - خاندان تباہ کردوں گا - جیلوں میں سڑوادوں گا "
یہ امن پسندوں کے منہ سے نکلنے والوں کے الفاظ ہیں جو  یورپی اور امریکن و کینیڈین انصاف کے عالمی علمبردار بن کر آئے ہیں ۔
"قانون توہینِ رسالت میں نے ضیاالحق کو کہہ کر بنوایا ۔ نہیں یہ  مجھ پر بہتان ہے "
" غریب کو عہدے نہیں ملنا چاہئیں ورنہ یہ ملک کو لوٹ ہیں گے " ۔ پاکستان کے غریبو میرے جھنڈے تلے جمع ہوجاؤ"


اگر اِن دونوں باغیوں کے ماضی پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے ، تو معلوم ہوگا کہ یہ جدید یورپی پاکستان کے بانی ،" اسلام اور آزادی "کی آڑ میں بننا  چاہتے ہیں ۔
٭- سوشلزم اور جہاد ، کے عفریتوں سے  ہوا نکالنے کے بعد ، دنیا خصوصاً پاکستان میں  ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ امریکہ اپنے دشمنوں کو معاف نہیں کرتا ، تو یہ کیسےممکن ہے کہ   اپنے دشمن کو   ایسے صوبے میں حکومت دلوادی جائے ۔ جہاں اسلامی دہشت گرد  یورپ اور امریکہ کے  شدید دشمن کا کردار ادا کرتے ہوئے ، اسلامی اقدار کا ناچ گانے  کی آڑ میں  مذاق اُڑاتا ہوا پلے بوائے  ، پاکستان پر قبضے کے منصوبے ، بے تحاشا پیسے لٹاتے ہوئے بنائے ۔تاکہ پاکستان کے آئین کو ، کینیڈین اور  برطانوی ملکہ کے پاؤں پر رکھ اُسے چومنے کے بعد  ، حلف وفاداری لینے والے، تمام آزاد خیال ، اُس کی پُشت پر کھڑے ہوجائیں ، یہی لوگ امریکہ و برطانیہ نے  "اسلامی جہاد " کی پشت پر بھی کھڑے کئے تھے ۔ جب اِن وفاداروں نے" امریکہ کا ریڈ زون " کراس کیا تو اِن سب کو بھاگ بھاگ کر اپنے ملکوں میں جاکر ، امریکہ سپانسر القاعدہ  میں پناہ دلوائی گئی، بالکل ایسے جیسے اپنے پچپن میں ہم چیونٹیوں کی قطار کو تھوڑا  عرصہ ، فٹ رولر کے ذریعے اپنی مرضی سے چلاتے تھے ، بعد میں وہ تتر بتر ہوکر ہمارے منصوبے کو ناکام بنا دیتی تھیں ۔ یہی حال اسلامی جہاد کا ہوا ۔ لیکن پھر اِسے پلان کے مطابق کنٹرول کر دیا گیا ، یعنی چیونٹیوں کی قطار کے دونوں طرف نالی کھود کر اُس میں پانی ڈال دیا گیا ۔ ڈوبو یا ہماری مرضی کے مطابق چلو ۔   
٭- اب دنیا کے خصوصاً سیاسی افق پر ، وہ نظام طلوع ہورہا ہے۔ جو یوروپئین مفادات  کا علمبردار ہے ۔
*-جنگ کے ذریعے دولت اکٹھا کرو ۔
*-بیماریاں پھیلا کر دولت اکٹھا کرو ۔
*- تعلیم کے نام پر دولت اکٹھا کرو
*- سامانِ تعیشات کو عام کر کے دولت اکٹھا کرو۔
*- اسلام میں ، مسلمانوں کے ذریعے ، نقب لگاتے رہو ۔


جب سے فیس بک ، پاکستان میں مقبول ہوئی ہے ۔ میڈیا کو زقند لگ گئی ہے ۔ اور اتنی سوشلائز ہوئی کہ پاکستان کا ہر نوجوان اِس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگا ۔ سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور مذہبی حدود،  محلے ، گاؤں ، شہر ، ملک ، براعظم سے گزرتی پورے گلوب پر پھیل گئیں ۔ لیکن اِس نے جہاں تعلیمی، باخبری  اور مثبت سوچوں کی حدود کو کم وسعت دی ، ذہنی غلامی کو کسی کینسر کی طرح  پھیلا دیا ۔    اِس وقت ہم   سب ، اِن دونوں باغیوں کے ایک قسط کے ڈرامے میں کھو کر اِس امید پر ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہیں کہ سب" پاکستان میں کچھ ہونے والا ہے "  کے منتظر ہیں-
لیکن اس کے باوجود لاکھوں تو نہیں ہزاروں ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ کیا پاکستان کا سیاسی نظام ، مضبوط و توانا ہوکر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے گا ۔ جس نظام میں  ،
*- ایک اَن پڑھ سے لے کر انتہائی تعلیم یافتہ ،
*- ایک عام آدمی سے لے کر بہترین ہنر مند ،*- ایک گاؤں کا رہنے والا اور  نہاتی ترقی یافہ شہر کا رہنے والا ۔
سب حصہ بقدر جثّہ مستفید ہوں، کیوں کہ یہی آفاقی سچ ہے ۔ کہ آپ میرا حصہ نہیں چھین سکتے نہ میں آپ کا حصہ روک سکتا ہوں ۔مگر یہ کیسے ممکن ہے  ؟
مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ۔موجودہ حالات میں، میں نے بہت پہلے تجویز دی تھی کہ :
٭- ملک میں صدارتی نظام ہو اور صدر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو ۔یا
٭- پارلیمانی نظام کی صورت میں ، ہر چیف آف آرمی سٹاف ، تین سال بعد چئیرمین جائینٹ چیف بنے اور اُس کے تین سال بعد ، صدرِ پاکستان (2-58، بی کے ساتھ) 
٭-  
سیاست دانوں میں سے چار سال کے لئے   وزیر اعظم چناجائے ۔جو پورے پاکستان سے  75 فیصد ووٹ لے ۔

٭-
صدر اور وزیر اعظم کی عمر  کسی بھی صورت میں 63 سال سے تجاوز نہ کرے۔اور باقی تمام  گورنر ، صوبائی اسمبلی کے ممبران ، عہدیداران اور سرکاری ملازمین کی حتمی عمر  ملازمت کے لئے 60 سال سے کم ہو ، ایڈھاک بنیادوں پر یا مشیر کے طور پر وہ نااہل ہوں ۔وہ جتنے بھی قابل ہوں اُنہیں کسی بھی صورت میں دوبارہ ملازمت پر نہ رکھا جائے ۔

٭- 
گورنر ، چاروں صوبوں کے سول سروسز کے اعلیٰ عہدیدار ۔(ممبر صوبائی اسمبلی کے خفیہ ووٹوں سے بنیں )
٭-  قومی اسمبلی ختم کر دی جائے اور ہر صوبائی اسمبلی کے دس ممبر (5 ٹیکنو کریٹ اور 5 دیگر ) ہر سال کے لئے اسمبلی میں قومی معاملات کے لئے ، قومی کابینہ  کا حصہ بنیں ۔ یہ ممبر ہر اجلاس میں لازمی آئیں ، ایک بھی اجلاس میں نہ آنے والے کو ، ہٹا دیا جائے ۔ اور صوبائی اسمبلی دوسرا ممبر اُس کی جگہ بھیجے ۔
٭-  
بنیادی جمہوریت سے لیکر صدر اور وزیر اعظم پاکستا ن ، بشمول   سرکاری یا نیم سرکاری ملازمین جو ممبراخلاقی  یا جسمانی  بیمار ہو وہ  سلیکشن کا اہل نہ ہو اور بعد میں  معلوم ہونے پر اپنے منصب سے ہٹا دیا جائے۔
 
٭-  بنیادی جمہوریت کا نظام   ملک میں طاقتور نظام ہو ،  تمام ضلع  آبادی کی برابری کی بنیاد پر بنائے جائیں ۔ اسی طرح تحصیل اور یونین کونسل بھی آبادی کی برابری کی بنیاد پر بنائے جائیں ۔ ضلع ناظم ، صوبائی اسمبلی کا ممبر بھی ہو ۔ہر صوبے کو ضلع کی برابری کی بنیاد پر بنایا جائے ۔ضلع ناظم  کی کم ازکم عمر 40 سال ہو اور وہ گریجوئیٹ ہو ۔
٭-  صحیح مردم شماری کے بعد  پاکستان کی آبادی  تمام ضلعوں میں تقسیم کیا جائے ، ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں کوئی خاندان اُس وقت  ہجرت کرے جب وہ ضلع اِس کی اجازت دے ۔ ضلع کی حدود میں ، تعلیم ، میڈیکل مفت ہوں اور دوسرے ضلع میں یہ سہولتیں رقم دے کر خاصل کرے  جو اُسے ، مستقل ضلع سے واپس ادائیگی ہو ۔ سرکاری ملازمین کے لیے   رقوم مستقل ضلع  سے علاج کے ضلع میں ٹرانسفر کی جائیں ۔
٭-  تمام  ترقیاتی فنڈ ، ضلع کی بنیاد پر    آبادی  بشمول  دیگر ضلعوں سے آئے ہوئے افراد کو مد نظر رکھ کر تقسیم کئے جائیں ۔  
٭- سرکاری ملازمت کے موقع ہر کسی کو برابری کی بنیاد پر فراہم کرنے کے لئے کوٹہ سسٹم ختم کرکے ، تحصیل کی سطح سے ، نیشنل کیڈٹ کور کی طرح 10 گریڈڈ نمبر دئے جائیں جو نیشنل ٹیسٹنگ بورڈ کے امتحان میں شامل ہوجائیں ۔تمام پروموشن ، بذریعہ امتحان ہوں ، انٹرویو اور اے سی آر سسٹم ختم کیا جائے ۔ نقل کا  اخلاقی جرم ثابت ہونے پر  ملازمت سے برخواست کیا جائے ۔
٭-
تمام منسٹریوں کو  قومی پالیسی رکھتے ہوئے صوبائی سطح پر تقسیم کر دیا جائے ۔  صوبائی منسٹریاں ختم کر دی جائیں ۔
٭-قومی کابینہ کا کام ، صوبائی معاملات کو قومی سطح پر دیکھنا ہو ، تمام آئینی کام اور ترامیم صوبائی اسمبلی کی سطح پر ہو ۔
٭-   سینیٹ ختم کر دی جائے ۔
٭-  خواتین کی تمام سیٹ ختم کر دی جائیں ۔ خواتین صرف خواتین کو ووٹ دینے کی اہل ہوں ۔ اور وہ ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوں ۔ (اس طرح بیویاں، بہنیں ، بھتیجیاں ، سالیاں کسی کا حق نہ مار سکیں گی ) ۔ انتخاب کے ذریعے بے شک سارا خاندان اسمبلوں میں آجائے ، کوئی مضائقہ نہیں ۔
٭-  تمام الیکشن نان پارٹی کی بنیاد پر ہوں ، پاکستان کا آئین ہی پارٹی کا آئین ہو ۔ کسی کو اپنا آئین بنانے کی اجازت نہ ہوں ۔ ہاں پارٹی انسانوں کے لئے اسے کس طرح عملی طور پر سرانجام دے گی وہ روڈ میپ ضرور بتا سکتی ہے ۔
فہم کے لحاظ سے تین پارٹیاں ہوں ۔
*-مذھب خیال ۔ ( سو فیصدی سعودی عرب ماڈل)
*-آزاد خیال ۔ ( سو فیصدی یورپی ماڈل)
*-معتدل خیال ۔ ( پاکستانی ماڈل)
٭- سال کے اسلامی مہینوں کو مد نظر رکھتے ہوئے 52 خطبے الصلوٰۃ یوم الجمعہ کے لئے لکھ کر ہر صوبائی اسمبلی کی مشاورت سے کتابی صورت میں بک اسٹال پر رکھ دئیے جائیں ، جو ہر مسجد ، ہر فرقہ میں پڑھے، جائیں۔( اہل تشیع کے لئے بھی ایسا ہی کیا جائے ) ان خطبوں کے علاوہ کسی قسم کے خطبے پڑھنا فوجداری جرم  اورفتنہ قرار دیا جائے ۔
٭- تمام سکولوں مکے، نصاب سے تمام مذہبی مواد ، سوائے قران عربی(لازمی) کے نکال دیا جائے ۔ مذھب پڑھنے کے لئے اپنی اپنی محلہ مساجد میں کلاسیں شروع کی جائیں ۔ جہاں طالبعلم (لڑکا) کی مرضی وہ کلاس میں جائے یا نہ جائے لیکن ، فیس ہر حالت میں مسجد میں جمع کروائی جائے اور اسلامیات کا پرچہ آپشنل کے طور بورڈ اپنے جاری کردہ نصاب سے لے ۔
لڑکیوں کے لئے گرلز سکول میں ایک پیریڈ مختص کیا جائے۔
٭- باقی پورے پاکستان میں ایک نصاب ہو ، زبان علاقائی ہو یا اردو یہ طالبعلم پر منحصر ہو ۔
٭-  تمام سرکاری ملازمتیں ، سرکاری سکولوں میں پڑھنے والوں کو دی جائیں ۔
٭- تمام سرکاری ملازموں کا سرکاری ہسپتالوں میں علاج ہو ۔بشمول  ممبر صوبائی اسمبلی و قومی کابینہ ، صدر و وزیر اعظم ۔  پرائیویٹ ہسپتالوں ، غیر ممالک میں ، قومی خرچے سے علاج ناممکن ہو ۔  ایسی صورت میں بیمار افراد اپنی  پوسٹ سے ہٹے ہوئے تصور کئے جائیں ، ہائی بلڈ پریشر ، دل کا مرض ، اور دیگر متعدی امراض میں مبتلاء سیاسی افراد ،  ممبر بننے کے اہل نہ ہوں ،  سرکاری ملازمین کا بھی سختی سے میڈیکل کروایا جائے ، اَن فٹ ہونے کی صورت میں ، جلدی ریٹائر کر دیا جائے - 
٭- تمام  انسانی جھگڑوں کے لئے ، مصالحتی کمیٹیاں قائم کی جائیں ۔
آفاقی سچ ہے ۔



يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ  :-
يا داؤود !بے شک   ہم نے تجھے     الارض میں خلیفہ قرار دیا  !   (صرف دو وجوھات  کی بنیاد پر  )  1- فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ
پس  انسانوں کے درمیان الحق  سے حَکم  کر !   (الحق الکتاب میں درج ہے )

2-
وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ
    اور اُن کی الھویٰ ( اپنے فائدے  کے حکم)  کی اتباع مت کر ! وہ ( اُن فائدے  کے حکم)  تجھے سبیل اللہ  میں سے ضلالت( کی طرف کر) دیں گے إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ  آیت (26) ص (38)
بے شک وہ  جو سبیل اللہ  میں سے ضلالت( کی طرف) ہوتے ہیں ۔ اُن کے لئے  شدید عذاب ہے ، اس لئے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے !

اِس پوری کائینات میں
داؤود ! کو اللہ نے  الارض میں خلیفہ قرار دیا   ، کیوں ؟ کیا خوبی تھی  داؤود میں ؟


وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّ‌يَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُ‌ونَ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ﴿الأنعام: 84﴾
ہم نے اُسے (ابراہیم کو) اسحٰق  اور یعقوب  ھبہٰ کئے کل کو ہم نے ہدایت دی ۔ اور قبل میں سے  نوح کواور اُس  (ابراہیم) کی ذریّت    داؤود  اور سلیمان اور ایّوب اور یوسف اور موسیٰ اور ھارون     کو ہدایت دی ، اور اِس طرح ہم محسنین کو جزاء دیتے ہیں 

 محمد رسول اللہ کو اللہ نے کیا حکم دیا ؟ 


أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرً‌ا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَ‌ىٰ لِلْعَالَمِينَ ﴿الأنعام: 90﴾ 
یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ھدایت دی  پس اُن کی ہدایت کی اقتدا کر! ۔ کہہ میں تم سے اُس (اقتدا)  پر  کسی اجر کا سوال نہیں کرتا ۔

محمد رسول اللہ جن انبیاء کو اللہ نے ہدایت دی اُن سب کی  اقتدا کا مرکز بنے ، جن میں ھدایت ِ خلافتِ داؤد  بھی تھی ۔ 
آپ ﷺ پر  الحمد سے لے کر والناس تک دی جانے والیهَدَى اللَّـهُ ۖ     مرکوز ہوکر   رحمت للعالمین بنی ۔

آپ مندرجہ بالا تجاویز کو بہتر بنا سکتے ہیں یا اپنی تجاویز دے سکتے ہیں!

1 تبصرہ:

  1. اسلام وعليكم ! ابهي ارتيكل دبكها هي جو 7ستبر كا لكها هؤا هي اتنا اجها اور صحيح تجزيه كئيا هي كه اس ارتيكل كو بار بار برهكر ازبر كرنا جاهتي هون ! اب جيسي حضرات ني ساري قوم برظلم كئيا هي اتني مستحكم خيالات كي ساته بس برده رهنا خود بر اعلى باكستاني ازهان كو اذئيت ديني كي مترادف هي،، مين اس كي بهت سي مدات بر تحفظات كي باوجود معمولي ترميم كي ساته من وعن قبول كركي ان خيالات كو برموت كرنا ضروري سمجهتي هون

    جواب دیںحذف کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔