آج صبح تقریباً پونے چھ بجے گالف شروع کی سبزگھاس پر پڑی شبنم یا سردیوں کی اوس ، ہلکی ہلکی چلتی ہوئی بادِ سحر کالطف اُٹھاتے ہوئے جب ساتویں ھول پر دوسری شاٹ لگا کر چلا تو " فیئر وے" کے درمیان یہ ننھا سا پودا نظر آیا ،
" سانپ چھتری " ذہن کے کسی عمیق گوشے سے یہ نام چھلانگ مار کر سامنے آگیا،
1958 کا زمانہ تھا ، ایبٹ آباد کی وسیع چراگاہوں میں ، یہ بے شمار اُگی ہوئی ہوتی تھیں ۔ کچھ ابھی کِھلنے کے انتظار میں اور کافی پوری کھلی ہوئی ، ہم اِس کے گودے بھرے ننھے سے تنے کو دو انگلیوں میں پکڑتے اور اکھیڑ لیتے ، الٹا کرکے دیکھنے پر یہ بالکل چھتری کی طرح لگتی عموماً اِس کا چھاتا ، انچ قطر کا ہوتا ۔ لیکن جو جانوروں کی کھاد پر اُگتیں وہ بلا شبہ دو سے تین انچ قطر کی ہوتیں اور ہماری نظر میں وہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتیں ، کیوں ؟
ہم بچوں میں مشہور تھا کہ رات کو بارش سے بچنے کے لئے سانپ اِس نے نیچے سوتا تھا یوں یہ سب سانپ چھتریاں کہلاتیں ۔
جب میں نے اِسے دیکھا ، تو یک دم موبائل جیب سے نکال کر اِس " سانپ چھتری " (Panaeolus Foenisecii) کی تصویر محفوظ کر لی ۔ تاکہ آپ لوگوں کو بھی دکھا سکوں !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں