Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 29 اپریل، 2019

براہ کرم خبر ضرور لگائیں

میرپورخاص  کے اسلام آباد میں مہاجر  قادر غوری نے ذیل کٹنگ فیس بُک پر ڈالی  ۔ جس میں ہاتھ سے لکھے ہوئے ، تحریری نوٹ کو کمپوزر نے مہارت سے  خبر کی  سرخی بنادیا :
اخباری دنیا میں غلطیاں جان بوجھ کر بھی کی جاتی ہیں ۔ 
کیوں ؟
یہ دیکھنے کے لئے کہ اخبار کون کون باریک بینی سے پڑھتا ہے ؟
جب ڈان نیا نیا آیا تو اُس کی ڈسٹریبیوشن کی ٹیم میں دو میرے آفس کے ممبر بھی تھے ۔
 کلاسیفائیڈ اشتہاروں کے لئے میری کمپنی DOSAMA Advertsers اسلام آباد کے لئے  کئی اخباروں  میں رجسٹر تھی۔
پراپرٹی ڈیلرز اشتہار دیتے مگر کوئی رسپانس نہیں ہوتا ، لہذا اشتہارات بک ہونا کم ہوگئے ۔ آفندی صاحب سے میٹنگ کے دوران طے پایا کہ کوئی طریقہ ڈھونڈھا جائے کہ جس سے رسپانس کا انڈیکیٹر جانچا جاسکے۔ چنانچہ میں نے ایک اشتہار لگانے کا سوچا ، اُن دنوں پینٹئم 1 اور 2 مارکیٹ میں آچکے تھے ، پینٹیئم 3 مہنگا تھا ۔ لہذا اشتہار تیار کیا ۔ پینٹیئم -3 صرف 4000 روپے میں ۔ اور ڈوساما کمپیوٹر  کے پینل  کی طرف سے اشتہار دیا ۔
 کیا آپ یقین مانیں گے کہ اُس اشتہار کے نتیجے میں چارسو سے زیادہ فون میرے موبائل پر آئے ؟
 اور پہلا فون ، آفندی کا تھا !
 اُسے بتایا کہ کمپوزر نے ایک صفر اُڑا دیا ہے چالیس ہزار کو چار ہزار کر دیا ہے ۔
 بعد میں اُسے بتایا کہ سب سے کم سرکولیشن والے اخبار کی ریڈرشپ کو جانچنے یہ ایک منفی طریقہ ہے ، مگر بہرحال معذرت چھاپنے سے منفیت کا تاثر زائل جاتا ہے۔
 دیگر کردار کشی کی خبروں میں ایسا نہیں ہوتا ،
 جس کی ہیڈلائنز   کی معذرت اشتہارات کے نیچے دو لائینوں میں شائع کی جاتی ہے ـ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ 

جمعرات، 25 اپریل، 2019

خاک کے پردے میں چھپا-یوتھیا

مت سہل اِنہیں جانو ، پھرا ہے عمران 20 سال
تب خاک کے پردے سے وزرا ڈھونڈے ہیں
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 کل دنیا نیوز کے حسب حال پروگرام میں سہیل احمد بطور فواد چوہدری اور جنید سلیم بطور ٹی وی اینکر کے درمیان ایک سنجیدہ گفتگو!
 اینکر: سر یہ بتائیے کہ خان صاحب کو آپ کو وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنانے کا خیال کیسے آیا؟ 
 فواد چودھری : ہوا یوں کہ ایک مرتبہ خانصاحب نے مجھ سے کہا کہ میں تم کو وزیر اطلاعات کے عہدے سے ہٹانا چاہتا ہوں ۔جس پر میں نے کہا کہ خان صاحب اس ایکشن کا ری ایکشن بھی ضرور ہوگا- جس پر خان صاحب نے کہا کہ یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو تو میں نے بتایا کہ یہ نیوٹن کہہ گیا ہے کہ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے- خان صاحب بھولے آدمی ہیں — انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ نیوٹن کون تھا تو میں نے بتایا کہ یہ بہت بڑا سائنسدان تھا جس پر خانصاحب بڑے خوش اور حیران ہوئے کہ تم اتنا سائنس کا علم رکھتے ہو- بس شاید ان کو میری یہ بات یاد رہ گئی اور انہوں نے مجھے وزیر سائنس بنا دیا- 

اینکر: لیکن سر سائنس کے ساتھ آپ کو وزیر ٹیکنالوجی بھی بنایا گیا ہے! 
فواد چودھری: وہ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ میں اور خانصاحب کچھ دوسرے پی ٹی آئ لیڈران کے ہمراہ بیٹھے شغل کررہے تھے کہ سامنے چلنے والے پیڈسٹل فین کے پلگ سے چٹاخ پٹاخ کی آواز آئی اور پنکھا بند ہوگیا- ایک دوست نے اٹھ کر دیکھا تو پلگ کی تار جل گئی تھی- وہ تار جوڑنے کے لئے پلاس لینے گیا- میں نے پلگ کی تار نکال کر دانتوں سے چھیل کر دو منٹ میں تار دوبارہ پلگ میں لگادیا-
خان صاحب بڑے حیران ہوکر مجھ سے پوچھنے لگے کہ فواد تم یہ سب کیسے جانتے ہو؟
 میں نے اپنے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے : خانصاحب سے کہا سر جی اس کو کہتے ہیں ٹیکا نا لوجی—- بس خان صاحب بڑے متاثر ہوئے اور میرٹ پر مجھے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی بنادیا-

 اینکر: تو سر اب آپ سائنس و ٹیکنالوجی کے لئے کیا انقلابی اقدامات اٹھائیں گے؟
 فواد چودھری:  فواد کے لئے چوبیس گھنٹے بہت ہوتے ہیں- وزارت ملے چوبیس گھنٹے ہوئے ہیں اور میں نے ایسے ایسے پلان بنا لئے ہیں کہ آپ سن کر حیران رہ جائیں گے- ہم نے ناسا کو بڑے بڑے آرڈر دے دئے ہیں- چاند اور مریخ پرانے ہوگئے اب پاکستان خود نیا سیارہ دریافت کرے گا— ہم عوام کے چاند پر جانے کے لئے اڑنے والی ٹرین بھی جلد شروع کریں گے- شیخ رشید نے وعدہ کیا ہے کہ وہ چائنا سے اڑنے والی ٹرین منگوادیں گے - ہر دو گھنٹے بعد چاند ٹرین عوام کے لئے دستیاب ہوگی-

 اینکر: سر آپ کی اس وزارت سے ملک کو کیا معاشی فائدہ ہوگا؟
 فواد چودھری: آپ دیکھئے گا کہ میری وزارت کے دوران ہم سائنس و ٹیکنا لوجی کے ذریعے کتنا ذر مبادلہ ملک کے اندر لائیں گے—- چاند پر چرخا کتنے والی بڑھیا کو کاٹن ہم ہی سپلائی کرنے جارہے ہیں ہمارا معاھدہ ہوگیا ہے- ساتھ ہی ہم اس بڑھیا کے پچھلے ستر سال کے کام کا احتساب بھی شروع کرنے والے ہیں کہ پچھلے ستر سال سے چرخہ چلائے جارہی ہے لیکن حساب کتاب کوئی  نہیں! 
اینکر: مگر سر جی وہ بڑھیا تو لاکھوں سال سے چرخہ کات رہی ہے پچھلے ستر سال سے نہیں؟ فواد چودھری : او میرے بھولے بادشاہو ہمارا تو بس پچھلے ستر سال کا لینا دینا بنتا ہے نا! پہلے  کا حساب انگریز جانیں اور وہ !

 اینکر: سر جی آپ کی وزارت میں کچھ نوکریاں وغیرہ بھی نکلنے کے امکانات ہیں؟
فواد چودھری (مسکراتے ہوئے):   جناب خانصاحب نے جن ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا ہے وہ ساری میری ہی وزارت میں نکلنے والی ہیں-
 اینکر( حیرت سے):  سر وہ کیسے؟ 
فواد چودھری:وہ اس طرح کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے - بے وقت کی ہوا طوفان سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں - ہم ایک کروڑ لوگوں کو نوکریاں دیں گے اور ان کو چادریں فراہم کریں گے- وہ یہ چادریں تھام کر  فصلوں کے چاروں طرف کھڑے رہیں گے- جب بھی تیز ہوا چلے گی وہ کھیتوں کے چاروں طرف چادریں تان کر کھڑے ہوجائیں گے اور کھیت اور فصلیں تباہی سے بچ جائیں گے- بارش ہوگی تو وہ چادریں فصل کے اوپر تان دیا کریں گے—- اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ فصلوں کو ہوا کی بھی ضرورت ہوتی ہے- جب کبھی ہوا بند ہوگی تو پھر انہی چادروں سے پنکھا جھل جھل کر ہوا بھی پیدا کرنا پڑے گی- یاد رکھیئے اب قوم کو کام کرنا پڑے گا—- ھڈ حرامی نہیں چلے گی- آھو!


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

منگل، 23 اپریل، 2019

حساب برابر

 ایک دفعہ ایک گاوں کے چوہدری نے ایک مستری کے ذمہ ایک دیوار بنانے کا کام لگ گیا۔
مستری نےچوہدری سے کہا

"  جی تسی آرام کرو میں شام تک بنا دواں گا تے رات نوں مزدوری لے جاواں گا" ۔
چوہدری سکون سے اپنے کاموں کو نکل گیا۔
رات کو جب واپس آیا اور    دیوار کے پاس پہنچا تو دیوار تو مکمل تھی مگر بالکل ٹیڑھی۔
چوہدری نے اپنے ملازم کو کہا،
" مستری ۔بلا لاؤ اور گاؤں والوں کو بھی "
تھوڑی دیر بعد گاؤں  اکٹھا ہو گیا اور مستری بھی آ گیا
سارے پنڈ نے کہا، "  اؤے مستری اے کی چول ماری وا ؟ "
مستری نے جب دیکھا کہ مزدوری تو دور کی بات یہاں تو جوتیوں سے خدمت کے بہت چانسز ہیں۔
وہ اٹھا ،   دیوار کو دھکا دے کر گرادیا ، اور بولا:
" لو جی تہاڈی دیوار گئی تے
ساڈی مزدوری !

لگتا کچھ یوں ہے کہ اسی سال کہ آخر تک یا پہلے ہی
ملکی معیشیت کا بیڑا غرق کر کے اسمبلیاں توڑ کر کہا جائے گا۔

تہاڈی معیشت گئی تے
ساڈی حکومت

ہن حساب برابر  😂😂

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اتوار، 21 اپریل، 2019

پٹاکا ہے پٹاکا

"  ما ما ، آج ہم نے پاپا کے ساتھ جاتے ہوئے  عجیب عجیب الفاظ سنے " ۔بڑا دس سالہ بیٹا بولا
 " کیوں کیا ہوا ؟ " ماں نے پوچھا ۔
دونوں بیٹوں کو سکول  چھوڑنے  اُن کی ماں جاتی اور وہاں سے آفس چلی جاتی  یا ڈرائیور ،  یہ کوئی  پانچ  سال سے روٹین تھا ۔
ڈرائیور کی بیٹی کی شادی تھی  وہ چھٹی لے کر چلا گیا ،  بیوی کی طبیعت خراب ہو گئی ۔ تو شوہر کو یہ ڈیوٹی انجام دیناپڑی ۔  اور آج شوہر کا پہلا دن تھا ۔ 
 ماما جب ہم آپ کے ساتھ جاتے ہیں تو ، 
سٹیوپڈ ، جاہل ، گاڑی چلانا نہیں آتی ۔ 
 سڑک کے درمیان میں کیوں کھڑے ہو گیا ہے احمق ۔
 پٹھان کے گدھے کی طرح  کیوں چل رہا ہے ، گاڑی تیز چلا ۔  بیٹے نے ماں کا مذاق اڑاتے ہوئے  اداکاری کے انداز میں بتایا ۔
" اچھا  ا ا ا ا ا۔  تو آج کون سے عجیب الفاظ سنے ؟ "   ماں نے پوچھا
سوھنیو ، ساڈا وی خیال کرو !
ھائے  مار ڈالا ۔

ھارن نہ بجا ،  ٹھمکا لا  !
پٹاکا ہے پٹاکا !
 بیٹے نے   سادگی سے ماں کو بتایا ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

جمعہ، 12 اپریل، 2019

نوکریوں کی بارش

کتنے پیسے بھیجوں بیٹا؟" میں نے اپنی ریڑھی سے آلو اٹھا کر ہوا میں اچھالتے ہوئے پوچھا۔ دوسرے ہاتھ میں فون تھا جس پر میرا بیٹا مجھ سے بات کر رہا تھا۔
"ابو ایک سو روپے بھیجیں گے تو ہمیں ایک ماہ کے لیے کافی ہیں"، بیٹے نے جواب دیا۔
"ایک سو روپے کے کتنے ڈالرز بنتے ہیں؟" میں نے سوال کیا۔
"بیس ہزار ڈالرز ابو"، بیٹے نے جواب دیا۔
میں امریکہ سے بسلسلہ روزگار پاکستان آیا تھا۔ میں نے امریکہ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پی ایچ ڈی کیا تھا لیکن پاکستان میں میری ڈگری بی اے کے برابر تھی اور یہاں ہر کوئی پی ایچ ڈی تھا۔ اس لیے نوکری نہ ملی تو سبزی کی ریڑھی لگا لی۔

 میرا تعلق کیلیفورنیا سے ہے۔ پاکستان میں آیا تو پتہ چلا یہاں انگریزی زبان پر پابندی ہے۔ اس لیے مجھے اردو سنٹر میں داخلہ لے کر اردو سیکھنا پڑی۔ اس دوران مجھے بیروزگاری الاؤنس کے تحت ماہانہ اتنے پیسے مل جاتے کہ تین ماہ میں میری فیملی نے واشنگٹن میں اپنا ذاتی گھر خرید لیا۔
"بیٹا اتنے کم مت مانگا کرو۔ یہاں میں ماہانہ دو لاکھ روپے کما لیتا ہوں۔ ٹیکس ادا کر کے میرے پاس اس وقت تین کروڑ روپے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ سارے بھیج دیتا ہوں"، میں نے کہا۔
"ابو ہمیں پیسے نہیں چاہیں۔ ہمیں نکالیں یہاں سے۔ نہیں رہنا ہم نے اس گندے ملک میں۔ ہمیں بھی پاکستان لے چلیں"، میرا بیٹا اپنا مستقبل پاکستان میں بنانے پر بضد تھا۔
"بیٹا تمہاری امریکی تعلیم یہاں کسی کام کی نہیں۔ تمہاری اردو ابھی اتنی اچھی نہیں کہ تمہیں یہاں کلرک کی نوکری بھی ملے۔ رشوت سفارش کا تو پاکستان میں تصور بھی نہیں۔ یہ پاکستانی ہم امریکیوں جیسے کرپٹ نہیں ہیں۔ اور ویسے بھی دنیا کی ٹاپ پانچ سو یونیورسٹییز ساری پاکستان میں ہیں۔ عالمی نمبر ون یونیورسٹی آف پھالیہ میں داخلے کے لیے تمہیں دوبارہ پیدا ہو کر آنا پڑے گا پاکستانی شہریت کے ساتھ۔
پاکستانی ڈگری کے بغیر تمہیں یہاں نوکری ملنا ممکن ہی نہیں۔ تم ایسا کرو یہاں کی کسی دیہی یونیورسٹی میں آن لائن اپلائی کرو۔ شاید داخلہ مل جائے!" میں نے مایوس لہجے میں کہا۔
"جی ابو۔ اچھا یاد آیا۔ امی کا کینسر اب لاعلاج ہو گیا ہے۔ یہاں کے نیشنل ہیلتھ انسٹیٹیوٹ کے بورڈ نے کہا ہے کہ اب ان کا علاج پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں ہو سکتا!" بیٹے نے پریشان ہو کر بتایا۔
"بیٹا تم فوراً ویزہ اپلائی کرو۔ یہاں علاج دوا سب مفت ہے۔ تم لوگ فوراً آ جاؤ۔ اچھا ابھی فون بند کرو، گاہک آیا ہے"، یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔
میری ریڑھی دراصل ایک سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ کمپاؤنڈ میں ایک سٹال تھا جہاں پر سبزیاں پھل ڈبوں میں پیک کر کے دیے جاتے تھے۔ کمپاؤنڈ کی چھت سے لٹکی 7 ڈی سکرین پر خبر چل رہی تھی کہ کینیڈین وزیر اعظم کو بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر دورانِ تلاشی روک دیا گیا تھا۔
"بہت سخت قوانین ہیں پاکستان کے!" میں نے تاسف سے سوچا۔
اسی دوران کمپاؤنڈ میں ایک برطانوی بھکاری داخل ہوا۔ فوراً کمپاؤنڈ کے سنسر نے خود کار طریقے سے پولیس کو اطلاع کر دی اور بھکاری ابھی کمپاونڈ کے وسط میں نہ پہنچا تھا کہ باہر پنجاب پولیس کی پندرہ سے بیس ٹربو کاریں آ کر رکیں اور سیاہ وردیوں میں ملبوس لیزر گنز سے مسلح پنجاب پولیس کے بیس پچیس کمانڈوز اندر گھس آئے۔ انھوں نے لیزر ڈیٹیکٹرز سے بھکاری کی تلاشی لی اور غیر مسلح ہونے کی تصدیق کر کے گرفتار کر لیا۔ اگلے دو منٹ میں کمپاؤنڈ کو کلیئر قرار دے کر پنجاب پولیس غائب ہو گئی۔
اسی لمحے سکرین پر خبر آنے لگی کہ جڑانوالہ سبزی منڈی سے ایک بھکاری گرفتار کر لیا گیا۔ ساتھ ہی وزیراعظم کا بیان چلنے لگ گیا جس میں عوام سے اس غفلت پر معافی مانگی گئی اور وعدہ کیا گیا کہ اس بھکاری کو فوراً انگلینڈ کے حوالے کیا جائے گا اور انگلینڈ سے ہرجانہ لیا جائے گا۔
اگلی خبر میں بتایا جا رہا تھا کہ چین اور روس پاکستان سے آسان شرائط پر قرضہ لینا چاہ رہے ہیں لیکن پاکستان نے سابقہ قرضہ کی وصولی کے لیے چین اور روس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عوام پر لگائے ٹیکسوں میں اضافہ کریں۔ 
جس خبر پر مجھے زیادہ دکھ ہوا وہ میرے اپنے ملک کے بارے تھی۔ اسلحہ سازی پر پاکستان کی جانب سے عائد پابندی کی خلاف ورزی کرنے پر پاکستان نے امریکہ پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ملائی کاروبار


بدھ، 10 اپریل، 2019

یادوں کے دریچوں سے



 ہم نے اپنا بچپن ایسے باورچی خانوں میں گذارا۔
 فرق یہ تھا کہ وہ پکی سپاٹ دیواروں کے تھے ۔ جن پر تختے لگا کر برتن سجائے ہوتے تھے ، جن میں مٹی کی ہانڈی، پیتل کے دیگچے، چمچ اور پانی کے برتن ،جن کے اندر قلعی کرائی جاتی،  جب قلعی گر آتا تو ہم سب بچے اُس کے گرد بیٹھ کر اُس کی قلعی کرنے کی مہارت دیکھتے ، پیتل کا زنگ وہ  برتن کو گرم کرنے کے بعد نوشادر سے صاف کرتا تو برتن چمک اُٹھتا ، اور جب کو دائرے میں بنی قلعی کا ٹکڑا  گرم  برتن میں ڈال نوشادر والے کپڑے  سے رگڑتا تو  پیتل یا تانبے کے برتن پر چاندنی چمک اُٹھتی ۔
کھانے کے لئے تام چینی کی پلیٹیں اورمگ ، دودھ گرم کرنے کی ایلمومینیم کا دیگچہ، اچار کا مرتبان اور ہاں پراٹھے  بنانے کے لئے سیدھا توا  اور روٹیاں بنانے کے لئے الٹا توا ۔
آٹا گوندھنے کی پیتل کی پرات ، جس کو ہم بہن بھائی ۔ ناقوس یا بینڈ بجانے کے لئے استعمال کرتے ۔ جس کے لئے بڑا چمچ ، بیلن یا لنگری کا ڈنڈا، پرات سے مختلف آوازیں نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ۔
پھر آہستہ آہستہ باوچی خانہ معلوم نہیں کیسے کچن میں تبدیل ہوگیا ۔
نہ وہ مٹی کی چینی چڑھی ہانڈی رہی اور نہ وہ ڈوئی ۔ 
جس کا استعمال والدہ  مرحومہ اکثر ہماری شرارتوں پر کیا کرتیں ۔ بلکہ یوں سمجھیں کہ چمٹے کے کریڈٹ میں کافی جھنکاریں ہوتی تھیں  ۔ ہمارے مکمل صوتی تاثرات کے ساتھ ہوتیں ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

پیر، 8 اپریل، 2019

مردہ مچھلیوں کی فروخت

 ٭اسلام آباد-چک شہزاد روڈ پر مردہ مچھلیوں کی فروخت !
 
کیا مچھلیاں زندہ فروخت ہوتیں کاکے ؟؟ 

منگل، 2 اپریل، 2019

حاسبین: بلحاظ، شمس ، قمر ، نجوم اور زراعت ۔


روح القدّس نے محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے نباء اور حکم بتایا:

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّـهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّـهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ﴿9:36﴾

وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا [71:16]

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [21:33]

لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [36:40]

اللّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّمَاوَاتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأََجَلٍ مُّسَمًّى يُدَبِّرُ الْأََمْرَ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُم بِلِقَاءِ رَبِّكُمْ تُوقِنُونَ [13:2]

الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ ﴿55:5﴾

فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ [6:96]

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [10:5]

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ [39:5]

وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ ۖ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِّتَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا ﴿ 17:12﴾

وَسَخَّر لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَينَ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ [14:33]

وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالْنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالْنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ [16:12]

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُواْ بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ [6:97]

وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ [41:37]

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ[55:6]

وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُّخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُّتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِن طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِّنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ ﴿6:99﴾

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ﴿6:141﴾

يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ ﴿75:6﴾ 
 
فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ ﴿75:7﴾ وَخَسَفَ الْقَمَرُ ﴿75:8﴾ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ ﴿75:9﴾ 
 
إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ [81:1] وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ ﴿81:2﴾

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔