ہم نے اپنا بچپن
ایسے باورچی خانوں میں گذارا۔
فرق یہ تھا کہ وہ پکی سپاٹ دیواروں کے تھے ۔
جن پر تختے لگا کر برتن سجائے ہوتے تھے ، جن میں مٹی کی ہانڈی، پیتل کے
دیگچے، چمچ اور پانی کے برتن ،جن کے اندر قلعی کرائی جاتی، جب قلعی گر آتا تو ہم سب بچے اُس کے گرد بیٹھ کر اُس کی قلعی کرنے کی مہارت دیکھتے ، پیتل کا زنگ وہ برتن کو گرم کرنے کے بعد نوشادر سے صاف کرتا تو برتن چمک اُٹھتا ، اور جب کو دائرے میں بنی قلعی کا ٹکڑا گرم برتن میں ڈال نوشادر والے کپڑے سے رگڑتا تو پیتل یا تانبے کے برتن پر چاندنی چمک اُٹھتی ۔
کھانے کے لئے تام
چینی کی پلیٹیں اورمگ ، دودھ گرم کرنے کی
ایلمومینیم کا دیگچہ، اچار کا مرتبان اور ہاں پراٹھے بنانے کے لئے سیدھا
توا اور روٹیاں بنانے کے لئے الٹا توا ۔
آٹا گوندھنے کی پیتل کی پرات ، جس
کو ہم بہن بھائی ۔ ناقوس یا بینڈ بجانے کے لئے استعمال کرتے ۔ جس کے لئے
بڑا چمچ ، بیلن یا لنگری کا ڈنڈا، پرات سے مختلف آوازیں نکالنے کے لئے
استعمال کیا جاتا ۔
پھر آہستہ آہستہ باوچی خانہ معلوم نہیں کیسے کچن میں تبدیل ہوگیا ۔
نہ وہ مٹی کی چینی چڑھی ہانڈی رہی اور نہ وہ ڈوئی ۔
پھر آہستہ آہستہ باوچی خانہ معلوم نہیں کیسے کچن میں تبدیل ہوگیا ۔
نہ وہ مٹی کی چینی چڑھی ہانڈی رہی اور نہ وہ ڈوئی ۔
جس کا استعمال والدہ مرحومہ اکثر
ہماری شرارتوں پر کیا کرتیں ۔ بلکہ یوں سمجھیں کہ چمٹے کے کریڈٹ میں کافی
جھنکاریں ہوتی تھیں ۔ ہمارے مکمل صوتی تاثرات کے ساتھ ہوتیں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں