انسانی زندگی کو بعض دانا سیکنڈ ہینڈ کار سے تشبیہ دیتے ہیں جو مختلف صبر آزما مراحل سے گذرتی اپنی منزل کی
طرف رواں دواں رہتی ہے۔ کہیں ٹائر پنکچر ہو گیا تو اس وجہ سے دھرنا مار کر بیٹھ
جاتی ہے کہ پیٹرول ختم۔ کبھی اترائی پر اس قدر تیز دوڑتی ہے، کہ بیٹھنے والا گھبرا
جاتا ہے۔ لیکن اکثر دھکا لگوائی جاتی ہے۔ پی ایم اے کی زندگی بھی اسی طرح کے مراحل
کو مجموعہ ہے۔ ہر دم دھڑکا کہ، کیا ہماری گاڑی بخیر و خوبی ،اکیڈمی سے نکل سکے گی۔ اور نکلنے کے بعد اس کا رخ کس طرف ہوگا؟
سیکنڈ
ٹرم کے بعد ہم، تھرڈ ٹرم میں آئے اب ہم سے سینئیر صرف ایک
کورس تھا۔ جو کبھی موج میں آکر ہمارا سکون تہہ و بالا کردیتا لیکن باقی
دونوں جونیئر کورسز سے چھپا کر، لیکن ہماری آہیں تو فضا میں، گھومتی
گھامتی جونئیرز کے کانوں میں
پڑتیں اور وہ باجماعت دعا مانگتے کہ ہمیں صبح تک رگڑا ملے تاکہ ان کے دل
میں ٹھنڈک
پڑے۔
گو کہ ہم خود کو پچاس فیصد کمیشنڈ آفیسروں میں سمجھنے لگے تھے۔ راتوں
کو خواب
بھی کچھ ایسے ہی نظر آتے لیکن ِ صبح گھڑی کے الارم کی خوفناک گونج کے پس
منظر میں
آنے والی”فال اِن“کی آوازیں، تمام خیالی قلعوں کو زمیں بوس کر دیتیں، شب و
روز
کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھ رہے تھے-
مڈٹرم سے پہلے، پلاٹون سارجنٹ نے ایک فارم ہمارے ہاتھوں میں پکڑا دیا کہ سوموار تک جمع کروا دیں اور جن کا کلیم ہے
وہ ضرور لکھیں۔ مت پوچھیئے خوشی سے ہماری کیا حالت تھی، جسم پر کپکپی طاری ہوگئی،
ٹانگیں کپکپانے لگیں، گھٹنے کھڑکھڑانے لگے اور شادی ء مرگ کی کیفیت
طاری ہو گئی،
یا خدا! یہ کیسا انقلاب ہے ہم سے اکیڈمی میں ، ہماری خواہش پوچھی جا رہی ہے، اور یہاں
یہ حالت کہ :
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دَم نکلے
سارا
ہفتہ خود کو والکنگ ریمپ پر مختلف لباسِ عساکر کے روپ میں دیکھتے رہے۔
کبھی پیادہ فوج کی وردی میں، اور کبھی آڑدیننس اور کبھی توپخانے کی، لیکن
خدا گواہ ہے کہ بچپن سے ہمیں بینڈ والوں کی وردی بہت بھاتی تھی ۔ جب ایک
آراستہ و پیراستہ کلّا پہنے ، موٹے پیٹ والا بینڈ ماسٹر دستے کے آگے ایسی
شان سے چلتا ۔ جیسے راج ہنس اپنے قافلے کے ساتھ رواں دواں ہو ۔
اُس کی چال کی ہم نے دوستوں کے ساتھ اتنی نقل اتاری ۔ کہ اکیڈمی میں جب
پہلی دفعہ پلاٹون کے ساتھ نیکر پہن کر مارچ کے لئے چند قدم بڑھے تھے کہ
سٹاف نے آواز لگائی ۔
“ نعیم صاحب ، بطخ کی طرح مت چلیں ، کیڈٹ بنیں کیڈٹ ، زمین پر اتنی زور سے پاؤں ماریں کہ چشمہ اُبل پڑے “
ہماری حالت اس بچے کی طرح تھی کہ جس
کے سامنے بہت سے کھلونے رکھ دئے ہوں، اور ان میں سے ایک کا انتخاب، اس کے لئے
مسئلہ بن جائے، ایسا مسئلہ کہ "دل ادھر ہے اور جان ادھر"، اور وہ سارے
کھلونے سمیٹ کر یکدم اٹھا کر بھاگ جانے کی خواہش دل میں دبا کر بیٹھا، حسرت سے سارے
کھلونوں کو دیکھتا ہو-
ویسے بھی ہم اکیڈمی میں ابھی طفل مکتب تھے، ہم میں وہ
دوراندیشی اور بالغ نظری پیدا ہونا باقی تھی، جو فائینل ٹرم کے کیڈٹ میں ہوتی ہے۔
پی ایم اے میں مائیٹی سینئر ہونا آسان کام نہیں،
ابھی ہمارے اس منزل کے خاردار راستے سے گذرنے میں چار ماہ پڑے تھے۔ کافی سوچ و بچار، کی ریڈیو پر، ملی نغموں کو بار بار سنا، چنانچہ جذبہ جہاد پر
بلاوے کی پر شکوہ دھن۔
”اے مردِ مجاھد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا“ نے امن کی فاختہ کو اُڑادیا اور ہم نے پیادہ فوج کے لئے پہلا نمبر دیا، دوسرے اور تیسرے نمبر پر، جن آرمز
کاانتخاب کیا، وہ ہمیں ملنا ناممکن تھیں۔ اور اُن سے سروکار بھی نہیں تھا وہ تو
محض خانہ پُری تھیں، لہذا بتانے کا فائدہ بھی نہیں۔
فارم جمع کروا کر ہم خو کو مکمل انفنٹری آفیسر کے روپ میں دیکھتے،
سینئیر کی غیر موجودگی میں پی ایم اے روڈ
پر سینہ پھُلا کر ایسے چلتے جیسے لقاء کبوتر، دڑبے سے نکل کر چلتا ہے۔
تھرڈ ٹرم کے خاتمے پر، ہم نے آرٹ اور کیمرہ کلب
کے لئے جتنی تصاویر بنائیں، ان سب کا موضوع، جھولا پٹھو پہنے، دوڑتا، چھلانگ لگاتا،
رسی سے لٹکا، پیرا شوٹ سے اترتا، فوجی ہی تھا۔
ٹرم بریک میں ہم، پیرا کورس کے لئے
پشاور روانہ ہوئے۔ پیرا کورس کے نامکمل
خاتمے کے بعد پورا کورس واپس آیا تو ہم، اکیڈمی کے سب سے سینئیر کیڈٹ بن چکے تھے- بے تاج بادشاہت، ہمارے قدموں میں اور تین عدد جونئیر کورس،ہمارے رحم و کرم پر
تھے۔ جہاں سے گذرتے، ”سلام علیکم سر“ کی صدا گونجتی۔ جونئیر ہمارے ناز اٹھاتے، ہمارے ایک جملے ، " اے یووووو " پر، ساکت کھڑے
ہوجاتے اور دوسرے جملے پر " کبھی خاک کے پردے سے یا نالے کی تاریک سرنگ سے " کیڈٹ برآمد ہوتے ، بس نہ پوچھیں، کیا پرلطف زندگی، ہم گذار رہے تھے۔
پی ایم اے روڈ پر ایسے نکلتے، کہ دائیں ہاتھ میں سیچل (جسے اردو میں بستہ کہتے ہیں) لہرا رہا ہوتا، جو کندھے سے اتر کر
ہاتھ میں آگیا تھا اور سینئیرز کا امتیازی نشان تھا۔سٹاف بھی نیچی اور دبی زبان میں،
یہ سینئر صاحب، ٹھیک مارچ کریں،
نعیم صاحب -سیچل ایسے مت لہرائیں جیسے کوئی مٹیار کنویں پر دوپٹہ، لہراتے جارہی ہے،
یہ فلاں صاحب ایسے مت چلیں، جیسے سر پر مٹکا اٹھا یا ہے،
پی ایم اے روڈ کو مال روڈ مت سمجھیں ۔ٹہلیں ن ن ن مت!
کیڈٹ کی طرح چلیں ، صا ا ا ا ا ا ا ا ا ا
ا ا ا ا ا ا ا ا ا ا اب ۔
ہم بے نیاز انداز میں،پی ایم اے روڈ پر ، رواں دواں رہتے۔ کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ ہم مستقل جنٹل مین کیڈٹ کلب کےممبروں میں سے ایک ہیں ۔
فائینل ٹرم میں ہمارا سینہ کچھ ضرورت سے زیادہ باہر آگیا تھا، خاص طور پر
جب کوئی جونئیر ہمارے آرمز کے انتخاب کے بارے میں پوچھتا۔ سیچل (بستے) پر خود ہم
نے بڑے بڑے حروف میں اپنی پسندیدہ انفنٹری بٹالین کا نام اور مونوگرام بنایا تھا،
تاکہ جو لوگ لاعلم ہیں اور نہیں جانتے کہ ہمارا انتخاب کون سی بٹالین ہے وہ بھی
جان لیں۔
دن آہستہ آہستہ آگے بڑھ
رہے تھے، ہمارے شریف طفل مکتب، یعنی جنٹل مین کیڈٹ کے لقب کے خاتمے کے دن قریب
آرہے تھے۔ دل کی دھڑکنوں کی رفتار بڑھ رہی تھی مڈٹرم سے پہلے، ایک دن پیغام ملا،
کہ آرمز کے انتخاب کو فائینل کرنے کے لئے، پلاٹون کمانڈر کا انٹرویو ہے۔
پلاٹون کمانڈرنے
گذشتہ سالوں میں ہمیں بچپن سے پالے ہوئے دنبے کی طرح اچھی طرح ٹٹولہ، دانت گنے اوربالکل فٹ بنادیا تھا۔ لہذا،
ان کی رائے ملٹری سیکریٹری برانچ کے لئے مقدم اور حتمی تھی ۔
ہم سے
پہلے کئی پلاٹون میٹس، میجر متین مہاجر کا آفس گھوم آئے، ہماری باری آئی
تو ہم، کیلوں والے بوٹوں سے ٹکا ٹک کی پرشور آوازیں آواز
نکلواتے ہوئے ، پلاٹون کمانڈر کے کمرے کے دروازے کے سامنے، چیک، ون ٹو، کہہ کر پکے فرش پر زور سے پیر مار
کر رکے،تاکہ فرش ٹُٹ جائے تڑخ کرکے ، گلا پھاڑ کر ،
"مے آئی کم ان سر ر ر ر ر ر! "کی
کڑک دار آواز نکالی،
” یس کم ان “ پلاٹون کمانڈر نے اجاز ت مرحمت فرمائی۔
کمرے میں داخل ہوئے۔ پلاٹون کمانڈر نے سر
سے پاؤں تک دیکھا، خوف کی ایک لہر، ریڑھ کی ہڈیوں سے گذرتی پیروں تک گئی، ایک خوفناک
خیال نے سر ابھارا۔
دل کی گہرائیوں سے دعا نکلی ، ”یا اللہ
رحم، میرے مولا رحم، پلاٹون کمانڈر، وردی
میں کوئی خرابی نہ نکال دے "۔
آہ کیوں کہ دل سے نکلی
تھی، پرواز کرتی ہوئی، عرش کی جانب کوچ کر گئی اور پلاٹون کمانڈر کی نظریں ، ہمارے
جوتوں سے اٹھ کر ، بیلٹ سے ہوتی ہوئی ، ٹوپی تک پہنچیں اور سامنے پڑے ہوئے کاغذ، پر
جم گئیں۔
”تمھاری میپ ریڈنگ اچھی
ہے لیکن تم انفنٹری میں جانا چاہتے ہو؟“ ۔
ہم نے بلند آواز سے کہا،”یس سر!“ ،
”اوکے، مارچ آف“ پلاٹون کمانڈر نے آرڈر دیا،
”یوریکا “ دل میں نعرہ مارا،
الٹے پاؤں پھرے اور کمرے سے باہر نکل آئے، ہماری
بانچھیں کانوں تک چری دیکھ کر، ساتھیوں نے مبارکباد دی۔ ہم امتحان عشق کا آخری
مرحلہ بھی پاس کر چکے تھے۔
پاسنگ آوٹ، سے پندرہ دن پہلے،
تمام کورس کو اینگل ہال میں جمع
ہونے کا آرڈر ملا، معلوم ہوا کہ آج، ہمیں اپنی اپنی آرمز اور یونٹ کے بارے میں بتایا
جائے گا۔ باقی مشتاقان دید کی جلو میں ہم بھی، اینگل ہال پہنچے۔ ڈائس پر کمپنی و
ٹرم کمانڈرز اور ملٹری سیکریٹری برانچ سے آئے ہوئے آفیسرز بیٹھے تھے۔
بٹالین
کمانڈر نے ڈائس پر آکر، نے باری باری سب
کا نام اور یونٹ کے بارے میں بتانا شروع کیا، خوشی اور غم کے سائے، کیڈٹس کے چہروں
پر نظر آنے لگے۔ کئی کیڈٹس کی امیدوں پر اوس پڑنے لگی اور ہمارے دل میں ہمدردی کی گھٹائیں اٹھنے لگیں،
اور بالآخر، ہمارا نمبر پکارا،گیا
ہم بڑی شان سے کھڑے
ہوئے گویا ہفت اقلیم کی بادشاہت ملنے والی
ہے، پھر اعلان کادوسرا حصہ سنا تو ہمیں اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔بٹالین کمانڈر
کی گونج دار آواز (لاوڈ سپیکر کی بدولت) کسی شک و شبہ سے بالا تر تھی، ہمیں یوں
لگا کہ کشش ثقل ختم ہوگئی ہے، غالباً صورِ
اسرافیل پھونک دیا گیا ہے۔ یا ہم ریلوے
سٹیشن پر جا پہنچے ہیں۔ جہاں لاوڈ سپیکر سے آواز تو آرہی ہے لیکن الفاظ پانی میں
ابل کر ادا ہو رہے ہوں، لیکچر ہال ہمارے چاروں طرف گھوم رہا تھا۔ ایک دھماکا ہوا، ہوش آیا
تو خود کو کرسی پر بیٹھا ہوا پایا۔دائیں بائیں بیٹھے ہوئے پلاٹون میٹس دلاسہ دینے
لگے، کچھ نے تو باقائدہ تعزیت کرڈالی،
ہماری حالت اس شخص کی تھی جس کو سفر ہفت خواں کے
بعد مژدہ سنایا جائے، کہ یہ سامنے جو کٹیا نظر آرہی ہے اس میں۔لیلیٰ۔ تمھارے
انتظار میں ہے۔
وہ شخص، اپنی تھیلی میں سے کنگھی نکال کر بال سنوارے، پانی کی بوتل
سے آخری چند گھونٹ نکال کر چہرے سے ریت دھوئے۔ اور کٹیا کی طرف اس امید پر بڑھے کہ
اندر سے لیلیٰ یہ کہتے ہوئے بے تابی سے نکلے،
”ڈارلنگ، میں پورے دو
سال تمھارا بے چینی سے انتظار کر رہی ہوں“
لیکن آپ تصور کریں، اس وقت اس بے چارے کی کیا
حالت ہوگی کہ، کٹیا کا دروازہ کھلتے ہی، حضرت قیس داڑھی بڑھائے اول
جلول بنے برآمد ہو اور یہ کہتے ہوئے بغل گیر ہوجائے۔
”میری لیلیٰ میں تمھیں اب کہیں نہیں جانے دوں گا"۔
خدارا ہنسئیے مت،
شکستہ دل اور ناتمام آرزوؤں کا جنازہ سامنے پڑا ہو تو بتیسی کا نکلنا گناہ کبیرہ ہے ، حضور آپ ماتم کریں، ماتم ، ہمارے حال زار پر!-
رنج و الم وغصے میں بھرے ہم پلاٹون کمانڈر کی طرف بڑھے، جی چاہتا تھا
کہ اینگل ہال کے آفس کے سامنے ایک سٹیج بنائیں، مجمع اکٹھا کریں، اور ظلم و جبر کے
نمائیندوں، ملٹری سیکریٹری برانچ کے
اہلکاروں کے خلاف ایک مدلل اور زہر بھری شعلہ بیاں تقریر کریں، جو تان سین کے دیپک
راگ کی طرح چار سو آگ لگا دے۔مگر ہائے مجبوری پلاٹون کمانڈرکو دیکھتے ہیں، غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، سب الفاظ
بھاپ بن کر اڑ گئے۔ جو دلجوئی کے انداز میں
کہہ رہے تھے، کہ
" نائم ، تمھاری میپ ریڈنگ بہت اچھی ہے اسی لئے میں نے تمھارے لئے، ”سفید
ڈوری“ کا انتخاب کیا ہے"
بہت سے لوگوں کو نہیں معلوم یہ سفید ڈوری کیا ہوتی ہے؟ کیا امن کا نشان ہے؟ نہیں بس اسے ”وائیٹ لین یارڈ“ کہتے ہیں جو پہلے توپچیوں کا نشان ہوتا تھا۔
تم ایک بہترین ”گنر آفیسر“
بنو گے۔
ہمارے لبوں سے کراہ نکلی، جس کے معنی تھے، ”آہ
بروٹس تم بھی!“ جن پہ تکیہ تھا وہی پتہ ہوا دینے لگا۔
پلاٹون کمانڈر
کے پاس کھڑے ہوئے، میجر ریاض شاہ
نے مبارک باد دی اور ہماری معلومات میں اضافہ کیا،
” 57ماؤنٹین رجمنٹ، میری یونٹ
ہے جس میں تم جا رہے ہو، یہ آزاد کشمیر کے بہترین مقام" نیلم ویلی "
میں ہے۔ مبارک ہو“۔
یوں ایک اور کیل ہمارے دل کے تابوت میں ٹھونک دی گئی، اب سندھ
کا رہنے والا جنٹل مین کیڈٹ، کشمیر میں نیم لفٹین بن کر توپ چلائے گا اور مزید پردیسی ہو جائے گا۔
اُف پلاٹون میٹس کے قہقہے،
طنز، چوٹیں ،” توتا توپ چلائے، سیکنڈ لفٹین تالی بجائے“۔
جیسے زہر میں بجھے تیروں
سے چھلنی ہوتے ہوتے، بالآخر ہم بوجھل دل
اور ناتمام خواہشوں کے ساتھ پاس آؤٹ ہوئے،
سیکنڈ لفٹین بننے کی خوشی اپنی جگہ پر لیکن خواہشوں کے جنازے کو پلاٹون کمانڈر کے حکم پر کندھا دینا اور انہیں امیدوں کے قبرستان میں دفن کرنا ہر کس و ناکس
کا کام نہیں ۔ اس کے لئے بڑی ہمت، دل و گردے چاہئیں، ع
دفنانا ذرا دیکھ
کر، آرمز، زدہ کی لاش ۔ لپٹی ہوئی وردی میں
کوئی آرزو نہ ہو۔
نوٹ: یہ مضمون 1977 کے زمزمہ میگزین میں شائع ہوا تھا ۔