Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 28 جون، 2021

فکر غامدی کا علمی محاکمہ-0

 

 ایک دوست نے گروپ میں مرزا جہلمی پر تحقیق لکھنے کا کہا تھا۔ غامدی کی طرح کی تحقیق۔ 

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فقیر 2005 میں انگلینڈ سے واپس آیا تو ملک کی چھوٹی کی یونیورسٹیز کے بہت سے پروفیسرز اور سٹوڈنٹس کو غامدی کا گرویدہ پایا۔ چنانچہ میں نے جیو ٹی وی پر غامدی کو سننا شروع کیا۔ بندہ بلاشبہ انٹیلیکچول ہے۔ اس کی تحریر و تقریر مدلل ہوتی ہے۔ عام آدمی اپنی کم علمی کی وجہ سے اس کی چرب زبانی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن الحمدللہ علماءکرام اس کی غلطیوں کو خوب پہچان لیتے ہیں۔

فقیر نے دس سال اس کا تعاقب کیا ہے۔ اس کی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ خط و کتابت کی ہے۔ اس کے ساتھ اور اس کے خاص الخاص شاگرد ڈاکٹر فاروق مرحوم آف مردان سے کئی بالمشافہ ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کی فکر کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے۔ اس سے مکالمہ کیا ہے۔ 2015 تک پہلے جیو اور پھر آج ٹی وی پر اس کی ہر ہر پروگرام کو سنا ہے۔

اب بھی اس پر مزید تحقیق کر رہا ہوں۔ پچھلے سال کے نومبر سے گروپ کے ایک ساتھی کے بار بار اصرار کے بعد اس سال کے شروع میں غامدی پر صرف 3 قسطیں لکھ دی ہیں۔ اگر اصرار نا ہوتا تو یہ تین بھی ابھی نہیں لکھتا۔ امید ہے کہ مزید لکھوں گا تو کامل دس قسطیں پوری ہوں گی۔

سوال یہ ہے کہ غامدی کے تعاقب پر اتنی محنت کیوں؟۔

جواب یہ کہ غامدی کی سوچ سائینٹفک اپروچ پر مبنی ہے جو کہ اس کا خاصہ نہیں بلکہ انگریز سے سر سید و فراہی نے مستعار لیا ہے۔ اس کی وضاحت مضمون میں کی ہے۔

ہمارے پڑھے لکھے افراد کے ذہن پر اس انگریزی سائینٹفک کہلانے والی اپروچ کا پہلے ہی گہرا اثر ہے۔ اس لیے وہ روایتی علماء کی نسبت غامدی کی فکر جلد اپنا لیتے ہیں۔

بلاشبہ غامدی ایک بہت بڑا ابھرتا فتنہ ہے۔ اس پر لکھی تحقیق کا اتنا گہرا ہونا ضروری ہے جو اس کی جڑ اکھاڑ کر پھینک سکے۔

جدید پڑھے لکھے طبقے میں بغیر تحقیق یا کمزور تحقیق سے جو بھی بات پیش کرو تو ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے۔ علماء کے خلاف پہلے ہی ان کا ذہن آلودہ ہے۔ اس لیے فقیر کی عادت ہے کے کوئی تحقیق اس وقت تک پیش نہیں کرتا جب تک اس کے مختلفہا پہلو مدنظر نا ہوں تاکہ کوئی دلیل رد ہو تو اس کےثبوت پر فقیر کے پاس دلائل کا انبار ہو۔ الحمدللہ سائیں کی نگاہ کرم سے تحقیق کا یہ طریقہ کار علماء و یونیورسٹی پروفیسرز وغیرہ میں یکساں سازگار ہے۔
رہ گیا مرزا جہلمی تو اس کی چند تفصیلی ویڈیوز اور کچھ کلپس دیکھتے ہی بور ہو گیا ہوں۔ من گھڑت تشریحات اور نیم روایات کی جاہلانہ بھرمار کا نام ہے مستری جہلمی۔ بھلا بندے کا کچھ معیار تو ہو کہ اس پر لکھیں۔  یہ تو وہ جاہل ہے جو اپنی جہالت سے خود بھی باخبر ہے کہ وہ جاہل ہے بس ادھر کی ادھر اور ادھر کی ادھر ہانکتے رہو اور سادہ عوام کی سادہ لوحی کو استعمال کرو۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں : 

٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-0

٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-1


٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-2

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔