Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 29 جون، 2021

کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ CTD کا اہم کردار

پیٹر پال اینتھنی ڈیوڈ کا تعلق محمود آباد کراچی سے ہے یہ محمود آباد گلی نمبر 21 کا رہائشی تھا- یہ پچھلے 20 سال سے روزگار کے سلسلے میں بحرین میں ہوا کرتا تھا اور بحرین میں یہ سکریپ کا کام کیا کرتا تھا- کرونا کی وجہ سے بحرین میں اس کا کام ٹھپ ہوگیا تو یہ پاکستان میں واپس آگیا اور یہاں آکر یہ ہوٹلنگ کے بزنس کے وابستہ ہوگیا-

ہوٹلنگ کے بزنس کا یہ مطلب نہیں کہ ہوٹلنگ کا کاروبار شروع کیا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ اس نے ہوٹلز میں یا مختلف پارٹیز میں ڈلیوری کا کام شروع کردیا- یہاں اس کی ملاقات ایک "کرن" نامی خاتون سے ہوئی- اور پیٹر جب بھی لاہور آتا تو کرن کے ساتھ ہوٹل میں سٹے کرتا- اور شائد یہ ہوٹل بھی اسی کا تھا- لیکن یہ فی الحال کنفرم نہیں-

پیٹر کسی کام کے سلسلے میں دبئی گیا جہاں اس سے پہلی دفعہ "راء" کے کچھ آفیشلز سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے پیٹر کو ان کے لئے کام کرنے کے بدلے اچھی خاصی رقم کی آفر کی جس کو سن کر پیٹر نے ان کے ساتھ کام کرنے کی حامی بھرلی- اور پہلا کام پیٹر کے ذمے "حافظ سعید" کے گھر کے راستے میں بم دھماکہ کرنے کا سونپا-

چنانچہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس والے دن حافظ صاحب کو نشانہ بنا کر پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کا پلان بنایا گیا اور اس کے لیئے ساری منصوبہ سازی دبئی میں ہوئی- اور اس پلان کو بنانے والا سمیع اللہ نامی شخص تھا جس نے دبئی میں یہ پلان تیار کیا- اور یہی سمیع اللہ نامی شخص بم دھماکے والے دن پیٹرپال اینتھنی ڈیوڈ سے رابطے میں تھا-

اس بم دھماکے کو بڑی باریکی سے پلان کیا گیا-اس دھماکے میں جو گاڑی استعمال ہوئی اس کو حافظ آباد سے خریدا گیا- اور یہ گاڑی ماضی میں چوری ہوچکی تھی  چنانچہ اس گاڑی کو پیٹر پال ڈیوڈ نے اپنے دوست سجاد حسین کو دیا اور اس کو مردان لیجانے کو کہا- سجاد حسین پیٹر کا 10 سال پرانا دوست تھا- جس کو پیٹر نے اپنے اس پلان میں شامل کیا- اور اس کا تعلق منڈی بہاؤالدین سے تھا۔

سجاد اور کرن دونوں اس گاڑی کو گوجرانوالہ سے مردان لیکر گئے- اور مردان میں ایک کار مکینک جس کا نام ضیاء خان تھا سے کار میں بم فٹ کروایا- اور اس کار کی ڈگی کو لاک کروادیا- اس کار کی ڈگی کو لاک کروانے کا مقصد یہ تھا کہ اگر رستے میں کہیں چیکنگ ہوبھی جائے تو پولیس سے یہ ڈگی کھلے نا اور شک کا فائدہ فائدہ مل جائے کہ شائد کار کی ڈگی لاک ہوگئی ہے-

چنانچہ ایسا ہی ہوا-- کرن اور سجاد لاہور میں بابو صابو کے رستے اینٹر ہوئے ان کی گاڑی سلو ہوئی لیکن آگے کرن یعنی خاتون کے بیٹھے ہونے کی وجہ سے گاڑی کو اشارہ کرکے آگے جانے دیا گیا- اس کے بعد یہاں اینٹری ہوتی ہے ایک اور شخص جس کا نام عید گل تھا- یہ وہ شخص تھا جس نے گاڑی کو مطلوبہ جگہ پر پارک کرکے آنا تھا-

چنانچہ عید گل صاحب نے گاڑی کو کینال روڈ سے ڈاکٹرز ہاسپٹل، اور پھر جناح ہاسپٹل سے ہوتا ہوا جوہر ٹاؤن مطلوبہ مقام تک پہنچا اور گاڑی کو پارک کرکے یہ شخص پشاور والی گاڑی میں بیٹھ کر موٹروے پر روانہ ہوگیا- دھماکہ ہوا اور دھماکے کے بعد ہماری ایجنسیاں سر جوڑ کر بیٹھی- یہ پلاننگ اتنی شاندار تھی کہ اس کا کریک ہونا بہت ہی مشکل تھا-

لیکن کہتے ہیں ٹیکنالوجی بندے کے لیئے جتنی فائدہ مند ہے اتنی ہی بندے کو مروانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے چنانچہ جیو فینسنگ اور ڈمب ڈیٹا کی مدد سے سب سے پہلے CTD کے ہاتھ جو بندہ لگا وہ اس بم دھماکے کا پاکستان میں ماسٹر مائینڈ تھا- اور وہ تھا پیٹر پال ڈیوڈ- جس کے بعد کراچی سے اس کے سالے، اور بیٹے کو اٹھایا گیا- اس کے بعد حافظ آباد سے اس گاڑی بیچنے والے بندے کو اٹھایا گیا- اس کے بعد کرن گرفتار ہوئی-، پھر سجاد حسین منڈی بہاؤالدین سے گرفتار ہوا-- سجاد حسین کے بعد ضیاء خان مردان سے گرفتار ہوا--

اور آخر میں اس گیم میں سب سے اہم کردار عید گل کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا- اور یوں صرف 4 دن کے اندر اندر CTD Punjab نے سارے کا سارا کیس کریک کرکے رکھ دیا اس کیس میں یہ ملزمین دبئی سے سمیع اللہ نامی بندے سے ٹچ میں تھے اور سمیع اللہ ان کو مسلسل فون پر ہدایت دے رہا تھا- اور ان کو ہینڈل کررہا تھا- پیٹر پال کا یہ پہلا کام تھا اور اس کا پولیس کے پاس کسی قسم کا کریمینل ریکارڈ نہیں تھا-

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔