Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 29 جون، 2021

کچھ باتیں ۔ اردو کے بارے میں

میں پنجابی ہوں اور میری مادری اور پدری زبان پنجابی ہے، میں پنجابی ہوں مگر میں پاکستان نامی ایک ملک میں رہتا ہوں، میں حنفی العقیدہ سنی ہوں مگر میں اصل میں مسلمان ہوں، اب اگر کوئی کہے کہ تمہارا مذہب کیا ہے تو کیا میں اپنا مذہب حنفی العقیدہ سنی بتاؤں یا مسلمان بتاؤں؟ اسی طرح اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تمہارا ملک کون سا ہے تو کیا میں اس کو پنجاب بتاؤں کہ پاکستان بتاؤں؟ بالکل اسی طرح جب میری زبان کی بات ہوگی تو وہ اردو ہوگی نہ کہ پنجابی۔
پھر یہ کچھ جاہل منشیوں اور خود ساختہ اردو کے ماہرین کی حماقتیں ہیں کہ اردو نے اس جگہ جنم لیا جو آج کل بھارت میں ہے۔ میں ان کو بتاتا ہوں اصل کیا ہے؟

 اردو نے برصغیر میں جنم لیا اور برصغیر کے تمام خطوں میں ایک ساتھ پھلی پھولی اور اس کی حقیقت اس بات سے پتا چلتی ہے کہ یہ بیک وقت حیدرآباد دکن، بنگال، پنجاب، خیبر پختون خواہ، سندھ، بلوچستان، دہلی، بہار، لکھنؤ، میسور، آسام، کشمیر میں پھلی پھولی۔
پھر جو جاہل منشی یہ بات بتکرار کہتے ہیں کہ یہ کوئی ملغوبہ زبان ہے اور یہ فلاں فلاں زبانوں کے ملاپ سے بنی ہے یہ بات ان کی جہالت، کم علمی اور زبانوں کے ارتقا سے مکمل ناواقفیت کے سوا کچھ ثابت نہیں کرتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو کا ارتقا بالکل اسی طرح ہوا جیسے دنیا کی باقی زبانوں کا ارتقا ہوا، اس میں اردو کوئی ایسی گڑی پڑی زبان نہیں ہے جیسا کہ اردو کے نام نہاد منشی عالم ثابت کرتے ہیں۔
ایک بات انگریزی گزیدہ حضرات کے علم یا جہالت میں اضافہ کرنے کے لئے اور بتا دوں کہ جس وقت انگریزی نے جنم بھی نہیں لیا تھا اور انگلینڈ کے شاہی درباروں میں اٹلی اور فرنچ کی حکمرانی تھی۔ اردو اس سے بہت پہلے ہی ایک زبان کے طور پر جانی اور مانی جاتی تھی اور ایک معتبر حیثیت اختیار کر چکی تھی۔

 انگریزی کے پہلے شاعر چاسر سے کوئی 200 سال پہلے امیر خسرو اردو میں اپنا کلام لکھ رہا تھا اور اردو کے محاورات اور روز مرہ کو اپنی شاعری اور بول چال میں استعمال کر رہا تھا، اردو کی معلوم تاریخ تقریبا" 1200 سال پرانی ہے جب کہ انگریزی کی تاریخ 600 سال سے زیادہ پرانی نہیں ہے، یہ تو پاکستان کے غلام حکمران بیچ میں آ گئے ورنہ اردو اس وقت دنیا کی سب سے معتبر اور علم کے پھیلاؤ کے لحاظ سے سب سے موثر اور وسیع ترین زبان ہوتی۔
اس کے بعد ایک اور بات جو جاہلوں کی جہالت کو ثابت کرنے کے سوا کچھ اور کام نہیں کرتی، وہ یہ کہ اردو میں میڈیکل ، انجینیئرنگ، سائنس، ٹیکنالوجی اور دوسرے علوم میں تعلیم کیسے دی جائے گی؟ 

یہ سب علوم تو صرف انگریزی میں ہی پڑھائے جا سکتے ہیں۔

 اب ان جاہلوں سے ایک سوال کیا جرمنی، فرانس، کوریا، چین، جاپان، اٹلی، سپین، ہالینڈ، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ، لکسمبرگ، لیٹویا، لتھوانیا، اسٹونیا، روس، کوریا، ترکی، یوکرائن اور دنیا کے 200 دیگر ممالک نے اپنی زبانیں چھوڑ کر انگریزی میں سب کچھ پڑھانا شروع کر دیا ہے؟
پھر جاہلوں سے ایک اور بات بھی پوچھ لوں کہ تمہارے پاس علم ہی کتنا ہے، کیا تمہارے علم میں یہ بات ہے کہ پاکستان کی وفاقی اردو یونیورسٹی، بھارت کی جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن (1928 سے 1948 تک، 1948 میں جب بھارت نے حیدر آباد دکن پر فوج کشی کے بعد قبضہ کیا تو جامعہ عثمانیہ کا ذریعہ تعلیم اردو سے بدل کر انگریزی کر دیا) ، اور ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں تمام علوم کی تعلیم اردو میں دی جاتی ہے۔
انتظار بس اتنا کہ کب کسی پاکستانی حکمران کو ان باتوں کی سمجھ آئے اور پھر وہ اس ملک میں اس ملک کی زبان کو نافذ کردے۔ اس کے بعد ترقی، خوشحالی اور علم، سائنس، ٹیکنالوجی اور معیشت کے فروغ کی بات کچھ زیادہ مشکل، زیادہ دور نہیں رہے گی۔

پروفیسر محمد سلیم ہاشمی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں :
٭- رومن اردو سے اردو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔