Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 28 جون، 2021

فکر غامدی کا علمی محاکمہ-1

   

 فکر غامدی کا علمی محاکمہ

 تحقیق و تدوین: فقیر انجنئیر پروفیسر ڈاکٹر محمد فواد حیدر مقصودی نقشبندی عفی عنہ

🌲⚘🌲 قسط اول 🌲⚘🌲

      📚 حقیقت غامدیت 📝

جب سے اللہ تعالی نے اس کائنات کو بنایا۔ تو اللہ نے خیر وشر دونوں کو تخلیق فرمایا۔ پس ابتداء تخلیق سے اب تک خیر وشر بر سر پیکار ہیں اور جب تک رب کریم چاہے گا یہ معرکہ یونہی برپا رہے۔ خیر وشر کی اس جنگ میں شر نے ہمیشہ خیر کو شکست دینے کے لیے دجل و فریب کا سہارا لیا ہے۔ خیر کی قوتوں کی بڑی فتح نبی کریم، خاتم النبین علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دنیا میں تشریف آوری اور دین اسلام کی تکمیل ہے۔ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر آج تک شر کی قوتوں نے روپ بدل بدل کر خیر کو مغلوب کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب دوبدو جنگ میں شر کو کامیابی نا ملی تو شر نے خیر کا روپ دھار کر لوگوں کو خیر کے روپ میں شر کی طرف مائل کرنا شروع کیا اور اس کے لیے ہر طرح کا دجل و فریب روا رکھا۔ مخبر صادق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس دجل سے پہلے ہی خبردار فرما دیا ہے اور فرمایا کہ

أنّه سَيَکُوْنُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنّه نَبِیٌّ وَ أَنَا خَاتَمُ النَّبِيِيْنَ لَا نَبِيَ بَعْدِيْ.

’’میری امت میں تیس (30) اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‘‘

 ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب : ماجاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذابون، 4 : 499، رقم : 2219

یہ تیس دجال تو وہ ہیں جو نبوت کا جھوٹا دعوی کریں گے۔ لیکن ان کے مددگار اور اہل دجل بھی آتے رہے گے جو اہل اسلام کے ایمان کو اغواء کرنے کے لیے دجل و فریب سے کبھی علمیت، کبھی زہد وتقوی، کبھی جہاد کا لبادہ اوڑھتے رہیں گے۔ اگر ہم تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو 1400 سال سے ایسے کذاب ایک تسلسل سے آ رہے ہیں۔ جنھوں نے آیات ربانیہ اور احادیث نبویہ کی من مانی تشتریحات کر کے امت مسلمہ میں نت نئے فرقے اور فتنے پیدا کیے اور اس طرح اساس دین کو تبدیل کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ موجودہ غامدیت اسی دجالیت کا تسلسل ہے۔ یوں تو برصغیر پاک وہند میں اسلام کے غلبے کے ساتھ ہی اسلام مخالف فرقوں نے بھی فتنہ انگیزی کے لیے برصغیر کا رخ کیا۔ لیکن انگریز کے آنے کے بعد اس دجالی نظام کو نئی زندگی ملی ہے۔ مسلمانوں کو سیاسی شکست دینے کہ باوجود آئے دن کی غلغلہ جہاد سے تنگ آئے انگریز نے لارڈ میکالے جیسے چالاک و مکار تجزیہ نگار کو حالات کے تجزیہ اور بہتر تجاویز دینے کی مہم پر لگایا۔ لارڈ میکالے نے 6 سال کے دورہ ہندوستان کا نچوڑ یہ نکالا کے جب تک اسلام کی فکری اساس کو توڑا نا جائے۔ مسلمانوں کی کمر ہمت کو توڑنا ممکن نہیں۔ پس انگریز نے اس مقصد کی تکمیل کی خاطر چند ابن الوقت نفوس کو خرید کر اسلام میں تجدید کی نام پر تحریک کو شروع کیا۔ اس جدت پسند تحریک نے آج تک اسلام کی عمارت کو ڈھانے کے لیے ہر قسم کا حربہ آزمایا۔ ہندوستان میں اس جدت پسند تحریک کا بانی اول سید احمد خان ہے جسے انگریز نے اس کی انگریز سرکار کے لیے بہترین خدمات کی پاداش میں "سر" کا خطاب دیا تھا۔ سر سید احمد خان نامی اس ابن الوقت نے انگریز کے اشارے پر انگریز کے ترتیب کردہ پلان کے مطابق نیچریت کا عقیدہ اپنایا اور جدت کے نام پر عقائد باطلہ، فاسدہ کا پر چار کیا، اس کے اس سلسلہ کو حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، غلام احمد پرویز اور پھر موجودہ جاوید احمد غامدی نے جاری و ساری رکھا ہے۔ جب کے اس سلسلے کی خبیث ترین کڑی غلام احمد قادیانی کی ہے۔ جس نے انگریز وفاداری میں حد کرتے ہوئے نبوت کا دعوی باطل کر کے ثلاثون دجالون کذابون کی لسٹ میں اپنا نام شامل کرا کے دنیا و آخرت کی تمام تر لعنتوں کو مول لیا۔
لعنتہ اللہ علی الکاذبین و علی الظالمین۔

 تحریک جدت کا تاریخی پس منظر
یورپ میں دجالی تنظیم فری میسنز اور اس کے عالمی صیہونی تنظیم سے ملاپ کے بعد پورے یورپ پر ایک طویل تحریک و جدوجہد کے ذریعے قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد یورپ بھر میں احیاءالعلوم کی تحریک اٹھائی گئی جس کی بنیاد مذہب و شہنشاہیت مخالفت پر رکھی۔ چناں چہ جہاں سوشل ڈیمو کریسی کے نام پر یورپ میں نیا سیاسی ڈھانچہ تشکیل پایا، وہیں مذہب کے مقابل الحاد جدید کی عمارت کو استعمار کیا گیا۔ جس کی بنیاد افلاطونی و ارسطوی افکار پر رکھی گئی۔ 427 قبل مسیح میں گزرے افلاطون کو جب دینی موسوی کی طرف دعوت دی گئی۔ تو اس فلسفی نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ توحید کو ہم پہلے ہی پا چکے ہیں۔ اب ہمیں کسی اور فکر کی کیا ضرورت ہے۔ دراصل افلاطون توحید کا تو قائل تھا لیکن کس الہامی مذہب کے وجود و ضرورت کا قائل نہیں تھا بلکہ اس کا نظریہ تھا کہ مذہب کا اصل مقصد خدمت و معاشرت انسانی ہے۔ جس کے لیے خدا نے انسانی کو عقل کی نعمت سے نوازا ہے تو انسانوں کو چاہیے کہ ان کے ارباب علم و دانش مل بیٹھ کر تہذیب معاشرت و قوانین مملکت کو ترتیب دیں۔ یعنی افلاطون اہل دانش کے اجماع یعنی collective wisdom کو ہی مذہب و حجت ٹہراتا ہے اور اس کے مطابق اگر اللہ تعالی نے الہامی مذہب کو اترنا ہوتا اور اس کے لیے انبیاءکرام علیہم السلام کو مقرر کرتا تو پھر انسانوں کو عظیم نعمت عقل و دانش سے نا نوازتا۔ انسان کو تمام مخلوقات میں بہترین علم و دانش دینے کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسان خدائے عظیم کو وحدہ لا شریک مان کر collective wisdom کے ذریعے اپنا مذہب خود تراشے۔ اور عبادت کو مخصوص کرنے کی بجائے اللہ تعالی سے یک گونہ تعلق خاطر کو پیدا کرے۔ دور جدید میں یورپ کے اہل فکر و دانش کی اکثریت ان ہی افلاطونی افکار پر ایقان رکھتی اور الہامی مذہب سے انکار کر کے collective wisdom کی اہمیت و ضرورت پر زور دیتی ہے۔ یوں یورپ کے اہل دانش کی اکثریت لا دین ہے یعنی وہ خدا کو تو مانتے ہیں لیکن کسی الہامی مذہب کی اتباع نہیں کرتے۔ انگریزوں کی برصغیر آمد کے ساتھ یہ فکر بھی برصغیر پہنچی۔ لیکن یہ افکار اسلام کی بنیادی اساس سے مکمل طور پر متصادم تھے۔ اور اسلام کی اساس اتنی ٹھوس ہے کہ اس کو بدلنا بہت مشکل کام تھا۔ چناں چہ انھوں اسلام کی بنیاد کھوکھلی کرنے کے لیے اسلام کے دئیے تصورات الوہیت، عبودیت، نبوت، معاد، جنت و دوزخ، سزا وجزا، ملائک، معجزات سب پر عقلی و فکری اعتراضات کی یلغار کی اور ان کے جواب کے نام پر اپنے خدمت گار جدت پسندوں سے قرآن و سنت کی من مانی تشریحات کرا کے، اسلام کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

 تحریک جدیدیت کا تسلسل
فکر غامدی کو سجھنے کے لیے  ضروری ہے کہ اس تجدیدی فکر کے مفکرین کو سمجھا جائے جنھوں نے فکر غامدی کو تشکیل دیا ہے۔

اس سلسلہ کی پہلی کڑی سر سید احمد خان ہے۔

 سر سید احمد خان:
سرسید احمد خان 17 اکتوبر 1817ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ آباؤ اجداد شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ دستور زمانہ کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان سے حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم میں اس نے قرآن پاک کا مطالعہ کیا اور عربی اور فارسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ اس نے حساب، طب اور تاریخ میں بھی مہارت حاصل کی۔ جریدے القرآن اکبر کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں ان کے بڑے بھائی نے شہر کے سب سے پہلی پرنٹنگ پریس کی بنیاد رکھی۔ سر سید نے کئی سال کے لیے ادویات کا مطالعہ کی پیروی کی لیکن اس نے کورس مکمل نہیں ہے۔

ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ 1837ء میں آگرہ میں کمشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ 1841ء اور 1842ء میں مین پوری اور 1842ء اور 1846ء تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ خدمت انگریز اور چاپلوسی سے ترقی کرتے ہوئے 1846ء میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں سر سید نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" 1847ء میں لکھی۔ 1857ء میں اس کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں اس نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے دوران میں وہ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ جنگ آزادی کے وقت میں اس نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں بچائیں۔ جنگ آزادی ہند 1857ء کے بعد سرسید کو انگریز کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

1857ء میں اس کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور اس کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ 1862ء میں اس کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور 1867ء میں وہ بنارس میں تعینات ہوئے۔

1877ء میں اس کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا۔ 1888ء میں اس کو سر کا خطاب دیا گیا اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے اس کو ایل ایل ڈی(ڈاکٹریٹ آف لاء) کی اعزازی ڈگری دی۔ 1864ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ علی گڑھ گئے تو علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر 1870ء میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اور ادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ 1887ء میں ستر سال کی عمر میں پینش لے لی اور اپنے آپ کالج کی ترقی اور انگریز کے مفاد کے لیے وقف کریا۔

1869ء میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں (Tatler) اور (Spectator) کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ سرسید نے لارڈ میکالے کے تعلیمی نظام کو  مسلمانوں میں رائج کرنے پر خاص توجہ دی۔
Story of Pakistan, Sir Syed. 25
 
سر سید احمد خان کے عقائد
اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز، کوچنگ سینٹرز نیز عوام و خواص کے ذہن میں جنگ آزادی کے اعتبار سے ایک نام نمایاں طور پر سامنے لایا جاتا ہے اور وہ ’’سرسید احمد خان‘‘ کا ہے مگر تصویر کا ایک رخ ہی فقط لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اس کے عقائد فاسدہ جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں وہ لوگوں کو نہیں بتائے جاتے۔
آیئے اس کے عقائد کو جانیئے۔ ہم نے بلا تبصرہ ان کی اصل کتابوں سے نقل کردیئے ہیں۔ کتابیں مارکیٹ میں عام ہیں جس کا جی چاہے خریدے اور اصل کتاب سے مذکورہ حوالہ جات کو ملائے۔

 خدا کے بارے میں عقائد
اﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے مگر سر سید اس پر راضی نہیں وہ کہتے ہیں کہ
’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے، خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب نہ یہودی، نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے‘‘ (مقالات سرسید ، حصہ 15 ص 147، ناشر: مجلس ترقی ادب)
’’نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول، اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو (خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری،ص 56 جمعیتہ پبلی کیشنز)

 نبوت کے بارے میں عقائد
علم عقائد کی تقریبا ساری کتابوں میں نبی کی یہ تعریف کی گئی ہے
’’نبی وہ مرد ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے مبعوث کیا احکام کی تبلیغ کے لئے‘‘
اور یہی معنی عوام میں مشہور و معروف اور یہی حق ہے مگر سر سید کہتا ہے کہ
’’نبوت ایک فطری چیز ہے… ہزاروں قسم کے ملکات انسانی ہیں، بعضے دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں ازروئے خلقت و فطرت کے ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے، شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے۔ ایک طبیب بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور، جلد 1ص 23-24)
’’جتنے پیغمبر گزرے سب نیچری تھے‘‘ (مقالات سرسید، حصہ 15، ص 147، ناشر: مجلس ترقی ادب)

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شان میں گستاخی
’’حج جو اس بڈھے (ابراہیم علیہ السلام) خدا پرست کی عبادت کی یادگاری میں قائم ہوا تھا تو اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا۔ جس طرح اور جس لباس میں اس نے کی تھی، محمدﷺ نے شروع سویلزیشن (تہذیب) کے زمانے میں بھی اس وحشیانہ صورت اور وحشیانہ لباس کو ہمارے بڈھے دادا کی عبادت کی یادگار میں قائم رکھا (تفسیر القرآن: سرسید احمد خان، جلد 1ص 206، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)

 حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی
پس اگر موسیٰ کو کوئی ٹرگنامیٹری کا قاعدہ نہ آتا ہو اور اس نے اس کے بیان میں غلطی کی ہو تو اس کی نبوت و صاحب وحی والہام ہونے میں نقصان نہیں آتا کیوں کہ وہ ٹرگنامیٹری یا اسٹرانومی کا ماسٹر نہیں تھا۔ وہ ان امور میں تو ایسا نا واقف تھا کہ ریڈ سی (Red Sea) کے کنارہ سے کنعان تک کا جغرافیہ بھی نہیں جانتا تھا اور یہی اس کا فخر اور یہی دلیل اس کے نبی اولوالعزم ہونے کی تھی‘‘ (مقالات سرسید، جلد 13ص 396)

 حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان میں گستاخی
آج تک ملت اسلامیہ اس بات پر متفق ہیں کہ عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے مگر سر سید کہتا ہے
’’میرے نزدیک قرآن مجید سے ان کا بے باپ ہونا ثابت نہیں ہے‘‘ (مکتوبات سرسید، حصہ 2ص 116)
’’اور وہ (حضرت مریم رضی اﷲ عنہا) حسب قانون فطرت انسانی اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 2ص 30، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)

 حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی
’’ایک یتیم بن ماں باپ کے بچے کا حال سنو جس نے نہ اپنی ماں کے کنار عافطت کا لطف اٹھایا، نہ اپنے باپ کی محبت کا مزہ چکھا، ایک ریگستان کے ملک میں پیدا ہوا اور اپنے گرد بجز اونٹ چرانے والوں کے غول کے کچھ نہ دیکھا، اور بجز لات ومنات و عزیٰ کو پکارنے کی آواز کے کچھ نہ سنا مگر خود کبھی نہ بھٹکا‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 19، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)

 خضر علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ
’’اور کچھ شبہ نہیں رہتا کہ یہ پرانے قصوں میں کا ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصلی واقعات کے ساتھ شامل کر دیا ہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)

 معجزات کے بارے میں عقائد
 معراج : "حالت خواب میں ہوئی‘‘
’’معراج کی نسبت جس چیز پر مسلمانوں کو ایمان لانا فرض ہے، وہ اس قدر ہے کہ پیغمبر خدا نے اپنا مکہ سے بیت المقدس پہنچنا ایک خواب میں دیکھا اور اسی خواب میں انہوں نے درحقیقت اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں مشاہدہ کیں… مگر اس بات پر یقین رکھنا چاہئے کہ آنحضرتﷺ نے جو کچھ خواب میں دیکھا یا وحی ہوئی یا انکشاف ہوا وہ بالکل سچ اور برحق ہے‘‘ (خطبات سرسید ص 427، ناشر مجلس ترقی ادب)

 چاند کے دو ٹکڑے ہونے کاانکار
’’شق القمر کا ہونا محض غلط ہے اور بانی اسلام نے کہیں اس کا دعویٰ نہیں کیا‘‘ (تصانیف احمدیہ، حصہ اول، جلد 1ص 21)

 حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات کا انکار
’’ہمارے علمائے مفسرین نے  قرآن مجید کی آیتوں کی یہی تفسیر کی کہ حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے تھے اور وہ وہاں سے صحیح سلامت نکلے، حالانکہ قرآن مجید کی کسی آیت میں اس بات کی نص نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تھے ‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، حصہ 8، ص 206-208، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
’’انہوں (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے رویا میں خدا سے کہا کہ مجھ کو دکھا یا بتا کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرے گا  پھر خواب میں خدا کے بتلانے سے انہوں نے چار پرند جانور لئے اور ان کا قیمہ کرکے ملا دیا اور پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر بلایا تو وہ سب جانور الگ الگ زندہ ہوکر چلے آئے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)

 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار
’’انہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے اپنی لاٹھی پھینکی اور وہ ان کو سانپ یا اژدھا دکھائی دی یہ خود ان کا تصرف تھا اپنے خیال میں تھا وہ لکڑی، لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 13،ص 171، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)

 حضرت عیسٰی علیہ السلام کے معجزات کا انکار
قرآن کریم کی صراحت کے مطابق آج تک ملت اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ٭ مردوں کو زندہ کرنا ٭ مادر زاد اندھوں کو بینا کردینا ٭ مٹی کی مورت میں پھونک کر اسے زندہ پرندہ بنادینا ثابت ہے۔
مگر سرسید ان تمام کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ…
’’حضرت عیسٰی علیہ السلام بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کے جانور بنا لیتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے مواقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا، وہ بھی کہتے ہوں گے…‘‘ (تفسیر قرآن، سرسید احمد خان، جلد 2، ص 154، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
’’قرآن نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امر وقوعی (واقعی امر) نہ تھا بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال زمانہ طفولیت (بچپنا) میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا‘‘ (تفسیر قرآن سرسید احمد خان، جلد 2ص 159، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
یونہی اس سر سید نے اس بات کا بھی انکار کیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اندھوں اور کوڑھیوں کو بھلا چنگا کر دیتے تھے اور اس بات کو بھی نہیں مانا کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے (دیکھئے تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 2ص 159، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
قرآن کے بارے میں عقائد
’’قرآن مجید کی فصاحت بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے‘‘ (تصانیف احمدیہ حصہ 1جلد 1ص 21)
’’ہم نے تمام قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں پایا اور اس لئے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1،ص 143، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)

 فرشتوں کے بارے میں عقائد
’’جن فرشتوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا بلکہ خدا کی بے انتہا قوتوں کے ظہور کو اور ان قویٰ کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کئے ہیں ملک یا ملائکہ کہتے ہیں‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 42، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
’’جبریل نام کا کوئی فرشتہ نہیں نہ وہ وحی لے کر آتا تھا بلکہ یہ ایک قوت کا نام ہے جو نبی میں ہوتی ہے‘‘ (تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 130، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
 جنات کے بارے میں عقائد
’’جس طرح جنوں کی مخلوق کو مسلمان نے تسلیم کیا ہے ایسی مخلوق کا وجود قرآن سے ثابت نہیں‘‘ (مقالات سرسید احمد حصہ 2ص 180، ناشر مجلس ترقی ادب، لاہور)
’’شیطان کوئی جدا مخلوق نہیں بلکہ انسان ہی میں موجود ایسی قوت جو شر کی طرف لے جائے اسے شیطان کہتے ہیں‘‘ (خود نوشت ص 70، ضیاء الدین لاہور، جمعیتہ پبلی کیشنز)

 عذاب قبر کے بارے میں عقیدہ
’’اگر عذاب قبر میں گناہ گاروں کی نسبت سانپوں کا لپٹنا اور کاٹنا بیان کیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ درحقیقت سچ مچ کے سانپ جن کو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں۔ مردے کو چمٹ جاتے ہیں بلکہ جو کیفیت گناہوں سے روح کو حاصل ہوتی ہے۔ اس کا حال انسانوں میں رنج و تکلیف ومایوسی کی مثال سے پیدا کیا جاتا ہے جو دنیا میں سانپوں کے کاٹنے سے انسان کوہوتی ہے، عام لوگ اور کٹ ملا اس کو واقعی سانپ سمجھتے ہیں‘‘ (تہذیب الاخلاق جلد 2ص 165)
مسٹر احمد خان نے یونہی میزان، پل صراط، اعمال نامے اور شفاعت کا بھی انکار کیا ہے (دیکھئے تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد3ص 73، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)

 امام مہدی کے بارے میں عقیدہ
’’ان غلط قصوں میں سے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہیں ایک قصہ امام مہدی آخر الزماں کے پیدا ہونے کا ہے اس قصے کی بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں بھی مذکور ہیں مگر کچھ شبہ نہیں کہ سب جھوٹی اور مصنوعی ہیں… اور ان سے (احادیث سے) کسی ایسے مہدی کی جو مسلمانوں نے تصور کر رکھا ہے اور جس کا قیامت کے قریب ہونا خیال کیا ہے بشارت مقصود نہیں تھی‘‘ (مقالات سرسید، حصہ 6ص 121، ناشر مجلس ترقی ادب)

 صور پھونکنے کی حقیقت
’’تمام علمائے اسلام صور کو ایک شے، موجود فی الخارج اور اس کے لئے پھونکنے والے فرشتے یقین کرتے ہیں اور عموماً مسلمانوں کا اعتقاد یہی ہے… پس جن عالموں کی یہ رائے ہے وہ بھی مثل ہمارے نہ صور کے لغوی معنی لیتے ہیں اور نہ صور کے وجود فی الخارج کو مانتے ہیں اور نہ اس کے وجود کی اور نہ اس کے پھونکنے والوں کی ضرورت جانتے ہیں‘‘ (مقالات سرسید: حصہ 13،ص 282-283، ناشر مجلس ترقی ادب)

 دیدار باری تعالیٰ
’’خدا کا دیکھنا، دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہوسکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوئی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے‘‘ (تفسیر القرآن: سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)

 روزہ نہ رکھنے کی عام اجازت
’’جو لوگ کہ روزہ رکھنے کی نہایت تکلیف اور سختی اٹھا کر طاقت رکھتے ہیں ان کو اجازت ہے کہ روزے رکھنے کے بدلے فدیہ دے دیں‘‘ (مقالات سرسید: حصہ 15ص 390، ناشر مجلس ترقی ادب)

 شراب
’’شراب کی حرمت جب تک نہ ہوئی تھی تمام انبیاء سابقین اور اکثر صحابہ اس کے مرتکب ہوئے‘‘ (خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری ص 155، جمعیتہ پبلی کیشنز)

 عیسائی
’’البتہ میری خواہش رہی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیوں کہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئی فرقہ ہمارا دوست ہوسکتا ہے تو وہ عیسائی ہیں‘‘ (مکتوبات سرسید، جلد 1ص 3، ناشر مجلس ترقی ادب)

 مسلمانوں کو ہندو کہہ سکتے ہیں
’’پس مسلمانوں اور ہندوئوں میں کچھ مغائرت نہیں ہے جس طرح آریہ قوم کے لوگ ہندو کہلائے جاتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی ہندو یعنی ہندوستان کے رہنے والے کہلائے جاسکتے ہیں‘‘ (مقالات سرسید، حصہ 15، ص 41، ناشر مجلس ترقی ادب)

 ایصال ثواب
’’ایک کے فعل کا خواہ وہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت بدنی کہتے ہیں اور خواہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت مالی کہتے ہیں دوسرے پر خواہ زندہ ہو یا مردہ کچھ اثر نہیں ہوتا‘‘ (خود نوشت، ص 139، ضیاء الدین لاہوری، جمعیتہ پبلی کیشنز)

 مرزا قادیانی
’’حضرت مرزا صاحب کی نسبت زیادہ کدوکاوش کرنی بے فائدہ ہے۔ ایک بزرگ زاہد اور نیک بخت آدمی ہیں… ان کی عزت اور ان کا ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اور نیکی کے لازم ہے‘‘ (خطوط سرسید)

 انگریز حکومت
’’گو ہندوستان کی حکومت کرنے میں انگریزوں کو متعدد لڑائیاں لڑنی پڑی ہوں مگر درحقیقت انہوں نے یہاں کی حکومت بہ زور حاصل کی اور نہ مکر وفریب سے۔ بلکہ  درحقیقت ہندوستان کو کسی حاکم کی اس کے اصلی معنوں میں ضرورت تھی سو اس ضرورت نے ہندوستان کو ا نکا محکوم بنادیا‘‘ (حیات جاوید: جلد 2ص 241-242 ناشر بک ٹاک لاہور)
’’جن مسلمانوں نے سرکار (انگریز) کی نمک حرامی اور بدخواہی کی میں ان کا طرف دار نہیں ہوں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور ان کو حد سے زیادہ برا جانتا ہوں کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہئے تھا جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں‘‘ (حیات جاوید جلد 1ص 158 بک ٹاک لاہور)
تمام اہل ہند ناظم کشور ہند و وائسرائے لارڈ کیننگ دام اقبالہم کا یہ رحم اور احسان کبھی دل سے نہیں بھولیں گے جس میں تمام اصلی حالات فساد پر غور کر کے اس پر رحم اشتہار کے جاری ہونے کی صلاح دی… تمام اہل ہند اس کے اس احسان کے بندے ہیں اور دل و جان سے اس کو دعا دیتے ہیں۔ الٰہی تو ہماری دعا کو قبول کر۔ آمین الٰہی جہان ہو اور ہمارا وائسرائے لارڈ کیننگ ہو‘‘ (خطبات سرسید: ص 34، ناشر مجلس ترقی ادب)

 حمید الدین فراہی
مولانا فراہی کی جائے پیدائش بھارت کے صوبہ یوپی (موجودہ اترپردیش) ضلع اعظم گڑھ کا ایک گاؤں پھریہا ہے۔ پھریہا اس ضلع کا ایک مشہور گاؤں ہے، پھریہا کی معلوم تاریخ بس اسی قدر ہے کہ یہ شبلی نعمانی کا ننھیال اور فراہی کا وطن ہے مولانا فراہی کی پیدائش ان کے جدی مکان میں6 جمادی الثانی 1230ھ بروز بدھ بمطابق 18 نومبر 1863ء کو ہوئی۔

حفظ قرآن سے فارغ ہو کر عام دستور کے موافق پہلے فارسی کی تعلیم لی اس زمانے کا عام طریقہ تعلیم یہ تھا کہ ایک وقت میں ایک ہی مضمون پڑھتے تھے۔ فارسی زبان میں بہت جلد اس قدر ترقی کرلی کہ شعر کہنے لگے شاعری کا مذاق ان میں فطری تھا زبان سے تھوڑی ہی مدت میں اس قدر گہری مناسبت پیدا کر لی کہ اساتذہ کے رنگ میں قصیدے لکھنے لگے مولانا کی عمر ابھی چودہ برس ہی تھی کہ طلب علم میں وہ پھریہا سے اعظم گڑھ آئے اور شبلی نعمانی سے پڑھنا شروع کیا یہ 1877ء کا سال تھا۔
اس کے بعد فراہی نے 1895ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے سیکنڈ ڈویژن میں بی اے کیا۔

 حمید الدین فراہی کا کردار و فکر  
   یہ ۱۹۰۰ء کا ذکر ہے، ہندوستان پر برطانوی سامراج کی دوسری صدی چل رہی تھی۔ ہندوستان کا وائسرائے مشہور ذہین اور شاطر دماغ یہودی ’’لارڈ کرزن‘‘ تھا۔ ان صاحب کو مسلمانوں سے خدا واسطے کا بیر اور صہیونی مقاصد کی تکمیل کا شیطانی شغف تھا۔ انگریز نے برصغیر کی زمین پاؤں تلے سے کھسکتے دیکھ لی تھی، سونے کی ہندوستانی چڑیا کے پر وہ نوچ چکا تھا، اب مشرق وسطیٰ میں تیل کی دریافت اور ارضِ اسلام کو اپنے گماشتوں میں تقسیم کرنے کا مرحلہ در پیش تھا۔ لارڈ کرزن کو انگریز سرکار کی جانب سے حکم ملا تھا کہ وہ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں میں مقیم عرب سرداروں سے ملاقات کرے اور مطلب کے لوگوں کی فہرست بنائے۔ خلیج عرب کے ساحلی علاقوں سے مراد: کویت، سعودی عرب کا تیل سے لبالب مشرقی حصہ جو اس وقت آل سعود کے زیرنگیں تھا، نیز بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات میں شامل سات مختلف ریاستیں اور عمان ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ ریت پر لکیریں کھینچ کر ’’جتنا کم اتنا لذیذ‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے جس طرح کیک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرتے ہیں، اسی طرح ’’جتنا مالدار اتنا چھوٹا‘‘ کے اصول پر عرب ریاستیں اپنے دوست عرب سرداروں میں تقسیم کر چکے تھے۔ اب اس تقسیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فیلڈ ورک کی ضرورت تھی، اور لارڈ کرزن اپنے مخصوص یہودی پس منظر کے سبب یہ کام بخوبی کرسکتا تھا۔ لارڈ کرزن خلیج عرب کے خفیہ دورے پر فوری روانہ ہونا چاہتا تھا اور اُسے کسی معتمد اور راز دار عربی ترجمان کی ضرورت تھی، برصغیر میں عربی اس وقت دو جگہ تھی، یا تو روایتی دینی مدارس یا پھر علی گڑھ کا شعبہ عربی۔ اول الذکر سے تو ظاہر ہے کوئی ایسا ٹاؤٹ ملنا دشوار تھا، لارڈ کرزن کی نظر انتخاب اسی طرح کی مشکلات کے حل کے لیے قائم کیے گئے ادارہ علی گڑھ پر پڑی، وہاں ایک مانگو تو چار ملتے تھے۔ مسئلہ چوں کہ وائسرائے ہند کے ساتھ خفیہ ترین دورے پر جانے کا تھا، جس کے مقاصد اور کارروائی کو انتہائی خفیہ قرار دیا گیا تھا، اس لیے کسی معتمد ترین شخص کی ضرورت تھی جو عقل کا کورا اور ضمیر کا مارا ہوا ہو۔ سفارشوں پر سفارشیں اور عرضیوں پر عرضیاں چل رہی تھیں کہ خفیہ ہاتھ نے کارروائی دکھائی اور علی گڑھ کے سر پرستانِ اعلیٰ کی جانب سے ایک نوجوان فاضل کا انتخاب کر لیا گیا۔ لارڈ کرزن صاحب کو ان کی عربی دانی سے زیادہ سرکار سے وفاداری کی غیر مشروط یقین دہانی کرا دی گئی اور یوں یہ عجمی عربی دان مسلمان ہو کر بھی اس تاریخی سفر پر انگریز وائسراے کا خادم اور ترجمان بننے پر راضی ہو گیا، جس کے نتیجے میں آج خلیجی ریاستوں میں استعمار کے مفادات کے محافظ حکمران پنجے گاڑے بیٹھے ہیں اور امریکی وبرطانوی افواج کو تحفظ اور خدمات فراہم کررہے ہیں۔ یہ نوجوان فاضل حمید الدین فراہی تھے جو اترپردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں ایک گاؤں ’’پریہا‘‘ میں پیدا ہوئے۔ موصوف مشہور مؤرخ علامہ شبلی نعمانی کے کالج میں عربی پڑھاتے تھے، لارڈ کرزن کی ہم راہی کے لیے ان کے انتخاب میں علی گڑھ میں موجود ایک جرمنی پروفیسر ’’جوزف ہوروز‘‘ کی سفارش کا بڑا دخل تھا جو یہودی النسل تھا اور موصوف پر اس کی خاص نظر تھی۔ موصوف نے اس سے عبرانی زبان سیکھی تھی، تاکہ تورات کا مطالعہ اس کی اصل زبان میں کر سکیں۔     لارڈ کرزن صاحب جناب فراہی کی صلاحیت اور کارکردگی سے بہت خوش تھے، چناں چہ واپسی پر انہیں انگریزوں کی منظور نظر ریاست حیدر آباد میں سب سے بڑے سرکاری مدرسہ میں اعلیٰ مشاہرے پر رکھ لیا گیا اور موصوف نے وہاں سے اس کام کا آغازکیا جو قسمت کا مارا یہودیوں کا پروردہ ہر وہ شخص کرتا ہے جسے عربی آتی ہو۔ انہوں نے اپنے آپ کو قرآن کریم کی ’’مخصوص انداز‘‘ میں خدمت کے لیے وقف کر لیا۔ مخصوص انداز سے مراد یہ ہے کہ تمام مفسرین سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کی جائے کہ قرآن کریم کو محض لغت کی مدد سے سمجھا جائے۔ یہ لغت پرست مفسرین دراصل اس راستے سے قرآنی آیات کو وہ معنی پہنانا چاہتے تھے جس کی ان کو ضرورت محسوس ہو، اگر چہ دوسری آیات یا احادیث، مفسرین صحابہ وتابعین کے اقوال اس کی قطعی نفی کرتے ہوں۔ در حقیقت قرآن سے ان حضرات کا تعلق‘ انکارِ حدیث پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہوتا ہے، جیسا کہ تمام منکرین حدیث کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے اس عیب کو چھپانے کے لیے قرآن کریم سے بڑھ چڑھ کر تعلق اور شغف کا اظہار کسی نہ کسی بہانے کرتے رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ وہی حیدر آباد ہے جہاں شاعر مشرق علامہ اقبال جیسے فاضل شخص کو محض اس لیے ملازمت نہ مل سکی کہ وہ مغرب دشمن شاعری کے مرتکب تھے، لیکن فراہی صاحب پر لارڈ کرزن کا دست کرم تھا کہ حیدر آباد کی آغوش ان کے لیے خود بخود وا ہو گئی اور انہیں ایک بڑے ’’علمی منصوبے‘‘ کے لیے منتخب کرلیا گیا۔     اس منصوبے نے جو برگ وبار لائے انہیں مسلمانانِ برصغیر بالخصوص آج کے دور کے اہالیان پاکستان خوب خوب بھگت رہے ہیں۔ فراہی صاحب نے ’’تفسیر نظام القرآن‘‘ لکھی جس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ کتب خانوں میں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ علامہ شبلی نعمانی، فراہی صاحب کے بارے میں اس وقت شدید تحفظات کا شکار ہوگئے تھے، جب ان کی بعض غیر مطبوعہ تحاریر ’’دار المصنفین‘‘ میں شائع ہونے کے لیے آئیں، لیکن ان کی طباعت سے انکار کر دیا گیا کہ زبردست فتنہ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ فراہی صاحب اپنے پیچھے چند شاگرد، چند کتابیں اور بے شمار شکوک وشبہات چھوڑ کر ۱۹۳۰ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔

 امین احسن اصلاحی  
امین احسن اصلاحی (پیدائش: 1904ء— وفات: 14 دسمبر 1997ء) مدرسہ فراہی کے ایک عالم، مفسر قرآن اور ممتاز ریسرچ سکالر تھے اصلاحی حمید الدین فراہی کے آخری عمر کے تلمیذ خاص اور ان کے افکار ونظریات کے پرچارک اور نئی جہت دینے والے تھے۔

موصوف اپنے دور کے اُن چند سر برآوردہ اہل علم واہل قلم میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ذہانت وفطانت سے حصہ وافر عطا فرمایا ہوتا ہے۔ ان کی وفات کے بعد متعدد حضرات نے ان کی علمی و دینی خدمات بالخصوص تفسیری خدمات اور ان کے علم وفضل پر روشنی ڈالی ہے اور انہیں اپنے وقت کا عظیم مفسر اِسلامی دانش ور اور بلند پایہ محقق باور کرایا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے انہیں علم وفضل اور انشاء و تحریر کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ 'تدبر ِقرآن' کے مصنف ہونے کے اعتبار سے ایک 'مفسر' کے طور پر بھی مشہور ہیں ، اپنے دروسِ حدیث کی بنا پر ان کے تلامذہ ان کو ایک' محدث' بھی شمار کرتے ہیں اور فقہی مباحث میں ان کی بلند آہنگی کی وجہ سے انہیں 'فقیہ' بھی سمجھتے ہیں اور بعض کلامی خدمات کی بنیاد پر شاید انہیں ایک 'متکلم' اور فکر ِفراہی کا ایک 'عظیم مفکر' بھی قرار دیتے ہوں۔لیکن راقم کے خیال میں مولانا موصوف ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ان کی ذہانت کی فراوانی نے زیغ وضلال میں مبتلا کردیا اور ﴿وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلىٰ عِلمٍ...٢٣ ﴾... سورة الجاثية" کا مصداق بنا دیا۔

سرسید احمد خاں، فراہی اور غلام احمد پرویز وغیرہم کو دیکھ لیجیے۔ ان کا شمار بھی ذہین وفطین لوگوں میں ہوتا ہے ، لیکن ان حضرات نے مسلمہ اسلامی عقائد کا جس طرح حلیہ مسخ کیا ہے ، وہ محتاجِ وضاحت نہیں اور یہ حضرات اپنے اپنے دائروں میں جس طرح گمراہی کے امام وپیشوا بنے ، وہ بھی کوئی مخفی راز نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ذہانت وفطانت اور علم وفن میں اونچے مقام پر فائز ہونا، یہ کوئی خاص اعزاز نہیں۔ بہت سے ائمہ کفر وضلال بھی ان چیزوں سے بہرہ وَر رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے گو دنیا میں شہرت وناموری ضرور حاصل کر لی ہو ، مگر عند اللہ ان کا کوئی مقام نہیں ہو گا، بلکہ وہ اللہ کے ہاں مجرم ہی نہیں، اکابر مجرمین میں سے ہوں گے۔ جن پر ان کی اپنی ہی گمراہی کا بوجھ نہیں ہو گا، بلکہ ان ہزاروں اور لاکھوں افراد کے گناہوں کی بھی ذمے داری ہو گی جو ان کے افکار وآرا سے گمراہ ہوئے ہوں گے۔
بہت سے لوگ اصلاحی کو بھی ائمہ ضلال میں شمار کرنے پر تعجب کا اظہار کریں گے، کیوں کہ جنہوں نے ان کی کتابیں نہیں پڑھی ہیں یا صرف ان کے دورِ جوانی کی تحریریں ان کے علم میں ہیں جیسے پاکستانی عورت دوراہے پر، عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ، تزکیہٴ نفس، توضیحات، حقیقت ِتوحید، حقیقت ِشرک، حقیقت ِتقویٰ اور سید ابو الاعلیٰ مودودی کے ایک مضمون 'دین میں حکمت ِعملی کا مقام ' پر مفصل تنقید، جو ماہنامہ 'میثاق' کے ابتدائی دور میں اس کے ادارتی کالموں میں مسلسل شائع ہوئی اور اس قسم کی بعض اور تحریریں اور مقالات، بلاشبہ یہ تصنیفات نہایت مفید اور زوردار ہیں۔ ان کتابوں اور تحریروں میں وہ ایک بلند پایہ عالم ،محقق اور صاحب ِاسلوب انشا پرداز نظر آتے ہیں۔ پڑھنے والا اِن سے متاثر اور محظوظ ہوتا ہے اور ان کی علمی عظمت کا نقش اس کے دل پر ثبت ہوتا ہے اور علمی آراء کا اختلاف بھی کرتا ہے۔ جن حضرات کی نظر سے اصلاحی کی صرف یہ کتابیں اور تحریریں گزری ہیں، ان کے لیے راقم کی باتیں یقینا ایک انکشاف کا درجہ رکھتی ہیں، جن پر ان کا متعجب ہونا قابل فہم ہے۔
لیکن جن حضرات نے ان کے مابعد کام کو دقت ِنظر اور غور وفکر سے دیکھا اور پڑھا ہے، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے پہلے دور اور دوسرے دور میں زمین آسمان کا فرق ہے یا وہ ایسے فکری تضاد کا شکار ہوئے کہ جس کی توجیہ ممکن نہیں اور ان کے متضاد افکار کے درمیان کوئی بڑا سے بڑا فلاسفر بھی تطبیق دینے پر قادر نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:«إنما الأعمال بالخواتیم» زندگی کے آخری دور کے اعمال ہی انسان کی نجات یا عدمِ نجات کی بنیاد ہوں گے۔ اس اعتبار سے اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ عنداللہ ان کا شمار دُعاةِ ضلال ہی میں ہو، کیوں کہ عمر کے آخری دور میں ان کے زبان وقلم سے ایسی چیزیں منظر عام پر آئی ہیں جو صریح گمراہی پر مبنی ہیں، بلکہ اجماعِ امت سے انحراف کی وجہ سے ان پر کفر تک کا اطلاق ممکن ہے۔
وضاحت کے لیے چند مثالیں ناگزیر ہیں۔ راقم کے لیے یہ کوئی خوش گوار فریضہ نہیں کہ وہ ایک فوت شدہ عالم دین پر تنقید کررہا ہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک نہایت تلخ اور بہت ہی ناگوار جرعہ ہے جو بڑے جبر سے نوشِ جان کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن چوں کہ یہ معاملہ دین کا اور اس کے تحفظ کا ہے، دینی مسلمات تمام شخصیتوں سے بالا ہیں، ان کے مقابلے میں بڑے سے بڑا آدمی بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر کوئی زعم کبریائی میں یا علم کے غرے میں دینی مسلمات کا انکار یا ان کا استخفاف کرتا ہے ، تو وہ کسی رعایت کا مستحق نہیں اور علما کا یہ فرض ہے کہ وہ اس کی حقیقت سے لوگوں کو باخبر کریں تاکہ کوئی مسلمان اس کے دامِ ہم رنگ زمیں کا شکار ہو، نہ اس کے علم وفضل سے کسی دھوکے میں مبتلا ہو۔ راقم یہ بھی سمجھتا ہے کہ جو لوگ اصلاحی کی تعریف میں مقالات کے انبار لگا رہے ہیں ، وہ یا تو غلو ِعقیدت کا شکار ہیں جس نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہے ، یا پھر وہ اُن کے گمراہانہ افکار سے بے خبر ہیں اور وہ صرف اُن کی پہلی تحریروں سے ہی آگاہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصویر کا دوسرا پہلو بھی اُجاگر کیا جائے، تاکہ ان کا دوسرا پہلو یا دوسرا رُخ بھی قارئین کے سامنے آجائے :﴿لِيَهلِكَ مَن هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحيىٰ مَن حَىَّ عَن بَيِّنَةٍ...٤٢ ﴾... سورة الانفال

 حدیث ِرسول کا استخفاف اور انکار
احسن اصلاحی کی ایک عظیم گمراہی یا فکری تضاد یہ ہے کہ ان کے ہاں حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حیثیت نہیں۔ وہ قرآن فہمی کے لیے جاہلی اَدب کو سب سے زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں، جس کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے، اس کے مقابلے میں حدیث کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں، جو با سند ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے محدثین نے بے مثال کاوشیں کی ہیں۔ اور یہ ثانوی حیثیت بھی صرف زبان کی حد تک ہی ہے ،عملاً حدیث کی ان کے ہاں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے بلکہ وہ حدیث کو منکرین حدیث کی طرح صرف وہیں استعمال کرتے ہیں جہاں اس کا استعمال ان کے لیے مفید ہو۔ منکرین حدیث بھی بوقت ِضرور ت حدیث سے استفادہ کرتے اور حوالہ دیتے ہیں، ورنہ وہ حدیث کو دین کا ماخذ اور شرعی حجت تسلیم نہیں کرتے۔
مولانا اصلاحی صاحب کا فکری تضاد یہ ہے کہ وہ متجددین اور منکرین حدیث کے ردّ میں جب قلم اُٹھاتے ہیں تو یقینا وہ حدیث کو حجت ِشرعیہ باور کرانے میں پورا زور ِقلم صرف کرتے ہیں (جیسا کہ ان کے دورِ اول کی کتابوں میں ہے) لیکن آخری دور میں جب انہوں نے اپنی توجہ تفسیر پر مبذول کردی، تو حدیث کو نظر انداز کردیا، اور حدیث ِرسول کے مقابلے میں لغت کو، جاہلی ادب کو اور اپنی عقل وفہم کو زیادہ اہمیت دی۔ اور اپنی تفسیر کی تکمیل کے بعد انہوں نے تدبر ِحدیث کا آغاز کیا اور اس موضوع پر اپنے حلقہ ٴ اِرادت میں چند لیکچرز دئیے، جو'مبادی ٴتدبر ِحدیث' کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔
اس کتاب میں انہوں نے حدیث کے پرکھنے کے محدثانہ اُصول کو ناکافی قرار دیتے ہوئے، خود نئے اُصول وَضع کیے ہیں ، جس کی وجہ سے محدثین کی ساری کاوشیں تو بے کار قرار پاتی ہیں اور ان کے مجموعہ ہائے احادیث ِصحیحہ بے وقعت۔ مولانا اصلاحی کے گھڑے ہوئے اُصولوں کی رو سے صحیح حدیث وہ نہیں ہے جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے یا جو محدثین کے مسلمہ نقد وجرح کی روشنی میں صحیح ہے ، بلکہ وہ حدیث صحیح ہو گی جو اصلاحی من گھڑت اُصول کی روشنی میں صحیح ہوگی، چاہے محدثین کے مسلمہ اُصول کی رو سے وہ ضعیف ہی ہو۔ اور وہ حدیث ضعیف ہو گی جسے اصلاحی صاحب کے گھڑے ہوئے اُصول کی تائید حاصل نہ ہو گی، چاہے محدثین کے ہاں اس کی صحت مسلم ہو۔
تفسیر'تدبر ِقرآن 'میں عملی طور پر حدیث کو نظر انداز کر کے اور 'مبادی ٴتدبر ِحدیث' میں نقد ِحدیث کے مذکورہ نئے اُصول گھڑ کر کیا انکار ِحدیث کا راستہ چوپٹ نہیں کھول دیا گیا ہے ؟ ( اِس کی مزید تفصیل آگے آئے گی۔ ) ذیل میں چند مثالیں بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں

 حد ِرجم اور احادیث ِرجم کا انکار
 احسن اصلاحی کی دوسری عظیم گمراہی ( جو کئی گمراہیوں کا مجموعہ ہے ) حد ِرجم کا انکار ہے۔ اسلام میں شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار کرنا ہے اور غیر شادی شدہ زانی کی سزا سو کوڑے۔ اس سزا پر صحابہ کرام کا بھی اجماع ہے اور امت کا بھی، نہ صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کیا ، نہ امت کے کسی عالم وفقیہ نے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی زِنا کے جو بعض کیس آئے ، اس میں آپ نے تحقّق زنا کے بعد جو استفسار فرمایا، وہ یہی تھا کہ یہ زانی شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ۔ اور یہ معلوم ہونے پر کہ یہ شادی شدہ ہے آپ نے بلا تامل رجم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ خلفاے راشدین کا بھی یہی معمول رہا، اور اُمت کے تمام فقہاء وائمہ نے بھی یہی کہا۔ یعنی شادی شدہ زانی کے لیے رجم کی سزا میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا ، کوئی دوسری رائے سامنے نہیں آئی، سوائے خوارج کے جو گمراہ ترین فرقہ ہے۔ لیکن اصلاحی صاحب نے کہا کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، دونوں کی سزا ایک ہی ہے اور وہ ہے سو کوڑے۔ ان کے نزدیک رجم کی سزا صرف زِنا کے ارتکاب پر نہیں دی جاسکتی۔ البتہ اس زانی کو بطور ِتعزیر یہ سزا دی جاسکتی ہے جو معاشرے کی عزت وناموس کے لیے خطر ہ بن جائے، جو زنا اور اغوا کو پیشہ بنالے، جو دن دہاڑے لوگوں کی عزت وآبرو پر ڈاکہ ڈالے اور کھلم کھلا زنا بالجبر کا مرتکب ہو (تفسیر 'تدبر ِقرآن ': ج ۴ ، ص ۵۰۴ ،۵۰۵)
گویا اصلاحی صاحب نے یہ 'اجتہاد ' فرمایا ہے کہ رجم، زنا کی سزا نہیں ہے، صرف غنڈہ گردی کی تعزیری سزا ہے، جو وقت کے حاکم اور قاضی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ وہ کسی غنڈے کے لیے رجم کی سزا تجویز کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، شریعت ِاسلامیہ میں یہ سزا بطورِ حد نہیں ہے۔
(۱) اصلاحی صاحب کا یہ نظریہٴ رجم، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، کئی گمراہیوں کا مجموعہ ہے۔ اس میں ایک تو اُن تمام احادیث کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو مشہور، متفق علیہ اور متواتر ہیں، کیوں کہ وہ تقریباً تین درجن صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ یہ انکار ِحدیث کی اتنی واضح جسارت ہے، جس پر بڑی سے بڑی صفائی بھی پردہ نہیں ڈال سکتی۔
(۲) دوسرے اجماعِ صحابہ اور اجماعِ اُمت سے سخت بے اعتنائی ہے۔ حالانکہ اجماعِ صحابہ خود اصلاحی صاحب کی صراحت کے مطابق دین میں حجت اور سنت ہے جس سے انحراف کی اجازت ان کے نزدیک نہیں ہے۔ چناں چہ وہ اپنے ایک مفصل مضمون کے آخر میں جو 'سنت ِخلفاے راشدین ' کے عنوان سے فروری ۱۹۵۶ء کے 'ترجمان القرآن'، لاہور میں چھپا ہے ، لکھتے ہیں:
"اب میں یہ بتاؤں گا کہ میں خلفاے راشدین کے اس طرح کے طے کردہ مسائل کو کیوں سنت کا درجہ دیتا ہوں، میرے نزدیک اس کے وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ اس کی پہلی وجہ تو وہ حدیث ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود خلفاے راشدین کی سنت کو سنت کا درجہ بخشا ہے ...
۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اِجماع ہمارے ہاں ایک شرعی حجت کی حیثیت رکھتا ہے اور اجماع کی سب سے اعلیٰ قسم اگر کوئی ہو سکتی ہے تو وہی ہو سکتی ہے جس کی مثالیں خلفاے راشدین کے عہد میں ملتی ہیں...
۳۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ ابتدا سے خلفاے راشدین کے تعامل کو ملت میں ایک مستقل شرعی حجیت کی حیثیت دی گئی ہے ...
۴۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ دین کی تکمیل اگر چہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہوئی ہے لیکن امت کی اجتماعی زندگی میں اس کے مضمرات کا پورا پورا مظاہرہ حضرات خلفاے راشدین کے ہاتھوں ہوا ... اس پہلو سے خلفاے راشدین کا دور گویا عہد ِرسالت ہی کا ایک ضمیمہ ہے اور ہمارے لیے وہ پورا نظام ایک مثالی نظام ہے جو ان کے مبارک ہاتھوں سے قائم ہوا۔ پس اس دور میں جو نظائر قائم ہو چکے ہیں ، وہ ہمارے لیے دینی حجت کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمارے لیے ان سے انحراف جائز نہیں ہے ... " (ماہنامہ 'ترجمان القرآن '، فروری ۱۹۵۶ء)
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اصلاحی اس بات کے بھی قائل ہیں کہ جس مسئلے میں ائمہ اربعہ بھی متفق ہوں، ان کا یہ اتفاق اجماعِ اُمت کے مترادف اور دین میں حجت ہے۔ چناں چہ ایک مقام پر لکھتے ہیں
"ایک انطباق تو وہ ہے جس پر خلفاے راشدین اپنے دور کے اہل علم وتقویٰ کے مشورے کے بعد متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اسلام میں اِجماع کی بہتر ین قسم ہے اور یہ بجائے خود ایک شرعی حجت ہے۔ اسی طرح ایک انطباق وہ ہے جس پر ائمہ اربعہ متفق ہو گئے ہیں۔ یہ اگر چہ درجے میں پہلی قسم کے اِجماع کے برابر نہیں ہے، تاہم چوں کہ یہ اُمت من حیث الامہ ان ائمہ پر متفق ہو گئی ہے... اس وجہ سے ان ائمہ کے کسی اجماع کو محض اس دلیل کی بنا پر ردّ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ معصوم نہیں تھے۔ یہ معصوم تو بے شک نہیں تھے لیکن ان کے معصوم نہ ہونے کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ کسی امر پر ان کا اتفاق دین میں حجت نہ بن سکے۔" ( عائلی کمیشن کی رپورٹ پر تبصرہ: ص ۵۸ ، طبع فیصل آباد)
اور یہ ظاہر ہے کہ رجم کی وہ زیر بحث حد، جس کا انکار اصلاحی نے کیا ہے ، اجماعِ صحابہ کے علاوہ، ائمہ اربعہ سمیت تمام فقہاے امت کا اس پر اتفاق ہے ، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود اصلاحی کی مذکورہ تصریحات کے مطابق حد ِرجم کا انکار کتنی بڑی گمراہی ہے۔
(۳) تیسرے، اصلاحی کے نظریہٴ رجم میں رجم کو جو ایک شرعی حد ہے یعنی اللہ رسول کی مقررہ حد، جس میں کسی بھی شخص کو کمی بیشی یا ترمیم وتبدیلی کا حق نہیں۔ شرعی حدود سے خارج کر کے تعزیری سزا بنا دیا گیا ہے جو صرف حاکم اور جج کی صوابدید پر منحصر ہے۔
(۴) چوتھے، رجم کی یہ تعزیر ی سزا بھی اصلاحی کے خیال کے مطابق صرف زانی کو نہیں دی جائے گی ، چاہے وہ باکر ہو یا غیر باکر بلکہ پیشہ ور زانیوں اور غنڈوں کو دی جائے گی یا بالفاظِ دیگر یہ 'تعزیری رجم' زنا کی نہیں، غنڈہ گردی کی سزا ہے اور ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ اپنے اس زعم باطل کے اثبات کی خاطر انہوں نے حضرت ماعز صحابی اور غامدی خاتون صحابیہ رضی اللہ عنہما کو عادی زانی اور پیشہ ور طوائف باور کرایا ہے اور موصوف نے یہ 'استنباط'یا 'اجتہاد' آیت ِمحاربہ سے کیا ہے جس میں رجم کی سزا کا کوئی ذکر ہے نہ مفسرین اُمت میں سے کسی نے یہ استنباط کیا ہے، جس سے یہ واضح ہے کہ یہ اصلاحی کا ایک تحکمانہ فعل، ایک گونہ شریعت سازی اور اس تعبیر کے خلاف ہے جس کے پابند علماے سلف وخلف چلے آ رہے ہیں اور جس کی پابندی کی تلقین وہ خود بھی کرتے رہے ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب 'اسلامی قانون کی تدوین ' میں'کتاب وسنت کی تعبیر میں سلف صالحین کی پیروی ' کے عنوان سے لکھتے ہیں
" تدوین قانون کے کام کے ہر مرحلے میں یہ حقیقت پیش نظر رکھی جائے کہ مسلمان کتاب وسنت کی جن تعبیروں پر اعتماد رکھتے ہیں، انہی تعبیروں پر مبنی ضابطہ قانون بنایا جائے۔ اگر اپنی طرف سے نئی تعبیریں محض شوقِ اجتہاد میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کو لوگ ہرگز قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوں گے اور اگر غلط طریقوں سے ان کو لوگوں پر لادنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج مضر بلکہ مہلک ہوں گے۔ " (آگے چل کر مزید لکھتے ہیں)
"سلامتی کا راستہ ہمارے نزدیک یہی ہے کہ کتاب وسنت کی تعبیرات میں سلف صالحین کی پیروی کی جائے۔" (اسلامی قانون کی تدوین : ص ۱۳۵،۱۳۷)
اس تفصیل سے واضح ہوا کہ اصلاحی کا نظریہٴ رجم ایک بڑی لغزش اور ایسی عظیم گمراہی ہے جس میں کئی گمراہیاں جمع ہوگئی ہیں مثلاً
۱۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کی گئی ہے۔
۲۔ یہ انکارِ حدیث کو مستلزم ہے۔
۳۔ سلف صالحین کی تعبیر کے خلاف ہے۔
۴۔ شریعت سازی کا ارتکاب ہے۔
۵۔ اجماعِ صحابہ کے خلاف ہے جس سے انحراف کی اجازت نہیں۔
۶۔ اجماعِ ائمہ اربعہ اوراجماعِ امت کے خلاف ہے جس کا منکر ﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّ‌سولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ‌ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ...١١٥ ﴾... سورة النساء" کا مصداق ہے۔

 فکرفراہی کی بنیادی کجی
اور یہ ایسے ہی ہے ، جیسے خود اصلاحی نے اپنی تفسیر 'تدبر قرآن ' کے مقدمے میں لکھا ہے :
"جس طرح خاندانوں کے شجرے ہوتے ہیں، اسی طرح نیکیوں اور بدیوں کے بھی شجرے ہیں۔ بعض اوقات ایک نیکی کو ہم معمولی نیکی سمجھتے ہیں حالانکہ اس نیکی کا تعلق نیکیوں کے اس خاندان سے ہوتا ہے جس سے تمام بڑی نیکیوں کی شاخیں پھوٹی ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات ایک برائی کو ہم معمولی برائی سمجھتے ہیں لیکن وہ برائیوں کے اس کنبے سے تعلق رکھنے والی ہوتی ہے جو تمام مہلک بیماریوں کو جنم دینے والا کنبہ ہے۔" (مقدمہ تدبر قرآن، طبع اوّل ستمبر ۱۹۶۷ء)
بالکل اسی طرح فکری کجی اور گمراہی کا معاملہ ہے۔ جب انسان کے فکر و نظر کے زاویے میں کسی ایک مقام پر کجی آجائے، تو پھر اس کا دائرہ بڑھتا اور پھیلتا ہی چلا جاتا ہے، حتیٰ کہ بعض دفعہ اس کا رخ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جس طرح ایک گاڑی کا کانٹا بدل جائے تو پھر وہ اس بدلے ہوئے کانٹے پر تیزی سے رواں دواں رہتی ہے تا آں کہ دوبارہ اس کا کانٹا بدل کر اسے سیدھے راستے پر گامزن نہ کر دیا جائے۔ فکر فراہی کی بنیاد میں ایک بہت بڑی کجی یہ ہے کہ اس میں قرآن کریم کی تفسیر وتوضیح کے لیے احادیث وآثار کو ثانوی اور عربوں کے جاہلی ادب کو اوّلین حیثیت اور اس طرح سلف کی تعبیر کے مقابلے میں اپنی عقل وفہم کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دبستانِ فکر سے وابستہ اہل قلم کا رشتہ احادیث اور اسلاف سے کم ہو گیا۔ احادیث کا ذخیرہ ان کی نظروں میں غیر مستند ٹھہرا اور جاہلی ادب اور شعری دوا دین، جن کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے، وہ مستند ومعتبر قرار پائے۔ اپنی فہم ورائے کی اصابت پر انہیں یقین ہے اور  اس کے مقابلے میں اجماعِ صحابہ واجماعِ امت تک بے حیثیت ہے (جس کی سب سے بڑی دلیل ان کا گمراہانہ نظریہٴ رجم ہے ، جیسا کہ اس کی تفصیل گزر چکی ہے اور 'تدبر قرآن ' میں متعدد مقامات پر اس زیغ وضلال کی مزید مثالیں موجود ہیں جس میں واقعہ معراج کا انکار بھی ہے۔ ) اگر فکر فراہی میں یہ کجی نہ ہوتی تو کبھی اس گروہ کی طرف سے رجم کی متواتر احادیث کو ردّ کرنے کی اور اجماعِ صحابہ واجماعِ امت کو نظر انداز کرنے کی جسارت کا ارتکاب نہ ہوتا۔ اس کجی نے ہی ان میں یہ استبدادِ رائے پیدا کیا اور انہیں یہ عزم وحوصلہ بخشا کہ ایک منصوص اور متفق علیہ حد کا نہ صرف نہایت بے دردی سے انکار کیا بلکہ حضرت ماعز اور غامدیہ صحابیہ رضی اللہ عنہما کو نعوذ باللہ پیشہ ور غنڈہ اور طوائف قرار دیا۔ کیوں کہ اس گستاخی کے بغیر رجم کی تعزیری حیثیت کا اِثبات ممکن نہیں تھا۔
بہر حال اس تفصیل سے مقصود اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ احادیث ِرسول سے بے اعتنائی ،بلکہ ان کا  انکار فکر ِفراہی کی بنیاد میں شامل ہے۔
 مکتبہ فراہی کہ یہ حضرات حدیث کے مکمل طور پر منکر نہیں ،لیکن ان کے اندازِ فکر سے حدیث کا استخفاف اور استحقار معلوم ہوتا ہے اور طریقہ گفتگو سے انکار کے لیے چور دروازے کھل سکتے ہیں۔اصلاحی صاحب کے نظریات تمام ائمہ حدیث کے خلاف ہیں۔ ان میں آج کے جدید اعتزال و تجہّم کے جراثیم مخفی ہیں۔
اس کا ایک بڑا ثبوت اصلاحی کی تفسیر 'تدبر قرآن' ہے۔ اس میں اصلاحی نے احادیث وآثار سے اکثر مقامات پر سخت بے اعتنائی برتی ہے، اور لغت اور جاہلی ادب پر یا اپنی فہم وفراست پر یا مزعومہ قرائن پر زیادہ اعتماد کیا ہے۔ اس لیے یہ تفسیر، تفسیر بالرایٴ الفاسد کا ایک ایسا نمونہ ہے جس کی مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ اسی فاسد رائے اور حدیث کے انکار کا ایک نمونہ حد رجم کا بطورِ حد شرعی انکار ہے اور بطورِ تعزیر پیشہ ور بد معاشوں اور غنڈوں کے لیے اس کا اثبات ہے جو انہوں نے سورئہ مائدہ کی آیت محاربہ کے لفظ قُتِّلُوْا سے کشید کی ہے۔ حالانکہ رجم ایک ایسی حد ہے کہ اگر اسے نص پر مبنی تسلیم نہ کیا جائے جیسا کہ اصلاحی صاحب تسلیم نہیں کرتے تو پھر اسے تعزیر کے طور پر اپنے قیاس واستنباط سے کسی بھی جرم کی سزا کے لیے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ اس میں ایذا دے دے کر مارنے کا انداز پایا جاتا ہے، حالانکہ شریعت نے جانوروں تک کو ایذا دے کر مارنے سے منع کیا ہے، اسی طرح مثلہ کرنے سے بھی سختی سے روکا گیا ہے۔ لیکن شریعت کے نزدیک ایک شادی شدہ شخص کا ارتکابِ زنا اتنا بڑا جرم ہے کہ اس نے بطورِ عبرت یہ سزا ایسے مجرموں کے لیے رکھی ہے۔ اب اگر کوئی شخص شریعت کی اس نص (عمل رسول اور حکم رسول علیہ الصلوۃ والسلام ) ہی کو تسلیم نہیں کرتا، اور کہتا ہے کہ شادی شدہ زانی کی سزا بھی سو کوڑے ہی ہیں تو اسے یہ حق کہاں سے حاصل ہو سکتا ہے کہ تعزیر کے طور پر اپنی طرف سے اور اپنے قیاس سے کسی اور جرم کی یہ سزا تجویز کرے، جب کہ اس میں ایذا دہی اور مثلے کا انداز پایا جاتا ہے جو شریعت ِاسلامیہ میں ممنوع ہے۔ اس سے تو زیادہ بہتر 'قیاس یا اجتہاد' یہ تھا کہ اصلاحی صاحب سرے سے رجم کا ہی انکار فرما دیتے۔ بطورِ حد زانی محصن تو کیا ہی تھا، بطورِ تعزیر بھی کر دیتے۔ بطورِ تعزیر اس کا جواز تسلیم کرنے میں آخر کیا تک ہے؟ یہ حدیث ِرسول سے انکار کی وہ آفت ہے جو اصلاحی صاحب کی عقل وفہم پر پڑی ہے اور ایسا 'اجتہاد ' یا 'استنباط' فرمایا ہے جس کی شرعی بنیاد تو پہلے ہی نہیں ہے، عقلی اور اخلاقی بنیاد سے بھی وہ محروم ہے۔

دوسرا بڑا ثبوت، تدبر قرآن کے بعد، تدبر ِحدیث ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ادارے کا نام 'ادارئہ تدبر ِقرآن وحدیث' رکھا ہے۔ اور قرآن پر تدبر کرنے، یعنی اپنی عقل وقیاس سے قرآنی حقائق کا حلیہ بگاڑنے کے بعد، اب حدیث کا روئے آبدار مسخ کرنے کی طرف عنانِ توجہ مبذول فرمائی ہے۔ چناں چہ اس سلسلے میں انہوں نے چند محاضرات (لیکچروں ) کا اہتمام فرمایا۔ انہی محاضرات کے مجموعے کا نام 'مبادیٴ تدبر حدیث ' نامی کتاب ہے جس میں حدیث کے پرکھنے کے تمام محدثانہ اُصولوں کو ناکافی اور بے وقعت قرار دیتے ہوئے نئے اُصول وضع کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے تا کہ محدثین کی بے مثال کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے اور لوگوں کو ایسے ہتھیار فراہم کر دیے جائیں جنہیں استعمال کر کے وہ جس حدیث صحیح کو چاہیں ردّ کر دیں اور جس ضعیف اور باطل حدیث کو چاہیں ،صحیح قرار دے لیں۔
دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ حدیث کے پرکھنے کے لیے محدثانہ اُصول وقواعد میں جو خامیاں اور کوتاہیاں رہ گئی تھیں، اس کتاب میں اِن کا اِزالہ کیا گیا ہے اور ایسے نئے قواعد واصول وضع کیے گئے ہیں کہ ان کی روشنی میں تمام احادیث کو نئے سرے سے پرکھا جا سکے۔ کتنابڑا دعویٰ ہے؟ لیکن اسی بلند بانگ دعوے میں حدیث کا اِنکار مضمر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری جیسے امام فن نے بھی اگر کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف قرار دیا ہے تو محدثین کے اُصول وقواعد میں ایسی خامیاں ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے امام بخاری کے فیصلے کے بر عکس صحیح حدیث، ضعیف اور ضعیف حدیث، صحیح ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اصلاحی کے گھڑے ہوئے اُصولوں کی روشنی میں تمام ذخیرئہ احادیث کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے۔ یہ انکارِ حدیث کا راستہ چوپٹ کھولنے کے مترادف نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟ اور کیا یہ محدثین کی تمام کاوشوں پر خط ِنسخ پھیرنا نہیں ہے؟

فساد کا نا م اِصلاح یا شراب کا نام روح افزا رکھ لینے سے حقیقت نہیں بدل جاتی ہے۔ یہ غرورِ نفس یا دل کا بہلاوا اور تسویل شیطان ہے۔ بہر حال اصلاحی صاحب کی کتاب 'مبادیٴ تدبر حدیث' ایک نہایت خطرناک کتاب ہے جس میں محدثین کی کاوشوں کی نفی یا ان کا استخفاف کر کے انکارِ حدیث کا راستہ چوپٹ کھول دیا گیا ہے۔ جس کے بعد قرآن کو ماننے کا دعویٰ بھی بے حیثیت قرار پاتا ہے۔ اور یہ کوئی مفروضہ ، واہمہ اور تخیل کی کرشمہ آرائی نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جسے خود اصلاحی تسلیم بلکہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ چناں چہ وہ اپنے مقدمہ تفسیر تدبر قرآن میں منکرین حدیث کے رویے کے ضمن میں لکھتے ہیں
"منکرین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم وصلوٰة ،حج وزکوة اور عمرہ وقربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور اُمت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے، اس میں اپنی ہوائے نفس کے مطابق ترمیم وتغیر کرنا چاہتے ہیں، صریحاً خود قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے "

اصلاحی صاحب جن کو منکرین حدیث قرار دے رہے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنا مسلک ٴانکارِ حدیث بتلاتے ہوں بلکہ وہ بھی حدیث کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آپ غلام احمد پرویز، اسلم جیراج پوری، تمنا عمادی اور دیگر مشہور منکرین حدیث کی تحریریں پڑھ لیجیے، سب حدیث کے ماننے کے دعوے دار ہیں، کوئی بھی حدیث کی حجیت سے انکار نہیں کرتا ہے۔ پھر انہیں منکرین حدیث کیوں کہا جاتا ہے؟ صرف اس لیے کہ زبان سے حدیث ِ رسول ماننے کے باوجود حدیث میں تشکیک پیدا کرنا اور محدثین کی سعی وجہد کو بے حیثیت قرار دینا، ان کامشغلہ ہے، جس نے عملاً انہیں حدیث کا ہی منکر نہیں بنایا بلکہ بقول اصلاحی کے، ان کا قرآن پر ایمان کا دعویٰ بھی محل نظر ہی قرار پاتا ہے۔
بالکل یہی معاملہ اصلاحی اور ان کے تلامذہ کا ہے۔ وہ بھی گو انکار کے علم بردار نہیں ہیں لیکن وہ جس طرح حدیث کا استخفاف، حتیٰ کہ رجم کی متواتر اور متفق علیہ روایات کا انکار کر رہے ہیں اور محدثین کے اصول و قواعد کو ناکافی قرار دے رہے ہیں، اس نے دبستانِ فراہی سے وابستہ افراد کو بھی منکرین حدیث ہی کی صف میں لا کھڑا کیا ہے، کیوں کہ حدیث کے بارے میں ان کی مذموم مساعی سے بھی صرف حدیث ہی کا انکار لازم نہیں آ رہا، بلکہ قرآنی مسلمات سے بھی انحراف کا راستہ کھل رہا ہے۔
چناں چہ اصلاحی کے تلمذ کے دعوے داروں میں سے سب سے زیادہ نمایاں اور قریب جاوید احمد غامدی کو دیکھ لیجیے، جو اصلاحی کو 'امام ' لکھتے ہیں۔ یوں اس گروہ کے اِمام اوّل حمید الدین فراہی، امامِ ثانی امین احسن اصلاحی قرار پاتے ہیں اور بمصداق ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات، امامِ ثالث یہی غامدی ہیں۔ یہ کوئی استہزاء نہیں ہے۔ اگر اوّل الذکر دونوں حضرات  امام ہیں تو تیسرے امام یقینا غامدی ہی ہیں۔

بہر حال مقصد یہ عرض کرنا ہے کہ اِمام اول نے حدیث کے استخفاف اور اس سے بے اعتنائی کی جو بنیاد رکھی تھی، دوسرے امام (احسن اصلاحی) کے رویے نے اسے انکار حدیث تک پہنچا دیا اور انہوں نے رجم کی احادیث اور دیگر صحیح احادیث کو ردّ کر دیا اور 'مبادی تدبر حدیث ' کے ذریعے سے تمام ذخیرئہ احادیث کو مشکوک قرار دے دیا ہے اور اب تیسر ے امام نے قرآنی مسلمات کا بھی انکار شروع کر دیا ہے۔ اور انکارِ حدیث کا یہ وہ منطقی اور لازمی نتیجہ ہے جسے اصلاحی بھی تسلیم کرتے ہیں۔ چناں چہ بالآخر یہ گروہ بھی اپنے اس منطقی انجام کو پہنچ گیا ہے۔

جاوید احمد غامدی کے بارے میں ہماری یہ بات لوگوں کے لیے شاید 'انکشاف ' کا درجہ رکھتی ہو اور ممکن ہے بہت سے لوگ یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں، لیکن یہ ایک ایسا واقعہ اور حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ اس کے دلائل حسب ِذیل ہیں :
جون ۱۹۸۹ء میں وفاقی شرعی عدالت پاکستان (لاہور ) میں تقریباً دو ہفتے مسئلہ شہادتِ نسواں پر بحث ہوئی۔ فاضل عدالت کی درخواست پر جناب غامدی نے بھی اپنا موقف پیش کیا جس میں انہوں نے مسئلہ مذکور میں ہی مغرب زدگان کی ہم نوائی نہیں کی بلکہ اور بھی کئی قرآنی مسلمات کا انکار کیا، بلکہ قرآن کریم کی معنوی تحریف کا بھی ارتکاب کیا۔

نومبر۱۹۹۰ء کے 'اشراق' میں غامدی صاحب نے اپنے اس بیان کاخلاصہ شائع کردیا ہے جو انہوں نے فاضل عدالت کے روبرو پیش کیا تھا۔ اس خلاصے میں اگرچہ وہ طمطراق، ہمہ دانی کا وہ پندار اور زبان وبیان کے وہ تیور نہیں جو عدالت کے سامنے زبانی بیان میں تھے تاہم بنیادی موقف تقریباً وہی ہے جو وہاں پیش کیا گیا تھا، اپنے اس بیان میں غامدی نے جن مسلمات کا انکار کیا ، اس کی تفصیل حسب ِذیل ہے
(۱) ﴿وَالّـٰتى يَأتينَ الفـٰحِشَةَ﴾ میں الفاحشة سے کیا مراد ہے ؟ صحابہ وتابعین سے لے کر آج تک تمام مفسرین ، محدثین ،علماء وفقہا نے کہا ہے کہ اس سے بے حیائی کی وہ قبیح ترین صورت مرادہے جسے زنا کہا جاتاہے، کیوں کہ اس کی وضاحت حضرت عبادہ بن صامت کی اس صحیح حدیث میں آگئی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آیت مذکورہ میں جس 'سبیل' کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا، وہ سبیل واضح کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنا اور غیر شادی شدہ زانی کوکوڑ ے لگانا۔
اس حدیث نے یہاں 'فاحشہ' کے مفہوم کو متعین اور اس جرم کے اثبات کے لیے چار مسلمان مرد گواہوں کو ضروری قرار دیا ہے کیوں کہ نصابِ شہادت تویہاں قرآن نے ہی بیان کر دیاہے جس کا اِعادہ سورئہ نور کی آیت۴ ﴿وَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ...٤ ﴾... سورة النور"میں بھی کیا گیا ہے۔ اور زنا کی حد بالخصوص شادی شدہ زانی مرد وعورت کی حد، حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں 'سبیل' کی وضاحت کرتے ہوئے فرما دی گئی ہے۔ چناں چہ مذکورہ حدیث عبادہ کی وجہ سے تمام مفسرین اُمت اور تمام علماء وفقہاء مذکورہ حد زنا اور نصاب شہادت کو تسلیم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ احسن اصلاحی جنہوں نے خوارج کے بعد، اُمت میں سب سے پہلے حد رجم کا انکا ر کیا، وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیاتِ مذکورہ میں بیان کردہ تعزیرات اگرچہ سورئہ نور میں نازل شدہ حدود کے بعد منسوخ ہو گئیں لیکن بدکاری کے معاملے میں شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں بھی باقی رہا۔ (ملاحظہ ہو تفسیر 'تدبر قرآن': ج ۲،ص ۳۷ )
لیکن غامدی نے اپنے عدالتی بیان میں کہا کہ الفاحشة سے مراد زنا نہیں ہے، نہ اس میں زنا کی سزا ہی بیان کی گئی ہے ، بلکہ اس میں استمرار کا مفہوم پایا جاتا ہے (اپنے خلاصے میں غامدی صاحب نے استمرار والی بات حذف کردی ہے جب کہ عدالت میں یہ بات انہوں نے بڑے اعتماد بلکہ ادعا کے ساتھ پیش کی تھی ) جس کی وجہ سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو پیشہ ور طوائفیں ہیں، ان کی سزا اس میں بیان کی گئی ہے، عام بدکار عورتوں کی یہ سزا نہیں ہے۔
(۲) پھر اسی پر بس نہیں کی گئی، یہ دعویٰ بھی انہوں نے کیا کہ قرآن وحدیث میں کہیں سرے سے ثبوتِ زنا کیلئے چار گواہوں کا ذکر ہی نہیں ہے۔ اس لئے اثباتِ زنا کے لئے چار گواہوں کا نصاب ہی نہیں زنا تو ایک گواہ بلکہ ایک بچے کی شہادت، بلکہ بغیر کسی شہادت کے قرائن کی بنیاد پر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اور قرآنِ کریم کی آیت ﴿وَالَّذينَ يَر‌مونَ المُحصَنـٰتِ...٤ ﴾... سورة النور’ جس میں چار مرد گواہوں کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اس کی بابت ارشاد فرمایا (جو تحریف معنوی ہے ) کہ اس میں ان لوگوں کی سزا بیان کی گئی ہے جو بیٹھے بٹھائے یوں ہی بغیر کسی واقعے کے صدور کے، کسی پر بدکاری کی تہمت لگا دیں۔ اس کا تعلق زنا کے اس الزام سے نہیں ہے جس کا فی الواقع ارتکاب کیا جا چکا ہو، کیوں کہ اس کے ثبوت کے لیے تو کسی متعین نصاب شہادت کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
(۳) عدالت میں موصوف نے حد اور تعزیر کے مابین فرق کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم شائع کردہ خلاصے میں اس نکتے کو پتہ نہیں، کیوں حذف کردیا ہے۔
جناب غامدی کی یہ تمام باتیں قرآن وحدیث کی واضح نصوص کے خلاف ہیں اور جیسا کہ خود موصوف نے عدالت میں تسلیم کیا کہ
"امت میں پہلا فرد ہوں جس کی یہ رائے ہے، حتیٰ کہ اس رائے میں اپنے استاذ امین احسن اصلاحی سے بھی مختلف ہوں " (غامدی صاحب نے اپنے شائع کردہ خلاصے میں اس اِدعا کو بھی حذف کردیا ہے۔ )

غامدی نے جو موقف اختیار کیا ہے،  فقہاے امت کے متفقہ مسلک سے انحراف ہے، جو دراصل حجیت ِحدیث کے اِنکار پر مبنی ہے۔ اس انکار حدیث کی کیفیت نے موصوف کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے اور کتنے فخر سے وہ پوری امت میں اپنے منفرد ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس زیغ وضلال اور من شذّ شذّ ... کا مصداق بننے سے بچائے۔
(۴) اسی طرح آیت ِمداینہ کی بابت جس میں قرض کے سلسلے میں دو مرد گواہ یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کا حکم ہے ، ارشاد فرمایا:
"یہ محض ایک اخلاقی تعلیم ہے، کوئی اصول، ضابطہ اور متعین نصابِ شہادت نہیں ہے۔ "
(۵) غامدی نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ شہادت میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ حالانکہ تمام فقہاے امت اس بات پر متفق ہیں کہ زنا کے ثبوت کیلئے چار مسلمان گواہ ضروری ہیں، اور یہ قرآن کی نص ﴿أَر‌بَعَةً مِنكُم﴾ سے ثابت ہے ، اس لیے اس پر بھی اجماع ہے۔

 مزید مسلمات کا انکار
غامدی نے اُمت کے اجماعی اور متفق علیہ مسائل ہی کا انکار نہیں کیا، بلکہ نصوصِ قرآنی تک سے انحراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کیا ہے۔ اور غامدی کے ساتھ اب ان کے تلامذہ بھی مسلماتِ اسلامیہ کے انکار پر اتر آئے ہیں۔ چناں چہ جنوری ۱۹۹۶ء کے ماہنامہ 'اشراق' لاہور میں حضرت عیسیٰ کے قیامت کے قریب نزولِ آسمانی سے، ظہورِ امام مہدی وخروجِ دجال سے اور یاجوج وماجوج کے وجود سے بھی انکار کر دیا گیا ہے۔
اس تفصیل سے اس امر میں کوئی شک نہیں رہ جاتا ہے کہ لغت یا اپنی فہم نارسا اور عقل کج اَدا کے ذریعے سے قرآنِ کریم کی تفسیر کرنے کا اور حدیث ِرسول اور اَسلاف کی تعبیر سے اِنحراف کا جو راستہ اِصلاحی نے اپنایا اور اپنے تلامذہ اور حلقہ ارادت کو بتلایا ،یہ وہی راستہ ہے جو کم وبیش کچھ فرق کے ساتھ سرسید احمد خاں ، غلام احمد پرویز اور عبد اللہ چکڑالوی وغیرہم نے اختیار کیا جس کا لازمی اور منطقی نتیجہ قرآنی مسلمات کا انکار اور تواتر واِجماعِ اُمت سے ثابت شدہ مسائل سے اِعراض وانحراف ہے۔ بہت سے مسلمات اور اِجماعی مسائل کا اِنکار مذکورہ حضرات نے کیا (جیسا کہ ان کی کتابوں اور تحریروں سے واضح ہے ) اور اب اسی روش پر چلتے ہوئے کچھ مسلمات اور تواتر اُمت کا انکار اصلاحی اور ان کے تلامذہ کے ذریعے سے ہو رہا ہے جس پر ان کی تحریریں شاہد ہیں۔ یہ کوئی افترا یا الزام نہیں ہے ﴿تَشـٰبَهَت قُلوبُهُم﴾
اس لیے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ کوئی صاحب ِعلم و تحقیق ائمہ سلف کے افکار وتعبیرات کی روشنی میں اصلاحی کی تفسیر 'تدبر قرآن ' کا جائزہ لے اور اس کے تفردات وشذوذ بلکہ اس کی کج فکریوں اور انحرافات کو طشت ازبام کرے تاکہ ان 'اہل قرآن' کی قرآن فہمی اور ان اہل تدبر کے 'تدبر'کی حقیقت واضح ہو سکے۔ اسی طرح اصلاحی کے محاضرات کا بھی جو'مبادئ تدبر حدیث' کے نام سے شائع ہوئے ہیں، جائزہ لے کر ان کے حسن وقبح کو واضح اور ان میں انکارِ حدیث کے مخفی جراثیم کو آشکارا کرے۔

اصلاحی، ان کے تلامذہ اور فکر فراہی کے اس تاریک اور نہایت خطرناک پہلو سے، اہل علم کا ایک حلقہ تو آگاہ ہے ، لیکن بہت بڑی اکثریت اس سے بے خبر ہے ، اس لیے ان کی آگاہی کے لیے یہ مضمون تحریر کیا گیا ہے۔

 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں : 

٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-0

٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-1


٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-2

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔