Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

پیر، 28 جون، 2021

فکر غامدی کا علمی محاکمہ-2

 فکر غامدی کا علمی محاکمہ
 تحقیق و تدوین: فقیر انجنئیر پروفیسر ڈاکٹر محمد فواد حیدر مقصودی نقشبندی عفی عنہ
🌲⚘🌲 قسط دوم🌲⚘🌲
📚 تعارف غامدی 📝
نام و نسب
قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں پاک پتن کے گاؤں میں ایک پیرپرست اور مزار گرویدہ قسم کا شخص رہتا تھا، جس کا نام محمد طفیل جنیدی تھا۔ مزاروں والا خصوصی لباس، گلے میں مالائیں ڈالنا، ہاتھ میں کئی انگوٹھیاں پہننا اور لمبی لمبی زلفیں بغیر دھوئے تیل لگائے رکھنا اس کی پہچان تھی۔ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ نام تو اس کا محمد شفیق تھا، لیکن باپ کے مخصوص مزاج کی وجہ سے اس کا عُرف کاکو شاہ پڑ گیا۔ یہ خاندان ککے زئی پٹھان کہلاتا تھا، اس طرح اس کا پورا عرفی نام ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ بنا، محمد شفیق عرف کاکوشاہ ککے زئی جب گاؤں کی تعلیم کے بعد لاہور آیا تو اُسے اپ ٹوڈیٹ قسم کا نام رکھنے کی فکر لاحق ہوئی، اس نام کے ساتھ تو وہ ’’لہوریوں‘‘ کا سامنا نہ کر سکتا تھا، سوچ سوچ کر اُسے ’’جاوید احمد‘‘ نام اچھا معلوم ہوا کہ کہ ماڈرن بھی تھا اور رعب دار بھی۔ اس نے محمد شفیق سے تو جان چھڑالی، اب ’’کاکو شاہ ککے زئی‘‘ کے لاحقے کا مسئلہ تھا جو کافی سنگین اور مضحکہ خیز تھا، لیکن فی الحال اُسے اس کی خاص فکر نہ تھی۔ اس زمانے میں اس کا ایک قریبی دوست ہوتا تھا ’’جناب رفیق احمد چوہدری‘‘ وہ اس روئیداد کے عینی گواہ ہیں۔ 

سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ۱۹۷۲ء کا دور تھا، کاکو شاہ لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے آنرز کرنے کے بعد معاشرے میں مقام بنانے کی جد وجہد کر رہا تھا، اس کی انگریزی تو یوں ہی سی تھی، لیکن قدرت نے اُسے ایک صلاحیت سے خوب خوب نوازا تھا، وہ تھی طاقت ِلسانی، اس کے بل بوتے پر وہ تعلقات بنانے اور آگے بڑھنے کی سعی میں مصروف تھا، آخرکار اس کی جدوجہد رنگ لائی اور وہ اپنی چرب زبانی سے پنجاب کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف جناب مختار گوندل کو متاثر کر کے اوقاف کے خرچ پر ۲۹؍ جے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ’’دائرۃ الفکر‘‘ کے نام سے ایک تربیتی اور تحقیقی ادارہ کی داغ بیل ڈالنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر جلد ہی قدرت نے اُسے مولانا مودودی مرحوم کے سایۂ عاطفت میں ڈال دیا تو جاوید احمد کو فوری طور پر جماعت اسلامی میں پذیرائی ملی، رکنیت ِمجلس شوریٰ تو چھوٹی شئے ہے، اس کے حواری اُسے مولانا مودودی کا ’’جانشین‘‘ بتانے لگے۔ آخر کار جب جاوید احمد کو جماعت اسلامی سے ۱۹۵۷ء میں الگ ہونے والے مولانا امین احسن اصلاحی سے روابط کا شوق مولانا کے قریب تر اور جماعت اسلامی سے مزید دور لے جانے کا باعث بنا، تو آہستہ آہستہ وہ جاوید احمد سے جاوید احمد غامدی ہوگیا۔ اس لقب کی ’’جناب جاوید احمد غامدی صاحب‘‘ چار وجوہات بیان کرتے ہیں اور صحیح ایک کو بھی ثابت نہیں کر سکتے، حال ہی میں ان کے ایک شاگرد خاص نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ ’’اصل میں وہ اصلاحی صاحب سے عقیدت کی وجہ سے اصلاحی لقب رکھنا چاہتے تھے، لیکن ’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ سے فارغ نہ تھے، اس لیے غامدی نام رکھ لیا۔ ’’سبحان اللہ! چھوٹے میاں کو یہ بھی نہیں پتہ کہ غامدی نہ اصلاحی کے ہم وزن ہے نہ ہم معنی ! آخر کس طرح سے اصلاحی سے غامدی تک چھلانگ لگا دی گئی؟؟ 

گویا یہ پانچویں وجہ بھی عار ہی عار ہے اور پورا مکتب فکر مل کر اپنے بانی کے نام کی درست توجیہ کرنے سے قاصر ہے۔ ۲۰۰۱ء سے قبل غامدی صاحب کی تحریک پروان چڑھ رہی تھی، لیکن اسے لارڈ کرزن کی سرپرستی دستیاب نہ تھی، ۲۰۰۱ء میں یہ کمی بھی پوری ہوگئی اور ان کے سر پر عصر حاضر کے لارڈکرزن کا دست شفقت کچھ ایسا جم کر ٹکا کہ وہ شخص جس کا دینی اور مذہبی علم کسی باقاعدہ مسلمہ دینی درس گاہ کا مرہون منت نہیں، بلکہ اس کا علم جنگلی گھاس کی طرح خود رو ہے اور اس کی عقل وفہم کسی مسلمہ ضابطہ کی پابند نہیں ہے، جو عربی کی دو سطریں سیدھی نہیں لکھ سکتا، جو انگریزی کی چار نظموں اور چار مصرعوں کی پونجی میں آدھے سے زیادہ مصرعے چوری کر کے ٹانکتا ہے، جس کی اکثر اردو تحریریں سرقہ بازی کا نتیجہ ہیں، وہ آج ملک کا مشہور ومعروف اسکالر ہے اور اس کا فرمایا ہوا مستند سمجھاجاتا ہے۔ ’’ککے زئی سے غامدی تک‘‘ کے سفر کی روداد عبرت ناک بھی ہے اور الم ناک بھی۔ سچ ہے استاذ اپنے شاگردوں سے ہی پہچانا جاتا ہے اور شاگرد اپنے استاذ کی پہچان کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ’’فراہی سے اصلاحی اور اصلاحی سے غامدی تک’’ استاذی شاگردی کا سلسلہ اس مقولے کی صداقت کے لیے کافی سے زیادہ شافی ہے۔  ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ‘‘     غامدی صاحب کے متعلق اوپر جو باتیں لکھی گئیں یقینا یہ ان کے بہت سے محبین کے لیے نئی ہوں گی، مگر ایسا ہوتا ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے عقائد ونظریات، قرآن وسنت، اجماع امت اور دین ومذہب کو بگاڑنے، اکابر واسلافِ امت کے خلاف بغاوت کرنے اور ان کے خلاف زبان درازی کرنے کی ہمت رکھتے ہوں، وہ دنیا بھر کی اسلام دشمن قوتوں اور مذہب بیزار لابیوں کے منظور نظر بن جاتے ہیں، ان کے تمام عیوب ونقائص نہ صرف چھپ جاتے ہیں، بلکہ اعدائے اسلام ان کی سرپرستی میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو اپنا فرض اور اعزاز سمجھتے ہیں اور ان کی حمایت و سرپرستی کے لیے اپنے اسباب، وسائل، مال و دولت اور خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں، صرف یہی نہیں، بلکہ نظری، بصری میڈیا کے ذریعے ان کا ایسا تعارف کرایا جاتا ہے کہ دنیا ان کی نام نہاد علمی شوکت وصولت کے سامنے ڈھیر ہوجاتی ہے۔

 جس طرح آج سے ایک صدی پیشتر ضلع گورداس پور کی بستی قادیان کے میٹرک فیل اور مخبوط الحواس انسان غلام احمد قادیانی کو استعمار نے اٹھایا، اس کی سرپرستی کی اور اس سے دعویٰ نبوت کرایا، ٹھیک اسی طرح دور حاضر کے نام نہاد اسکالر جاوید غامدی کا قضیہ ہے، جس طرح غلام احمد قادیانی کا کوئی پس منظر نہیں تھا اور اس میں ا س کے سوا کوئی کمال نہیں تھا کہ اس نے مسلمانوں کے قرآن کے مقابلہ میں نیا قرآن، مسلمانوں کے دین کے مقابلہ میں نیا دین اور مسلمانوں کے نبی کے مقابلہ میں نئی نبوت کا اعلان کیا، جہاد جیسے دائمی فریضہ کو حرام قرار دیا اور حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدہ کا انکار کیا، اسی طرح "جناب جاوید احمد غامدی صاحب" بھی دین اسلام کے مقابلہ میں نئے ترمیم شدہ دین اور مذہب کی ایجاد کی کوشش میں ہیں اور انہوں نے بھی اپنے پیش روؤں کی طرح منصوص دینی مسلمات کے انکار پر کمر ہمت باندھی ہوئی ہے۔

 جاوید احمد غامدی کے معتقدین نے خود ان کا تعارف اور پیدائش کے بعد تعلیم وتعلم کو اس طرح بیان کیا ہے:   

  جاوید احمد غامدی کی پیدائش ۱۸؍ اپریل ۱۹۵۱ء کو ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں جیون شاہ میں ہوئی۔ آبائی گاؤں ضلع سیالکوٹ کا ایک قصبہ داؤد ہے اور آبائی پیشہ زمینداری ہے۔ ابتدائی تعلیم پاک پتن اور اس کے نواحی دیہات میں پائی۔ اسلامیہ ہائی اسکول پاک پتن سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور اس کے ساتھ انگریزی ادبیات میں آنرز (حصہ اول) کا امتحان پاس کیا۔ عربی وفارسی کی ابتدائی تعلیم ضلع ساہیوال ہی کے ایک گاؤں نانگ پال میں مولوی نور احمد صاحب سے حاصل کی، دینی علوم قدیم طریقے کے مطابق مختلف اساتذہ سے پڑھے، قرآن وحدیث کے علوم ومعارف میں برسوں مدرسۂ فراہی کے جلیل القدر عالم اور محقق امام امین احسن اصلاحی سے شرف تلمذ حاصل رہا، ان کے داد انور الٰہی کو لوگ گاؤں کا مصلح کہتے تھے، اسی لفظ مصلح کی تعریب سے اپنے لیے غامدی کی نسبت اختیار کی اور اب اسی رعایت سے جاوید احمد غامدی کہلاتے ہیں۔ (دانش سرا، المورد، ماہنامہ) جاوید احمد غامدی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مدرسہ فراہی کے معروف عالم دین، شاعر، مصلح، فقیہ العصر اور قومی دانشور ہیں۔ (بحوالہ وکی پیڈیا)۔  
 تصنیف و تالیف
غامدی 1980ء سے دینی علوم پر علمی اور تحقیقی کام انجام دے رہے ہیں۔ ان کے کام کے وہ اجزا حسب ذیل ہیں جو تصانیف کی صورت اختیار کر چکے ہیں:

البیان (الفاتحہ۔ البقرہ) قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر
البیان (الملک۔ الناس) قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر
میزان: دین کی تفہیم و تبیین
برہان: تنقیدی مضامین کا مجموعہ
مقامات: دینی، ملی اور قومی موضوعات پر متفرق تحریریں
خیال و خامہ: مجموعہء کلام

 اردو ماہنامہ
اشراق اردو زبان میں غامدی کے افکار کا ترجمان ہے۔ اس کا آغاز 1985ء سے ہوا۔ 1985ء تک یہ ایک سلسلۂ منشورات کے طریقے پر شائع ہوتا رہا۔ 1985ء میں اسے باقاعدہ ڈیکلریشن مل گیا۔ اس وقت سے یہ رسالہ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے اہم سلسلے یہ ہیں: قرآنیات، معارف نبوی، دین و دانش، نقد و نظر، نقطۂ نظر، حالات و وقائع، تبصرۂ کتب۔

 انگریزی ماہنامہ
رینی ساں (Renaissance) انگریزی زبان میں غامدی کے افکار کا ترجمان ہے۔ اس کا آغاز 1991ء سے ہوا۔ اور اس وقت سے یہ رسالہ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے اہم سلسلے یہ ہیں: Editorial, Quranic Exegesis, Reflections, Book Review, Queries, Selection, News and Views, Dialouge, Islamic Law, Scriptures

 ادارۂ علم و تحقیق
یہ ادارہ 1991ء میں قائم کیا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد اسلامی علوم سے متعلق علمی اور تحقیقی کام، تمام ممکن ذرائع سے وسیع پیمانے پر اس کی نشر و اشاعت اور اس کے مطابق لوگوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ہے۔

 عقائد و نظریات
جاوید احمد غامدی کے بہت سے نظریات قرآن و حدیث کے صریح نصوص کے خلاف اور اہلِ سنت و الجماعت کے اجماعی و اتفاقی عقائد سے متصادم ہیں،  جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1.۔۔  عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ [میزان، علامات قیامت، ص:178،طبع 2014]

2..۔  قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ [میزان، علامات قیامت، ص:177،طبع مئی2014]

3...(مرزا غلام احمد قادیانی) غلام احمد پرویز سمیت کوئی بھی کافر نہیں، کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں ہے۔ [اشراق، اکتوبر 2008، ص:67]

4.۔. حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔[میزان، ص:15]

5۔..سنتوں کی کل تعداد صرف 27 ہے۔ [میزان،ص:14]

6۔۔۔ ڈاڑھی سنت اور دین کا حصہ نہیں ۔ [مقامات، ص:138،طبع نومبر2008]

7۔۔۔اجماع دین میں بدعت کا اضافہ ہے۔ [اشراق، اکتوبر2011،ص:2]

8۔۔۔ مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔ [اشراق، اگست2008،ص:95]

9... رجم اور شراب نوشی کی شرعی سزا حد نہیں۔[برہان،ص:35 تا 146،طبع فروری 2009]

10... اسلام میں ”فساد فی الارض“ اور ”قتل نفس“کے علاوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔[برہان، ص:146،طبع فروری 2009]

11... قرآن پاک کی صرف ایک قراءت ہے، باقی قراءتیں عجم کا فتنہ ہیں۔ [میزان،ص:32،طبع اپریل2002....بحوالہ تحفہ غامدی از مفتی عبدالواحد مدظلہم]

12... فقہاء کی آراءکو اپنے علم وعقل کی روشنی میں پرکھاجائےگا۔ [سوال وجواب، ہٹس 727، 19جون 2009]

13... ہر آدمی کو اجتہاد کا حق ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں، جو سمجھے کہ اسے تفقہ فی الدین حاصل ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ [سوال وجواب،ہٹس 612،تاریخ اشاعت:10 مارچ 2009]

14... نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہ دین کی خاطر (اقدامی)جہاد ہمیشہ کے لیے ختم ہے۔ [اشراق، اپریل2011، ص:2]

15... تصوف عالم گیر ضلالت اور اسلام سے متوازن ایک الگ دین ہے۔ [برہان، ص:181، طبع 2009]

16...  حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔ واقعۂ کربلا سو فیصد افسانہ ہے۔ [بحوالہ غامدیت کیا ہے؟ از مولاناعبدالرحیم چاریاری]

17... مسلم وغیر مسلم اور مرد و عورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔ [برہان، ص:25 تا 34،طبع فروی 2009]

18... زکاۃ کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ [اشراق، جون 2008، ص:70]

19...  یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں، اِس کے بغیر بھی اُن کی بخشش ہو جائے گی۔[ایضاً]

20 ...موسیقی فی نفسہ جائزہے۔ [اشراق، فروری2008،ص:69]

21... بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے علاوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں۔ [اشراق،مارچ، 2009، ص:69]

22... بیمہ جائز ہے۔ [اشراق، جون 2010، ص:2]

23... یتیم پوتا دادے کی وراثت کا حق دار ہے۔ مرنے والے کی وصیت ایک ثلث تک محدود نہیں۔ وارثوں کے حق میں بھی وصیت درست ہے [اشراق، مارچ2008، ص:63 ... مقامات: 140، طبع نومبر2008]

24۔.. سور کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال، ہڈیوں، کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔ [اشراق،اکتوبر1998،ص:89....بحوالہ : غامدیت کیا ہے؟]

25۔۔۔ سنت صرف دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔ اگر کہیں قرآن کا ٹکراؤ یہود ونصاریٰ کے فکر وعمل سے ہوگا تو قرآن کے بجائے یہود و نصاریٰ کے متواتر عمل کو ترجیح ہوگی ۔[میزان، ص:14،طبع2014]

26...عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔ [ماہنامہ اشراق، ص 35 تا 46،مئی2005]

27... دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے،  دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے اس کا کوئی جواز نہیں۔[ماہنامہ اشراق، ص 47،شمارہ مئی2002]

28...مسجدِ اقصی پر مسلمانوں کا نہیں اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ [ اشراق جولائی، 2003اور مئی، جون2004]

29... بغیر نیت، الفاظِ طلاق کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔[اشراق،جون2008،ص:65]      

اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ جاوید احمد غامدی صاحب کے عقائد و نظریات امت مسلمہ اور علمائے اسلام کے متفقہ و اجماعی عقائد و اعمال کے بالکل متبائین (ضد) میں ہے۔ انہوں نے سبیل المومنین کو چھوڑ کر غیر سبیل المومنین کا راستہ اختیار کر لیا ہے جوکہ ضلالت و بدبختی کا ایک ایسا عمیق گڑھا ہے کہ اس سے اگر اس فانی دنیا کی زندگی میں نکل گئے تو عاقبت بخیر ہے ورنہ انجام بد منتظر۔

غامدی نظریات کے اسلامی نظریات سے تصادم و تضاد کو سمجھنے کے لیے ذیل میں اسلامی نظریات اور اس کے مقابل غامدی نظریات پیش خدمت ہیں۔

متفقہ اسلامی عقائد و اعمال

غامدی کے عقائدو نظریات

(1) قرآن مجید کی 7 یا 10 (سبعہ یا عشرہ) قراءتیں متواتر اور صحیح ہیں

(1) قرآن کی صرف ایک ہی قرأت درست ہے، باقی سب قرأتیں عجم کا فتنہ ہیں

(2) قرآن کی متشابہ آیات کا واضح اور قطعی متعین نہیں کیا جاسکتا

(2) قرآن کی متشابہ آیات کا بھی ایک اور واضح اور قطعی مفہوم سمجھا جاسکتا ہے

(3) سورہ نصر مدنی ہے

(3) سورہ نصر مکی ہے

(4) اصحاب فیل کو اﷲ نے پرندوں کے ذریعے ہلاک فرمایا

(4) اصحاب فیل کو پرندوں نے ہلاک نہیں کیا، بلکہ وہ قریش کے پتھرائو اور آندھی سے ہلاک ہوئے تھے، پرندے صرف ان کی لاشوں کو کھانے کے لئے آئے تھے

(5) اصحاب الاخدود کا واقعہ بعثت نبوی علیہ السلام سے پہلے کا ہے

(5) قرآن میں اصحاب الاخدود سے مراد دور نبوی علیہ السلام کے قریش کے فراعنہ ہیں

(6) سورہ لہب میں ابو لہب سے مراد نبیﷺ کا چچا مراد ہے

(6) سورہ لہب میں ابو لہب سے مراد قریش کے سردار ہیں

(7) قرآن سنت پر مقدم ہے

(7) سنت قرآن سے مقدم ہے

(8) سنت میں نبیﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات (خاموش تائیدیں) سب شامل ہیں اور وہ سب حضور سے شروع ہوتی ہیں

(8) سنت صرف افعال کا نام ہے۔ اس کی ابتداء حضرت محمدﷺ سے نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوتی ہے۔

(9) سنتیں ہزاروں کی تعداد میں ہیں

(9) سنتیں صرف 27 اعمال کا نام ہے

(10) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں واضح فرق ہے۔ سنت کے ثبوت کے لئے اجماع شرط نہیں

(10) ثبوت کے اعتبار سے سنت اور قرآن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان دونوں کا ثبوت اجماع اور عملی تواتر سے

(11) حدیث سے بھی اسلامی عقائد اور اعمال ثابت ہوتے ہیں

(11) حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا

(12) رسول اﷲﷺ نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے بہت اہتمام فرمایا

(12) حضور علیہ السلام نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے بھی کوئی اہتمام نہیں کیا

(13) امام ابن شہاب زہری علیہ الرحمہ ماوریت حدیث میں ثقہ اور معتبر راوی ہیں اور انکی روایت قابل قبول ہے

(13) ابن شہاب زہری کی کوئی روایت بھی قبول نہیں کی جاسکتی وہ ناقابل اعتبار راوی ہے۔

(14) دین و شریعت کے مصادر و ماخذ قرآن، سنت، اجماع اور قیاس (اجتہاد) ہیں

(14) دین کے مصادر قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیم اور قدیم صحائف بھی ہیں

(15) معروف و منکر کا تعین وحی الٰہی سے ہوتا ہے

(15) معروف و منکر کا تعین انسانی فطرت کرتی ہے

(16) جو شخص دین کے بنیادی امور یعنی ضروریات میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرے تو اس کو کافر قرارد یا جاسکتا ہے

(16) نبیﷺ کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا

(17) امام کی غلطی پر عورتوں کے لئے بلند آواز میں ’’سبحان اﷲ‘‘ کہنا جائز نہیں ہے

(17) عورتیں بھی باجماعت نماز میں امام کی غلطی پر بلند آواز سے ’’سبحان اﷲ‘‘ کہہ سکتی ہیں

(18) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر شدہ ہے

(18) زکوٰۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے

(19) اسلامی ریاست کسی چیز یا شخص کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں کر سکتی

(19) ریاست کسی بھی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ کر سکتی ہے

(20) بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں

(20) بنو ہاشم کو زکوٰۃ دینا جائز ہے

(21) اسلامی شریعت میں موت کی سزا بہت سے جرائم پر دی جاسکتی ہے

(21) اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل نفس اور فساد فی الارض) پر دی جا سکتی ہے

(22) دیت کا حکم اور قانون ہمیشہ کے لئے ہے

(22) دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا

(23) قتل خطا میں دیت کی مقدار تبدیل نہیں ہوسکتی

(23) قتل خطا میں دیت کی مقدار تبدیل ہوسکتی ہے

(24) عورت کی دیت، مرد کی دیت سے آدھی ہے

(24) عورت اور مرد کی دیت برابر ہے

(25) اسلام میں مرتد کے لئے قتل کی سزا ہمیشہ کیلئے ہے

(25) اب مرتد کی سزائے قتل باقی نہیں ہے

(26) شادی شدہ زانی کی سزا از روئے شریعت سنگسار کرنا ہے

(26) زانی کنوارا ہو یا شادی شدہ، دونوں کی سزا صرف 100 کوڑے ہیں

(27) چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا صرف سنت سے ثابت ہے

(27) چور کا دایاں ہاتھ کاٹنا قرآن سے ثابت ہے

(28) شراب نوشی کی شرعی سزا ہے جو اجماع کی رو سے 80 کوڑے مقرر ہیں

(28) شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں ہے

(29) حدود کے جرائم میں عورت کی شہادت معتبر نہیں ہے

(29) عورت کی گواہی حدود کے جرائم میں بھی معتبر ہے

(30) کوئی کافر کسی مسلمان کا کبھی وارث نہیں ہوسکتا

(30) صرف عہد نبوی کے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے وارث نہیں ہوسکتے

(31) میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں ہوں تو ان کو کل ترکے کا دو تہائی (2/3) حصہ دیا جائے گا

(31) اگر میت کی اولاد میں صرف بیٹیاں وارث ہوں تو ان کو والدین یا بیوی کو شوہر کے حصوں سے بچا ہوا ترکے کا دو تہائی (2/3) حصہ ملے گا۔

(32) سور نجس العین ہے۔ لہذا اس کی کھال اور دوسرے اجزاء کا استعمال اور تجارت حرام ہے

(32) سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال ممنوع نہیں ہے

(33) عورت کے لئے دوپٹہ اور اوڑھنی پہننے کا حکم قرآن کی سورۂ النور آیت 31سے ثابت ہے

(33) عورت کے لئے دوپٹہ پہننا شرعی حکم نہیں ہے

(34) کھانے کی بہت سی چیزیں حرام ہیں مثلا کتا، بلی، پالتو ، گدھے کا گوشت وغیرہ

(34) کھانے کی صرف (4) چیزیں ہی حرام ہیں، خون، مردار، سور کا گوشت اور غیر اﷲ کے نام کا ذبیحہ

(35) ازروئے قرآن بہت سے نبیوں اور رسولوں (دونوں) کو قتل کیا گیا

(35) کئی انبیاء قتل ہوئے مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا

(36) حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان پر زندہ اٹھالئے گئے، وہ قرب قیامت دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے

(36) عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں

(37) یاجوج ماجوج اور دجال قرب قیامت کی دو الگ الگ نشانیاں ہیں، احادیث کی رو سے دجال ایک یہودی شخص ہوگا جو بائیں آنکھ سے کانا ہوگا

(37) یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں

(38) جہاد و قتال ایک شرعی فریضہ ہے

(38) جہاد وقتال کے بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے

(39) کفار و مشرکین کے خلاف جہاد کا حکم ہمیشہ کے لئے ہے اور مفتوح کفار(ذمیوں) سے جزیہ لیا جاسکتا ہے

(39) کافروں کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ نہیں لیا جاسکتا

(40) قرآن کے ناموں میں سے میزان کوئی نام نہیں ہے

(40) قرآن کا ایک نام میزان بھی ہے

جاوید احمد غامدی صاحب کے چند مزید عقائد و نظریات باطلہ

1۔ عورت مردوں کی امامت کراسکتی ہے (ماہنامہ اشراق مئی 2005،ص 35 تا 45)

2۔ عورت نکاح خواں بن سکتی ہے (حوالہ اس کی ویب سائٹ کا ہے جو آئندہ دیا جائے گا)

3۔ مردوں کا داڑھی رکھنا دین کی رو سے ضروری نہیں

4۔ ہندو مشرک نہیں ہیں

5۔ مسلمان لڑکی کی شادی ہندو لڑکے سے جائز ہے

6۔ ہم جنس پرستی ایک فطری چیز ہے، اس لئے جائز ہے

7۔ اگر بغیر سود کے قرضہ نہ ملتا ہو تو سود پر قرضہ لے کر گھر بنانا جائز اور حلال ہے

8۔ قیامت کے قریب کوئی امام مہدی نہیں آئیگا (ماہنامہ اشراق جنوری 1996، ص 60)

9۔ امریکہ، افغانستان اور عراق پر حملہ کرنے میں حق بجانب ہے (انٹرویو زندگی)

10۔ مسجد اقصیٰ پر مسلمانوں کا نہیں، اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے (اشراق جولائی 2003، اور اشراق مئی، جون 2004ئ)

11۔ تصوف اسلام سے الگ ایک متوازی دین ہے (برہان ص 188، طبع جون 2006)

12۔ مسلمانوں کے تمام صوفیاء غیر مسلم ہیں (برہان ص 188، طبع جون 2006)

13۔ اقامت دین یعنی دین کو قائم کرنے اور دین شریعت کا نفاذ کرنے کا کوئی شرعی حکم موجود نہیں (برہان ص 147، طبع جون 2006)

غامدی صاحب کے نزدیک رویت ہلال (چاند دیکھ کر روزہ و عید کرنے کا حکم کا کوئی شرعی ثبوت نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’مہینے کی تعین کے لئے چاند دیکھنے کو لازم نہیں کیا گیا۔ علم کی ترقی نے یہی صورت 29 کے بارے میں بھی پیدا کر دی ہے۔ اب ہم پوری قطعیت کے ساتھ بتا سکتے ہیں کہ دنیا کے لئے چاند کی پیدائش کب ہو گی۔ گھڑی ایجاد ہونے کے بعد ہم اپنی نمازوں کے لئے جس طرح سورج کے طلوع وغروب دیکھنے کے پابند نہیں رہے، اسی طرح قمری مہینوں کے تعین کے لئے رویت ہلال کے پابند بھی نہ رہے‘‘ (اشراق جنوری 2009، شنہ دات، ص 3، لاہور)       

 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مزید پڑھیں : 

٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-0

٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-1


٭-  فکر غامدی کا علمی محاکمہ-2

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔