Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

منگل، 14 نومبر، 2023

اسرائیل کے لئے عرب بغاوت

 سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر عربوں  نے  دوسری جنگ عظیم کی اتحادی فوجیوں  کے ساتھ مل کر  شہنشاہ جارج پنجم    کی سر براہی میں  سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ   یروشلم میں کنگ سلومن کا  تعمیر کردہ  ہیکل سلیمانی  دیوار گریہ سمیت  ،یہودیوں   کی ملکیت بن گیا ۔جس کے لئے  ایک کہانی تخلیق کی گئی ۔ درد اور دکھوں میں لپٹی کہانی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

یہ 10 جون 1916 کی بات ہے۔برٹش مہم جو فوج کی قیادت میں جنرل آرچی بالڈ مرے اورشریف مکہ   شاہ حسین ابن علی کے درمیان ، عثمانیہ  ترکوںکو خطہ عرب  سے نکالنے کا ایک معاہد ہوا ۔    جس پر ۔بولی اماں محمد علی کی، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔

اُس بغاوت کو الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا نام دیا گیا۔  ثَوْرٌعربی  میں میں  بھینسے  کو کہتے ہیں اورثَوْرَة بغاوت کو ۔

باغی بھینسے 1919 میں حسین ابن علی شاہ اردن کی قیادت میں اپنا ترنگا پرچم  لہراتے  دمشق پر قابض ہوگئے۔ 

    برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری  میک موہن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی، 
ہنری میک موہن معلوم ہے کہ کس رائل  انڈین انفنٹری رجمنٹ کے کمانڈنگ آفیسر تھا؟

   پنجاب فرنٹئیر فورس (1843) ۔میں 1885  میں جائن کیا  اور فرسٹ سکھ رجمنٹ جو 1901 میں پنجاب کے سکھوں اور پٹھانوں سے مل کر بنائی گئی تھی میں پوسٹ ہوا ۔پھر وہاں سے  پنجاب سول سروس کمیشن پنجاب میں ٹرانسفر ہوا ۔میجر ہنری میک موہن ،بہترین اردو ، پنجابی اور پشتو جانتا تھا  پھر اِس نے عربی میں مہارت حاصل کی۔

   جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا  اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیارکرنا تھا۔ کتنی عجب بات ہے کہ بغاوت مسلمان کر رہے تھے لیکن اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارت کار تیار کر رہے تھے۔  
یہ پرچم ایک برطانوی   انٹیلیجنس آ فیسر   کرنل مارک سائیکس (سفارت کار)  نے تیار کیا۔ مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔
 مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا اس میں چار رنگ شامل تھے۔ اس میں سیاہ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ رخ تھا۔
سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی  اور سبز رکنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ شاہ  حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور  پر چناگیا جو جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی۔

 

پرچم بھی تیار ہو گیا اور بغاوت بھی شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا۔ عثمانی افواج لڑیں اور یروشلم کے اطراف میں شہید ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق 25 ہزار تھی۔ لیکن یہ افواج بے بس ہو گئیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں مگر ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔
پہلی وجہ عرب بغاوت تھی۔ ایک طرف برطانوی اور اس کی اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں۔ دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔سلطنت عثمانیہ باہر کے دشمنوں سے تو شاید نمٹ لیتی لیکن جب اپنے ہی اپنوں کے خلاف ہو گئے تو سلطنت عثمانیہ بے بس ہو گئی۔
 دوسری وجہ ہندوستان سے گئے فوجی تھے جو اتنی وافر تعداد میں تھے کہ اس نے اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ فیلڈ مارشل  کلاڈ اچنلک نے بعد میں اعتراف بھی کیا کہ ہندوستان کے فوجی ہمیں میسر نہ ہوتے تو ہم دونوں جنگ عظیم ہار گئے ہوتے۔ جب یروشلم میں مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی ۔تو پنجاب کے پیروں کی گدیاں سرکار انگلشیہ کی فتح کا جشن منا رہی تھیں۔
یہاں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے صرف ہندو اور سکھ فوجی تھے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ اس کام میں مسلمان فوجی بھی پیش پیش تھے کیونکہ ہندوستان میں یہ فتوی آ چکا تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت پر ترکوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق تو شریف مکہ کا ہے۔
آج شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ جب القدس مسلمانوں سے چھن گیا اور سلطنت عثمانیہ کو یہاں شکست ہو گئی تو برطانوی فوج کا جو پہلا دستہ شہر میں داخل ہوا وہ   ”نعرہ تکبیر“ بلند کرتے ہوے داخل ہوا۔
 11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بے ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے  اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے  عرب تھے اور ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم،آج بھی مصر، اردن، سوڈان، کویت، امارات، شام، لیبیا اور یمن کا  قومی پرچم ہے۔فلسطین کا پرچم بھی اسی پرچم کی ایک شکل ہے۔
اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے القدس مسلمانوں سے چھین کر برطانوی فوج کے حولے کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے دشمن کو یروشلم میں گھسنے کا موقع دیا  اور آج اسی پرچم تلے مسلمان صہیونیوں کے مظالم کے خلاف بے بسی سے سراپا احتجاج ہیں۔
بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ شریف مکہ اردن کے  شاہ حسین ابن علی  نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو خود کو خلیفہ قرار دے ڈالا۔ پورے چاؤ سے’الثورۃ العربیہ الکبری‘  چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔
ان کا اقتدار بعد میں سمٹ کر اردن تک رہ گیا گیا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بادشاہ سلامت ایک دن مسجد اقصی میں داخل ہوئے اور کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ کچھ عرصہ مسجد اقصی ان کے زیر انتظام رہی بعد میں اسرائیل نے یروشلم شہر پر بھی قبضہ کر لیا اورب اب صرف کاغذی طور پر مسجد اقصی اردن کے شاہی خاندان کے زیر انتظام ہے۔
غلطیاں یقینا سلطنت عثمانیہ سے بھی ہوئی ہوں گی، تبھی تو بغاوت ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی، اسرائیل جیسی سفاک تو نہ تھی۔القدس کے مسلمانوں پر یوں ظلم تو نہ کرتی تھی۔
اسی بغاوت کے پرچم تلے خود مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کو اسی یروشلم میں شکست دی اور تب سے اب تک انہیں سُکھ کا ایک دن نہیں ملا۔ وہی پرچم اٹھا کر اب وہ اپنے معصوم بچوں کے لاشوں پر سوگوار کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔

٭٭٭٭٭

Britain in Palestine 1917-1948

 https://www.youtube.com/watch?v=hOJqLTc6RkU 


Six days that changed the Middle East: The '67 Arab-Israeli War | Featured Documentary

 https://www.youtube.com/watch?v=cn3RUZsaPmg

The War In October: who claimed victory in 1973?

 https://www.youtube.com/watch?v=icxos9sVrYY

جمعرات، 9 نومبر، 2023

بوڑھے کا ایک اور سوشل ورک

بوڑھا ، بڑھیا کے ساتھ گھر سے فلیٹ میں شفٹ ہوا ،  گھریلو ملازم ، تنخواہ ، کھانا ،  رہائش  ،صابن تولیہ ، ٹوتھ برش و پیسٹ مُفت    ہر مہینے تین دن کی چھٹی ، کی  وجہ سے سکون سے رہنے لگا ۔ 6 اگست تا 11 اگست گوادر میں گذارنے کے بعد  بوڑھا واپس آیا ۔ کیوں کہ بیٹے کے اگلے رینک میں پروموشن کو یادگار بنانے کے لئے 8 اگست 2013 کی تاریخ منتخب کی جو اُس کی ماما یعنی بڑھیا کی پیدائش کا دن تھا ۔
تو بڑھیا نے بتایا کہ ملازم  تنخواہ کی کمی  کی وجہ   کڑکڑانا   شروع ہو گیا ہے۔
 جس کی مہینے میں تین دن چھٹیوں اور مزید اضافے کی وجہ سے بڑھیا اور بوڑھے کو کچن کا اضافی  کام کرنا پڑتا ۔ یہاں تک کہ تیسرے ماہ  یعنی ستمبر میں بڑھیا کے علیل ہوجانے کے بعد  کام کا بوجھ مکمل بوڑھے کے کندھوں پر پڑ گیا ۔ تو بوڑھے کو سنت یاد آئی مگر اب پل کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا ، فرض نبھانا مشکل لگتا تھا ۔تو بوڑھے   کو خیال آیا اور یہ خیال اپنے کورس میٹ قاضی فواد کے گھر آیا ،جہاں امریکہ پلٹ میاں اور بیوی ڈالروں سے گلچھرے اُڑانے کے باوجود ،  گھر میں ملازم افورڈ نہیں کرسکتے ، وجہ اُس کی تنخواہ نہیں بلکہ  خواہ مخواہ  دو افراد کے لئے  ماھانہ اضافی اخراجات جو  بلا مبالغہ 35 ہزار روپے سے زیادہ بن جاتے ہیں ۔
بوڑھے  نے حساب لگایا تو احساس ہوا کہ بوڑھا اور بڑھیا دن کا کھانا کھائیں یا نہ کھائیں ۔ ہر دو دن بعد کھانا بنانا پڑتا ہے ۔ مہمان آئیں تو سیور ، فاسٹ فوڈ یا گاف کلب سے کھانا ۔  ملازم جب چھٹی جاتا تو دو دن کے بجائے کھانا  تین سے چار دن چلتا کیوں کی دو مہینے  بعد، ایک سے تین دن لیٹ آنا ، نوجوان نے اپنی طرفسے والد کی فالج کی بیماری کی وجہ سے کر لیا ۔ یہاں تک کہ اکتوبر میں اُس نے پورا ایک ہفتہ اپنے علیل والد کی خدمت میں گذارا، یو ں بوڑھا اور بڑھیا گھر میں کھانے سے بے نیاز ہوگئے ۔ فروٹ چاٹ ، جسے دیگر  چیزوں    پر توجہ دی اور سب سے بہتر کہ روزانہ گھر کی صفائی کے لئے آنے والی ملازمہ کو اضافی رقم دے کر بڑھیا نے کچن کا اضافی کام جیسے پیاز، لہسن ، سبزی وغیرہ کاٹنے پر رکھ لیا ۔ نوجوان جب واپس آیا تو اُس نے اپنی مجبوری کی وجہ سے معذرت کر لی ، کیوں کہ اُس کا والد مزید علیل ہو چکا تھا ۔ تو بوڑھے نے شکریہ  کے ساتھ نصف تنخواہ دے کر اُسے رخصت کر دیا ۔
اب کیا کیا جائے ، بڑھیا کا خیا ل تھا ، کہ اُسے ملازم کی ضرورت نہیں ، دونوں بیٹیوں کا خیال تھا کہ ملازم لازمی رکھیں ۔ بوڑھے نے سوچا کیوں نہ عمران جو بوڑھے  کے پاس 2017 میں 17 سال کا آیا تھا اور بہترین گھریلو ملازم بن کر 2019 میں فوج میں بطور  این سی بی ملازم ہو گیا ۔
لیکن بڑھیا نے صاف انکار کر دیا کہ اُس میں ہمت نہیں کہ وہ ملازم کو کھانے پکانے کی تربیت دے ۔ چنانچہ بوڑھے نے اک نئے سوشل ورک کی طرف سوچنا شروع کر دیا ۔ 
 جس کے لئے گوادر کے ایک استاد  قاری حنیف  سے رابطہ کیا جو اُس نے  منظور کر دیا وہ یہ کہ گوادر کے  ایک یتیم بچے کو بوڑھا ، اپنے گھر میں رکھ کر اُسے تربیت دے  ۔ جس کے لئے بڑھیا کی یہ شرط تھی کہ وہ  حفاظ ہو ہا کم از کم ناظرہ القرآن پڑھ چکا ہو ۔ 
لیکن قاری صاحب کی تلاش بسیار کے باوجود کو ئی بلوچی  یتیم بچہ گوادر  تا  تربت  نہ ملا ۔ 
چنانچہ اِس پروگرام میں مزید وسعت دینے کے لئے ۔ ملت ابراھیم حنیف پراجیکٹس کا آغاز کیا ۔
بوڑھے کو یہاں بھی ناکامی ہوئی ۔لہذا اِس پراجیکٹ کو دوسری سمت لے جانے کی کوشش  کرنے کا  پروگرام بنایا ۔
٭٭٭٭واپس ٭٭٭٭٭


بدھ، 1 نومبر، 2023

انارکی ۔ برصغیر کی اینگلو انڈین نسل

 

جب انگریز ہندوستان پہنچے تو ہندوستان جنسی طور پر یورپ سے زیادہ آزاد تھا۔ ہم جنس پرست اور ہم جنس پرست تعلقات عام، کھلے اور شاعری اور پینٹنگز میں منائے جاتے تھے۔ لونڈیاں ایک عام رجحان تھا جسے تمام مذہبی اور نسلی گروہوں نے رواج دیا تھا۔ اس کے برعکس، وکٹورین انگلینڈ میں کافی سخت جنسی جبر تھا۔

جنسی تعلقات کے دو پہلو ہیں: ایک برطانوی فوجیوں اور دوسرا برطانوی افسران سے متعلق۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان میں، انگریزوں کے زیر کنٹرول ہندوستان میں جسم فروشی قانونی اور اچھی طرح سے منظم تھی۔ 1850 کی دہائی میں، پچھتر  فوجی اضلاع تھے اور ہر ضلع میں عصمت فروشی حکام کی نگرانی میں ہوتی تھی۔ انڈین میڈیکل سروس   کے ڈاکٹر قحبہ خانوں کو منظم کرنے کے ذمہ دار تھے۔ تمام طوائفیں رجسٹرڈ تھیں، طوائفوں کی کم از کم عمر پندرہ سال تھی اور خواتین کو ان کے اپنے رہنے کے کوارٹر یا خیمے مہیا کیے جاتےتھے جن کا باقاعدگی سے معائنہ کیا جاتا تھا۔ کچھ قحبہ خانے  کافی بڑے تھے اور لکھنؤ کے کوٹھے میں پچپن کمرے تھے۔

 جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے متاثرہ طوائفوں کو ہٹا دیا جاتا  تھا اور صحت یاب ہونے تک ان  کو سیکس  کی اجازت نہیں تھی۔ مقامی اور یورپی فوجی دونوں ان بازاروں کو استعمال کرتے تھے۔ تاہم سپاہیوں کو ان طوائفوں سے ملنے کی حوصلہ شکنی کی  جاتی  جبکہ لالکرتی ( یورپی) فوجیوں کو ترجیح دی۔ زیادہ تر برطانوی فوجی معاشرے کے نچلے طبقے سے تھے اور وہ کسی برطانوی افسر کے معیار کے مطابق نہیں تھے۔ برطانوی فوجی، مقامی  سپاہیوں کے مقابلے طوائفوں سے زیادہ کثرت سے ملنے جاتے تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ برطانوی فوجیوں کی شادی نہیں ہوئی تھی جبکہ  مقامی سپاہی عموماً شادی شدہ مرد ہوتے تھے۔ ان بازاروں کو لال کرتی  بازار کہا جاتا تھا۔  جنس پرستی اور ہم جنس پرستی دونوں تعلقات عام تھے۔

 برطانوی رجمنٹوں نے ہندوستان میں کئی سال گزارے اور کئی بار ایسے رشتوں سے بچے پیدا ہوئے۔ ان بچوں کے لیے اٹھارویں صدی کے اوائل میں خصوصی مکانات اور اسکول مختص کیے گئے تھے۔ 

 جہاں تک برطانوی افسران کا تعلق ہے، یہ رجحان 18ویں اور 19ویں صدی کے اوائل میں عام تھا۔ تاہم، جنسی تعلقات کی نوعیت مختلف تھی. ہندوستان کے اشرافیہ میں افسروں نے شادی کی۔ سول اور ملٹری دونوں کمپنی کے زیادہ تر ملازمین سولہ سال کی عمر میں سروس میں شامل ہوئے۔ بہت سے عوامل جیسے کہ بہت کم عمر، ہندوستان میں کئی دہائیوں تک   برطانیہ نہ جاسکنے   یا  چھٹی  کم ہونے  کی وجہ سے  یورپی خواتین سے دوری ، دور دراز کے اسٹیشن پر پوسٹنگ اور مقامی داشتاؤں اور بیویوں کے اثر و رسوخ کے نتیجے میں ان میں سے کچھ انگریز مقامیوں خاندانوں   میں گھل مل گئے ۔

 سترہویں اور اٹھارویں صدی کے آخر میں، بہت سے یورپی باشندوں نے مقامی لونڈیوں کے ساتھ ساتھ ،قانونی طور پر مقامی مسلم اور ہندو دونوں عورتوں سے شادی کی۔ ان خواتین کو بی بی گھر کے نام سے الگ گھر میں رکھا گیا تھا۔

 یہ رواج کافی عام تھا کہ بنگال  سے 1780تا 1785میں زندہ بچ جانے والوں کی  وصیتوں کا ریکارڈ  ظاہر کرتی ہیں کہ تین میں سے ایک یورپی سپاہی ، اپنی   ہندوستانی  بیویوں یا  ساتھیوں کے لئے  وصیت کرتا  ۔ کچھ انگریزوں نے اپنے مذہب اور ثقافت کو برقرار رکھا جبکہ کچھ نے ہندو مذہب یا اسلام قبول کر لیا اور مکمل طور پر مقامی  بن گئے۔ ایسی شادیوں سے پیدا ہونے والے بچے  آرام سے دونوں سوسائیٹوں میں پروان چڑھتے   ۔جبکہ کچھ مقامی رہناپسند کرتے اورکچھ   انگلینڈ میں تعلیم حاصل کرکے  وہیں آباد ہوجاتے ۔  جبکہ  مقامی طور پر پلے بڑھے بچوں میں سے کچھ  اردو اور فارسی   کے مشہور شاعر،موسیقار ، شیوخ  اور اسکالر بن گئے۔ 

مؤرخ ولیم ڈاریمپل نے اپنی کتاب انارکی  میں ان تعلقات کو تفصیل سےلکھا کیا ہے۔ 

دہلی میں برطانوی  ، میجر جنرل سر ڈیوڈ اوچرلونی مشرقی نواب کی طرح رہتے تھے جن کی تیرہ مقامی بیویاں تھیں۔ سب سے مشہور مبارک بیگم ہیں۔ 

پونے میں مرہٹوں کے دربار میں برطانوی باشندےمیجر ولیم پامر نے دہلی کے ایک ممتاز گھرانے کی بیگم فیض  بخش سے شادی کی۔

 حیدرآباد میں برطانوی رہائشی لیفٹیننٹ کرنل جیمز اچیلز کرک پیٹرک نے خیر النساء سے شادی کی۔جو حیدرآباد کے وزیر اعظم کی بڑی بھانجی تھی ۔ 

جیمز کا سوتیلا بھائی ولیم اپنی داشتہ  دھولوری بی بی کے ساتھ رہتا تھا۔  

میجر جنرل چارلس اسٹورٹ عملی طور پر ہندو بن چکے تھے اور اپنی ہندو بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ ان کا عرفی نام 'ہندو اسٹورٹ' اور 'جنرل پنڈت' تھا۔ اسے کلکتہ کے عیسائی قبرستان میں دفن کیا گیا لیکن اپنے ہندو دیوتاؤں کے ساتھ۔ 

حیدرآباد میں برطانوی فوجیوں کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل جیمز ڈارلمپل نے نواب آف مسولیپٹم کی بیٹی موتی بیگم  سے شادی کی۔  

ولیم لینیئس گارڈنر نے نواب آف کیمبے کی بیٹی بیگم ماہ منزل النسا سے شادی کی۔

 حیدرآباد کے مرہٹوں اور نظام کے ساتھ فری لانس سروس کے بعد، اس نے ایسٹ کمپنی کے لیے گارڈنر ہارس کے نام سے بے قاعدہ کیولری رجمنٹ قائم کی۔ یہ رجمنٹ اب بھی ہندوستانی فوج کے سیکنڈ لانسر   کےنام پر زندہ ہے۔ گارڈنر آگرہ کے قریب اپنی بیوی کی جاگیر پر خوشی سے رہتا تھا (ماہ منزل مغل بادشاہ اکبر شاہ دوم کی گود لی ہوئی بیٹی تھی)۔

 اس کے بیٹے جیمز نے بیگم ملکہ ہمنی سے شادی کی۔ مغل شہنشاہ کی بھانجی (وہ لکھنؤ کے نواب کی بہن بھی تھیں)۔ 

ولیم کی پوتی کی شادی مغل شہزادے مرزا انجم شکوہ بہادر سے ہوئی تھی۔

ہندوستان کی سکنر فیملی ۔کے سربراہ  سکاٹش  نسل  لیفٹننٹ  کرنل  ہرکولیس سکنر  نے    بھوج پور کے ہندو راجپوت گھرانے میں ہندو عورت  شادی کی جس کے بطن سے  جیمز سکنر تولد ہو ۔    لیفٹننٹ کرنل جیمز سکنر  (1778 ۔ 1844) نےمسلم گھرانے میں شادی کی اور  دہلی گیٹ کے سامنے  عالیشان گھر بنایا ۔جو ہندو کالج دہلی کے طور پر استعمال ہوتا رہا ۔
 جیمز سکنر نے 'یلو بوائز' کے نام سے مشہور مرہٹہ کیولری رجمنٹ سکنرز ہارس بنائی جو  فرسٹ لانسر کے نام سے  ہندوستانی فوج کی سب سے سینئر کیولری رجمنٹ ہے۔  جیمز کی چودہ ہندو ،مسلمان بیویاں اور داشتائیں تھیں۔ اس نے ایک مسلمان کی طرح زندگی گزاری لیکن بعد میں زندگی میں باقاعدگی سے بائبل پڑھی اور دہلی کے سینٹ جیمز چرچ میں دفن ہوا۔ 

 ایسے ہی عشق کی آخری کہانی بنگال آرٹلری کے کرنل رابرٹ واربرٹن  (1812-1863)اور شاہ جہاں بیگم کی ہے۔ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کی بھانجی۔ واربرٹن پہلی اینگلو-افغان جنگ (1839-1842) میں لڑا اور افغانوں نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اسے شاہجہاں بیگم سے پیار ہو گیا اور اس سے شادی کر لی۔ اس   کی اولاد رابرٹ واربرٹن جونیئر (1842-1899)تھی۔ جو  1842 میں گندمک کے قریب ایک قلعے میں پیدا ہوا۔ جب کی ماں شاہ جہاں بیگم ، محمد اکبر خان     (سوتیلے بیٹے)  سے  جان بچاتی  پھر رہی تھی ۔ برٹن  کا پٹھان فیملی میں پرورش کی بنیاد پر انگریزی، فارسی اور پشتو پر عبور  تھا  اور اٹھارہ سال تک خیبر ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر خدمات  دیں ۔ ایک عجیب ستم ظریفی میں،کرنل  واربرٹن سینئر آئرلینڈ میں پیدا ہوئے اور پشاور کے کرسچن قبرستان میں دفن ہوئے جبکہ واربرٹن جونیئر افغانستان میں پیدا ہوا اور لندن کے قریب برمپٹن قبرستان میں دفن ہوا۔

اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے اوائل کے قریب، کمپنی کے قوانین،انجیل کی بشارت    کی وجہ سے عیسائیوں کی مقامی عورتوں سے شادیوں کی  سرگرمیوں کے عروج اور ہندوستان میں یورپی خواتین کے  مقامیوں سے شادیوں کے مستقل بہاؤ نے اس طرح کے مقابلوں کو سختی سے روک دیا اور انیسویں صدی کے وسط تک یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ انیسویں صدی کے وسط تک یہ رجحان تقریباً ختم ہو چکا تھا۔

 انگریزوں کو اندیشہ تھا کہ ہندوستانی انگریز عورتوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ 1800 کے اواخر اور 1900 کی دہائی کے اوائل میں جب قابل ہندوستانی ڈاکٹروں کو انڈین میڈیکل سروس  میں داخل کیا گیا تو انگریزوں نے انہیں ان عہدوں پر تعینات کرنے میں بے چینی محسوس کی جہاں انہیں انگریز خواتین کا معائنہ کرنا پڑتا تھا۔ انگریز خواتین کے ساتھ ہندوستانیوں کے تعلقات کا مسئلہ جنگ عظیم کے دوران اُٹھا۔

  جنگ عظیم  میں، ہندوستانی فوجی جب مغربی محاذ پر لڑتے تھے تو یورپی معاشرے سے رابطے میں آئے۔ کچھ ہندوستانی خاص طور پر سکھ اور پٹھان مقامی فرانسیسی عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے تھے۔جن کی اولادوں  کی وجہ سے    انگریز گھبرا گئے اور انہیں ان یورپی   خواتین کو ہندوستان واپس لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 

میری (ولیم ڈاریمپل ) بھابی کے دادا خان زمان خان بابر (انڈین ڈاکٹر میڈیکل سروس  )،   نے  جب وہ فرانس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی  ۔خاندانی مذاق یہ ہے کہ فرانس میں کچھ میرے  کھوئے ہوئے کزن گھوم رہے ہیں۔ کچھ پٹھان ( سرحدی آفریدی) جنہوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ لی ۔  جرمن خواتین سے شادی کی  وہاں رچ بس گئے ۔ مٹھی بھر یورپی خواتن کو قبائلی علاقوں میں واپس لے آئے۔سفارت  خانے  اور  خیبر پولیٹیکل ایجنٹ کی فائلیں ان لوگوں کا پتہ دیتی ہیں ۔ ایک آفریدی  دوسری جنگ کے بعد  جرمنی میں رہا اور جرمنی کے ایک قصبے میں تمباکو کی دکان چلا رہا تھا۔

 براعظم آسٹریلیا کی مختلف کالونیاں برطانوی سلطنت کے زیر تسلط تھیں، ابتدائی آباد کاروں نے برطانوی علاقوں خصوصاً ایشیا کے لوگوں کےبحری جہاز اونٹ کو  صحرا میں باربرداری  کے طور پر استعمال کیا۔ چنانچہ   1838 میں، جوزف بروس اور جان گلیسن نے پہلے "افغانوں"  کے اونٹوں کومنتخب کیا جو  18 کو  لے کر  1840 میں جنوبی آسٹریلیا کی بندرگاہ پورٹ ایڈیلیڈ    پہنچے۔یہ اونٹ ہیری کے نام سےمشہور ہوئے ۔جان ہوریکس کی قیادت   میں یہ بہترین باربرداری کے جانور ثابت ہوئے ۔چنانچہ کراچی سے 1858 میں جارج جیمز لینڈلز نے 24 اونٹ اور 8  سلیمان خیل ساربانوں کو لے کر  آسٹریلیا  ملبورن کی بندرگاہ پہنچا ۔یوں  مزید 24 اونٹوں کے ساتھ  مختلف  قبیلوں کے ساربانوں نے 9 جون 1960 کو آسٹریلیا پہنچایا ۔ سیموئل سٹکر نے 13 ساربان اور 100 اونٹ اوریوں 1860 تک 3000 سرحدی ساربان آسٹریلیاپہنچ چکے تھے ۔معلوم نہیں اُن کی کتنی اولادیں آسٹریلیا میں پل رہی ہوں گی ۔یورپی آسٹریلیئن مہاجروں کی مقامی اسٹریلئن سے جنگ کے بعد مقامی  مقبوضہ  عورتوں   کو جن افغانیوں نے داشتاؤں کے طور پر رکھا ۔معلوم نہیں اُن کی کتنی اولادیں آسٹریلیا میں پل رہی ہوں گی ۔یا واپس وہ سرحد یا کراچی لے آئے ۔

خانہ بدوش سلیمان خیل پاوندہ   نے ٹیلی گراف، ریلوے اور سڑکیں بچھانے کے لیے اپنے اونٹوں کے ساتھ آسٹریلیا لے گئے۔ کچھ آسٹریلوی خواتین کے ساتھ واپس آئے۔ ایسی ہی ایک ناقابل تسخیر آسٹریلوی خاتون اپنے شوہر کی موت کے بعد تھیمیری (وسطی ایشیا اور ہندوستان کے درمیان گھومنے والی بڑی بستیوں) کی سربراہ بنی۔ وہ کارواں کے سامنے اونٹ پر بیٹھی ہوتی  اور قبائلی علاقے میں داخل ہونے پر آسٹریلیا کے بھاری لہجے میں برطانوی سکاؤٹ افسروں کا استقبال کرتی۔ 

کچھ ہندوستانی شہزادوں نے 20ویں صدی میں انگریز عورتوں سے شادی کی تھی۔ آفیسر کور کے ہندوستانی ہونے سے انگریزی معاشرے کے ساتھ سماجی رابطے میں اضافہ ہوا۔ 1930 کی دہائی کے وسط میں جب انگریز خواتین نے  آفیسرز  کلب کے سوئمنگ پولز کا استعمال کرنا شروع کیا تو کلبوں میں ہندوستانی افسروں کا انگریز خواتین کو  سوئمنگ کے کم لباس پہنے دیکھنا  معیوب سمجھا جاتاتھا۔ دوسرا مسئلہ رقص سے متعلق تھا۔ رسمی رقص سرکاری کام کا حصہ تھا۔ بہت کم ہندوستانی افسران انگریز تھے اور ساتھ ہی وہ بال روم ڈانس میں بھی اچھے تھے جو انگریز خواتین سے رقص کے لیے پوچھتے تھے۔ جنرل 'ٹمی' کے ایس تھیمایا (4/19 حیدرآباد رجٹ) شاید اس سلسلے میں مستثنیٰ تھے۔ ہندوستانی افسران کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ یکساں سلوک چاہتے تھے۔ جس میں خصوصی کلبوں میں شرکت اور انگریز خواتین کے ساتھ تیراکی اور رقص کرنے کا حق بھی شامل تھا اگر وہ راضی ہو جائیں لیکن وہ  اپنی خواتین کو لانے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ کئی ہندوستانی افسران نے اپنی خواتین کو پردہ میں رکھا۔ اس کا اطلاق مسلم اور غیر مسلم دونوں افسران پر ہوتا ہے خاص طور پر اعلیٰ ذات کے راجپوت افسران۔ یہاں تک کہ تعلیم یافتہ بیویوں کے  باوجود    آزاد خیال ہندوستانی افسران بھی اپنی بیویوں کو دوسرے مقامی  افسروں  کے ساتھ  رقص کرنے میں راضی نہیں تھے   یا اپنی خواتین کو انگریز افسروں کے ساتھ رقص کرنے کی اجازت دینے پر  یا  ان کی اپنی برادریوں کی طرف سے  شرمندگی   کی وجہ سے ۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، دونوں معاشروں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں جہاں بہت سے ہندوستانی افسران نے انگریز خواتین سے شادی کی۔

ہم جنس پرست لڑکوں سے محبت کرنے والے افسروں  نے خود کو  پفرز (فرنٹیئر فورس)اور سکاؤٹس میں پوسٹ  کروایا  کیا تاکہ پٹھانوں کے ہم جنس پرستوں جذبوں  کے  مفید ہو سکیں   ۔  پفرز یا سکاؤٹس کے ساتھ رجمنٹ میں تعینات افسران کو  نظم و ضبط کا منفرد  مسئلہ درپیش ہوتا ۔ کوئی ایسا معاملہ بھی ہوجاتا  ۔ جب ایک نوجوان ریکروٹ نے ناپسندیدہ پیش قدمی کے  نتیجے میں   بوڑھے صوبیدار کے سر میں گولی مار دی ۔ یا کوئی  صوبیدار اپنے ’’نوجوان لڑکے‘‘ کو دور دراز کے عہدوں پر بھیجنے کی بجائے اسے ہیڈ کوارٹر میں رکھ کر اور اسے آسان ڈیوٹی دینے اور اپنی ڈیوٹی میں تھکاوٹ   کا بہانہ دے کر اس پر خصوصی احسان کرتا ہے۔ہم جنس پرستی سپاہوں میں بھی عام تھی ۔  دو نوجوان سپاہی اصرار کرتے  کہ انہیں رات کی سنٹری ڈیوٹی کے لیے ایک ساتھ یا کسی چوکی پر تعینات کیا جائے جہاں وہ دنوں تک ساتھ رہیں۔

 ٭٭٭

 


خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔