کل بہت سے پرانی تصاویر کے ساتھ یہ تصویر بھی وٹس ایپ ہوئی -
تصویر نے کسی ماہر غوطہ خور کی طرح شعور سے تحت الشعور کی تاریک گہرائیوں میں چھلانگ لگائی ۔
اور گوگل کی طرح ، اِس سے ملتی جلتی تصویر نکال لائی ۔جو قبل از 60 کی دھائی میں بالکل اِسی طرح سبق حفظ کرنے کی یاد کی اِس بوڑھے کی تھی ، بس فرق یہ ہے کہ اُس وقت مُرغا بنے اِن بچوں کے سامنے کتاب نہیں ، بلکہ تختی ہوتی تھی ۔ جس پر سبق ہوتا یا پھر کوئی " رٹّو " بچہ پڑھتا اور ہم سب اُسے روہانسی آواز میں دھراتے جاتے ۔
یہ کچی پکی کا نہیں ، بلکہ پہلی کلاس اور اُس کے بعد کا دور تھا ، کچی اور پکّی میں تو ، نرسری یا کے جی ، کلاس کی طرح ، نہ کتاب تھی اور نہ قاعدہ ، بس موجیں، ہی موجیں تھیں ۔1959 کی سردیوں میں دھوپ میں سورج تلے زمین پر اور گرمیوں میں ، گورنمٹ برکی سکول ، اے ایم سی سنٹر ایبٹ آباد کے ، گاڑیوں کے بڑے سے شیڈ کے نیچے بیٹھ کر کچی اور پکّی ایک ساتھ پڑھی ۔
پھر ابّا کی ٹرانسفر ، نوشہرہ ہو گئی ۔ دوبارہ پھر برکی سکول میں 1964 میں چوتھی کلاس میں واپسی ہوئی ۔
یہ کچی پکی کا نہیں ، بلکہ پہلی کلاس اور اُس کے بعد کا دور تھا ، کچی اور پکّی میں تو ، نرسری یا کے جی ، کلاس کی طرح ، نہ کتاب تھی اور نہ قاعدہ ، بس موجیں، ہی موجیں تھیں ۔1959 کی سردیوں میں دھوپ میں سورج تلے زمین پر اور گرمیوں میں ، گورنمٹ برکی سکول ، اے ایم سی سنٹر ایبٹ آباد کے ، گاڑیوں کے بڑے سے شیڈ کے نیچے بیٹھ کر کچی اور پکّی ایک ساتھ پڑھی ۔
پھر ابّا کی ٹرانسفر ، نوشہرہ ہو گئی ۔ دوبارہ پھر برکی سکول میں 1964 میں چوتھی کلاس میں واپسی ہوئی ۔
مضمون لکھا جا رہا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں