Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 11 اپریل، 2018

خواجہ ناظم الدین کا ناظم آباد

 پاکستان بنا تو مہاجروں کے لٹے پٹے قافلوں نے کراچی کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔۔
 ایک وقت تھا جب یہ عروس البلاد کراچی لسبیلہ کے پل سے اُدھر ہی ختم ھوجاتا تھا اور خاصی چوڑی اور بہت کافی جوش و خروش سے جھاگ اڑاتی لیاری ندی کراچی کے باسیوں کے لئے حد آخر تھی جہاں لوگ اکثر بنسیاں ڈالے سگرٹ کے مرغولے اڑاتے مچھلیوں کا شکار کرتے نظر آتے تھے، لیاری ندی کے اُس پار دور تلک لق و دق سنسان علاقہ تھا جس میں جنگلات تھے اور جہاں گیڈر، لومڑی اور دوسرے جنگلی جانوروں کا بسیرا تھا ۔
  پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے ھندوستان سے گھر لٹا کر آنے والے، اور کیمپوں میں رہنے والے  مہاجرین کے لئے ایک نئی بستی بسانے کا پلان کیا، یہ بستی لیاری ندی کی دوسری طرف یعنی کراچی کے باہر آباد کی گئی۔
حکومت نے یہ غیر آباد علاقہ ایک قبائلی سردار مستی بروہی خان سے خریدا اور یہاں کی زمین مہاجرین کو تین روپے پچاس پیسے فی اسکوائر یارڈ کے حساب سے بیچی گئی، یہ1952 کی بات ھے۔
 راج نے شاقول اور کیرنی سنبھالی، رنگسازوں نے برش اور رنگوں کی بالٹیاں اٹھائیں فولاد کے بیوپاری لوھے کے ٹرکس بھر بھر کر لانے لگے سمنٹ ریت اور فولاد کے گارے سے مکان بنے، مہاجرین کی پہلی نسل کے مردوں نے مکان بنا کر اپنا فرض پورا کیا اور یوپی کی سگھڑ بیبیوں نے ان مکانوں کو گھر بنا دیا، صحنچے، دالان برامدے گملوں سے اٹ گئے، باھر گھاس کے تختوں کے پاس کی کیاریاں بگن ویلیا رات کی رانی اور عشق پینچاں کے پھولوں سے سج گئیں، گھر کے پچھواڑے میں کدو لوبیا سیم کی بیلوں نے دیواروں کو ڈھک دیا، ٹماٹر میتھی ھرا دھنیا اور پودینے کے ھرے بھرے پودوں کی مہک سے رسوئی خانے مہکنے لگے، کسی نے اپنے گھر پر نشیمن لکھوایا، کسی نے کہکشاں، کوئی کاشانہ بتول لکھوا کر شاد ھوا اور کوئی مصطفے منزل پر قانع ھو گیا۔
 یہ سارے نام ان کے ماضی کا دین تھے وہ گھر جو مہاجرین ھندوستان میں نے اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے، یہ صرف ان کے ماضی سے جڑی یادوں کو خراج تحسین ہی نہ تھا بلکہ نئی سرزمین میں اپنی ذاتی ملکیت کے احساس کا اطمینان بخش اظہار بھی تھا، دیکھتے دیکھتے ہی ناظم آباد کراچی کے الائیٹس کی محبوب بستی بن گیا ۔
یہ تو دنیا کے سب ہی لوگ جانتے ھیں کہ کراچی کے نہایت ذھین فطین اور باصلاحیت لوگوں کا قیام ناظم آباد میں ہی رھا۔ ۱۹۵۰ سے ۱۹۷۰ تک ناظم آباد انٹلیکچولز کی رھائش گاہ اور کلچرل ایکٹیویٹیز کا گڑھ تھا، پی آئی بی کالونی، آگرہ تاج کالونی اور بہار کالونی کے پڑھے لکھے لوگوں نے ان علاقوں کو خیر آباد کہہ کر ناظم آباد میں نئے سرے اپنی زندگی شروع کی۔ لمبی چوڑی دو رویہ سڑکیں جن کے ساتھ دور تک درختوں کی قطاریں سایہ شجر دار کا نمونہ پیش کرتی تھیں پورا علاقہ اپنی صفائی ستھرائی کھلے میدانوں اور تازی ھوا کے جھونکوں کی وجہ کراچی کے دوسرے علاقوں سے منفرد تھا اور جلد ہی کراچی کے پوش ایریاز میں شمار ھونےلگا، ایک وقت آیا جب ناظم آباد میں گھر بنانا صاحب حیثیت ھونے اور تعلیم یافتہ ھونے کا سمبل بن گیا کراچی کے دوسرے علاقوں کے باسی ناظم آباد والوں کو مہذب تعلیم یافتہ اور انٹلکچول سمجھتے اور انکی خوش لباسی اور صلاحیتوں سے مرعوب بھی ھوتے، لوگوں نے ناظم آباد کو فرانس کے شہر پیرس میں واقع مونٹ پارناسے نامی علاقے کا ھم پلہ قرار دیا جہاں ایک ہی وقت میں بیکیٹ، پیکاسو، ھیمنگوے، روسو، عذرا پاؤنڈ اور سلازار جیسے بہت سے دانشور اور آرٹسٹ، رقاص، مجسمہ ساز، مصور، شاعر، اور کمپوزر رھا کرتے تھے، گنگا جمنا تہذیب کا جتنا شہرہ ھے اگر اس تہذیب کا نمونہ دیکھنا ھے تو یہاں آباد گھرانوں کے مکینوں سے ملئے، جسٹس لاری، تنقید نگار فرمان فتحپوری، فلم ساز سعید رضوی، عالیہ امام، مجاھد بریلوی، مجنوں گورکھپوری ، مختار زمن، ڈاکٹر سرور، ذکیہ سرور، ڈاکٹر طیب، کالمسٹ نصر اللہ خان، اقبال دیوان، سید شرف الدین شرف، انعام درانی، کون کون یہاں نہیں رھتا تھا، صادقین، اقبال مہدی، محسن بھوپالی، سنگیتا، زیبا،ندیم شکیل حنیف محمد، اقبال صفی پوری، سحر انصاری اور سلمی زمن جیسے انٹلیجنسیا، رائیٹرز، پوئٹس ارٹسٹ اسکالر، سول سرونٹ، سیاستداں، ڈاکٹرز، گلوکار، وکیل، تعلیمی ماھرین۔ یہ سب لکھنئو، دہلی، امروہہ، کانپور، بدایوں، علی گڑھ، ملیح آباد، حیدرآباد، جونا گڑھ سے ھجرت کئے ھوئے نابغہ روزگار لوگوں کی پہلی نسل تھی۔ سرسید گرلز کالج ، ناظم آباد اسکولُ، ناظم آباد کالج ، عثمانیہ کالج، ھیپی ڈی اسکول، خان صاحب کا پریمیئر کالج، حورانی صاحب کا سٹی کالج، عبدللہ کالج، رابعہ زبیری کا کراچی اسکول آف آرٹ اینڈ کرافٹ، وسطانیہ اسکول کے علاوہ لڑکیوں اور بچوں کی لاتعداد نرسریاں اور اسکول کھلے اور کراچی کے دوسرے علاقے کے قدیم اور معتبر تعلیمی اداروں سے ٹکر لینے لگے ناظم آباد کے اندر چھوٹے چھوٹے ناظم آباد بن گئے، گولیمار، عثمانیہ کالونی فردوس کالونی، رضویہ سوسائیٹی، مسلم لیگ کوارٹرز، پاپوش نگر اور بڑا میدان، جن کی اپنی آبادی چھوٹے شہروں کے برابر تھی، انو بھائی پارک، ھادی مارکیٹ، گول مارکیٹ، ضیاء الدین اسپتال بقائی اسپتال صادقین ھاؤس ، سبطین منزل، محسن منزل اور حکیم سعید کی ھمدرد لیباریٹریز کا صدر دفتر ھمدرد سینٹر اس علاقے کے لینڈ مارک تھے اور پاک کریسنٹ کرکٹ کلب جہاں سے حنیف محمد، وزیر رئیس مشتاق اور صادق محمد نے کرکٹ کھیلی، ظہیر عباس اور آصف اقبال اس کلب سے کھیل کر فخر محسوس کرتے تھے، صلاح الدین سلو اور انتخاب عالم، نیشنل کرکٹ کلب کے قریب رھتے تھے جبکہ رضویہ سوسائیٹی کی ٹیم ڈائمنڈ کرکٹ کلب کا مشہور اسپن بولر محمود الحسن تھا۔
 آغا جوس ھاؤس، انبالہ سوئیٹ، ملا حلوائی، کیفے ذائقہ،الحسن کافی ھاؤس اور کیفے وزیر کے خوش ذائقہ کھانے دلّی اور اودھ کے کھانوں اور مٹھائیوں کو مات دیتے تھے، کیفے وزیر میں جو دن میں بائیس گھنٹے کھلا رھتا تھا ایک آنے کی چائے ایک روپے پچاس پیسے کا چکن تکا اور چار آنے کی نہاری ملتی تھی، ایک پیالی چائے عوض آپ اپنے دوستوں کے ساتھ دو گھنٹے بیٹھ کر جمیل الدین عالی،عصمت چغتائی، کرشن چندر، جیلانی بانو، جوش اور اداس نسلوں کے خالق عبدللہ حسین کے علاوہ رونا لیلی، ناھید اختر، خورشید انور، ندیم وحید مراد اور شمیم آرا پر بحث و مباحثہ کر سکتے تھے۔
 ناظم آباد کلب اہل ناظم آباد کا ریلیکسییشن پوائنٹ تھا اور پھر غالب لائبریری تھی جس میں تین ھزار سے زیادہ کتابیں تھیں اور جس کو حبیب بنک نے فیض احمد فیض اور مرزا ظفر الحسن کی کوششوں سے بنایا گیا تھا ، اس زمانے میں یہ ادبی تقریبات کا مرکز تھی۔
 فلمی تفریحات کے لئےریلیکس سینما، نایاب سینما، شالیمار سینما لبرٹی سینما تھے جہاں شرفائے ناظم آباد اپنی فیملیز کے ساتھ فلم دیکھنے جاتے، میٹنی شوز میں گھریلو خواتین اور نوجوان لڑکیوں سے ھاؤس فل ھوتا، لڑکیاں بالیاں اپنی پڑوس اور کالج کی سہیلیوں کے ساتھ بے خوف خطر فلمیں دیکھتیں ۔مگر کبھی کسی قسم کی بیہودگی یا خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی شکایت سننے میں نہیں آتی تھی۔
 ان دنوں گرمیوں میں گھر کے دالان صحن اور چھتوں پر سونے کا عام رواج تھا کھڑکیاں کھلی رکھی جاتیں جن سے فراٹے بھرتی ھوا پورے گھر کو فیضیاب کرتی، چوری چکاری، اسٹریٹ کرائمز ڈاکے کلاشنکوف جیسی چیزوں کا نہ ڈر تھا اور نہ کوئی تصور تھا۔ پھر محرم آتا تو زیڈ اے بخاری اور رشید ترابی کی مجلسوں اور شہدائے کربلا کے اذکار سے ناظم آباد کی گلییوں میں سوگواروں کے جھمگھٹے لگ جاتے، سبیلیں لگتیں لڑکے لڑکیاں سیاہ لباس پہنے ایک گھر سے دوسرے گھر مجالس میں شریک ھونے جاتے اور مجال ھے کوئی شیعہ سنی کے اختلاف کی بات بھی سنی گئی ھو۔ 
چراغوں کا دھواں ھوگئے ھیں، وہ زمانے رفتگاں ھو گئے ھیں، آج یہ سب باتیں ایک خواب سا لگتی ھیں مگر جو لوگ ان سنہرے برسوں میں ناظم آباد کی اس گولڈن لائف کا حصہ رھے ھیں وہ آج بھی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس یادگار دور کو یاد کرتے ھیں اور گنگناتے ھیں کہ قصہ ناظم آباد مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔