Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 20 جون، 2014

نواب آف کالا باغ

 بھیگے بادام اور گاجریں‘ نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان(20 جون 1910-26 نومبر 1967)  کی صبح جسم و جاں میں توانائی کے خزانے بھر دینے والی اِن نعمتوں سے ہوا کرتی تھی۔
یہ شخص اتنا طاقتور تھا کہ مغربی پاکستان میں اس کی اجازت کے بغیر پتہ تک نہیں ہلتا تھا۔
یہ شخص سیاست میں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن یہ دیکھ کر کہ اس زمانے کے وزیر اعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ اراکین اسمبلی کے سوا کسی دوسرے کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیتے، وہ انتخاب لڑ کر اسمبلی میں پہنچ گئے لیکن بعد میں حکومت نے انھیں وزیر بنانا چاہا تو ان کی انا آڑے آئی۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب اسکندر مرزا ملک کے صدر اور ایوب خان سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ بیرون ملک جاتے ہوئے اسکندرمرزا سے کہہ گئے کہ نواب آف کالاباغ کو مرکز میں وزیر بنا لیا جائے۔ یہ پیشکش ان تک پہنچائی گئی تو کہا میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ ٹکے ٹکے کے ممبران اسمبلی کے سوالوں کے جواب دوں اور بات بات پر جناب سپیکر، جناب سپیکر کی گردان کروں۔
تاہم ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد انھیں گورنر مغربی پاکستان بننے کی پیشکش کی تو اسے قبول کرنے میں انھیں کوئی تامل نہ ہوا۔ یہ منصب ان کے مزاج کے مطابق تھا کیونکہ انھیں یہاں کسی کو جواب نہیں دینا تھا، سب ان کے سامنے جوابدہ تھے۔
پنجاب کا یہ جدی پشتی جاگیردار اقتدار کے ایوان میں داخل ہوا تو اس کے انداز بڑے جداگانہ تھے۔ انھوں نے پابندی عائد کر دی کہ خاندان کا کوئی شخص بھی گورنر ہاؤس میں داخل نہیں ہو گا۔
ایک بار کوئی سفر درپیش تھا، صورتحال کچھ ایسی بنی کہ ان کے ایک صاحبزادے کو ان کی گاڑی میں بیٹھنا پڑا، انھوں نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر والد کے برابر بیٹھنا چاہا تو انھیں وہاں سے اٹھا دیا اور کہا کہ یہ جگہ ملٹری سیکریٹری کی ہے، تم اگلی نشست پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھو۔
گورنر مغربی پاکستان کی حیثیت سے صوبے کے تمام امور پر ان کی گرفت انتہائی سخت تھی، یہ شہرت ملکہ برطانیہ تک پہنچی تو انھوں نے کہا کہ جنگل کا شیر بھی نواب کا کہنا ماننے پر مجبور ہے۔
ان کی مؤثر ایڈمنسٹریشن کا راز یہ تھا کہ وہ اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے افسروں کا انٹرویو خود کرتے، خاندانی پس منظر اور اُن کی کئی پشتوں تک کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے۔ افسروں کے انتخاب میں ان کی احتیاط کو دیکھتے ہوئے کسی نے ان سے کچھ سوال کیا تو کہا کہ ہم لوگ تو گھوڑا اور کتا خریدتے ہوئے بھی شجرہ دیکھتے ہیں، یہ تو ملک کا معاملہ ہے۔
ایک بار پی ایم اے کے کیڈٹس کے انتخاب پر بھی اسی قسم کا تبصرہ کرتے ہوئے کہا مجھے خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں عسکری قیادت کا معیار کمزور ہو جائے گا۔
سول افسروں کی طرح فوجی افسروں کے بارے میں وہ خاصی معلومات رکھتے تھے۔ انھیں جب معلوم ہوا کہ ایوب خان یحییٰ خان کو فوج کا سربراہ بنانے والے ہیں تو کہا کہ یہ ان کی عظیم ترین غلطی ہو گی کیونکہ وہ شرابی اور عیاش آدمی ہیں۔
جنرل سرفراز چاہتے تھے کہ یحییٰ کی جگہ انھیں یہ منصب ملنا چاہیے، اس مقصد کے لیے وہ نواب صاحب کی مدد کے طلب گار بھی ہوئے لیکن ان کے بارے میں نواب صاحب کی رائے مثبت نہیں تھی، ان کا خیال تھا کہ سنہ 1965 کی جنگ میں لاہور کے محاذ پر ان کی کارکردگی اطمینان بخش نہ تھی۔
صوبے کے حالات سے آگاہی کے لیے انھوں نے تمام متعلقہ افسروں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ اپنے محکمے اور علاقے کی تمام تر معلومات براہ راست گھر کے پتے پر انھیں روانہ کیا کریں۔ صوبے کے حالات کے بارے میں اس طرح کی رپورٹیں اور اپنے نام آنے والے تمام خطوط وہ اپنے ہاتھ سے کھولتے، براہ راست احکا م جاری کرتے اور ان احکامات پر ہونے والی پیش رفت سے ذاتی طور پر آگاہ رہتے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے ذاتی طور پر ایک نظام قائم کر رکھا تھا۔ ان کی کارکردگی اور حالات سے واقفیت سے حیران ہو کر لوگ ان سے سوال کیا کرتے کہ یہ سب آپ کیسے معلوم ہو جاتا ہے؟ وہ کہا کرتے کہ یہ باتیں مجھے میرا جن بتاتا ہے۔
سنہ 1965 کی جنگ اور اس سے پہلے آپریشن جبرالٹر اور گرینڈ سلام کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ یہ ایک سازش ہے جس میں بھٹو اور ان کے ساتھی ملوث ہیں۔ ان آپریشنوں اور جنگ کے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ان کی وجہ سے ناصرف ملک نقصان میں رہے گا بلکہ ایوب خان کا اقتدار بھی کمزور ہو جائے گا
ایوب خان کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے لکھا ہے کہ جنگ کے زمانے میں نواب صاحب منظر سے غائب ہو گئے تھے لیکن دوسری طرف اس کے بالکل متضاد اطلاعات بھی موجود ہیں۔
ان کے سوانح نگار نے جنرل شیر علی کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک بار وہ ہیلی کاپٹر میں جنگی زدہ علاقے کا دورہ کر رہے تھے کہ زمین پر انھوں نے ایک سویلین کو فوجیوں کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا۔ یہ منظر حیرت انگیز تھا، لہٰذا انھوں نے ہیلی کاپٹر اتروا کر صورت حال کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ تو نواب آف کالا باغ ہیں جو فوجیوں میں بسکٹ تقسیم کر رہے تھے۔
سوجی، السی اور دیسی گھی سے بنے ہوئے یہ بسکٹ انھوں نے خصوصی طور پر اپنے گھر میں تیار کرائے تھے۔ جنرل شیر علی یہ دیکھ کر متاثر ہوئے اور انھوں نے کہا کہ قوم کو آپ جیسے لیڈروں ہی کی ضرورت ہے۔ نواب صاحب نے جواب دیا کہ جنگیں ہمیشہ قوم کے جذبے سے لڑی جاتی ہیں اور میں بھی اسی قوم کا ایک فرد ہوں۔
اسی جنگ کے دوران ایوب خان نے انھیں مشورہ دیا کہ حفاظت کے پیش نظر وہ گورنر ہاؤس سے ملٹری ہاؤس میں منتقل ہو جائیں جس پر انھوں نے کہا کہ جوانوں کو محاذ پر بھیج کر میں خود چھپ کر بیٹھ جاؤں، یہ میرے لیے ممکن نہیں۔
یہ جنگ کے بالکل ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ انھوں نے تاجروں کو طلب کیا، یہ لوگ گورنر ہاؤس کے دربار ہال میں جمع ہو گئے جہاں وسط میں صرف ایک کرسی رکھی تھی۔
تاجروں کا وفد ہال میں آ کر کھڑا ہوا تو کچھ دیر کے بعد وہ ہال میں آئے اور وہاں موجود واحد کرسی پر بیٹھ کر کہا کہ لمبی چوڑی گفتگو کی گنجائش نہیں یہ جنگ کا زمانہ اور قربانی کا وقت ہے۔ اگر کسی نے اشیائے ضرورت ذخیرہ کیں یا مقررہ نرخ سے زائد پر فروخت کیں تو ذخیرہ شدہ سامان عوام میں تقسیم اور دکان مستقل طور پر سیل کر دی جائے گی۔
جنگ ہی کے دنوں میں ایک بار سکیورٹی کے بغیر وہ بازار پہنچ گئے۔ انھیں اطلاع ملی تھی کہ کوئی تاجر مقررہ نرخ سے زائد پر گندم فروخت کر رہا ہے۔ اسے کہا تم شاید یہ سمجھتے ہوگے کہ امیر محمد جنگ میں مصروف ہے اور تم من مانی کر لو گے؟ میری مونچھ کو تاؤ آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر آ جائیں ورنہ ایسی سزا دوں گا کہ دنیا یاد کرے گی، اس کے بعد پورے صوبے سے ایسی کوئی شکایت نہ آئی۔
سنہ 1962 میں ایوب خان نے جب کنونشن لیگ بنائی تو رکنیت کا فارم بھر کر سب سے پہلے خود انھوں نے ہی اس کی رکنیت اختیار کی۔ اس موقع پر معروف سیاسی راہنما راؤ عبدالجبار نے نواب صاحب سے کہا کہ آپ بھی فارم بھر دیں۔ انھوں نے یہ سنا، مسکرائے اور کہا کہ مجھے اس گندگی میں نہ گھسیٹیں
نواب صاحب کے زمانے کو لوگ اب بھی الف لیلوی داستانوں کی طرح یاد کرتے ہیں جب شام ڈھلے ان کے خاندان کی خواتین گھر سے نکلتیں تو روشنیاں گل کر دی جاتیں، ڈھنڈورچی ڈھول بجاتا ہوا نکلتا اور مرد راستے کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو جاتے تاکہ نوابوں کے خاندان کی عورتوں پر کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑ سکے۔
کہا جاتا کہ حکم عدولی کرنے والوں کی کھال تک کھنچوا لی جاتی تھی۔
لوگوں کو بوڑھ والے بنگلے کی رونقیں بھی اب تک یاد ہیں جہاں نواب صاحب کچہری لگاتے اور فیصلے کیا کرتے۔ اس دوران ان کے مصاحبین اور کارندے حسب مرتبہ خاموش بیٹھے یا کھڑے رہا کرتے۔ مزاج شغل میلے کی طرف مائل ہوتا تو کچہری میں ہی ریچھ کتے کی لڑائی برپا کی جاتی لیکن ریچھ اور کتا دونوں ہی اشرف المخلوقات میں سے چنے جاتے۔
ضرورت مند براہ راست سوال نہ کرتے، ان کے کارندوں کے ساتھ کھڑے ہو کر گانا شروع کر دیتے، نواب صاحب سمجھ جاتے، مسکراتے اور کسی کو اشارہ کرتے ’اس کا منھ بند کر اوئے‘ سوالی کا گھر دانوں سے بھر جاتا۔ اب وہ باتیں کہانیاں بن چکیں، خواب و خیال ہو گئیں۔

٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔