کہتے ہیں کہ جس اِنسان کی نیند اُڑ جائے وہ بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے ؟
ایسا نہیں ہے ، انسانی جسم ، اپنے کھانے ، پینے ، آرام کا خود متلاشی رہتا ہے ، نیند انسانی جسم کے آرام و سکون کا مظہر ہے ،
خواہ وہ یہ 24 گھنٹوں میں چار گھنٹے کے لئے ، کسی بھی وقت لے ۔لایعنی سوچ کے
بلبلوں میں ہوا بھرنے والے ، راتوں کو جاگتے ہیں
کیوں کہ تنہائی میں ، ایک بلبلہ معدم ہوتے وقت اپنی ہوا دوسرے کو دے دیتا
ہے اور ایک بلبلہ تو نہیں ہوتا بلبلوں کا ایک جم ِغفیر ہوتا ہے ۔
لیکن عمر کے لحاظ سے نیند کی کمی بیشی انسانی زندگی ، کا ایک پرتو
ہے ، جوانی اور بڑھاپے کی نیند میں فرق ہوتا ہے لیکن ہر انسان کی نیند کی مقدار
ایک جتنی نہیں ہوتی ، جسمانی کام کرنے والوں کی نیند کا دورانیہ زیادہ
ہوتا ہے اور ذہنی کام کرنے والوں کی نیند کا دورانیہ کم ہوتا ہے ، کیوں کہ
کام کے بعد بھی اُن کا دماغ ، سوچوں کے
بلبلے بناتا ہے ، جو ایسا کیوں ہوا ؟ کیسے
بہتر ہو سکتا ہے ؟ اور کس طرح کرنا چاہیئے؟
یہ کیوں کیسے اور کس طرح ، ہر انسان کی سرشت میں ہے ،
یہاں تک کہ ایک بچہ بھی اِسی ترتیب سے سوچوں کو اپنے دماغ میں مشغول رکھتا ہے ۔
سوچوں کی وجہ سے نیند کا کم ہونا ، جبکہ کوئی نفسیاتی مرض نہیں بلکہ ایک عام جسمانی
بیماری ہے ۔ لیکن اِس کی زیادتی ، جبکہ سوچوں کے کوئی نتائج نہ ہوں ، کو
"نفسیاتی مرض " سے آسانی کے لئے موسوم کر دیا گیا ہے ۔جس میں انسانی دماغ ایک صحت مند انسانی دماغ
کی مانند کام نہیں کرتا ، کیوں کہ سوچیں
بے ربط ہوتی ہیں ، اُن کے درمیان رابطہ نہیں ہوتا ، یوں سمجھیں کہ دماغ میں پیدا
ہونے والے ، سوچوں کے ہم ربط بلبلے ایک دوسرے
میں اپنی جڑیں پیوست کرکے اُنہیں یوں سمجھیں ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کرتے
ہوئے ایک بامعنی اکائی
بناتے ہیں ۔
دماغی
طور پر صحت مند انسان میں ، سوچوں کی اِس اکائی کو بنانے ،میں دشواری نہیں ہوتی یہ
سب ایک قدرتی خودکار نظام کی مانند ہوتا ہے ، جب کہ ایک لایعنی سوچوں کی دماغی بیماری میں مبتلاء انسان کے لئے ، ایک خاص ٹیکنیک
سے سوچوں کے بلبلوں کی ایک اکائی میں
تبدیل کیا جاتا ہے۔
وہ ٹیکنیک "ذہنی ارتکاز کی ٹیکنیک" کہلاتی ہے ۔ جسے مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنی دکانداری چمکانے کے لئے الگ الگ نام اور طریقے ایجاد کر لئے ہیں ۔ جو کسی بھی طریقے سے حاصل ہو سکتی ہے ، لیکن اِس ٹیکنیک کے الفاظ یا انسان کو انسانی بلندیوں پر لے جاتے ہیں یا پستیوں میں گرا دیتے ہیں ۔ بلندیوں پر جانے والا انسان ، انسان ہی رہتا ہے اور " میں اُس سے بہتر ہوں " کی سوچ رکھنے والا پستیوں کی طرف دوڑنے لگتا ہے ۔
وہ ٹیکنیک "ذہنی ارتکاز کی ٹیکنیک" کہلاتی ہے ۔ جسے مختلف مذاہب کے لوگوں نے اپنی دکانداری چمکانے کے لئے الگ الگ نام اور طریقے ایجاد کر لئے ہیں ۔ جو کسی بھی طریقے سے حاصل ہو سکتی ہے ، لیکن اِس ٹیکنیک کے الفاظ یا انسان کو انسانی بلندیوں پر لے جاتے ہیں یا پستیوں میں گرا دیتے ہیں ۔ بلندیوں پر جانے والا انسان ، انسان ہی رہتا ہے اور " میں اُس سے بہتر ہوں " کی سوچ رکھنے والا پستیوں کی طرف دوڑنے لگتا ہے ۔
٭٭٭٭واپس٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں