Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 11 جون، 2014

پولیس کا بارودی مواد چیک کرنے کا طریقہ

 پولیس کا بارودی مواد چیک کرنے کا نیا طریقہ کے عنوان سے ایک وڈیو فیس بک پر  گردش کر رہی ہے ، جس پر ہمدردانہ کمنٹس  کم طنزیہ کمنٹس بہت زیادہ ہیں ۔ جن کو دیکھ کر ہنسی کم لیکن دکھ زیادہ ہوتا ہے۔
 اُس وڈیو کی اِس  تصویر میں  دو طریقوں سے  کراچی پولیس والے بارودی مواد چیک کر کے ، اپنی جان خطرے میں ڈال کر سڑک کے لئے عوام کو محفوظ کر رہے ہیں ۔ اِن پولیس والوں کے بھی بچے ہیں ، گھر پر ماں اور بیوی بھی انتظا کر رہے ہوں گے۔
یہ طریقہ بہت پرانا ہے اتنا پرانا جب دھماکہ خیز مواد پاکستان میں سڑکوں پر پایا جانے لگا ۔
میں اِن دونوں باہمت جوانوں کو سلام پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے اپنی جان کو داؤ پر لگا کر اپنا فرض پورا کیا ۔
 اگر اِس میں حقیقت میں کوئی بارودی مواد ہوتا تو ۔ ۔ ۔ ۔؟

یہ سوچ کر میرے جسم بیں ایک سرد سی لہر دوڑ جاتی ہے ، بالکل ایسی جو ایک انگریزی فلم "کمانڈو" 1986 جون میں دیکھ کر دوڑی تھی جو میرے کمانڈنگ آفیسر کرنل راشد نے مجھے دیکھنے کے لئے بھیجی تھی ،
میں اُن دنوں پشین سکاؤٹ  ، چمن میں سٹاف آفیسر تھا ، کوئی  ساڑھے چھ بجے ، کمانڈنٹ نے فون کیا اور بتایا کہ  ریلوے سٹیشن  ماسٹر نے قلعے میں فون کر کے بتایا ہے کہ ویٹنگ روم کے راستے میں ، کپڑے میں لپٹی کوئی مشکوک چیز پڑی ہے ، مسافروں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے ، اور سات بجے ٹرین نے کوئٹہ جانا ہے  ۔
میں نے کو ر ایس ایم کو فون کیا ، اُس نے بتایا کہ وہاں گارڈ بھیج دی ہے ، وہ چیز بالکل انجن کی سائیڈ پر  پانی کے نلکے کے پاس پڑی ہے ۔  میں تیار ہو کر ریلوے سٹیشن پہنچا  تو تقریباً آدھے چمن کے لوگ اُس مشکوک چیز سے  کوئی دس فٹ دور کھڑے تھے اور سکاوٹ والوں سے گپیں لگ رہی تھیں ۔
آدھا چمن افغانیوں سے بھرا ہوا تھا ، یہ سب پر اَمن کاروباری لوگ تھے جن کا بنیادی کام سمگلنگ پر منحصر تھا ، چمن کے پُرسکون حالات میں اُس وقت ہلچل مچی جب پاکستان میں پناہ گیر ، عصمت اللہ بغاوت کرکے واپس افغانستان چلا گیا اور اُسے سپِن بلدک کا کمانڈر بنادیا گیا ، وزیر اعظم جونیجو کے وقت اُس نے 17 ٹینک کے گولے چمن میں گروائے جس سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا البتہ ایک لڑکی کی شہادت اُس کے گھر میں گولہ گرنے سے ہوئی اُس کے بعد چمن کا سکون آہستہ آہستہ ختم ہو گیا ۔
میں نے وہاں پہنچتے ہی مشکوک چیز کا معائینہ کیا کو مکمل کپڑے کی پوٹلی میں لپٹا ہوا تھا ، اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چھڑی سے میں نے آہستہ آہستہ کپٹرا ہٹایا تو مجھے ، فوجی گاڑیوں کی مانند سبز رنگ کی جھلک نظر آئی ، میں نے کمانڈنٹ کو وائرلیس پر اطلاع دی اور ساتھ ہی کور ہیڈکوارٹر میں بھی پیغام بھجوایا ۔
کمانڈنٹ نے کہا کسی طرح ٹرین نکالو ، میں نے سٹیشن ماسٹر سے پوچھا کہ کیا وہ  ٹرین چلوا سکتا ہے اُس نے کہا کہ بم پھٹ گیا تو کیا ہوگا ، وقت کم تھا اور اِس بم کو ناکارہ بنانے کے لئے کم از کم تین سے چار گھنٹے چاھئیے تھے ، میں نے خود ایک فیصلہ کیا ، قلعے سے ٹیلفون کی تار کا رول منگوایا ، سٹیشن خالی کروا لیا اور خود لوہے کی تار کا ایک ہک بنوایا   اسے تار سے باندھا اور ہک کو پوٹلی کی گانٹھ میں پھنسایا تاکہ کھیچنے سے گانٹھ کھل جائے ۔ ٹیلیفون کی تار کا پورا ڈرم کھلوا لیا تھا ، اسے ریلوے کی حفاظتی باڑھ سے گذار کر سو گز دور تک  تک میں میدان میں لے گئے ۔
سکاوٹس کے جوانوں کو پوٹلی کھینچنے کا کہا ، مجھے امید تھی کہ  کہ کھینچنے پر پوٹلی میں پڑا بم پھٹ جائے گا ، لیکن کچھ نہیں ہوا دو تین دفعہ ہک نکل گیا ، میں اُسے دوبارہ لگاتا اور خود دور چلا جاتا ، جب وہ پوٹلی گراونڈ کے وسط میں پہنچی تو سٹیشن ماسٹر کو ٹرین چلوانے کا کہا ۔
جب ٹرین چلی گئی ، تو میں نے جاکر پوٹلی کھولی اُس میں ایک چوکور ڈبہ نما چیز تھی ، جس سے دو سلاخیں نکلی ہوئی تھیں ، اُس کی تصویر لی پھر اُس کو احتیاط اے اٹھا کر الٹا کیا ، تو روسی زبان میں اُس کی مارکنگ نظر آئی ، اُس کی بھی تصویر اتاری اور بعد میں اُسے دھماکہ خیز مواد لگا کر اُڑا دیا ۔
 جب کمانڈنٹ کی بھجوائی ہوئی فلم دیکھی تو اُس میں ہیرو  وہی بم  ، ایک مکان کے چاروں طرف  لگاتاہے اور  ایک ریموٹ ڈیوائس سے بٹن دبا کر اُسے دھماکے سے اُڑا دیتا ہے ۔
جس وقت میں اُس بم کو اُٹھا کر دیکھ رہا تو تو میرے ارد گر د اے سی چمن ، تحصیلدار چمن سکاؤٹ اور فوجی آفیسر کھڑے تھے ۔ 
ہمارا نصیب ، کہ اُس وقت شائد ریموٹ کا م نہ کر سکا یا تخریب کار ڈر کر بھا گیا تھا ، 
اِس طرح کے کئی اور واقعات میری سکاؤٹ زندگی کا حصہ ہیں  گو میں بارودی دھماکا خیز مواد کو ناکارہ بنانے والا ، کوئی ماہر نہ تھا  اور نہ ہی ہمیں کوئی  میڈل ملنا تھا ، لیکن وہ جو ایک  بینر ہم سب فوجیوں ، سکاوٹس ، رینجر اور پولیس کی پیشانی پر کنداں ہیں ، کہ 
"ملک اورعوام  کی زندگیاں ہماری زندگی سے زیادہ اہم ہیں "  
  ہم سب کو بے وقوفی کی حد تک بہادر بنا دیتا ہے اور واقعی بہادر بے وقوف ہی تو ہوتا ہے عقلمند ہوتا تو دور کھڑے ہوکر تماشا دیکھتا ، خطرہ ٹلنے کے بعد سینہ چوڑا کر کے آگے آتا ہے اور کہتا ہے ،


" ہمارا کام عوام کی زندگیاں بچانا ہے "

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔