Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 15 جون، 2014

مثبت سوچ،ماضی،حال اور مستقبل کی امین ہوتی ہے

انسانی سوچ اور افکار و خیالات ہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہوتے ہیں، مثبت سوچ انسانی فلاح کو مہمیز کرتے ہے ،  ناممکن کو ممکن بنا سکتی ہے- منفی سوچ  انسان کو سوچ کی تاریک اور اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنا شروع کرتی ہے- لہذا جتنا ہوسکے ،  مثبت سوچ اپنائیں اور منفی سوچ سے چھٹکارا حاصل کریں ، کوشش کریں کہ منفی سوچ سے کوئی نہ کوئی مثبت پہلو نکالیں ، یہ مثبت پہلو ایک معمولی سے تنکے کی مانند ہوتا ہے جس سے ڈوبتے کو سہارا ملتا ہے ۔

مثبت سوچ  ، ماضی ، حال اور مستقبل   کی امین ہوتی ہے ۔

منفی سوچ بھی  مثبت سوچ کی طرح ماضی ہی سے ، سوچ کا ذرہ لیتی ہے اُسے حال میں لا کر یک دم تصورات سے بڑا کرتی ہوئی مستقل میں دھکیل دیتی ہے ۔ اور پھراس کی مضبوطی میں مگن ہوجاتی ہے ، جبکہ منفی سوچ کو کبھی دوام حاصل نہیں ،  اور منفی سوچ بیماری کا نام ہے   جو بالکل دیکر جسمانی بیماریوں کی طرح ہوتا ہے ، ہمارا  دماغ(جسے ہم ہارڈ وئیر)بھی جسم کا حصہ ہے اِس میں بننے والا ذہن (جو سافٹ وئیر ہے )  ، یہ بیماری اُس میں پیدا ہوتی ہے ۔ یہ بیماری کم و بیش ہر اُس انسان میں ہوتی ہے ،جس میں خوف کا عنصر بڑھ گیا ہو ۔

خوشی ، خوف  اور غم     ، انسانی   ذہن  کی پیدا وار ہے ، دماغ کی نہیں ،  جو حواس خمسہ کی بدولت باہر کی دنیا سے انسان کی اندرونی دنیا ، یعنی دماغ کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔
بے خوابی اور بے چینی کی تحریک ، باہر کی دنیا سے اندرونی دنیا میں داخل ہوتی ہے ، اندرونی دنیا دماغ کی دنیا کہلاتی ہے ہے ، جس میں لاکھوں سوچیں ایک طوفان اٹھائے رکھتی ہیں ، کچھ سوچ  بالکل چھوٹے چھوٹے بلبلوں کی طرح ، بے اثر اور غیر محسوس ہوتی ہیں ، لیکن جو سوچیں بڑا بلبلہ بن کر انسانی ذہن میں ارتعاش پیدا کرتی ہیں ، وہ اہمیت رکھتی ہیں  اور ذہن کا حصہ بنتی ہیں ۔

مثلا ً پڑوس کی بچی نے  سو میں سے 96 نمبر لئے ، تو اس سے آپ کے دماغ کی سوچ   میں ایک بلبلہ بنا  ، لائق بچی ، لیکن آپ کی  بیٹی  85نمبر لے کر کلاس میں فرسٹ آئی ۔  تو بتائیے  کہ
 آپ کےدماغ میں سوچ کے کتنے بلبلے بنیں گے ؟
 اور کس طرح کے بنیں گے ؟
اور کتنے آپ کے ذہن پر اثر انداز ہوں گے ؟

دوست کے بیٹے  کا موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتے ہوئے ، مین روڈ پر ایکسیڈنٹ  ہو گیا  ، اُس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ۔اِس خبر سے دماغ میں جو  بلبلے پیدا ہوا ، زندگی بچ گئی ،   کرتب کیوں دکھایا ، شکر ہے جان بچ گئی ۔ اور یہ بلبلے   جلد ہی معدوم ہو گئے ۔ یعنی بنے ، ایک خاص جسامت اختیار کی اور واپس سکڑ کر ، دماغ  کے یاداشت کے خانے میں ذہن بن  کر بیٹھ گئے ، اب یہ اُس وقت متحرک ہوں گے ۔ جب آپ سے کوئی دوست یا اُس کے بیٹے کا نام لے گا ، یا آپ کسی موٹر سائیکل والے کو کرتب کرتا دیکھیں گے ۔ لیکن ان بلبلوں میں خوف و و ہراس کا کوئی بلبلہ نہیں ہوگا ۔ غم کا شاید ایک چھوٹا سا بلبلہ ہو ۔

لیکن جلد بازی میں ننگے پیر جاتے وقت چارپائی کے پائے سے ٹکرا کر آپ کا ناخن ٹوٹ گیا  اور خون نکلنے لگا ۔  خوف ،و ہراس ، غم ، دکھ   کے بلبلوں کی یلغار آپ کے دماغ میں شروع ہوجائے گی ، جن میں سے کچھ تو  بامعنی ہوں (حقیقی) گے اور کچھ لا یعنی (تصوراتی)، جن کو آپ معنی  دینا شروع کریں گے ۔

  خوشی یا غم میں ، دماغ میں اٹھنے والی بامعنی سوچوں کو  ہم مثبت اور وہ سوچیں  جوحقیقت کا روپ نہ دھار سکیں تصوراتی یا منفی کہلاتی ہیں ۔ اِس سے یہ  ہر گز نہ سمجھیں کہ ہر تصوراتی سوچ منفی ہوتی ہے کیوں کہ ہو سکتا ہے  جو آج تصور ہے کل حقیقت میں تبدیل ہوجائے ۔
دماغ میں اٹھنے والے ، سوچوں کے یہ تمام بلبلے ( بامعنی یا  لایعنی ) مثبت و منفی دونوں قدر رکھتے ہیں ۔ آپ یہ انسانی ذہن پر منحصر ہے کہ وہ  کن بلبلوں میں ہوا بھرے ؟ اور اِن بلبلوں میں بھری جانے والی ہوا  ہی انسان کی خوشی یا پریشانی میں اضافہ کرتے ہیں  اور اِن دونوں کی وجہ سے اِنسانی نیند اُڑ جاتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ جس اِنسان کی نیند اُڑ جائے وہ بالآخر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے ؟


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 آگے پڑھئیے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔