یہ
2004 جون کی بات ہے میں راولپنڈی سے اپنے آفس کی طرف آرہا تھا ، کوئی ایک بجے کا
وقت تھا ۔ اسلام آباد ہائی وے پر ، آئی 8
کے چوک پر سرخ بتی کی وجہ سے رک گیا ، ایک دس گیارہ سال کا معصوم سا بچہ ، سکول کی یونیفارم پہنے ، گاڑی
کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا میں اُسے بلیو ایریا میں ، سٹی بنک کے پاس لے جا سکتا ہوں ، میری ٹریول ایجنسی بھی وہیں تھی میں نے بٹھا
لیا – میں سمجھا کہ شاید وہیں اُس کے والد کام کرتے ہوں ۔ اُن کے پاس جارہا ہو ۔
میں نے اُس کا نام پوچھا ، اُس نے عرفان بتایا
کلاس پوچھی ، معلوم ہوا کہ وہ چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے ۔
پوچھا کہ وہ کس کے پاس جارہا ہے ؟ تو کہنے لگا وہاں کام ہے ۔
میں نے اُس کا نام پوچھا ، اُس نے عرفان بتایا
کلاس پوچھی ، معلوم ہوا کہ وہ چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے ۔
پوچھا کہ وہ کس کے پاس جارہا ہے ؟ تو کہنے لگا وہاں کام ہے ۔
کیا
آپ کے والد وہاں کام کرتے ہیں ؟
"نہیں " اُس نے جواب دیا ۔ وہ مختصر بات کر رہا تھا ۔
"نہیں " اُس نے جواب دیا ۔ وہ مختصر بات کر رہا تھا ۔
"کہاں
رہتے ہو ؟" میں نے پوچھا
"پیر ودھائی کے پاس " اُس نے جواب دیا
آفس
کے پاس ، میں نے گاڑی روکی ، تو اُ س نے
اترنے سے پہلے پوچھا ، " سر پانی مل
جائے گا "
" ہاں ہاں کیوں نہیں " میں اُسے آفس میں لے آیا اور اپنے ملاز م جاوید سے کہا اِس پانی پلاؤ اور اِیک جوس لاؤ ۔
جاوید نے ڈسپنسر سے پانی پلایا اور جوس لینے چلا گیا ۔
" ہاں ہاں کیوں نہیں " میں اُسے آفس میں لے آیا اور اپنے ملاز م جاوید سے کہا اِس پانی پلاؤ اور اِیک جوس لاؤ ۔
جاوید نے ڈسپنسر سے پانی پلایا اور جوس لینے چلا گیا ۔
"ہاں
منے میاں اَب بتاؤ کہاں جانا ہے ، یہ بلو ایریا ہے ؟" میں نے پوچھا ، " میرا ملازم
تمھیں چھوڑ آئے گا "
اُس
کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، " کہیں نہیں جانا "
میں حیران ہوا ، سوچا کہیں یہ بچہ گھر سے بھاگ کر تو نہیں آیا ؟
" کیا بات ہے بیٹے پوری بات بتاؤ " میں نے پچکارا
" سر ، پرنسپل نے مجھے سکول سے نکال دیا ہے ، اور کہتا ہے کہ فیس لاؤ تو سکول میں بیٹھنے دوں گا " اُس نے جواب دیا ۔ اُس نے باتوں میں بتایا کہ وہ یتیم ہے سب سے بڑا ہے باقی تین بہنیں ہیں ، ماں لوگوں کے گھروں میں برتن دھوتی ہے ، لیکن اُسے صاف اور اچھے کپڑے پہنا کر سکول بھجواتی ہے ۔
" اچھا یہ بتاؤ کھانا کھایا ہے ؟ " میں نے پوچھا
" نہیں ۔ " اُ س نے جواب دیا ۔
میں حیران ہوا ، سوچا کہیں یہ بچہ گھر سے بھاگ کر تو نہیں آیا ؟
" کیا بات ہے بیٹے پوری بات بتاؤ " میں نے پچکارا
" سر ، پرنسپل نے مجھے سکول سے نکال دیا ہے ، اور کہتا ہے کہ فیس لاؤ تو سکول میں بیٹھنے دوں گا " اُس نے جواب دیا ۔ اُس نے باتوں میں بتایا کہ وہ یتیم ہے سب سے بڑا ہے باقی تین بہنیں ہیں ، ماں لوگوں کے گھروں میں برتن دھوتی ہے ، لیکن اُسے صاف اور اچھے کپڑے پہنا کر سکول بھجواتی ہے ۔
" اچھا یہ بتاؤ کھانا کھایا ہے ؟ " میں نے پوچھا
" نہیں ۔ " اُ س نے جواب دیا ۔
میں
اپنا کھانا ، گھر سے لے کر آتا تھا ، میرے
چند بے تکلف ،" مفتے" دوستوں کو میری عادت معلوم تھی کہ میں دو بجے کے
وقت کھانا کھاتا ہوں ، وہ نہ صرف دھونس جماتے ہوئے کھانا بھی کھاتے اور چائے بھی
پیتے ، جو بھی مجھ سے ملنے کے لئے آتا اُس
کے لئے یہی وقت مناسب ہوتا ۔ لیکن شکایت بھی کرتے ، کہ یار ، تم ہر وقت دال کیوں
کھاتے ہو اور دال کو بھی ڈھونڈھ کے نکالنا پڑتا ہے ، فوج کی عادت نہیں گئی ، آج
دال کی کتنی تاریخ ہے یا تمھارے دالوں کے
کھیت ہیں ۔لیکن بھابی دال اچھی بناتی ہیں ، کبھی اُن کے ہاتھ کا مرغی اور گوشت بھی
کھلاؤ ؟
جواباً میں کہتا ، کہ اتوار کو فیملی کے ساتھ گھر آؤ ، تو سب چیزیں کھلاؤں گا ۔
اب مجھے کیا معلوم کہ ، دوپہر کو کون کون میرے ساتھ کھانا کھائے گا ۔شروع میں بڑی کوفت ہوتی تھی دوستوں کے لئے ہوٹل سے کھانا منگوانا پڑتا تھا اور اچھا خاصا خرچ ہوجاتا ، کیوں کہ تین یا چار سالن منگوانا پڑتے ، بیگم سے پوچھا ، انہوں نے کہا کہ کیا میں اب الگ ہانڈی آپ کے دوستوں کی بناؤں، ہم نے کہا نہیں تم ایسا کرو ، آدھا پاؤ دال کو ایسا پکاؤ کہ وہ تین ٹفن کے ڈبوں میں آجائے ، اُنہیں نے کہا ، مذاق اڑواؤ گے ، خیر ہمارے اصرار پر انہوں نے دال بنائی ۔ اُس شام ہمارے بچوں اور ہم نے وہ دال ندیدوں کی طرح کھائی ، بلکہ آخر میں چمچوں سے پی بھی ، صبح آفس بھی لے گئے ، دوستوں کی تعریف بھی مفت میں سمیٹی کیوں کہ ، گرم گرم بلبلے والے نان نے لطف دوبالا کر دیا اور پھر روزانہ دال آنے لگی ۔
جاوید نے کھانا لگایا تو بچے نے دال دیکھ کر کہا ، " مجھے بھوک نہیں ہے " ۔
میں نے جاوید کو کہا اِس کے لئے چکن لے آئے ۔ وہ ہمارے پڑوس کے ہوٹل سے چکن کا سالن لے آیا ، بچے نے پیٹ بھر کر کھایا ۔دوست کھانا کھا کر چلے گئے ، تو میں نے بچے سے پوچھا ،"کتنی فیس ہے "
"ساڑھے تین سو روپے "اُس نے جواب دیا ۔
میں نے بچے کے اسکول کا ایڈریس معلوم کیا ، اُس کے پرنسپل کا ، اور بچے کو کہا کہ وہ اب سیدھا گھر جائے ، میں کل سکول آکر فیس دے دوں گا ۔ بچے کو جانے کا ویگن کا کرایا دیا اور جاوید کو کہا کہ اِس آفس کے سامنے سے گذرنے والی ، پیر ودھائی کی ویگن میں بٹھا دے ۔
جاوید نے واپس آکر پوچھا ، " سر یہ کون تھا ؟"
" تھا ایک غریب بچہ" میں نے جواب دیا ۔
جواباً میں کہتا ، کہ اتوار کو فیملی کے ساتھ گھر آؤ ، تو سب چیزیں کھلاؤں گا ۔
اب مجھے کیا معلوم کہ ، دوپہر کو کون کون میرے ساتھ کھانا کھائے گا ۔شروع میں بڑی کوفت ہوتی تھی دوستوں کے لئے ہوٹل سے کھانا منگوانا پڑتا تھا اور اچھا خاصا خرچ ہوجاتا ، کیوں کہ تین یا چار سالن منگوانا پڑتے ، بیگم سے پوچھا ، انہوں نے کہا کہ کیا میں اب الگ ہانڈی آپ کے دوستوں کی بناؤں، ہم نے کہا نہیں تم ایسا کرو ، آدھا پاؤ دال کو ایسا پکاؤ کہ وہ تین ٹفن کے ڈبوں میں آجائے ، اُنہیں نے کہا ، مذاق اڑواؤ گے ، خیر ہمارے اصرار پر انہوں نے دال بنائی ۔ اُس شام ہمارے بچوں اور ہم نے وہ دال ندیدوں کی طرح کھائی ، بلکہ آخر میں چمچوں سے پی بھی ، صبح آفس بھی لے گئے ، دوستوں کی تعریف بھی مفت میں سمیٹی کیوں کہ ، گرم گرم بلبلے والے نان نے لطف دوبالا کر دیا اور پھر روزانہ دال آنے لگی ۔
جاوید نے کھانا لگایا تو بچے نے دال دیکھ کر کہا ، " مجھے بھوک نہیں ہے " ۔
میں نے جاوید کو کہا اِس کے لئے چکن لے آئے ۔ وہ ہمارے پڑوس کے ہوٹل سے چکن کا سالن لے آیا ، بچے نے پیٹ بھر کر کھایا ۔دوست کھانا کھا کر چلے گئے ، تو میں نے بچے سے پوچھا ،"کتنی فیس ہے "
"ساڑھے تین سو روپے "اُس نے جواب دیا ۔
میں نے بچے کے اسکول کا ایڈریس معلوم کیا ، اُس کے پرنسپل کا ، اور بچے کو کہا کہ وہ اب سیدھا گھر جائے ، میں کل سکول آکر فیس دے دوں گا ۔ بچے کو جانے کا ویگن کا کرایا دیا اور جاوید کو کہا کہ اِس آفس کے سامنے سے گذرنے والی ، پیر ودھائی کی ویگن میں بٹھا دے ۔
جاوید نے واپس آکر پوچھا ، " سر یہ کون تھا ؟"
" تھا ایک غریب بچہ" میں نے جواب دیا ۔
دوسرے
دن میں آفس آنے کے بجائے ، پیر ودھائی بچے
کے بتائے ہوئے سکول ٹھیک بتائے ہوئے وقت پر پہنچا ۔ کہ اگر وقت پر نہیں پہنچا کہ اُس بچے کو
مایوسی نہ ہو کہ میں نے اُسے ٹرخا دیا ۔
وہ سکو ل پانچویں کلاس کی پانچ لڑکیوں کا دوکمروں پر مشتمل تھا ، اُس کی پرنسپل ایک خاتون تھی اور ا"س کا شوہر کہیں ملازم تھا ، اُس نے بتایا کہ اُس کے پاس لڑکے نہیں پڑھتے اور نہ ہی وہ کسی عرفان نامی ، گیارہ سالہ بچے کو جانتی ہے ، مزید معلومات دیں ، کہ آپ جیسے یہاں بہت لوگ آتے ہیں اور مختلف بچوں کا نام لے کر پوچھتے ہیں کہ وہ کیا آپ کے پاس پڑھتا ہے ؟
میں نے اُس سے لڑکوں کے سکول کے بارے میں پوچھا ، اُس نے ایک پرائیویٹ سکول کا بتا یا وہاں گیا ، وہاں بھی یہی صورت حال تھی ، پرنسپل کا نام وہ نہیں تھا جو بچے نے بتایا ، عرفان نامی چھ بچے اُس سکول میں تھے لیکن ، وہ عرفان نہیں تھا ۔ پرنسپل نے میرے اصرار پر گیارہ سال تک کےسارے بچوں کو جمع کیا ۔ لیکن وہ بچہ اُن میں بھی نہیں تھا اور سارے بچے سکول آئے تھے ۔
پرنسپل نے کہا ، " سر یہاں بہت سے بچے فیس نہیں دے سکتے لیکن ہم اُنہیں نکالتے نہیں " ۔
میں نے پانچ سو روپے ، پرنسپل کو دئے اور اُس سے رسید لے کر واپس آگیا ۔ آفس میں میرے اَسسٹنٹ مینیجر نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے سارا واقع بتایا ۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا ، " سر کل جاوید نے مجھے کہا تھا کہ یہ لڑکا فراڈ لگتا ہے " ۔
میں نے کہا ، " نہیں بھئی وہ چھوٹا بچہ تھا شاید پہلی دفعہ اِس طرح گھر سے نکلا ہو ، غلط ایڈریس بتا دیا ہو، اگر وہ دوبارہ آئے ، تو اُس کے ساتھ سکول چلے جانا اور پرنسپل کو فیس دے دینا "۔ لیکن وہ بچہ نہیں آیا ۔
یہ تصویر دیکھ کر مجھے یہ وقعہ یاد آگیا ۔
وہ سکو ل پانچویں کلاس کی پانچ لڑکیوں کا دوکمروں پر مشتمل تھا ، اُس کی پرنسپل ایک خاتون تھی اور ا"س کا شوہر کہیں ملازم تھا ، اُس نے بتایا کہ اُس کے پاس لڑکے نہیں پڑھتے اور نہ ہی وہ کسی عرفان نامی ، گیارہ سالہ بچے کو جانتی ہے ، مزید معلومات دیں ، کہ آپ جیسے یہاں بہت لوگ آتے ہیں اور مختلف بچوں کا نام لے کر پوچھتے ہیں کہ وہ کیا آپ کے پاس پڑھتا ہے ؟
میں نے اُس سے لڑکوں کے سکول کے بارے میں پوچھا ، اُس نے ایک پرائیویٹ سکول کا بتا یا وہاں گیا ، وہاں بھی یہی صورت حال تھی ، پرنسپل کا نام وہ نہیں تھا جو بچے نے بتایا ، عرفان نامی چھ بچے اُس سکول میں تھے لیکن ، وہ عرفان نہیں تھا ۔ پرنسپل نے میرے اصرار پر گیارہ سال تک کےسارے بچوں کو جمع کیا ۔ لیکن وہ بچہ اُن میں بھی نہیں تھا اور سارے بچے سکول آئے تھے ۔
پرنسپل نے کہا ، " سر یہاں بہت سے بچے فیس نہیں دے سکتے لیکن ہم اُنہیں نکالتے نہیں " ۔
میں نے پانچ سو روپے ، پرنسپل کو دئے اور اُس سے رسید لے کر واپس آگیا ۔ آفس میں میرے اَسسٹنٹ مینیجر نے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے سارا واقع بتایا ۔ وہ ہنسا اور کہنے لگا ، " سر کل جاوید نے مجھے کہا تھا کہ یہ لڑکا فراڈ لگتا ہے " ۔
میں نے کہا ، " نہیں بھئی وہ چھوٹا بچہ تھا شاید پہلی دفعہ اِس طرح گھر سے نکلا ہو ، غلط ایڈریس بتا دیا ہو، اگر وہ دوبارہ آئے ، تو اُس کے ساتھ سکول چلے جانا اور پرنسپل کو فیس دے دینا "۔ لیکن وہ بچہ نہیں آیا ۔
یہ تصویر دیکھ کر مجھے یہ وقعہ یاد آگیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں