یوم الخمیس (جمعرات ) اور یوم الجمعہ کی درمیانی شب درمیانی شب کا یعنی 19 جون 2014 کا ذکر
ہے ، کہ ہم چار بچپن کے دوست موبائل پر کانفرنس کال کر رہے تھے ، جو
عموماً ساڑھے دس بجے سےشروع ہو کر دو بجے اور بعض دفعہ ، اذان الفجر تک
جاتی تھی ۔ اور یہ گذشتہ ساڑھےتین ماہ سے مسلسل روزانہ کامعمول تھا -
شروع میں تو بچپن کے تمام واقعات ، شرارتوں کا ذکر ہوا ، پھر میرپورخاص و سندھ کے سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، واقعات پر تبصرے ہوتے ، سیاسی واقعات سے میری دلچسپی نہیں ، لہذا ایک اور دوست کو لیا جاتا ۔ جن کا نام محمد شفیع خان ہے ۔ جب سب چیزوں پر گفتگو ختم ہوئی تو ، اپنے اپنے بچوں ، ان کے بچوں سے گذرتے ہوئے ، دینی اور مذہبی اور دیگر واقعات شروع ہوئے ۔
پھر مجھے خیال آیا کہ کچھ ترتیب ہونا چاہئیے ۔ تو دوستوں کی مشاورت سے ۔ تین دن بصیرت ، ایک دن سیاست ، ایک دن گپ شپ ، ایک دن کھینچاتانی اور ایک دن شفیع کی سیاسی لنترانیاں ۔
شروع میں تو بچپن کے تمام واقعات ، شرارتوں کا ذکر ہوا ، پھر میرپورخاص و سندھ کے سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، واقعات پر تبصرے ہوتے ، سیاسی واقعات سے میری دلچسپی نہیں ، لہذا ایک اور دوست کو لیا جاتا ۔ جن کا نام محمد شفیع خان ہے ۔ جب سب چیزوں پر گفتگو ختم ہوئی تو ، اپنے اپنے بچوں ، ان کے بچوں سے گذرتے ہوئے ، دینی اور مذہبی اور دیگر واقعات شروع ہوئے ۔
پھر مجھے خیال آیا کہ کچھ ترتیب ہونا چاہئیے ۔ تو دوستوں کی مشاورت سے ۔ تین دن بصیرت ، ایک دن سیاست ، ایک دن گپ شپ ، ایک دن کھینچاتانی اور ایک دن شفیع کی سیاسی لنترانیاں ۔
میری
پیدائش ایک سو فیصد دینی گھرانے میں ہوئی ، زندگی کی پیاری اور سکون بھری
راہوں پر چلتے ، مختلف مذہبی علوم و مذاہب کی مطالعہ کرتے ہمارا ٹکراؤ
1991 میں کوئٹہ میں غلام احمد پرویز کی کتب سے ایک ہماری ہی طرح حق کی
تلاش میں سرگرداں ، عبدالواحد خان (ہمارے کلاس فیلو) نے کروایا، دماغ بھک
سے اُڑ گیا ، دین میں سوچنا تو کفر کی طرف لے جاتا ہے ، یہی ہمیں بچپن سے
سکھایا گیا تھا ، چنانچہ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں کی
مانند ، ابنِ صفی کے ناولوں کی طرح اُن کی ساری کتابیں پڑیں ، ذہن کھلنا
شروع ہوا ۔
پھر 1993 میں خپلو کے ایک بزرگ نے ایک نئی سوچ دی ، چنانچہ ، اپنا رشتہ کُلی طور پر "الکتاب اور کتاب اللہ " (آفاقی سچائیاں ) سے جوڑ دیا ، بہت نشیب و فراز آئے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے دونوں سے رابطہ برقرار رہا اور اب بھی ہے ۔
پھر 1993 میں خپلو کے ایک بزرگ نے ایک نئی سوچ دی ، چنانچہ ، اپنا رشتہ کُلی طور پر "الکتاب اور کتاب اللہ " (آفاقی سچائیاں ) سے جوڑ دیا ، بہت نشیب و فراز آئے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے دونوں سے رابطہ برقرار رہا اور اب بھی ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تو ذکر ہورہا تھا ، 19 جون 2014 کی بحث کا ، بحث نے یک دم سیریس رخ اختیار کیا ، کیوں کہ شہریار کورائی نے کچھ ایسی بات کی جس کو
عقل رد نہیں کر سکتی تھی ،اور میں نے تسلیم کیا کہ شہریار کا فہم درست ہے ، شہریار ،
بشیر احمد بلوچ کا سالا ، سلیم آزاد حسب معمول خاموش تماشائی کی مانند یہ
میچ سن رہا تھا اور
بشیر احمد بلوچ پھٹ پڑا :
"نعیم ، میں تمھیں بچپن سے نہیں جانتا ، کیا تم اپنی بات ، کبھی ہاں سے شروع کر سکتے ہو؟ ہر وقت نہیں کی گردان لگائے رکھتے ہو ! تم پرویزی ہو ، منکرینِ حدیث ہو ، تمھاری بات سننا اپنے دماغ کو مصیبت میں مبتلاء کرنا ہے - تم نے شہریار کی حمایت کیوں کی ؟ وغیرہ وغیرہ "
میں نے ، جلتے توے پر پانی ڈالنے کی کوشش کی،
سب نے ایک دوسرے کو اللہ حافظ اور گفتگو بند ہوگئی ۔ گفتگو بند کرنے کے بعد اچانک مجھے خیال آیا ، کہ یہ بشیر صاحب نے اچانک ، " گلو بٹ " کا رویہ کیوں اختیار کیا ؟
گھڑی دیکھی ، سوا بارہ بج چکے تھے ، خیر لیپ ٹاپ پر اپنے حسبِ معمول اپنے "الکتاب" کے کام میں جٹ گئے ۔
جونہی نیند نے غلبہ پایا ہم نے لیپ ٹاپ کو ایک طرف دھکا دیا اور
میں مسجد حرام میں اپنی مخصوص جگہ پر ، باب عبدالعزیز کے سامنے ، بیٹھا ہوں ، سارا حرم خالی ہے ، اچانک ہوا چلنا شروع ہوتی ہے ، اور اُس کے ساتھ سوکھے پتے اور دیگر اُڑ کر آنا شروع ہوجاتے ہیں ، لیکن مجھ سے کچھ دور ہی رہتے ہیں ، میں اِس ڈر سے کہیں یہ میرے پاس سجدے کی جگہ پر نہ آئیں اپنے دائیں جانب پڑی ہوئی ایک لمبی ٹہنی اٹھا کر اپنے سامنے رکھ دیتا ہوں ، تھوڑی دیر بعد حرم انسانوں سے بھرنے لگا وہ سب سوکھے پتوں پر ہی بیٹھ رہے تھے " ۔
اذان فجر سے پہلے ، مسجد سے لاؤڈ سپیکر پر سلام پڑھنے سے آنک کھل گئی ۔ یہ خواب کیوں آیا ؟
میں نے سوچا ، میری فہم کے مطابق ، خواب ہر انسان دیکھتا ہے اُس کا پچھلے دن کا پچھلے دنوں میں ہونے والے واقعات سے گہرا تعلق ہوتا ہے ، جو مستقبل کی وارننگ یا بشارت بنتا ہے ۔ اور اِس کا کُلّی تعلق خواب دیکھنے والے سے ہوتا ہے ۔
خیر باقی معمولات کے بعد پھر سو گیا ۔ دس بجے آنکھ کھلی ، پھر خواب یاد آیا اور ایک عزم کے ساتھ اُٹھا ، وضو کیا اور لیپ ٹاپ آن کر لیا ، جو پہلی آیت ذہن میں تحت الشعور سے شعور میں آئی وہ یہ تھی ۔
"نعیم ، میں تمھیں بچپن سے نہیں جانتا ، کیا تم اپنی بات ، کبھی ہاں سے شروع کر سکتے ہو؟ ہر وقت نہیں کی گردان لگائے رکھتے ہو ! تم پرویزی ہو ، منکرینِ حدیث ہو ، تمھاری بات سننا اپنے دماغ کو مصیبت میں مبتلاء کرنا ہے - تم نے شہریار کی حمایت کیوں کی ؟ وغیرہ وغیرہ "
میں نے ، جلتے توے پر پانی ڈالنے کی کوشش کی،
"کہ بھائی انکار الحدیث میرے نزدیک کفر ہے "
مگر
چھن چھن کی آواز کے بعد چپ ہوگیا، اب دھاڑتے شیر کو کون چپ کروائے ،؟
" تم ۔ حدیثوں کا مانتے ہو ؟ قسم کھاؤ !"
میں بولا:
"یار تم نے میری بات غور سے نہیں سنی میں نے عرض کیا ہے نا ،کہ انکار الحدیث میرے نزدیک کفر ہے "
چنانچہ آزاد نے مائیک سنبھالا ، "یارو! رات کافی ہوگئی ہے ، لہذا
اجازت ، "سب نے ایک دوسرے کو اللہ حافظ اور گفتگو بند ہوگئی ۔ گفتگو بند کرنے کے بعد اچانک مجھے خیال آیا ، کہ یہ بشیر صاحب نے اچانک ، " گلو بٹ " کا رویہ کیوں اختیار کیا ؟
گھڑی دیکھی ، سوا بارہ بج چکے تھے ، خیر لیپ ٹاپ پر اپنے حسبِ معمول اپنے "الکتاب" کے کام میں جٹ گئے ۔
جونہی نیند نے غلبہ پایا ہم نے لیپ ٹاپ کو ایک طرف دھکا دیا اور
اللَّـهُ لَا إِلَـٰهَ
إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ﴿3:2﴾
جومیرے دورانِ سروس دورِ سیاچین میں ملنے والا وظیفہ ہے ، پڑھتے
پڑھتے ، نیند کی وادیوں میں گم ہوگئے ۔یہ میرا کئی سالوں سے معمول ہے ،
کیا معلوم صبح آنکھ نہ کھلے ، فجر سے پہلے میں نے خواب دیکھا کہ ۔میں مسجد حرام میں اپنی مخصوص جگہ پر ، باب عبدالعزیز کے سامنے ، بیٹھا ہوں ، سارا حرم خالی ہے ، اچانک ہوا چلنا شروع ہوتی ہے ، اور اُس کے ساتھ سوکھے پتے اور دیگر اُڑ کر آنا شروع ہوجاتے ہیں ، لیکن مجھ سے کچھ دور ہی رہتے ہیں ، میں اِس ڈر سے کہیں یہ میرے پاس سجدے کی جگہ پر نہ آئیں اپنے دائیں جانب پڑی ہوئی ایک لمبی ٹہنی اٹھا کر اپنے سامنے رکھ دیتا ہوں ، تھوڑی دیر بعد حرم انسانوں سے بھرنے لگا وہ سب سوکھے پتوں پر ہی بیٹھ رہے تھے " ۔
اذان فجر سے پہلے ، مسجد سے لاؤڈ سپیکر پر سلام پڑھنے سے آنک کھل گئی ۔ یہ خواب کیوں آیا ؟
میں نے سوچا ، میری فہم کے مطابق ، خواب ہر انسان دیکھتا ہے اُس کا پچھلے دن کا پچھلے دنوں میں ہونے والے واقعات سے گہرا تعلق ہوتا ہے ، جو مستقبل کی وارننگ یا بشارت بنتا ہے ۔ اور اِس کا کُلّی تعلق خواب دیکھنے والے سے ہوتا ہے ۔
خیر باقی معمولات کے بعد پھر سو گیا ۔ دس بجے آنکھ کھلی ، پھر خواب یاد آیا اور ایک عزم کے ساتھ اُٹھا ، وضو کیا اور لیپ ٹاپ آن کر لیا ، جو پہلی آیت ذہن میں تحت الشعور سے شعور میں آئی وہ یہ تھی ۔
النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ
وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ
وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّـهِ مِنَ
الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم
مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ
مَسْطُورًا ﴿33:6﴾
میرا ارمان ہے ،
محمدﷺ نے اللہ کی طرف سے بذریعہ روح القدّس ، بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک نازل ہونے والی الکتاب ، اللہ کے منتخب حفّاظ کو حفظ کروا ئی جو اِس وقت لاکھوں حفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہے اور ناقابلِ تبدیل ہے ۔
منکر، منکرین ِ حدیث ، قادیانی ، کافر ، دین سے دور ، مرتد کی آوازیں ، جو میرے دوستوں نے مجھ پر بلند کیں ، میرے اِس اعلان و عزم کے باوجود "کہ انکار الحدیث میرے نزدیک کفر ہے "
میرے لئے تکلیف دہ تو تھیں ، لیکن ایک سکون تھا ، کہ دل کے حالات کی خبر تو اللہ کو ہے، انسانوں کو کیا معلوم اور میں نے یا دیگر انسانوں نے اپنا امتحان انسانوں کو تو نہیں دینا ۔
محمدﷺ نے اللہ کی طرف سے بذریعہ روح القدّس ، بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ سے مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ تک نازل ہونے والی الکتاب ، اللہ کے منتخب حفّاظ کو حفظ کروا ئی جو اِس وقت لاکھوں حفّاظ کے سینوں میں محفوظ ہے اور ناقابلِ تبدیل ہے ۔
منکر، منکرین ِ حدیث ، قادیانی ، کافر ، دین سے دور ، مرتد کی آوازیں ، جو میرے دوستوں نے مجھ پر بلند کیں ، میرے اِس اعلان و عزم کے باوجود "کہ انکار الحدیث میرے نزدیک کفر ہے "
میرے لئے تکلیف دہ تو تھیں ، لیکن ایک سکون تھا ، کہ دل کے حالات کی خبر تو اللہ کو ہے، انسانوں کو کیا معلوم اور میں نے یا دیگر انسانوں نے اپنا امتحان انسانوں کو تو نہیں دینا ۔
وَأَشْرَقَتِ
الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ
وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿39:69﴾
اگلے
دن یعنی یوم الجمعہ یوم اور السبت (ہفتہ ) کو گیارہ بجے موبائل اٹھا
یا اور سلیم آزاد کا نمبر ملایا، سلام دعا کے بعد شہریار کا نمبر ملایا اور
پھر بشیر صاحب کا نمبر ملایا ۔
" السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، نعیم صاحب " بشیر صاحب کی آواز آئی ۔
وعلیکم السلام رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بشیر بھائی ،ایک منکرِ حدیث کا آداب بھی قبول ہو "ہم نے رسانیت سے جواب دیا ۔
چاروں کا ایک قہقہہ بلند ہوا ، بشیر صاحب نے معذرت کی لیکن اپنی ہٹ پر قائم رہا!
تب شہریار نے بشیر صاحب سے پوچھا ، " بشیر بھائی آپ کا موبائل اگر گم ہوجائے اور کسی کو مل جائے وہ اِسے کھول کر دیکھے ، تو وہ آپ کو کیا سمجھے گا ؟"
بشیر صاحب سٹ پٹا گئے ، بولے ،
" یاں یار ، میرے موبائل میں ، پرویز صاحب کے سارے درس ہیں ، لیکن دوسرے بھی ہیں " انہوں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا ۔
پھر پوچھا ،
" کہ اگر وہ آپ کے گھر آئے اور آپ کی کتابوں کی لائبریری دیکھے تو ، کیا وہ آپ کو پرویزی نہیں سمجھے گا ؟"
" السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ، نعیم صاحب " بشیر صاحب کی آواز آئی ۔
وعلیکم السلام رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بشیر بھائی ،ایک منکرِ حدیث کا آداب بھی قبول ہو "ہم نے رسانیت سے جواب دیا ۔
چاروں کا ایک قہقہہ بلند ہوا ، بشیر صاحب نے معذرت کی لیکن اپنی ہٹ پر قائم رہا!
تب شہریار نے بشیر صاحب سے پوچھا ، " بشیر بھائی آپ کا موبائل اگر گم ہوجائے اور کسی کو مل جائے وہ اِسے کھول کر دیکھے ، تو وہ آپ کو کیا سمجھے گا ؟"
بشیر صاحب سٹ پٹا گئے ، بولے ،
" یاں یار ، میرے موبائل میں ، پرویز صاحب کے سارے درس ہیں ، لیکن دوسرے بھی ہیں " انہوں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا ۔
پھر پوچھا ،
" کہ اگر وہ آپ کے گھر آئے اور آپ کی کتابوں کی لائبریری دیکھے تو ، کیا وہ آپ کو پرویزی نہیں سمجھے گا ؟"
" ہاں یار بالکل سمجھے گا۔لیکن نعیم صاحب حدیثوں کو نہیں مانتے ، میرا یہی جھگڑا ہے "۔ بشیر صاحب نے قبولتے ہوئے عذر پیش کیا ۔
" بشیر بھائی نعیم صاحب نے ڈاکٹر منظور ( پرویزی سوچ۔حیدرآباد میں مقیم ) کو کیا ایک آیت سے ناک آؤٹ نہیں کیا ؟" شہریار نے اُنہیں یاد دلایا ۔
" ہاں ایسا ہی ہے " بشیر صاحب دبی آواز میں بولے۔
یہ سننا تھا کہ اب ہم شیر ہو گئے ،
" یار بشیر بھائی ، 1994 سے ہم نے پرویز صاحب کی تمام کتابیں ، سوائے لُغات القرآن سُتلیوں سے باندھ کر الماری بُرد کر دیں ہیں ،اور وہ بھی کافی عرصہ سے الماری میں سَستا رہی ہے ، اِس کے باوجود ہم پر الزامِ بے وفائی ہے اگر ہم بے وفا ہیں ،تو آپ مستند ہرجائی ہیں "
میں نے بشیر بھائی کو بغلیں جھانکتے تو نہیں دیکھا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ اُنہوں نے ضرور جھانکی ہوں گی ،
شہر یار بولا ،
" یار نعیم صاحب ، میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں ، کہ جس نے بھی پرویز کو پڑھا ، اُس کی دماغ کی گرھیں کھل گئے اور جس کی گرھیں کھلیں ، تو وہ صاحب کتاب ضرور بنا "
" تو نوجوان :لکھ دو ایک کتاب ، بھیئو صاحب کی طرح ، کیوں کہ پرویزی سلفِ صالحین پر چلتے ہوئے ، صاحبِ کُتُب ضرور بنتے ہیں !"
" یار میرا بھی بہت ارادہ ہے ، کہ میں بھی ایک کتاب لکھوں ، لیکن مجھ میں لکھنے کی صلاحیت نہیں " بشیر بھائی بولے
" بشیر بھائی نعیم صاحب نے ڈاکٹر منظور ( پرویزی سوچ۔حیدرآباد میں مقیم ) کو کیا ایک آیت سے ناک آؤٹ نہیں کیا ؟" شہریار نے اُنہیں یاد دلایا ۔
" ہاں ایسا ہی ہے " بشیر صاحب دبی آواز میں بولے۔
یہ سننا تھا کہ اب ہم شیر ہو گئے ،
" یار بشیر بھائی ، 1994 سے ہم نے پرویز صاحب کی تمام کتابیں ، سوائے لُغات القرآن سُتلیوں سے باندھ کر الماری بُرد کر دیں ہیں ،اور وہ بھی کافی عرصہ سے الماری میں سَستا رہی ہے ، اِس کے باوجود ہم پر الزامِ بے وفائی ہے اگر ہم بے وفا ہیں ،تو آپ مستند ہرجائی ہیں "
میں نے بشیر بھائی کو بغلیں جھانکتے تو نہیں دیکھا ، لیکن مجھے یقین ہے کہ اُنہوں نے ضرور جھانکی ہوں گی ،
شہر یار بولا ،
" یار نعیم صاحب ، میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں ، کہ جس نے بھی پرویز کو پڑھا ، اُس کی دماغ کی گرھیں کھل گئے اور جس کی گرھیں کھلیں ، تو وہ صاحب کتاب ضرور بنا "
" تو نوجوان :لکھ دو ایک کتاب ، بھیئو صاحب کی طرح ، کیوں کہ پرویزی سلفِ صالحین پر چلتے ہوئے ، صاحبِ کُتُب ضرور بنتے ہیں !"
" یار میرا بھی بہت ارادہ ہے ، کہ میں بھی ایک کتاب لکھوں ، لیکن مجھ میں لکھنے کی صلاحیت نہیں " بشیر بھائی بولے
" یار نعیم صاحب آپ لکھیں میں نے آپ کی تحریریں پڑھی ہیں ، آپ لکھ سکتے ہیں " شہریار بولا ،
" شہر یار بھائی ، اِس وقت کم از کم ساٹھ سے ڈیڑھ سو صفحات کی چالیس کتابیں بشمول ،
"آفاقی سچائیاں ، الکتاب اور علم الکتاب"
" شہر یار بھائی ، اِس وقت کم از کم ساٹھ سے ڈیڑھ سو صفحات کی چالیس کتابیں بشمول ،
"آفاقی سچائیاں ، الکتاب اور علم الکتاب"
(جو ، اب يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ کے نام سے میرے بلاگ ) ہمارے لیپ ٹاپ اور دو ہارڈ ڈسک میں محفوظ ہیں ، لیکن چھپوانے کی کوئی خواہش نہیں " میں نے جواب دیا ۔
" لیکن گذشتہ رات ہم نے ایک خواب دیکھا ہے ، اُس کے مطابق جھاڑ جھنکار اور پتے اپنی طرف آنے سے روکوں گا " اور اُنہیں خواب سنایا ۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
باقی مضامین پڑھنے کے لئے :
٭٭٭٭٭واپس ٭٭٭٭٭٭
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں