Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 4 جون، 2014

شملہ مرچ - مذکر یا مونث



الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْ‌ضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا
 وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَ‌جْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّن نَّبَاتٍ شَتَّىٰ ﴿طه: 53




"شملہ مرچ " سے ہماری واقفیت بہت پرانی ہے ، جب ہم اِسے قیمے  کو خراب کرنے کا سب سے اہم جزو سمجھتے تھے ،   بلکہ شملہ مرچ تو کیا آلو ، گوبھی اور پالک کے علاوہ کسی بھی سبزی کی شراکت ہمیں قیمے کے ساتھ گوارا نہ تھی ، یوں سمجھیں کہ باقی سبزیاں  قیمے کی ہماری نظروں سے گرانے کے لئے ڈالی جاتیں ، تو اُس وقت ہم منھ بسورتے  اور بمشکل قیمے کو  چن چن کر الگ کرتے  اور کھاتے یا پھر ، اَمرت دھارا  تناول کرتے ، یعنی "گھی چینی اور روٹی " ۔

شادی کے بعد تو  ، یوں سمجھیں کہ" شملہ مرچ اور بینگن " ہماری بیگم جہیز میں لائیں ، اس کے علاوہ ، کدو ، ٹینڈے ، لوکی ، چھوٹی لوکی ، بڑی لوکی ، منجھلی لوکی ، صاف لوکی ، کھردری لوکی ، بلکہ یوں سمجھیں کہ  ، اِن  سب کو ہم کدو کی  ہی ذریت میں شمار کرتے ، انہوں نے نہ صرف ، آلوؤں کا گوشت سے رشتہ توڑا ، بلکہ قیمے  کو بھی اتنا خوار کیا کہ ہمیں قیمے سے اُنسیت ہوگئی ، یا یوں سمجھیں کہ" بدو کے اِن اونٹوں " ہم مجبورا پسند کرنے لگے ،  اُس وقت ہماری شکل دیدنی ہوتی جب ہم آفس سے تھکے ماندے جہلم کی جُھلسا دینے والی گرمی میں باہر سے آتے  ، غسل کرنے کے بعد جب واش روم سے نکلتے اور ڈائینگ ٹیبل کی طرف بڑھتے ، تو بیگم ہماری پہلی بیٹی کو  ہماری گود میں دیتے ہوئے  کہتیں ، کہ آج ایسا بہتری کھانا بنایا ہے کہ ، آپ انگلیاں چاٹتے رہ جائیں گے ، تو آپ اندازا کر سکتے ہیں کہ  کہ ہماری کیا حالت ہوتی ،

"ہاں ، آج گوشت کا کس کے ساتھ رشتہ لگایا ہے  ؟" ہم ڈرتے ہوئے پوچھتے –
" بس آپ بوجھیں  تو جانوں؟ " وہ باورچی خانے سے ہمیں کسوٹی کھیلنے پر اُکساتیں ۔
" کسی کدو کے چشم و چراغ سے  ، پیوند لگایا ہو گا " ہم کہتے  ۔
" آج خود کدو مہاراج ہیں " وہ جواباً تفنن کے تیر پھینکتیں ۔
" بیگم ، کدو کو مہاراج کہو یا شہنشاہ  ، لیکن گوشت کی ذات سب سے اونچی ہی رہے گی  اور کدو پک کر کدو ہی کہلائے گا ، متنجن نہیں بن سکتا " ۔ 
ہمارے  طنز کے جواب میں وہ ، کدو مہاراج کو گوشت کے جلو میں ، شیشے کی ڈونگے میں میز پر رکھتے ہوئے کہتیں ،
" آپ کھا کر دیکھیں  اور پھر بتائیں "

قارئین ،   ساڑھے بائیس سالہ   ، بیگم سے آپ پنگا نہیں لے سکتے اور ان دونوں میس سے کھانا ،کھانا تو ناممکن تھا ، جہاں  گوشت کو نہ صرف ، کدو فیملی کے ساتھ خوار کیا جاتا ، اور بعض دفعہ اِن کی کمیابی و گرانی کی وجہ  گاجروں کی رتھ پر سوار کروایا جاتا  نوجوان و بوڑھے  غیر شادی شدہ ، آملیٹ سے اپنے غصے کی آگ بجھاتے جو اُن کے پیٹ میں بھڑک رہی ہوتی ۔

نتیجتاً ، تعریف  تو کرنا  ہوتی  اور یوں ہزار کوشش کی جاتی کہ مینو کےقید خانے کے زنداں میں کدو کو ایک دن کے لئے ڈالا جائے ،   لیکن ممکن نہیں تھا کیوں کہ ہم نے اپنے پیر پر خود کلہاڑی ماری تھی اور وہی حرکت ہم سے سرزد ہوئی تھی جو ہمارے والد محترم ، کیا کرتے ،  کدو  خاندان کے  صرف چند بیج ، خالی زمین میں ڈالتے اور اُس کے بعد پورے گھر  میں درختوں پر اپنے پیلے اور سفید پھولوں سے  پبلسٹی کرنے کے بعد ، دیوار پر ، توری ، درخت پر لوکی ، زمین پر کدو  اور فضا میں ٹینڈے ۔ ہمارے گھر سے ، مفت میں نکلنے والی سوغات ِ کدواں ، پڑوسیوں کو بھیجی جاتی اور وہاں سے اُس سے دگنی  مقدار میں ، کدو کی ہم قبیل دیگر ، سبزہ جات و گھاس پات ہمیں  ترسیل کیا جاتا ،  نہ معلوم یہ  جہلم کی مٹی کا اثر تھا یا بنگالیوں کی طرح کدوؤں کا تخمی  ریزی کا کہ جہلم کے ہر گھر میں کدوؤں کا بلاشرکت غیرے قبضہ تھا ۔

جب ہمارے بچوں کی طرف سے ، کدوؤں بلکہ ہر سبزی کے خلاف علم بغاوت بلند ہوا ، تو اس کی لیڈری ہم نے سنبھال لی  اور یوں بلامبالغہ تیس سال تک ، ہم  اور ہمارے بچے صرف مسلمان رہے  اور بطور مسلمان گوشت پر گذارا کرتے رہے، سبزیوں میں پالک ، گوبھی و آلو کو اجازت تھی  ،جب سسرال جاتے بیگم ، کدو فیملی کے ساتھ ، آلو بھی ڈلواتیں ، تاکہ ہم بھی ، لذتِ کام و دھن سے اور سسرالی میزبانی سے لطف اندوز  ہوسکیں ،   وقت گذرتا رہا  بچے شادی ہو کر اپنے گھروں کے ہوگئے ، آج بدھ کا دن تھا  بیگم نے  درس دینے کے لئے اپنی سہیلی کے ہاں جانا تھا ۔

کار میں بیٹھے پوچھا ، "کب واپسی ہوگی" ۔
 بولیں، " ایک بجے ہمیں لے لینا  ، ساتھ کھانا کھائیں گے "۔

انہیں معلوم تھا کہ ، آج ہم دوست گردی کے لئے نکلے ہیں تو شام کو ہی آئیں گے ۔
ہم پوچھا، " خیر تو ہے ، آج سہیلیوں  کے ساتھ کھانا نہیں کھانا ؟ "
کہنے لگیں ، " نہیں طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ  ٹھیک ایک بجے آجانا " ۔
" اچھا کیا پکایا ہے ؟ " ہم نے پوچھا ۔
 " آپ بوجھیں  تو جانوں ؟ " انہوں نے کہا ۔

ہمارے ذہن  میں ایک بلبلہ اٹھا ، اُس کی اُوٹ سے ہمیں ساڑھے بائیس سالہ   ، بیگم نظر آئیں ہمارا دل دھک سے رہ گیا ۔
ہمیں یاد آیا ، کہ کل ہسپتال سے واپس آتے ، پی اے ایف کی سبزی مارکیٹ سے کچھ چیز وہ لے کر آئیں تھیں ،  
ساڑھے بارہ بجے اُنہیں فون کیا  ،" میں سیور کے پاس ہوں کہو ، تو  چاول لیتا آؤں "
بولیں ، " نہیں رہنے دیں "۔

ہم ان کی سہیلی کے گھر کے سامنے  ایک بجے پہنچ  گئے ، فون کیا ، "باہر کھڑے ہیں آجاؤ "۔
بولیں ، " مجھے دیر ہوجائے گی ابھی درس چل رہا ہے "۔

ہم نے سوچا کہ ، ڈاکٹر  قمر کے پاس جا کر وقت گذارتے ہیں ، وہاں گئے تو  ایک بج کر بیس منٹ  پر وہ بچے کو لانے کے لئے کھڑے ہوئے ۔
ہم نے بیگم کو فون کیا ، " بھئی اب  تو ڈاکٹر قمر نے بھی ہمیں   باہر نکال دیا  ہے -آپ کو لینے آجاؤں ؟"
بولیں ، " انہوں نے کھانا لگا لیا ہے آپ گھر جائیں ، کھانا کھا لیں اور دو بجے لینے آجانا "
" تم ملاؤں کی ہر جگہ  چاندی ہے  " اور فون بند کردیا ۔

گھر آئے تو ملازم سے کھانا لگوانے کا کہا ، اُس نے کھانا لگایا ،  لوکی اور شملہ مرچ کے ڈھیر میں ، دو آلو جھانک رہے تھے ۔ گوشت کا تڑکا برائے نام تھا ۔ ہمارے دل سے آہ نکلی  اور چپ کر کے کھانا کھایا ، کیوں کہ    ہم پھر چونتیس سال پہلے کھڑے تھے    اور بیگم سے جھگڑا مول نہیں لے سکتے ۔بیگم کو لانے گئے ،

 
انہوں نے کار میں بیٹھتے پوچھا ، " کھانا کیسا تھا ؟"
انہیں رائے دی ، " آئیندہ  لوکی  اور شملہ مرچ مونث کے بجائے مذکر لانا "  ۔
" کیا مطلب  ؟" انہوں نے پوچھا 
"ہمیں آج ایک فیس بک پر پوسٹ آئی ہے ، جس میں ہمیں بتایا گیا ہے ، کہ تین بٹ والی شملہ مرچ مذکر ہوتی ہے اور چار بٹ والی شملہ مرچ  مونث ۔ مذکر کو پکا کر کھایا جاتا ہے اور مؤنث کو کچا "  ہم نے جواب دیا

وہ سمجھیں شاید ہم مذاق کر رہے ہیں  ، شاید آپ بھی مذاق سمجھیں ۔

لیکن کیسا رہا ہمارا فٹبال میچ ؟

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔