Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 1 اپریل، 2018

ملالہ سواتی نہیں پولش ہے !

" Malala’s father told the doctor that Malala’s real name was Jane and she was born in Hungary in 1997. Her real biological parents were Christian missionaries who, after traveling to Swat in 2002, left Malala as a gift to her adopted parents after they secretly converted to Christianity."
(Updated October 10, 2013)
 ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان  میں  جاسوسی کہانیوں میں سب سے زیادہ  نام ابنِ صفی نے کمایا (پیسہ نہیں) ۔ ابنِ صفی کے تخیل کی پرواز  کمال کی تھی ۔  جو  تصوّر  اُس نے پیش کیا وہ سب آج کل کی ہالی وُڈ کی فلموں میں ہم دیکھتے ہیں ۔
بالا کہانی جب   " فیس بُک پر پھیلائی گئی  " تو اُس وقت بھی یہ سنسنی خیز نہیں البتہ مزاحیہ فِکشن کا جھول زدہ ٹکڑا لگتی تھی ، کیوں کہ      مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کی  ایبٹ آباد میں  ڈی این اے     سے شناخت کی کہانی اتنی مقبول ہوئی  کہ  سنسنی پھیلانے والوں نے سب سے پہلے اپنا ڈی این اے ٹیسٹ پاکستان میں کروانے کے بجائے  دوسروں کی کھوج لگانا شروع کردی ۔

پاکستان میں کمبائینڈ میڈکل ہسپتال ، پاکستان کا سب سے بہترین اور جدید ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے ، جہاں 10 فیصد مریضوں کا سائیٹیفک طریقوں پر علاج ہوتا ہے ، اور باقیوں کا عام مروجہ طریقوں سے ۔ جنھیں عمومی بیماریاں ہوتی ہیں ۔ وہاں بھی کوئی ڈاکٹر ایک عام بچی تو کیا کسی جنرل کا ڈی این اے بھی ریکارڈ میں نہیں رکھتا ۔ اب(2018) رکھنا شروع ہوں تو معلوم نہیں ۔ سوات کا یہ ڈاکٹر یقیناً خود سی آئی اے کا ایجنٹ لگتا ہے ، جس نے سوات کے ہر بچے خصوصا لڑکیوں کا ڈی این اے محفوظ کر رکھا ہے ۔ انٹیلیجنس اداروں کو اِس پر توجہ دینا چاہئیے ۔ 
فیس بُک پر پھیلنے والی اِس کہانی کو میں مزاح سمجھا ، لیکن جب یہ مزاح ہوبہو ایک ڈیفنس  بلاگ  میں Malala: The real story (with evidence)  کی ہیڈنگ  میں سیکنڈ لیفٹنٹ  کی طرف سے پوسٹ ماسٹر کے فرائض نبھاتے ہوئے ہو بہو   چھپا  ، لہذا  ایک سابقہ فوجی نے ،اِس پر یقین کامل کرتے ہوئے ، یہ کہانی جنگل کی آگ کی طرح پھیلا دی ، اِس کے باوجود  کہ،   اُس کے لیڈر نے ( ملالہ کے ڈالروں پرنظر رکھتے ہوئے ) وزیر اعظم بننے کے بعد (اگر بنا تو ؟؟؟؟)  ملالہ کو وزیر تعلیم بنانے کے لئے سوات سے ووٹ لینے کے لئے تُّرپ کا پتہ پھینک دیا ہے  ۔
بالا کہانی کیوں کہ انگلش میں ہے ، لہذا ایک بار پھر ، اِس کا ترجمہ " فیس بک " پر اسلامو فاشسٹ  اور ملائی ذہنیت کے نوجوانوں میں ، گالیوں  کی صورت میں مقبولیت کی انتہائی بلند  سطح  کے گراف پر جاچکا ہے ۔
آپ بھی پڑھیں  اور اپنی رائے کا اظہار کریں ۔  (مہاجرزادہ)

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا آپ کو معلوم ہے کہ ملالہ کا اصلی نام کیا ہے ؟
 اس کا تعلق کس ملک سے ہے؟
یقیناًآپ یہ سوال پو چھنے والے کو پاگل سمجھیں گے لیکن حقائق درحقیقت کچھ ایسے ہی ہیں۔ نتائج تو خطرناک ہونگے لیکن چلئے ان حقائق سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
اپریل 2013 ء میں پاکستان کے معتبر اخبار ’ڈان ‘نے اپنے کہنہ مشق تحقیقی صحافیوں کی ایک ٹیم کووادی سوات روانہ کیا تاکہ اس معاملے کی کھوج لگائی جاسکے کہ:
٭۔   ملالہ یوسف زئی پر حملے کے محرکات کیا تھے؟
 ٭- طالبان کو ملالہ سے ایسی کیا نفرت تھی جس کے نتیجے میں ایک چودہ سالہ لڑکی کو براہ راست اس کی کھوپڑی میں گولیاں ماردی گئیں؟

 
  چند افراد پر مشتمل یہ ٹیم کم وبیش پانچ ماہ تک مینگورہ اور سوات میں قیام پذیر رہی اور انہوں نے اپنے اس تحقیقی سفر کے دوران انکشافات سے بھرپور ایسے شواہد اکٹھے کئے جسے سن کریقیناًآپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ 

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 تو قارئین : کھڑے کریں اپنے رونگٹے  ! 
اور پڑھیں :


   " ملالہ کی اصل کہانی" 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔