Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 26 اپریل، 2020

جنگی ہیرو۔ فلائیٹ لیفٹننٹ عبدالستار علوی

 ممکن نہیں کہ پاک فضائیہ کے کسی تقریب میں سینے پر اعزازی علامات کی قطار اور کاندھے پر چمکتے ستاروں کے ساتھ کسی ائیرمارشل کا سامنا اس گندمی رنگ کے دراز قامت بارعب بزرگ سے ہو اور وہ اسے نظرانداز کر جائے۔۔۔بڑے بڑے ائیر چیفس مارشل بھی اسے دراز قامت بزرگ کو سر کہہ کر سلیوٹ کرتے ہیں اور نوجوان ہواباز دوڑ کر لپکتے ہیں وہ کتنوں ہی کا آئیڈیل ہے جب اس کے شاگردوں میں سے کسی کی تعریف ہوتی ہے تو وہ فخر سے کہتا ہے۔

 "سر! آخر ستارین جو ہوا "
یہ ستارین کون ہیں اور یہ "ستار" کون ہے آخر اس دراز قامت بزرگ میں ایسی کیا بات ہے کہ بڑے بڑے ائیر مارشل اسے تعظیم دیتے ہیں یہ اچنبا آپ کو اگر اس عقابی آنکھوں والے جہاندیدہ شخص کے مہمان خانے تک لے جائے تو وہاں ایک فریم میں سجی ہوئی سبز رنگ کا کور ہال آپ کو مزید اچنبھے میں ڈال دے گا،آپ سوچ میں پڑجائیں گے کہ لوگ اپنے مہمان خانوں میں ملنے والے اعزازات ، یادگاریں اور خوبصورت لمحات کے عکس رکھتے ہیں ۔یہ بھلا ڈانگریاں کون ڈرائینگ روم میں لٹکا کررکھتا ہے ؟

اِس ڈانگری (فلائینگ سوٹ ) کی داستان ، اسی بزرگ سے سنیں:۔
یہ لگ بھگ 1973کی بات ہے۔ پاک فضائیہ کے  فلائنگ اسکول رسالپور کے کمانڈنٹ کے گھر پر آدھی رات کی دستک سے شروع ہوتی ہے، اس دستک کے پیچھے رسالپور آفیسر میس کے باہر جمی وہ محفل تھی جس میں پاک فضائیہ کے ہواباز عربوں پر اپنا غصہ اتار رہے تھے، ان دنوں عرب اسرائیل جنگ چھڑ چکی تھی اور عرب بری طرح پٹ رہے تھے ، وہاں سے آنے والی خبریں مسلمانوں کو تلملائے دے رہی تھیں اس محفل میں بھی یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ان عربوں کو لڑنا آتا ہے نہ لڑنے کا طریقہ ، مسلمانوں کی ناک کٹوا رہے ہیں، وہاں سب ہی پرجوش نوجوان افسر تھے کسی نے سوال اٹھا دیا کہ زبانی جمع خرچ سے ہٹ کر کوئی عملی بات بھی کرے  تنقید تو سب ہی کرتے رہتے ہیں،آڑھی مانگ والے دراز قامت ہواباز نے کہا ہمیں اس لڑائی کے لئے خود کو پیش کرنا اور وہاں جا کر لڑنا چاہیئے، دوسرا سوال ہوا کہ ہمارے والنٹئر ہونے سے کیا ہوتا ہے کیا ائیرفورس اجازت دے گی ؟ ہم نے یونیفارم پہن رکھا ہے ڈسپلن کے پابند ہیں، سویلین تو ہیں نہیں ، اسی وقت اسی آڑھی مانگ والے جوشیلے ہواباز نے اپنے روم میٹ صفدر سے آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ پوچھا اور اثبات میں جواب ملنے پر دونوں وہاں سے اٹھے اور اپنےکمرے میں جانے کے بجائے کمانڈنٹ کی رہائش گاہ پر جا پہنچے آدھی رات کو  کمانڈنٹ کو جگایا اور کہا ۔
سر! ہم نے اسرائیلیوں سے لڑنا ہے ہم والنٹیر ہونا چاہتے ہیں ہم سے مسلمانوں کی یہ شرمندگی دیکھی نہیں جاتی ۔"
کمانڈنٹ نے دونوں نوجوانوں کو غور سے دیکھا اور پوچھا : ہوش میں ہو ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے  ناں ؟
دونوں نے فوجی انداز میں چوکس ہو کر جواب دیا "یس سر"
کمانڈنٹ نے ہنکارہ بھرا اور کہا "اوکے کل بات کرتے ہیں"
دوسرے دن آڑھی مانگ والا پائلٹ ، فلائنگ سے واپس  آیا تو اسے کمانڈنٹ کے پاس حاضر ہونے کا حکم ملا، اسکے سینئر نے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا: دیکھو! کوئی گڑبڑ کی ہے تو مجھے ابھی بتا دو؟
نوجوان افسر نے جواب دیا "ایسا کچھ بھی نہیں ہے سر"
اس نے پھر سوال کیا"پکی بات ہے؟"
نوجوان نے جواب دیا "یس سر"
اوکے پھر اپنی کیپ لو اور آؤ میرے ساتھ تھے ، دونوں کمانڈنٹ کے پاس پہنچے اور سلیوٹ کیا ،کمانڈنٹ نے پوچھا " رات کو کیا ہوگیا تھا بھئی، کیا تم سیریس تھے؟
نوجوان آفیسر نے جواب دیا "یس سر ہم سیریس ہیں"
"اوکے ،باہر ویٹ کرو"
باہر انتظار کی طوالت دس منٹ رہی ان دس منٹوں میں کمانڈنٹ نے ائیرچیف مارشل اور ائیر چیف مارشل نے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کیا جو شام کے صدر حافظ الاسد سے رابطے میں تھے، ان دس منٹوں میں فیصلہ ہوگیا اور اس نوجوان آفیسر کو پشاور جانے کے لئے کہا گیا وہ پشاور پہنچا جہاں اس سے ایک کاغذ پر دستخط لئے گئے دستخظ لینے والا کہہ رہا تھا 

 آفیسر! اس کاغذ کے حساب سے آپ ایکس پاکستان لیو پر سرکار سے چھٹی لے کر ملک سے باہر جارہے ہو، باہر تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ساتھ  کیا ہوتا ہے اسکی ذمہ دار پاکستان ائیر فورس ہوگی نہ حکومت پاکستان، دوسرے لفظوں میں اگر گرفتار ہوجاتے ہو یا مارے جاتے ہو اور کہا جاتا ہے کہ اپنے بندے کی لاش وصول کرلو تو پاکستان کا جواب انکار میں ہوگا۔، 

نوجوان آفیسر نے سرہلایا اور اپنی رضامندی ظاہر کردی جس کے بعد اس کی منزل دمشق تھی۔
یہ دراز قامت گندمی رنگ والا نوجوان آفیسر فلائٹ لیفٹننٹ عبدلستار علوی تھا جو اس خطرناک مشن کے لئے اپنی خدمات پیش کرنے والا اکیلا پائلٹ نہیں تھا یہ سولہ پائلٹ تھے جنہیں آٹھ ، آٹھ کی دو ٹولیوں میں تقسیم کرکے ایک ٹولی مصر روانہ کردی گئی اور دوسری کو شام ہی میں ٹھہرا لیا گیا۔
فلائٹ لیفٹننٹ ستار علوی کو یہاں آنے کے بعد ان مشکلات کا سامنا ہوا جو انہوں نے کبھی نہ دیکھین تھیں شام کے پاس روسی مگ طیارے تھے جن پر ہدایات روسی زبان میں لکھی ہوئی تھیں پھر ائیر کنٹرولروں کی زبان عربی تھی اور انگریزی واجبی ہی سی تھی جبکہ ان شاہینوں کی زبان اردو اور انگریزی تھی مگر اس کا وہاں کچھ خاص فائدہ نہ تھا ۔اس کا حل انہوں نے ان روسی زبان کی اصطلاحات کا ترجمہ  کیا اور ایک کاغذ پر لکھ لیا ۔ یہ کاغذ دوران پرواز ان کے  ایک زانو سے بندھا رہتا تھا ۔دوسرے زانو پر نقشہ ہوتا جس پر مشن پر جانے والا اور واپس آنے والا راستہ ڈگریوں میں مارک ہوتا تھا ،وہ ٹوٹی پھوٹی عربی میں ائیر کنٹرول سے بات کرلیتے تھے۔جب ذرا جہازوں پر ہاتھ بیٹھا تو لہو جوش مارنے لگا کہ اسرائیلوں سے مقابلہ بھی ہو لیکن ایسا کچھ ہو کر نہیں دے رہا تھا ۔شامی سختی سے جارحانہ پالیسی سے اجتناب برتتے تھے ان کی حکمت عملی اسرائیل سے ازخود چھیڑچھاڑ کی نہ تھی ،دفاعی تھی کئی ماہ اسی میں آس میں گزر گئے پھر ان پاکستانی رضاکار پائلٹوں نے اسرائیلی ائیر فورس کو اکسا کر گھیرنے کا پلان بنایا جس میں شامی پائلٹ افسروں کا کردار صرف اسرائیل کی فضائی سرحد کے پاس سے گزر کر نکل جانا تھا باقی کام پاکستانی شاہینوں کا تھا ، شامی ائیر ہیڈکوارٹر نے پلان اوکے کردیا لیکن جب یہ صبح مشن پر جانے کے لئے پہنچے تو انہیں یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ ہم پاکستان کو اتنے خطرناک آپریشن پر پاکستانی پائلٹوں کو جانے کی اجازت دینے پر کیا جواب دیں گے۔۔۔اور مشن کینسل ہوگیا ۔

لیکن 26 اپریل 1974کی سہہ پہر کے تین بجے قدرت نے موقع دے ہی دیا جب آٹھ طیاروں کی باکس فارمیشن کے ساتھ فلائنگ مشن سے واپسی پر ریڈار نے شور مچا دیا دیکھا تو چاروں طرف اسرائیلی طیارے لپک رہے ہیں وہ چار چار کی ٹولیوں میں لگ بھگ چھپن طیارے تھے۔
 ستار علوی کے ساتھی تو دوسری طرف نکل گئے اور یہ ان کے مخالف سمت ہوگئے پھر دوسری مصیبت کہ جدید  میراج طیاروں نے   ان کے مگ کا ریڈار بھی جام کردیا گیا ۔یہ گھر چکے تھے اور مسئلہ یہ بھی کہ ان کے پاس پٹرول اتنا تھا کہ یہ لینڈ ہی کرسکتے تھے ان کے پیچھے دو میراج پڑ چکے تھے اس وقت کے میراج اور مگ کا کوئی مقابلہ نہیں تھا اسرائیلی پائلٹوں نے انہیں دونوں طرف سے سینڈوچ بنانے کی کوشش کی ،کھلے آسمان تلے یہ ڈاگ فائیٹ جاری تھی علوی کی کوشش تھی کہ وہ میراج کی نوز کے سامنے نہ آئے تاکہ میزائل سے ہٹ نہ ہو اسی کوشش میں ایک میراج آگے نکل کر سیکنڈ کے لئے علوی کے سامنے آگیا  اور یہی وہ سیکنڈ تھا جب علوی نے میزائل فائر کرکے جھکائی دیتا ہوا دوسری طرف نکل گیا خوش قسمتی یہ رہی کہ جو دوسرا اسرائیلی طیارہ تھا اس نے  واپس  اپنی ائیر اسپیس کا رخ کیا جس کے بعد علوی نے ائیر بیس پر بمشکل لینڈ کیا، حالت یہ ہوگئی تھی کہ جب جہاز رکا تو فلائٹ لیفٹننٹ علوی میں کاک پٹ سے نکلنے کی ہمت نہ تھی کہنے کو بمشکل بیس سیکنڈ کی ڈاگ فائیٹ تھی لیکن ان بیس سیکنڈوں میں وہ موت سے پنجہ لڑا کر آئے تھے، انہوں نے ساری صورتحال سے شامی ائیرفورس کو آگاہ کیا بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ
 "سیرین ائیر فورس نے اسرائیل  کا طیارہ  گولان کی پہاڑیوں پرگرا دیا ہے ۔۔۔"
ائیر بیس پر موجود روسیوں  کو پتہ چلا کہ ان کے مگ نے فرانسیسی  میراج طیارہ مار گرایا ہے تو وہ پاکستانی پائلٹ کو چوم چوم کر نہ تھکیں ، یہ دو ممالک کی ٹیکنالوجیز کی لڑائی تھی ، فاتح پاکستانی پائلٹ نے  شامی ائیرفورس کو ساری بات بتائی وہ لبنان کا علاقہ تھا جہاں اسرائیلی پائلٹ کیپٹن لوٹز کا میراج کریش ہو کر گرا تھا شامیوں نے ہیلی بھیج کر اسے شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا اور دوسرے دن ہی اس کا انتقال ہوگیا۔


دراز قامت بارعب بزرگ یہی ائیرکموڈر عبدالستارعلوی ہیں جن کے ڈرائنگ روم میں اسی کیپٹن لوٹز کا یونیفارم پاک فضائیہ کے شاہینوں کی جھپٹ کی یادگار کے طور پر موجود ہے ، پاک فضائیہ کے شاہینوں کی یہی جرت حوصلہ تکنیکلی مہارت انہیں کسی بھی دشمن سے بھڑ جانے سے پیچھے ہٹنے نہیں دیتی چاہے کوئی اسرائیلی میراج لے آئے کوئی بھارتی مگ یا سخوئی یا پھر دنیا کا جدید ترین رفال۔۔۔ یہ شاہین اسے ادھیڑنے میں دیر نہیں لگاتے اور اب تو رفال کو دیکھ کر تو ان کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔یہی جرت چھ اور سات مئی کے بعد دشمن کو اپنے طیارے بھیجنے کا حوصلہ نہیں دے رہی کہ ان کے پاس تو معافی کا خانہ ہی نہیں۔!!

٭پاک فضائیہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق انہیں شامی عرب فضائیہ کی جانب سے اور شامی حکومت کی ہدایات پر سیرین میڈل آف بریوری سے نوازا گیا۔

26 اپریل 1973 کو پاک فضائیہ کے بہادر دل، اس وقت کے فلائٹ لیفٹیننٹ ستار علوی نے شامی فضائیہ کے مگ 21 لڑاکا طیارے کو پائلٹ کرتے ہوئے ایک اسرائیلی میراج طیارے کو مار گرایا۔
ستار علوی کی 33 دوسری فضائی لڑائی نے شام کی فضائی حدود کے دفاع میں پاکستانی پائلٹوں کی بہادری اور مہارت کا مظاہرہ کیا۔
اس تقریب نے فضائی لڑائی میں فوری اضطراری انداز، تزویراتی سوچ اور طیاروں کی مہارت کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا، جب کہ فضائی جنگ کے نتائج نے ایک برادر ملک کی خودمختاری کے تحفظ اور اپنے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں پاکستانی پائلٹوں کی ہمت اور عزم کا اظہار کیا۔
شامی حکومت کی جانب سے یہ اعتراف واقعی پوری پاکستانی قوم کے لیے فخر کا لمحہ اور آنے والی نسلوں کے لیے تحریک کا باعث ہے۔
ائر کموڈور عبدالستار علوی کی زبانی اُن کی داستان ۔ وڈیو ۔

٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔