میں نے اپنے شوہر کی صحافتی زندگی کے خطرناک اور
دلخراش واقعات لکھنے اجازت طلب کی تو انھوں نے مجھے اصل ناموں کے ساتھ
واقعات لکھنے کی اجازت دے دی۔
ان کی زندگی کے کئی واقعات ہیں جن میں سے سب سے بہترین واقعات لکھتی رہوں گی۔
ایک دن کامران شام کے وقت اپنے آفس میں نیوز فائل بنا رہے تھے کہ ایک بزرگ آدمی آیا اور اس نے روتے ہوئے بتایا کہ میں ایک مزدور ہوں اور میرا بیٹا 3 سال سے سوشل سکیورٹی ہسپتال راولپنڈی میں کومہ میں ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے سو موٹو ایکشن بھی لیا ہوا ہے ۔لیکن سوشل سکیورٹی ہسپتال کی انتظامیہ اور ایم ایس سوشل سکیورٹی ڈاکٹر اظہار عدالت کے ساتھ بھی تعاون نہیں کرتے اور میں بے بس ہوں۔
کامران نے اس بزرگ سے تمام ڈاکومنٹ طلب کئے۔ اگلے روز وہ بزرگ تمام ڈاکومنٹ لے کر آیا۔ جب کامران نے ان ڈاکومنٹس کو دیکھا تو انھیں علم ہوا کہ سوشل سکیورٹی ہسپتال میں معاملات کافی خراب ہیں۔
بزرگ نے کہا کہ آپ ایک دو کالمی خبر دے دیں آپ کی مہربانی ہو گی۔ لیکن یہاں ڈاکومنٹس میں کئی دنوں کی سٹوری بن رہی تھی۔ جس میں نرسوں سے زیادتی سے لیکر آڈٹ رپورٹس میں کروڑوں روپے کے گھپلے بھی شامل تھے اور اس سٹوری میں کسی ایک آدمی کے بجائے کمشنر سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ پنجاب شیر عالم مسعود کا نام بھی آ رہا تھا۔ سو کامران نے یہ ایک خبر چھاپنے سے انکار کر دیا اور بزرگ سے کہا کہ اگر آپ تعاون کریں تو میں پورے سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دوں گا آپ کا نام صیغہ راز میں رہے گا۔ بزرگ مان گیا اور کامران نے ہسپتال کی ریکی شروع کر دی۔ کامران کے مطابق ،
" میں صبح سویرے ، پرانے کپڑے پہن کر ہسپتال ہسپتال چلا جاتا اور ہسپتال کے اندر جاکر مریضوں میں اخبارات فروخت کرتا اور ساتھ ہسپتال کے اندرونی منظر دیکھتا اور بزرگ کی طرف سے دی گئی معلومات کی تصدیق کرتا۔ جب ابتدائی ریکی مکمل کی تو آڈٹ رپورٹ 2007 نکالوانا تھی- جس کے لئے مجھے آڈٹ برانچ میں کسی لڑکی کی مدد کی ضرورت تھی، جو وہاں آڈٹ برانچ میں کام کرتی ہو ۔
آڈٹ برانچ کی لڑکی کے ساتھ دوستی کرنا انتہائی لازمی تھی تا کہ اُس کا اعتماد حاصل کر کے یہ رپورٹ حاصل کی جا سکے۔یہ آسان کام نہ تھا لیکن اتنا مشکل بھی نہیں ، ہسپتال میں کسی کو علم نہیں تھا کہ، میں کون ہوں اور کیوں آتا ہوں؟
جب پرانے کپڑے پہن کر داڑھی بڑھا کر اخبار بیچتا تھا، تو اُس وقت میں ایک اخبار فروش تھا کسی کو شک نہ ہوا ۔ لیکن اب اِس کام کے لئے مجھے اپنا حلیہ تبدیل کرنا تھا ، کیوں کہ آڈٹ برانچ میں کام کرنے والی مجھ سے ہمدردی تو حاصل کر سکتی ہے ، آڈٹ رپورٹ 2007 ، کسی بھی صورت میں اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال کر نہیں دیتی ۔
لہذا میں نے گاڑی رینٹ پر لی اور اچھے کپڑےپہن کر سیدھا آڈٹ برانچ پہنچ گیا۔ جب آڈٹ کے روم میں جارہا تھا کہ دیکھا میری خالہ کی بیٹی جو یہاں نوکری کرتی تھی، سامنے وارڈ کے دروازے پر کھڑی تھی۔ میں نے ایک دم رخ تبدیل کیا اور اسے چکما دے کر نکل گیا۔ لیکن آڈٹ روم میں جانے کے بجائے واپس نیچے آگیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر سوچا کہ ، عشال ( خالہ کی بیٹی کا فرضی نام ) نے مجھے دیکھ لیا تو مسئلہ خراب ہو جائے گا ۔
تو میں نے دوسرا پلان سوچا ، جو گو کہ معاشرے کے اعتبار سے درست نہ تھا لیکن مجبوری تھی ۔میں نے لڑکی کو دوستی کی آڑ میں گھیرنے کا پروگرام بنایا ۔ آڈٹ میں موجود لڑکی کو میں دیکھ چکا تھا ۔ لہذا میں نے نئی سِم زین کے نام سے نکالی اور لڑکی پر کوشش شروع کردی -"
میرے شوہر نے بتایا ،
" 13 دنوں کی کوشش کے بعد بالآخر میں نے اُس لڑکی کو آخر اپنی گاڑی پر بیٹھنےراضی کر لیا۔ یوں مزید 9 دن مجھے اس لڑکی کو اعتماد میں لینے پر لگ گئے۔ پھر میں نے اس لڑکی کو بتایا کہ میں ایک ٹھیکیدار ہوں اور ایک دوسرا ٹھیکیدار میرا ٹھیکہ کینسل کروانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ اگر مجھے 2007 آڈٹ رپورٹ مل جائے تو میرا ٹھیکہ کینسل ہونے سے بچ جائے گا اور مجھے نقصان نہ ہوگا۔ لڑکی پہلے تو نہ مانی ، لیکن جب میں نے پیسوں کا لالچ دیا تو مان گئی اور اُن نے مصیبت کے مارے ٹھیکیدار زین کو آڈٹ رپورٹ دے دی ۔میں نے اسے 25 ہزاروپے دیئے۔ اور آفس پہنچ کر وہ سم توڑ دی- یوں اُس لڑکی کے لئے زین نامی ٹھیکیدار ، مفقود الخبر ہو گیا "-
اب میرے شوہر کو سٹوری شروع کرنے کے لئے سیالکوٹ سوشل سکیورٹی سے آڈٹ رپورٹ 2005 درکار تھی-
" سوشل سیکورٹی ہسپتال کی نرس ( ش) جس کے ساتھ ایم ایس سوشل سکیورٹی ہسپتال ڈاکٹر اظہار نے جسمانی زیادتی کی تھی - جس کی خبر روزنامہ جناح میں ،میں نے ہی لگائی تھی - ڈاکٹر اظہار نے مجھ سے ملنے کی بہت کوشش کی، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ اگر ڈاکٹر مجھے سے ملتا تو عشال کی نوکری چلی جاتی - اور آڈٹ والی لڑکی پر میرا راز کھل جاتا - بدعائیں تو وہ نجانے کتنی دے چکی ہو گی ؟
اگلے روز میں نے جناح کے بیک پیج پر دو کالمی خبر چھاپی۔ خبر اتنی جاندار تھی کہ صبح سویرے مجھے روز نامہ جناح کے پی اے ذوالفقار کا ٹیلی فون آیا کہ خوشنودی علی خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آپ کو شام 6 بجے آفس بلایا ہے۔
شام 6 بجے میں ستارہ مارکیٹ اسلام آباد جناح اخبار کے دفتر پہنچا، تو خان صاحب نےپوچھا،
" یہ جو آپ نے خبر لگائی ہے سوشل سکیورٹی کے بارے میں، آپ کے پاس کیا کچھ ہے ؟ ایسا نہ ہو کہ الٹی گلے پڑجائے ؟ "۔
میں نے جواب دیا ، "سر !سوشل سکیورٹی ہسپتال کے بارے میں اتنا مواد ہے کہ میں ایک کتاب لکھ سکتا ہوں اور ثبوت کے ساتھ"
تو خوشنود علی خان صاحب نے مجھے بے دھڑک ہو کر لکھنے کی اجازت دی۔ اور ساتھ کہا ،
" سٹوری لکھتے ہوئے ڈرنا نہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ "
کہتے ہیں کہ میں ہیڈ آفس سے نکلا، تو سیدھا اپنی خالہ کے گھر آیا کہ کزن سے کچھ سُن گُن ملے کہ خبر کی اشعاعت پر آخر ہسپتال میں کیا ہوا؟
کزن پریشان تھی کہ ہسپتال کے خلاف اخبار میں خبر آئی ہے۔
کامران کہتے ہیں کہ میں نے جب سٹوری کی اقساط چھپوانا شروع کیں تو 6 ویں قسط چھپنے کے اگلے دن صبح مجھے ہیڈ آفس اسلام آباد سے چیف رپورٹر کا فون آیا ،
" آپ کی سٹوری کیش ہو گئی -آج سے آپ کی خبر نہیں لگے گی۔ "
کامران نے وجہ پوچھی تو علم ہوا کہ اسائنمنٹ ایڈیٹر شکیل احمد چشتی آج پارکنگ سے ڈاکٹر اظہار کی گاڑی پر بیٹھ کر گئے۔
کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ، شام میں نے ساتویں قسط بھیجی تو اگلے دن اخبار میں سٹوری نہیں لگی۔ خبر رکوا دی گئی ۔ سوشل سکیورٹی میں اپنے سورس سے پوچھا ، تو علم ہوا کہ شکیل احمد چشتی 5 لاکھ روپے نقد اور قربانی کے لئے دو بیل لے کر گئے۔
کہتے ہیں کہ اگلے روز میں صبح سویرے گھر سے نکلا اور روزنامہ جناح کے آفس ستارہ مارکیٹ گیا ۔ جب اسائنمنٹ ایڈیٹر شکیل احمد چشتی ، آفس آیا -تو میں اِسے تیسری منزل سے گھیسٹ کر نیچے لایا اور پارکنگ لاٹ میں اُسے بے نقط سنا کر نوکری چھوڑ کر آگیا۔
اس وقت کا وزیر اعلی پنجاب منگل کے روز ماڈل ٹاون میں کھلی کچہری لگاتا تھا۔
کہتے ہیں کہ میں پیر کے روز رات راولپنڈی سے نکلا اور تمام ثبوت اور اخبارات کی کٹنگ لے کر منگل کی صبح وزیر اعلی کے چیف کوآرڈینیٹر میڈیا نوشاد حمید کو ساتھ رکھ کر وزیر اعلی پنجاب سے ملا۔
وزیر اعلی نے ڈائریکٹر ماحولیات طارق زماں خان اور انکوائری آفیسر مقرر کر کے سخت انکوائری کا حکم دیا۔
اور اگلے چار روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
کہتے ہیں میں 4 روز لاہور رہا ۔۔۔
اِس انکوائری کے دوران ہی کمشنر سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ پنجاب شیر عالم مسعود کو نوکری سے ڈسمس کر دیا گیا۔ کیپٹن ڈاکٹر اظہار کو گرفتار کر لیا گیا اور کامران نے جناح اخبار سے استعفی دے دیا۔۔۔۔
کسی صحافی کی نوکری پکی نہیں ہوتی ۔۔۔ اور ہر سٹوری چینل یا اخبار کے مالکان اور سنئیر لوگ کیش کر لیتے ہیں۔
بشکریہ : اَنشرح حورین
اَنشرح حورین سے اجازت مانگی کہ بلاگ پر پبلش کردوں اُنہوں نے اجازت دے دی ۔جو آپ کی خدمت میں پیش ہے -
ان کی زندگی کے کئی واقعات ہیں جن میں سے سب سے بہترین واقعات لکھتی رہوں گی۔
سوشل سکیورٹی ہسپتال راولپنڈی سے ہم سب واقف ہیں- اس ہسپتال کے بارے میں
میرے شوہر نے ایک سٹوری 2010 میں روزنامہ جناح میں چھاپی-
آئیں، اس کی
اندرونی کہانی آپ۔کو سنائیں تاکہ آپ۔کو علم ہو کہ صحافت کے نام پر کیا کچھ
کون کون کرتا ہے؟؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کامران اس وقت روز نامہ جناح کے راولپنڈی آفس
میں سٹاف رپورٹر کی حیثیت سے نوکری کر رہےتھے۔ اور انھیں روز نامہ جناح کے
اس وقت کے بیورو چیف عثمان نے محکمہ ہیلتھ راولپنڈی کی بیٹ دی۔ ایک دن کامران شام کے وقت اپنے آفس میں نیوز فائل بنا رہے تھے کہ ایک بزرگ آدمی آیا اور اس نے روتے ہوئے بتایا کہ میں ایک مزدور ہوں اور میرا بیٹا 3 سال سے سوشل سکیورٹی ہسپتال راولپنڈی میں کومہ میں ہے ۔ اس پر چیف جسٹس نے سو موٹو ایکشن بھی لیا ہوا ہے ۔لیکن سوشل سکیورٹی ہسپتال کی انتظامیہ اور ایم ایس سوشل سکیورٹی ڈاکٹر اظہار عدالت کے ساتھ بھی تعاون نہیں کرتے اور میں بے بس ہوں۔
کامران نے اس بزرگ سے تمام ڈاکومنٹ طلب کئے۔ اگلے روز وہ بزرگ تمام ڈاکومنٹ لے کر آیا۔ جب کامران نے ان ڈاکومنٹس کو دیکھا تو انھیں علم ہوا کہ سوشل سکیورٹی ہسپتال میں معاملات کافی خراب ہیں۔
بزرگ نے کہا کہ آپ ایک دو کالمی خبر دے دیں آپ کی مہربانی ہو گی۔ لیکن یہاں ڈاکومنٹس میں کئی دنوں کی سٹوری بن رہی تھی۔ جس میں نرسوں سے زیادتی سے لیکر آڈٹ رپورٹس میں کروڑوں روپے کے گھپلے بھی شامل تھے اور اس سٹوری میں کسی ایک آدمی کے بجائے کمشنر سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ پنجاب شیر عالم مسعود کا نام بھی آ رہا تھا۔ سو کامران نے یہ ایک خبر چھاپنے سے انکار کر دیا اور بزرگ سے کہا کہ اگر آپ تعاون کریں تو میں پورے سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دوں گا آپ کا نام صیغہ راز میں رہے گا۔ بزرگ مان گیا اور کامران نے ہسپتال کی ریکی شروع کر دی۔ کامران کے مطابق ،
" میں صبح سویرے ، پرانے کپڑے پہن کر ہسپتال ہسپتال چلا جاتا اور ہسپتال کے اندر جاکر مریضوں میں اخبارات فروخت کرتا اور ساتھ ہسپتال کے اندرونی منظر دیکھتا اور بزرگ کی طرف سے دی گئی معلومات کی تصدیق کرتا۔ جب ابتدائی ریکی مکمل کی تو آڈٹ رپورٹ 2007 نکالوانا تھی- جس کے لئے مجھے آڈٹ برانچ میں کسی لڑکی کی مدد کی ضرورت تھی، جو وہاں آڈٹ برانچ میں کام کرتی ہو ۔
آڈٹ برانچ کی لڑکی کے ساتھ دوستی کرنا انتہائی لازمی تھی تا کہ اُس کا اعتماد حاصل کر کے یہ رپورٹ حاصل کی جا سکے۔یہ آسان کام نہ تھا لیکن اتنا مشکل بھی نہیں ، ہسپتال میں کسی کو علم نہیں تھا کہ، میں کون ہوں اور کیوں آتا ہوں؟
جب پرانے کپڑے پہن کر داڑھی بڑھا کر اخبار بیچتا تھا، تو اُس وقت میں ایک اخبار فروش تھا کسی کو شک نہ ہوا ۔ لیکن اب اِس کام کے لئے مجھے اپنا حلیہ تبدیل کرنا تھا ، کیوں کہ آڈٹ برانچ میں کام کرنے والی مجھ سے ہمدردی تو حاصل کر سکتی ہے ، آڈٹ رپورٹ 2007 ، کسی بھی صورت میں اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال کر نہیں دیتی ۔
لہذا میں نے گاڑی رینٹ پر لی اور اچھے کپڑےپہن کر سیدھا آڈٹ برانچ پہنچ گیا۔ جب آڈٹ کے روم میں جارہا تھا کہ دیکھا میری خالہ کی بیٹی جو یہاں نوکری کرتی تھی، سامنے وارڈ کے دروازے پر کھڑی تھی۔ میں نے ایک دم رخ تبدیل کیا اور اسے چکما دے کر نکل گیا۔ لیکن آڈٹ روم میں جانے کے بجائے واپس نیچے آگیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر سوچا کہ ، عشال ( خالہ کی بیٹی کا فرضی نام ) نے مجھے دیکھ لیا تو مسئلہ خراب ہو جائے گا ۔
تو میں نے دوسرا پلان سوچا ، جو گو کہ معاشرے کے اعتبار سے درست نہ تھا لیکن مجبوری تھی ۔میں نے لڑکی کو دوستی کی آڑ میں گھیرنے کا پروگرام بنایا ۔ آڈٹ میں موجود لڑکی کو میں دیکھ چکا تھا ۔ لہذا میں نے نئی سِم زین کے نام سے نکالی اور لڑکی پر کوشش شروع کردی -"
میرے شوہر نے بتایا ،
" 13 دنوں کی کوشش کے بعد بالآخر میں نے اُس لڑکی کو آخر اپنی گاڑی پر بیٹھنےراضی کر لیا۔ یوں مزید 9 دن مجھے اس لڑکی کو اعتماد میں لینے پر لگ گئے۔ پھر میں نے اس لڑکی کو بتایا کہ میں ایک ٹھیکیدار ہوں اور ایک دوسرا ٹھیکیدار میرا ٹھیکہ کینسل کروانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ اگر مجھے 2007 آڈٹ رپورٹ مل جائے تو میرا ٹھیکہ کینسل ہونے سے بچ جائے گا اور مجھے نقصان نہ ہوگا۔ لڑکی پہلے تو نہ مانی ، لیکن جب میں نے پیسوں کا لالچ دیا تو مان گئی اور اُن نے مصیبت کے مارے ٹھیکیدار زین کو آڈٹ رپورٹ دے دی ۔میں نے اسے 25 ہزاروپے دیئے۔ اور آفس پہنچ کر وہ سم توڑ دی- یوں اُس لڑکی کے لئے زین نامی ٹھیکیدار ، مفقود الخبر ہو گیا "-
اب میرے شوہر کو سٹوری شروع کرنے کے لئے سیالکوٹ سوشل سکیورٹی سے آڈٹ رپورٹ 2005 درکار تھی-
" سوشل سیکورٹی ہسپتال کی نرس ( ش) جس کے ساتھ ایم ایس سوشل سکیورٹی ہسپتال ڈاکٹر اظہار نے جسمانی زیادتی کی تھی - جس کی خبر روزنامہ جناح میں ،میں نے ہی لگائی تھی - ڈاکٹر اظہار نے مجھ سے ملنے کی بہت کوشش کی، لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا تھا کیوں کہ اگر ڈاکٹر مجھے سے ملتا تو عشال کی نوکری چلی جاتی - اور آڈٹ والی لڑکی پر میرا راز کھل جاتا - بدعائیں تو وہ نجانے کتنی دے چکی ہو گی ؟
اگلے روز میں نے جناح کے بیک پیج پر دو کالمی خبر چھاپی۔ خبر اتنی جاندار تھی کہ صبح سویرے مجھے روز نامہ جناح کے پی اے ذوالفقار کا ٹیلی فون آیا کہ خوشنودی علی خان آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ آپ کو شام 6 بجے آفس بلایا ہے۔
شام 6 بجے میں ستارہ مارکیٹ اسلام آباد جناح اخبار کے دفتر پہنچا، تو خان صاحب نےپوچھا،
" یہ جو آپ نے خبر لگائی ہے سوشل سکیورٹی کے بارے میں، آپ کے پاس کیا کچھ ہے ؟ ایسا نہ ہو کہ الٹی گلے پڑجائے ؟ "۔
میں نے جواب دیا ، "سر !سوشل سکیورٹی ہسپتال کے بارے میں اتنا مواد ہے کہ میں ایک کتاب لکھ سکتا ہوں اور ثبوت کے ساتھ"
تو خوشنود علی خان صاحب نے مجھے بے دھڑک ہو کر لکھنے کی اجازت دی۔ اور ساتھ کہا ،
" سٹوری لکھتے ہوئے ڈرنا نہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ "
کہتے ہیں کہ میں ہیڈ آفس سے نکلا، تو سیدھا اپنی خالہ کے گھر آیا کہ کزن سے کچھ سُن گُن ملے کہ خبر کی اشعاعت پر آخر ہسپتال میں کیا ہوا؟
کزن پریشان تھی کہ ہسپتال کے خلاف اخبار میں خبر آئی ہے۔
کامران کہتے ہیں کہ میں نے جب سٹوری کی اقساط چھپوانا شروع کیں تو 6 ویں قسط چھپنے کے اگلے دن صبح مجھے ہیڈ آفس اسلام آباد سے چیف رپورٹر کا فون آیا ،
" آپ کی سٹوری کیش ہو گئی -آج سے آپ کی خبر نہیں لگے گی۔ "
کامران نے وجہ پوچھی تو علم ہوا کہ اسائنمنٹ ایڈیٹر شکیل احمد چشتی آج پارکنگ سے ڈاکٹر اظہار کی گاڑی پر بیٹھ کر گئے۔
کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ، شام میں نے ساتویں قسط بھیجی تو اگلے دن اخبار میں سٹوری نہیں لگی۔ خبر رکوا دی گئی ۔ سوشل سکیورٹی میں اپنے سورس سے پوچھا ، تو علم ہوا کہ شکیل احمد چشتی 5 لاکھ روپے نقد اور قربانی کے لئے دو بیل لے کر گئے۔
کہتے ہیں کہ اگلے روز میں صبح سویرے گھر سے نکلا اور روزنامہ جناح کے آفس ستارہ مارکیٹ گیا ۔ جب اسائنمنٹ ایڈیٹر شکیل احمد چشتی ، آفس آیا -تو میں اِسے تیسری منزل سے گھیسٹ کر نیچے لایا اور پارکنگ لاٹ میں اُسے بے نقط سنا کر نوکری چھوڑ کر آگیا۔
اس وقت کا وزیر اعلی پنجاب منگل کے روز ماڈل ٹاون میں کھلی کچہری لگاتا تھا۔
کہتے ہیں کہ میں پیر کے روز رات راولپنڈی سے نکلا اور تمام ثبوت اور اخبارات کی کٹنگ لے کر منگل کی صبح وزیر اعلی کے چیف کوآرڈینیٹر میڈیا نوشاد حمید کو ساتھ رکھ کر وزیر اعلی پنجاب سے ملا۔
وزیر اعلی نے ڈائریکٹر ماحولیات طارق زماں خان اور انکوائری آفیسر مقرر کر کے سخت انکوائری کا حکم دیا۔
اور اگلے چار روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
کہتے ہیں میں 4 روز لاہور رہا ۔۔۔
اِس انکوائری کے دوران ہی کمشنر سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ پنجاب شیر عالم مسعود کو نوکری سے ڈسمس کر دیا گیا۔ کیپٹن ڈاکٹر اظہار کو گرفتار کر لیا گیا اور کامران نے جناح اخبار سے استعفی دے دیا۔۔۔۔
کسی صحافی کی نوکری پکی نہیں ہوتی ۔۔۔ اور ہر سٹوری چینل یا اخبار کے مالکان اور سنئیر لوگ کیش کر لیتے ہیں۔
بشکریہ : اَنشرح حورین
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آج صبح مجھے ایک بیٹی کی فیس بُک فرینڈ پر فرینڈ ریکوئسٹ آئی ، خواتین کے معاملے میں میں ذرا شکی مزاج ہوں ، کیوں کہ ماضی میں مجھے کئی بیٹیوں کی ریکوئسٹ آئی اور بالآخر وہ بیٹا بننے پر مجبور ہو گئے ۔
میں نے پروفائل کھولا ، تو پہلی تصویر دیکھ کر دل خوش ہوگیا ، رسولِ وقت ، جناب عبدالستّار ایدھی کی ہے -
میں نے پروفائل کھولا ، تو پہلی تصویر دیکھ کر دل خوش ہوگیا ، رسولِ وقت ، جناب عبدالستّار ایدھی کی ہے -
میں نے تصویر پر لائیک کر کے ، فرینڈ ریکوئسٹ قبول کر لی -
تو بالا مضمون پڑھا ۔ یادِ ماضی میں کھو گیا -
2000 ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد ، جب میں بزنس میں آیا ، تو کمپیوٹر سیلز کے ساتھ ، DOSAMA ایڈورٹائزنگ بھی شروع کی-جن میں جنگ، جناح ، خبریں ، ڈان ، نیوز، اوصاف ، مشرق ، ایکسپریس ۔
وہ اِس لئے کہ اِس بوڑھے نے صحافت میں 1971 میں جب قدم رکھا تو پہلی خبر سلیم آزاد نمائندہ مساوات (سابقہ امن) نےکاربن پیپر رکھ کر لکھی اور بوڑھے نے ایک لفافے میں ڈال کر کراچی روانہ کر دی ، یوں وہ صحافت میں میرے استاد اور کلاس فیلو ، سلیم آزاد ،کی مدد سے دوسرے دن " روزنامہ امن " میں چھپ گئی ، اِس طرح اِس بوڑھے نے عین نوجوانی میں، اخباری صحافت میں دھکّے سے قدم رکھا ، جو جاری رہا ۔
صلہ یہی ملتا کہ بس یہ دیکھ کر خوش ہوجاتے کہ اخبار میں خبر چھپ گئی ۔
صلہ یہی ملتا کہ بس یہ دیکھ کر خوش ہوجاتے کہ اخبار میں خبر چھپ گئی ۔
٭٭٭٭٭٭
اَنشرح حورین سے اجازت مانگی کہ بلاگ پر پبلش کردوں اُنہوں نے اجازت دے دی ۔جو آپ کی خدمت میں پیش ہے -
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں ایک افغان مہاجر ہوں جو پاکستان میں پیدا ہوئی اور پاکستان میں ہی تعلیم حاصل کی۔ میں سچ بولنے اور لکھنے کی عادی ہوں۔ آپ نے بیٹی کہا تو اچھا لگا ایک دن انشااللہ ملاقات بھی ہو گی۔
جواب دیںحذف کریںانشااللہ
جواب دیںحذف کریں