Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعرات، 9 اپریل، 2020

قرنطانہ اٹالین لفظ یعنی 40 دن (چلہ) ۔

قرنطینہ کا لفظ نیا نہیں ،  یورپ جانے کے لئے تمام راستے روم سے گذرتے تھے۔لہذا تمام ایشیائی بیماریاں اٹلی ،فرانس   یا سپین سے یورپ میں داخل ہوتیں  - جن میں ببونی طاعون اور سیاہ موت   شامل ہیں - لہذا  بحر اوقیانوس  ایشیاء اور افریقہ سے     یورپ میں داخل ہونے والے بحری  تجارتی قافلوں کا  بڑا راستہ تھا ۔ 


لہذا    وہاں  آنے والے بحری قافلوں کو چالیس دن تک روکا جاتا تھا ، جسے اطالوی زُبان میں  قوارانطا   (quaranta)  سپین کی زُبان میں کو رنطا (cuarenta)اور  فرنچ میں کیراط  (quarante)کہا جاتا  ہے  اور انگلش میں یہ  قوارنطائن(Quarantine) کہلایا  -
لہذا اب جہازوں کا  بندر گاہ سے دور   40 دن تک سمندر میں رہنا   قوارنطائن کہلایا ۔  جس کا مقصد بیماریوں کو بندرگاہ سے دور رکھنا تھا ۔
امریکی صدر ،رچرڈ نکسن اپالو 11 کے خلانورد  نیل آرمسٹرانگ ، مائیکل کولن  اور  ایڈون ایلڈرین  جونیئر سے موبائل قرنطائن کے پاس کھڑے ہو کر گفتگو کر رہے ہیں -
 1377 میں سسلی کے شہر  راگوسہ میں یہ قانون بنا اور  بحری  جہازوں  سے اترنے والے لوگوں اور عملے کے لیے40 دن،مخصوص احاطوں میں رہنا لازم قرار دے دیا گیا-اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے اور سزاؤں کا اطلاق کر دیا ، اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ جزیرہ سسلی کے لوگ متعدی بیماروں سے محفوظ ہو گئے لہذا یہ قانون باقی ملکوں نے بھی اپنا لیا ۔ چنانچہ قرنطینہ احاطوں میں رہے بغیر کوئی فرد  شہر میں داخل نہیں ہو سکتا تھا ۔
 1928 میں اینٹی بائیوٹک ایجاد ہو گئیں‘ بیماریوں کے بیکٹیریاز کا علاج ممکن ہو گیاجس کے بعد قرنطینہ ختم ہوتا چلا گیا۔
آج آپ کو کسی پورٹ پر 40 دن انتظار نہیں کرنا پڑتا‘ اس کی وجہ بلڈ ٹیسٹ اور اینٹی بائیوٹک ہیں‘ ڈاکٹر کسی بھی انسان کا خون ٹیسٹ کرتے ہیں‘ اگر بیماری نکل آئے تو اینٹی بائیوٹک کے ذریعے اس کا علاج شروع کر دیا جاتا ہے اور یہ چند گھنٹے بعد محفوظ ہو جاتا ہے یوں انسان نے بیماریوں کا تدارک کر لیا -
لیکن اِس کے باوجود ، ایڈز ، ایبولا  وائرس ، برڈ فلو ، ڈینگی نے انسانوں کی آبادیوں کو بیمار کرنا شروع کیا کیوں کہ بیکٹیریا کے بعد وائرس شروع ہو گئے۔
 اور اب کرونا وائرس نے بستیوں کو اجاڑنا شروع کردیا اور کرونا وائرس کا کوئی ٹیکہ ابھی تک ایجاد نہیں ہوا ۔
لہذا اِس کوپھیلنے سے بچانے کا حل چین نے سوچا کہ اُس نے شہر کے گھروں کو قرنطائن بنا دیا کہ کوئی شخص دوسرے کے گھر نہ جائے  ۔ اور کرونا وائرس کو پھیلنے کا موقع نہ دے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔