Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

بدھ، 22 اپریل، 2020

کس کس نے دودھ پیا ہے اِس بوتل سے ؟

اِس چیز کو پہچانتے ہیں آپ ؟
یہ ہماری عمر اور ہمااری عمر کے بعد ہر بچے نے استعمال کی ، جب تک پلاسٹک کی بوتلیں ایجاد نہ ہو گئیں ۔
اِس پرمائیں  ایک موٹا سا کپڑا چڑھاتی تھیں، جس کی  دو وجوہات تھیں :
1- بچے کے دودھ پر نظر نہ لگے ۔
2- بوتل گر کر ٹوٹے نہ ۔

اِس کو دھونے کے دو طریقے تھے ۔تاکہ اندر کا جمی ہوئی ملائی بالکل صاف ہو جائے !
1- برش سے-
2- ریت سے ۔

اِس کے دو نپل ہوتے تھے :
 1- پینے والا-

 2- دودھ گرنے سے بچانے کے لئے بند کرنے والا ۔ 
نپل دودھ کی وجہ سے پھول کر نرم ہوجاتا ، تو بچہ دانت نکلتے وقت چبا کر کاٹ دیتا-
 اور ہاں نپل میں سوراخ نہیں ہوتا تھا ، رضائی سینے والی سوئی کو گرم کر کے سوراخ کیا جاتا تھا ۔
 کیوں سب ٹھیک ہے نا ؟
نوجوانو !
کچھ یاد آیا ؟

٭٭٭٭٭٭٭

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔