ہوا کچھ یوں کہ کرونا آگیا، ہر طرف لاک ڈاؤن کی وبا پھیل گئی۔ دن رات چلنے
والے چھوٹے بڑے دفتروں میں چھٹی کے جراثیم ایسے پھیلے کہ عمارتیں کی
عمارتیں خالی ہو گئیں۔ کھانا اور نماز تک سے غافل لوگ گھروں میں ایسے قید
ہوئے کہ اب سوشل میڈیا پر دوسروں کو روزے نماز کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔
پیسے پیسے کا وظیفہ کرنے والے ہر ایرے غیرے کو وظیفوں والی پوسٹیں بھیجتے
پائے گئے۔
اِس وبائیہ ماحول میں ڈرتے ڈرتے ہم نے بیسویں مناثرے کا پروگرام بنانے کا سوچا۔
ابھی یہ سوچ مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر عزیز فیصل کی جانب سے کال آئی۔ خاصے فکر مند لگ رہے تھے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اِس بار کے مناثرے کے بارے میں پریشان ہیں۔ پوچھنے لگے، "اِس بار مناثرے کا کیا ہوگا؟"
میں نے فوراً جواب دیا،"مناثرہ فرام ہوم ہو گا اور ہو گا بھی وٹس ایپ پر شگفتگو کے گروپ میں!"
پوچھنے لگے،"کیسے؟"
اِس بار میں نے تین تجاویز پیش کیں، جن میں تحریر ٹائپ یا وائس ریکارڈنگ کی صورت میں پیش کرنے کا آپشن رکھا گیا، ویڈیو ریکارنگ یا ویڈیو کال کے آپشن بھی زیرِ غور آئے مگر یہ دونوں محدود ارکان کی نا رسائی کے سبب چھوڑ دیے گئے۔ خیر تمام معزز ارکان سے مشورے کے بعد تحریری صورت پر اتفاق ہوا۔
11 اپریل 2010 بہ روز ہفتہ اور بہ وقت 3 بجے "مناثرہ فرام ہوم" ہونا طے پایا۔
اور پھر یوں ہوا کہ 11اپریل 2020 کو آخر تین بجے سب اپنے اپنے قرنطینائی ماحول میں لفظوں کے تیر و تفنگ تیار کر کے شگفتگو کے پہلے مناثرہ فرام ہوم کے لیے شگفتگو کے وٹس ایپ گروپ میں میں حاضر ہو گئے۔
ڈاکٹر عزیز فیصل نے خوش آمدید کہا اور ایک دھڑلے دار خاکہ پیش کر دیا، خاکہ جناب سلمان باسط کا تھا۔ احباب نے داد و تحسین کے ساتھ تحریر، صاحبِ تحریر اور صاحبِ خاکہ کے بارے میں شگفتگو کی۔
کچھ ہی دیر میں حبیبہ طلعت نے اپنا وبائی انشائیہ"کیا کیا مچی ہیں یارو، اوہام کی بہاریں" پیش کیا ۔ اس پر بھی خاصی جملے بازی ہوئی۔
ابھی اِس تحریر کا خمار باقی تھا کہ حسیب اسیر نے "کورونا سے ڈرا کاکو" کے نام سے اپنے رفیقِ کار محمد سہیل کا خاکہ ارسال کیا۔ خاکے میں اُنہوں نے سہیل کی فنکاریوں کا تذکرہ بڑی فنکاری سے کیا۔
یہاں سے مناثرے کی نظامت مجھ غریب مسافر یعنی عاطف مرزا کو سونپی گئی ۔ میں مطالبہء خاتونِ خانہ و بچگان کے" زیرِ کنٹرول" اچانک سر زمینِ سسرائیلی میں جا وارد ہواتھااور مناثرہ فرام سسرائیل کا عالمی ریکارڈ قائم کر رہا تھا ۔مجھے آتے ہی اختصار کی روایت کا اعلان کرنا پڑ گیا جس کے لیے فرہنگِ عاطفیہ سے چند اکھڑے اکھڑے اقتباسات شرارتی نثریوں کے عنوان سے صاحبانِ شگفتگو کے سامنے رکھے۔ ان جملوں پر یاروں نے تاک تاک کے جملے مارے ۔ جملوں کی چاند ماری جاری تھی کہ ویلا مُک گیا۔
اُس کے بعد سلمان باسط صاحب کی جانب سے شاہین کاظمی کے خاکے سے مقتبس تحریر "کاہنہ"احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کی گئی۔خاکے میں دو شخصیات کے بارے میں قلم آرائی کے منتظر صاحبان کو پورے خاکے میں ایک شخصیت محترمہ شاہین کاظمی ہی نظر آئی جبکہ کسی کاہنہ نام کی خاتون کا کوئی تذکرہ نہیں آیا۔ قلتِ وقت کے سبب کسی نے سلمان صاحب سے پوچھا ہی نہیں کہ یہ کاہنہ کون تھی، خیر یہ سوال کورونا کے سبب اگلی نشست میں پوچھنےکے لیے چھوڑ دیا گیا۔
اِس تعارفی تحریر کے فوراً بعدشگفتگو کے نئی رکن محترمہ شاذیہ مفتی نے انتہائی ڈرامائی انداز سے ایک ڈرامائی عشق کا حال لکھ بھیجا۔ بھیجا فرائی ہو جاتا اگر اختتامیے میں عشق کا کھِدو نہ کھولا جاتا۔ محترمہ کی اِس تحریر سے متاثر ہو کر یار لوگوں نے ڈرامہ "دیوانگی" کا پوسٹر ضرور دیکھا ہو گا، اور خواتین ارکان نے یو ٹیوب پر ڈرامہ "دیوانگی" کھولا ضرور ہو گا۔
اِس ڈرامے سے نکلے ی تھے کہ ڈاکٹر فاخرہ نورین نے اختصار کے قلعے پر ایک طویل تحریر کا میزائل دے مارا۔یہ تحریر تھی اُن کے تازہ ترین معرکےپر، جس کا عنوان انہوں نے "عملوں بس کریں او یار" لکھا۔اِس تمام معرکے میں انہوں نے بھینس کو سوکن کا مقام دینےکی بھرپور کوشش کی اور جگ ہنسائی کی پروا کیے بغیر اپنے سرتاج زبیر صاحب کوبھینس دوہنے جیسے سوفیسٹی کیٹڈ کام سے روک دیا۔ قبلہ زبیرصاحب اِس ڈاکٹرانہ بھینس دشمنی پر آج تک تحیر کا شکار ہیں۔
قارئینِ کرام ابھی معاشقہء بھینس کے احوال سے نکلے ہی تھے کہ محترم فردوس عالم نے ڈیجیٹل تحریر سے نواز دیا، ایک نمبری اور دونمبری کے ذکر پر صاحبانِ ذوق نے داد بھی ڈیجیٹل انداز میں پیش کی۔
داد و تحسین کے پیغامات کی ڈیجیلائزیشن جاری ہی تھی کہ ارشد محمود اپنے ننھے سے بیٹے کو دل سے لگائے آن وارد ہوئے اور آتے ہی غیر متوقع طور "اینٹی کلائمیکس " پیش کر کے سارے کلائمیکس کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ سب مبہوت ہو کر موت کا منظر پڑھ رہے تھےکہ اچانک ایک چوہا آن ٹپکا خوام مخواہ۔ یار لوگوں کے ذوقِ مطالعہ کی خبر اُن کے تبصروں سے ہوئی۔
ابھی ارشد محمود صاحب کی تحریر پر اُنہیں اچھے نثر زدگان کی فہرست میں اول نمبر پر پہنچانے کی تحریک چل ہی رہی تھی کہ ہمارے بہت ہی سنجیدہ ہنس منکھ دوست محمد عارف کے قلم سے اُن کے بزرگ دوست کی تحسین پر مبنی خاکے سے ایک اہم پیرا گراف سرزد ہوا۔ ایک اعلیٰ ہستی کا ادب کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شستہ مزاح میں احاطہ کرنا اِس تحریر سے سیکھا جا سکتا ہے۔عارف کے قلم نے الفاظ پینٹ کیے تو جناب طالب انصاری کا چہرہ سامنے آیا، تحریر سے آگے بڑھنے کے لیے قارئین پورے خاکے کا مطالبہ کر بیٹھے، جو اگلی کسی نشست کے لیے اٹھا رکھا گیا ۔
ڈاکٹر شاہد اشرف کچن سے براہِ راست فی البدیہہ مزاح لے کر مناثرے میں شریک ہوئے۔آخر میں اُنہوں نے اعلان بھی کیا کہ وہ کچھ نہیں بنا رہے تھے، حالانکہ وہ سب کو بنا رہے تھے کہ انجانے میں روایاتِ زن مریدی نبھاتے پکڑے گئے تھے۔یہاں اُن پر عاطف مرزا کا ایک شرارتی نثریہ بھی صادق آئی کہ دنیا کے 50 فی صد شادی شدہ مرد زن مرید ہوتے ہیں......اور باقی اِقرار نہیں کرتے۔
ابھی داستانِ شاہد اشرف پر لوگوں کے دھڑا دھڑ تبصرے چلنے ہی لگے تھے کہ ڈاکٹر کلیم اپنی الف لیلوی تمثیل کے کردارجام ساقی کے اپنی نوعیت کے واحد دوست بھٹہ صاحب کے بَھول پن اور بُھول پن کی کہانی لے کر میدان میں اترے ۔ بھلکڑ انہ شخصیت کی اعلیٰ صفات کے تذکرے کو انتہائی ہنسوڑ سلیقے سے قلم بند ککرتی یہ تحریر حاضرین کی توجہ میں جم کر رہ گئی کیونکہ یہی مناثرے کی آخری تحریر ثابت ہوئی۔
وجہ یہ سامنے آئی کہ آصف اکبر صاحب کو انٹرنیٹ کی شرارت نے مناثرے سے اچانک صیغہ واحد غائب میں تبدیل کر دیا۔ البتہ مناثرے کے اختتام سے 24 گھنٹے کے بعد آصف اکبر صاحب نے خود نوشت پیش کر ہی ڈالی ، جس میں انہوں نے بہ اندازِ عارفانہ اپنا ہی خاکہ لکھ ڈالا۔ اِس خاکے میں اُنہوں نے ہمیں آصف اکبر مایوس سے ملوایا ۔ اتنی تاخیر سے پیش کیے جانے کے باوجود اِس تحریر نے ہمیں مایوس کے رتبے پر فائز نہیں کیا۔
ٹیکنیکل طور پر ڈاکٹر محمد کلیم کی تحریر کے بعد مناثرے کے اختتام کا اعلان ہوا۔ غیر رسمی اِجلاس کے دوران رُوداد تحریر کرنے کی ذمہ داری حبیبہ طلعت کی لگائی گئی مگراز راہِ ہم دردی میں نے اِسے خواہ مخواہ نبھا یا۔ اب میرا یہ احسان مزاحیہ ادب میں یاد رکھا جائے گا یا نہیں، اِس کی ذمہ داری خالصتاً قارئین کی ہو گی۔رُوداد میں سب کو رگیدنے کے لیے سب کی تحریروں کو تفصیل سے پڑھنے کی ضرورت پیش آئی جس کے سبب رُوداد نویس کویعنی مجھے قہقہوں کے بے شمار شدید جھٹکے بھی لگے۔اللہ تعالیٰ نے خصوصی حوصلہ عطا کیا تو یہ روداد مکمل ہو گئی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*شرکائےمناثرہ*
آصف اکبر
فردوس عالم
سلمان باسط
ڈاکٹر عزیز فیصل
ڈاکٹر شاہد اشرف
رحمٰن حفیظ
ارشد محمود
محمد عارف
ڈاکٹر محمد کلیم
شاذیہ مفتی
ڈاکٹر فاخرہ نورین
حبیبہ طلعت
حسیب الرحمٰن اسیر
عاطف مرزا
اِس وبائیہ ماحول میں ڈرتے ڈرتے ہم نے بیسویں مناثرے کا پروگرام بنانے کا سوچا۔
ابھی یہ سوچ مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر عزیز فیصل کی جانب سے کال آئی۔ خاصے فکر مند لگ رہے تھے۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ اِس بار کے مناثرے کے بارے میں پریشان ہیں۔ پوچھنے لگے، "اِس بار مناثرے کا کیا ہوگا؟"
میں نے فوراً جواب دیا،"مناثرہ فرام ہوم ہو گا اور ہو گا بھی وٹس ایپ پر شگفتگو کے گروپ میں!"
پوچھنے لگے،"کیسے؟"
اِس بار میں نے تین تجاویز پیش کیں، جن میں تحریر ٹائپ یا وائس ریکارڈنگ کی صورت میں پیش کرنے کا آپشن رکھا گیا، ویڈیو ریکارنگ یا ویڈیو کال کے آپشن بھی زیرِ غور آئے مگر یہ دونوں محدود ارکان کی نا رسائی کے سبب چھوڑ دیے گئے۔ خیر تمام معزز ارکان سے مشورے کے بعد تحریری صورت پر اتفاق ہوا۔
11 اپریل 2010 بہ روز ہفتہ اور بہ وقت 3 بجے "مناثرہ فرام ہوم" ہونا طے پایا۔
اور پھر یوں ہوا کہ 11اپریل 2020 کو آخر تین بجے سب اپنے اپنے قرنطینائی ماحول میں لفظوں کے تیر و تفنگ تیار کر کے شگفتگو کے پہلے مناثرہ فرام ہوم کے لیے شگفتگو کے وٹس ایپ گروپ میں میں حاضر ہو گئے۔
ڈاکٹر عزیز فیصل نے خوش آمدید کہا اور ایک دھڑلے دار خاکہ پیش کر دیا، خاکہ جناب سلمان باسط کا تھا۔ احباب نے داد و تحسین کے ساتھ تحریر، صاحبِ تحریر اور صاحبِ خاکہ کے بارے میں شگفتگو کی۔
کچھ ہی دیر میں حبیبہ طلعت نے اپنا وبائی انشائیہ"کیا کیا مچی ہیں یارو، اوہام کی بہاریں" پیش کیا ۔ اس پر بھی خاصی جملے بازی ہوئی۔
ابھی اِس تحریر کا خمار باقی تھا کہ حسیب اسیر نے "کورونا سے ڈرا کاکو" کے نام سے اپنے رفیقِ کار محمد سہیل کا خاکہ ارسال کیا۔ خاکے میں اُنہوں نے سہیل کی فنکاریوں کا تذکرہ بڑی فنکاری سے کیا۔
یہاں سے مناثرے کی نظامت مجھ غریب مسافر یعنی عاطف مرزا کو سونپی گئی ۔ میں مطالبہء خاتونِ خانہ و بچگان کے" زیرِ کنٹرول" اچانک سر زمینِ سسرائیلی میں جا وارد ہواتھااور مناثرہ فرام سسرائیل کا عالمی ریکارڈ قائم کر رہا تھا ۔مجھے آتے ہی اختصار کی روایت کا اعلان کرنا پڑ گیا جس کے لیے فرہنگِ عاطفیہ سے چند اکھڑے اکھڑے اقتباسات شرارتی نثریوں کے عنوان سے صاحبانِ شگفتگو کے سامنے رکھے۔ ان جملوں پر یاروں نے تاک تاک کے جملے مارے ۔ جملوں کی چاند ماری جاری تھی کہ ویلا مُک گیا۔
اُس کے بعد سلمان باسط صاحب کی جانب سے شاہین کاظمی کے خاکے سے مقتبس تحریر "کاہنہ"احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کی گئی۔خاکے میں دو شخصیات کے بارے میں قلم آرائی کے منتظر صاحبان کو پورے خاکے میں ایک شخصیت محترمہ شاہین کاظمی ہی نظر آئی جبکہ کسی کاہنہ نام کی خاتون کا کوئی تذکرہ نہیں آیا۔ قلتِ وقت کے سبب کسی نے سلمان صاحب سے پوچھا ہی نہیں کہ یہ کاہنہ کون تھی، خیر یہ سوال کورونا کے سبب اگلی نشست میں پوچھنےکے لیے چھوڑ دیا گیا۔
اِس تعارفی تحریر کے فوراً بعدشگفتگو کے نئی رکن محترمہ شاذیہ مفتی نے انتہائی ڈرامائی انداز سے ایک ڈرامائی عشق کا حال لکھ بھیجا۔ بھیجا فرائی ہو جاتا اگر اختتامیے میں عشق کا کھِدو نہ کھولا جاتا۔ محترمہ کی اِس تحریر سے متاثر ہو کر یار لوگوں نے ڈرامہ "دیوانگی" کا پوسٹر ضرور دیکھا ہو گا، اور خواتین ارکان نے یو ٹیوب پر ڈرامہ "دیوانگی" کھولا ضرور ہو گا۔
اِس ڈرامے سے نکلے ی تھے کہ ڈاکٹر فاخرہ نورین نے اختصار کے قلعے پر ایک طویل تحریر کا میزائل دے مارا۔یہ تحریر تھی اُن کے تازہ ترین معرکےپر، جس کا عنوان انہوں نے "عملوں بس کریں او یار" لکھا۔اِس تمام معرکے میں انہوں نے بھینس کو سوکن کا مقام دینےکی بھرپور کوشش کی اور جگ ہنسائی کی پروا کیے بغیر اپنے سرتاج زبیر صاحب کوبھینس دوہنے جیسے سوفیسٹی کیٹڈ کام سے روک دیا۔ قبلہ زبیرصاحب اِس ڈاکٹرانہ بھینس دشمنی پر آج تک تحیر کا شکار ہیں۔
قارئینِ کرام ابھی معاشقہء بھینس کے احوال سے نکلے ہی تھے کہ محترم فردوس عالم نے ڈیجیٹل تحریر سے نواز دیا، ایک نمبری اور دونمبری کے ذکر پر صاحبانِ ذوق نے داد بھی ڈیجیٹل انداز میں پیش کی۔
داد و تحسین کے پیغامات کی ڈیجیلائزیشن جاری ہی تھی کہ ارشد محمود اپنے ننھے سے بیٹے کو دل سے لگائے آن وارد ہوئے اور آتے ہی غیر متوقع طور "اینٹی کلائمیکس " پیش کر کے سارے کلائمیکس کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا۔ سب مبہوت ہو کر موت کا منظر پڑھ رہے تھےکہ اچانک ایک چوہا آن ٹپکا خوام مخواہ۔ یار لوگوں کے ذوقِ مطالعہ کی خبر اُن کے تبصروں سے ہوئی۔
ابھی ارشد محمود صاحب کی تحریر پر اُنہیں اچھے نثر زدگان کی فہرست میں اول نمبر پر پہنچانے کی تحریک چل ہی رہی تھی کہ ہمارے بہت ہی سنجیدہ ہنس منکھ دوست محمد عارف کے قلم سے اُن کے بزرگ دوست کی تحسین پر مبنی خاکے سے ایک اہم پیرا گراف سرزد ہوا۔ ایک اعلیٰ ہستی کا ادب کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شستہ مزاح میں احاطہ کرنا اِس تحریر سے سیکھا جا سکتا ہے۔عارف کے قلم نے الفاظ پینٹ کیے تو جناب طالب انصاری کا چہرہ سامنے آیا، تحریر سے آگے بڑھنے کے لیے قارئین پورے خاکے کا مطالبہ کر بیٹھے، جو اگلی کسی نشست کے لیے اٹھا رکھا گیا ۔
ڈاکٹر شاہد اشرف کچن سے براہِ راست فی البدیہہ مزاح لے کر مناثرے میں شریک ہوئے۔آخر میں اُنہوں نے اعلان بھی کیا کہ وہ کچھ نہیں بنا رہے تھے، حالانکہ وہ سب کو بنا رہے تھے کہ انجانے میں روایاتِ زن مریدی نبھاتے پکڑے گئے تھے۔یہاں اُن پر عاطف مرزا کا ایک شرارتی نثریہ بھی صادق آئی کہ دنیا کے 50 فی صد شادی شدہ مرد زن مرید ہوتے ہیں......اور باقی اِقرار نہیں کرتے۔
ابھی داستانِ شاہد اشرف پر لوگوں کے دھڑا دھڑ تبصرے چلنے ہی لگے تھے کہ ڈاکٹر کلیم اپنی الف لیلوی تمثیل کے کردارجام ساقی کے اپنی نوعیت کے واحد دوست بھٹہ صاحب کے بَھول پن اور بُھول پن کی کہانی لے کر میدان میں اترے ۔ بھلکڑ انہ شخصیت کی اعلیٰ صفات کے تذکرے کو انتہائی ہنسوڑ سلیقے سے قلم بند ککرتی یہ تحریر حاضرین کی توجہ میں جم کر رہ گئی کیونکہ یہی مناثرے کی آخری تحریر ثابت ہوئی۔
وجہ یہ سامنے آئی کہ آصف اکبر صاحب کو انٹرنیٹ کی شرارت نے مناثرے سے اچانک صیغہ واحد غائب میں تبدیل کر دیا۔ البتہ مناثرے کے اختتام سے 24 گھنٹے کے بعد آصف اکبر صاحب نے خود نوشت پیش کر ہی ڈالی ، جس میں انہوں نے بہ اندازِ عارفانہ اپنا ہی خاکہ لکھ ڈالا۔ اِس خاکے میں اُنہوں نے ہمیں آصف اکبر مایوس سے ملوایا ۔ اتنی تاخیر سے پیش کیے جانے کے باوجود اِس تحریر نے ہمیں مایوس کے رتبے پر فائز نہیں کیا۔
احباب نے اِس دوران اپنی تازہ تصاویر پیش کر کے ایک دوسرے کو
ہنسایا۔ سب زیادہ ہنسوڑ تصویروں میں بھینسوں سے رقابت رکھنے والی ڈاکٹر سرِ
فہرست ہے۔ نقصِ امن کے خطرے کے پیشِ نظر کچھ احباب نے اپنی تصویر پیش کرنے
سے احتراز کیا۔ شگفتگو کے ارکان پر اُن کا یہ احسان ہمیشہ یاد رکھا جائے
گا۔
ٹیکنیکل طور پر ڈاکٹر محمد کلیم کی تحریر کے بعد مناثرے کے اختتام کا اعلان ہوا۔ غیر رسمی اِجلاس کے دوران رُوداد تحریر کرنے کی ذمہ داری حبیبہ طلعت کی لگائی گئی مگراز راہِ ہم دردی میں نے اِسے خواہ مخواہ نبھا یا۔ اب میرا یہ احسان مزاحیہ ادب میں یاد رکھا جائے گا یا نہیں، اِس کی ذمہ داری خالصتاً قارئین کی ہو گی۔رُوداد میں سب کو رگیدنے کے لیے سب کی تحریروں کو تفصیل سے پڑھنے کی ضرورت پیش آئی جس کے سبب رُوداد نویس کویعنی مجھے قہقہوں کے بے شمار شدید جھٹکے بھی لگے۔اللہ تعالیٰ نے خصوصی حوصلہ عطا کیا تو یہ روداد مکمل ہو گئی۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*شرکائےمناثرہ*
آصف اکبر
فردوس عالم
سلمان باسط
ڈاکٹر عزیز فیصل
ڈاکٹر شاہد اشرف
رحمٰن حفیظ
ارشد محمود
محمد عارف
ڈاکٹر محمد کلیم
شاذیہ مفتی
ڈاکٹر فاخرہ نورین
حبیبہ طلعت
حسیب الرحمٰن اسیر
عاطف مرزا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں