Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 30 جنوری، 2022

جو بچھڑ گئے !

 ڈرامہ ٹی وی سیریل۔  جو بچھڑ گئے ۔دیکھ رہا تھا۔ 

ایک واقع یاد آیا سوچا شئیر کرلوں۔
انفنٹری سکول میںOfficers' Basic Course کر رہا تھا۔ جناح روڈ پر کھڑے رکشے کا انتظار کر رہا تھا کہ  میجر جاوید اقبال  ایف ایف ، کہیں سے نکل آئے اور ساتھ پیدل چلنے کو کہا۔ فوراً  ساتھ چل دیا۔  راستے میں بات چیت کے دوران ہمارے علاقے کا ذکر ہوا۔
پھر انتہائی بوجھل دل کے ساتھ ایک کہانی سنائی۔
 گاؤں کی ایک بڑھیا نے رات کو اپنی بہو سے کہا،

 صبح سویرے  ڈھیر سارے پراٹھے اور بڑی کیتلی میں چائے تیار کرنا۔
 بہو نے پوچھا، چاچی کس کے لئے ؟
پر چاچی نے جواب نہیں دیا۔
صبح ہوئی اور چاچی پراٹھوں بھرا چنگیر اور کیتلی لے کر پگڈنڈیوں پر چلتی ہوئی سیدھی فوجی کیمپ پہنچ گئی۔
 یہ 18 ایف ایف کا کیمپ ایریا تھا۔ راستے میں رجمنٹل پولیس کے جوان  نے روکنے کی کوشش کی لیکن بے سود۔
کمانڈنگ آفیسر  نےناراض ہو کر  ایڈجوٹنٹ کو بھیجا۔ وہ ناکام ۔
مگر کیا معلوم  چاچی نے کیا کہا کہ وہ بھی ساتھ چل دیئے اور یوں چاچی سیدھی کمانڈنگ آفیسر کے آفس  میں  پہنچ گئی۔کمانڈنگ آفیسر آفس سے باہر  نکلے ، چاچی نے  کیتلی زمین پر رکھی اور  پراٹھوں بھرا چنگیر سر سے اتارا اور   بولی ۔

 کرنل ساب ،بیٹا یہ آپ  لوگوں کے لیے ہے ۔
کمانڈنگ آفیسر ناراض ہو گئے اور زور زور سے بولے۔
  چاچی ہم فقیر نہیں فوج کے آفیسر ہیں لے جاؤ یہ سب کچھ اور غریبوں میں بانٹ دو ۔
آر پی والے کی مدد سے چاچی نے چنگیر سر پر رکھوائی ۔ اور مین گیٹ کی مخاف سمت چل پڑی
کرنل نے عمر رسیدہ  بڑھیا سے  کہا، 

چاچی  راستہ اس طرف ہے۔
چاچی نے دور درختوں کے درمیان لہراتے ہوئے پاکستان کے جھنڈے کی طرف اشارہ کیا   اور چنگیر سمیت مڑ کر کہا۔  صاحب میں اپنے بیٹے کے پاس جارہی ہوں ، اُسے یہ کہنے کہ تمھارے آفیسر اتنے بڑے ہوگئے ہیں کہ ایک شہید کی والدہ اور  شہید کی بیوہ کے ہاتھوں کے پکائے ہوئے پراٹھے نہیں کھاتے۔
کرنل چکرا گیا ۔فورا آگے بڑا اور پوچھا
" چاچی تمھارا بیٹا ۔۔۔
 ہاں وہ سامنے قبرستان میں سو رہا ہے۔65 کی  جنگ میں شہید ہوا تھا بلوچ پلٹن میں نائیک تھا گل محمد۔ !
چاچی نے  اپنی آنکھوں میں بہنے والے آنسو کو صاف کرتے ہوئے  روہانسی آواز میں کہا ۔
کمانڈنگ آفیسر یک دم جھک گیا ۔ چاچی کے پیروں کو چھوآ اُس کے سر سے ٹوکرا اتار اور چاچی کا ہاتھ پکڑ کر میس کی طرف بڑھا ۔ میس میں  ڈائینگ ٹیبل پر اپنی کرسی پر بٹھایا اور خود سیکنڈ اِن کمانڈ کی کرسی پر بیٹھا ۔
 میس والوں نے پراٹھے میز پر لگائے اور  سی او نے چاچی کو اپنے ہاتھوں سے ناشتہ کرایا۔
یہ تھی ہمارے گاؤں کی چاچی اکبری ۔ نائک گل محمد شھید 43 بلوچ کی ماں-

اس ماں کا یہ جذبہ تھا جب کہ  اس وقت ہم 71 کی جنگ کے بعد ملک کا ایک بازو ہندو سازش کے ہاتھوں گنوا چکے تھے۔
آج بھی کتنی مائیں ہیں جن کے نور نظر  اس دھرتی پر قربان ہوگئے ہیں اور ہورہےہیں۔  
ابھی کل ہی کی تو بات ہے  10 کڑیل جوان کیچ بلوچستان میں شھادت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئے۔
فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہیے۔ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔
افواج پاکستان زندہ باد۔

کرنل (ر) واجد علی بنگش
 

(منقول)٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔