Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

اتوار، 30 اکتوبر، 2022

خرگوش فارمنگ کے بلیک میلرز

ملی جی ۔ میرے خیال کے مطابق۔ آپ لوگ ریبٹ انڈسٹری کی جونکیں ہو ، جو مفت میں خون چوسنا چاھتی ہو ۔ میں نے بطور ریبٹ انڈسٹری میں نوارد ہوں اور  پوری تحقیق کی ہے ، آپ کے وٹس ایپ گروپ میں گروپ ایڈمن اور سب کے بیانات سنے اور واویلا پڑھا ۔ جو سرا سر ۔ غیر اخلاقی ہے ۔

 میری تفیش سے بننے والے فہم کے مطابق ۔ آپ لوگ، لاکھوں روپے کمانے کے لئے اندھا دھند ،اُس سمت دوڑ پڑے جس کا آپ کو کوئی تجربہ نہیں تھا ۔

۔ 1-  آپ لوگوں نے جمشیدخان سے ایگریمنٹ کیا وہ ، پیسے دے اور خرگوش جوڑا(جوڑوں) پوری تسلی سے اور دیکھ بھال کر، خرید کے اصولوں پر تھا۔

۔ 2- جو خرگوش جوڑا(جوڑوں) آپ نے اُس سے لیا اُس کے اپنے گھر /فارم میں اُس کی دیکھ بھال کی مکمل ذمہ داری آپ لوگوں کی تھی ۔(بیماری اور دواؤں کے بارے     میں معلومات فراہم کرنا ، ریبٹ فارم کے مالک کی یا اُس کےخرگوش کے معالج کی ذمہ داری ہوتی ہے )  

۔ 3- آپ نے جمشید خان کی کمپنی سے کئے گئے ایگریمنٹ کے مطابق ، اُُپ کو اُس کی شرائط پر اسی سے خریدے گئے خرگوش جوڑے کے بچے پلان کے مطابق   ، اُسی کو واپس بیچنا  (بائے بیک) تھے۔

۔ 3-1:- خرگوش جوڑا واپس بیچے جانے والا (بائے بیک ) جوڑا اُس کے میعار کے مطابق 3500 گرام، وزن کا ہونا چاھئیے تھا۔

 ۔ 3-2:- خرگوش مادہ،وزن 3500 گرام  پر  واپس (بائی بیک)  بیچنا تھی۔

 ۔ 3-3:-اُپ کو اُس کی شرائط پر خرگوش، وزن 3500 گرام  پر  واپس (بائی بیک)   بیچنا تھا ۔

۔ 4- آپ نے جمشید خان کی کمپنی سے کئے گئے، ایگریمنٹ کے مطابق ، اپنے ایگریمنٹ کو جاری رکھنے کے لئے ، مقررہ مدت میں کم از کم ایک خرگوش ( نر یا مادہ) ، اُسے بیچنا (بائے بیک ) تھا۔

 ۔ 5- آپ نے جمشید خان کی کمپنی سے کئے گئے ایگریمنٹ کے مطابق ، کمپنی کو یہ اختیار دیا تھا کہ ، وہ ملکی حالات خرگوش کے بائے بیک کے قانون (قیمتوں کا دوباہ تعیّن) میں تبدیلی کر سکتی ہے ۔

مجھے امید ہے کوئی بھی ذی شعور ، جمشید خان کی کمپنی کے قوانین کو سول عدالت ، سوشل میڈیا پر غلط ثابت نہیں کر سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ میری درست تحقیق کے جواب میں گروپ ایڈمنز ، جو ریبٹ انڈسٹری کو اپنے بغض ، حسد اور احمقانہ پن کی وجہ سے تباہ کرنے پر کمر بند ہیں ، وہ  اپنے فہم کی غلطی پر ضرورشرمندہ ہوں گے ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭

 میں بطور  ملازم برفی ریبٹری   ( میجر (ر) محمد نعیم الدین )نے جمشید خان کو اُس کے حکمیہ ایگریمنٹ یا کمپنی پروفائل کی غلطیوں کی نشاندھی کروا دی ہے ، جو یہ ہے :۔ 

۔1- اُس کی کمپنی ایشیاء کی واحد ریبٹ کمپنی نہیں ۔ ایشیا میں بڑے بڑے ممالک آتے ہیں لہذا یہ جملہ ، غلط بیان ہے ۔

۔ 2- اُس کی کمپنی گورنمنٹ آف پاکستان کے پاس رجسٹر نہیں ۔ کیوں کہ یہ سول پروپرائیٹر شپ ہے اور اِس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ ، راولپنڈی میں ، کسی بھی " کمرشل " جگہ پر کھولی گئی دکان۔

 ۔ 3- بنک کے ذریعے رقم کے لین دین سے کوئی بھی دکان گورنمنٹ آف پاکستان سے منظور شدہ نہیں ہوتی بلکہ لوکل گورنمنٹ کے قانون کے تحت دکان کے سامنے بورڈ لگا کر اُس کا ٹیکس ادا کرنے سے لوکل گورنمنٹ میں ہوتی ہے ، جیسے ماضی میں ، ٹھیلا فروشوں کو لوکل گورنمنٹ سے ٹھیلی کو رجسٹر کروا کر ٹھیلا نمبر پلیٹ لینا لازمی تھی ۔

۔ 4-جمشید خان اور دیگر ریبٹ انڈسٹری کے پروپرائیٹر کا ایگریمنٹ ناقص ہے ، کیوں کہ اُس پر کمپنی کا گواہ اور خریدار اور اُس کے گواہ چار افراد کے دستخط نہیں ۔ چناچہ سٹامپ پیپر پر کئے جانے والے ایگریمنٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

۔ 5- ریبٹ انڈسٹری کے پروپرائیٹرز کو چاھئیے کہ وہ اپنے ایگریمنٹ کو قانونی شکل دینے کے لئے : ۔

۔5-1: اپنے لیٹر پیڈ پر مکمل معاہدہ لکھے ۔ اور دو اوریجنل کاپیاں بنوائے ۔

۔ 5-2: دونوں اوریجنل کاپیوں پر بیچنے والے ۔ خریدنے والے اور اُن کے گواہوں کے دستخط ہوں ۔

۔ 5-3: خریدنے والا ، اپنی اوریجنل کاپی پر رسیدی ٹکٹ لگائے اور بیچنے والا اپنی کاپی پر اور دونوں ایک ایک اوریجنل کاپی اپنے پاس رکھیں ۔ گو اِس سے کئی عدالتی لوگوں کا روزگار ( فاضل رقم) کم ہوجائے گا ۔

۔ 6-جمشید خان اور دیگر ریبٹ انڈسٹری کے پروپرائیٹر کو یہ کام لازمی کرنا چاھئییں :۔

۔ 6-1: انگورا صرف سرد علاقوں میں پالا جاسکتا ہے اور یا ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں ، (احسن الخالقین کو گرم علاقوں سے دشمنی نہیں جہاں کم بالوں والے مقامی خرگوش اُس نے تخلیق کئے ہیں ) ۔

۔6-2: خرگوشوں کا وزن گرمیوں میں کم اور سردیوںمیں زیادہ ہوتا ہے ۔

۔ 6-3: خرگوشوں کا وزن اگر بائی بیک کے وقت مقررہ وزن سے کم ہو تو ایک اضافی نر بائی بیک میں دیا جائے گا ۔ جو چارٹ میں نے جمشید خان کو بھیجا ۔لیکن وہ اُس سےمتفق نہیں  کیوں کہ اُس کے مطابق:۔

۔ 6۔3۔1۔جو خرگوش وہ دے رہا ہے اُن کا وزن 3500 گرام   ہے ۔ 

۔ 6۔3۔2۔ لہذا جو خرگوش وہ بائی بیک میں خریدے گا ۔ اُن کا وزن 3499 گرام نہیں ہونا چاھئیے ۔

 ۔ 6۔3۔3۔پلان کے مطابق  بائے بیک کروانے والے ،  اُن کا وزن اپنے پاس کروا کر اپنی مکمل تسلی کے بعد ۔ خرگوش بائی بیک میں لا کر دے ۔جس کا وزن اُس کے فارم میں3500 گرام یا اُس سے 100 گرام اوپر ہو ورنہ ، وزن بڑھا کر اگلی تاریخ پر تمام ریبٹس  لائے ۔   

 ۔ 6-4:جمشید خان کے پلان کو جو میں سمجھا ہوں۔وہ اِس طرح ہے :۔

۔ 6-5:جمشید خان کے مطابق ، 3499 گرام سے کم وزن کے خرگوش میٹ کیٹیگری میں وہ خریدے گا اور خرگوش  جوڑوں میں بائے بیک میں یہ اُسے لازمی دینا ہوں گے جیسے پلان  1/2 میں اگر ایک فارمر 1 نر اور دو فی میل بائے بیک کے لئے لایا اور تینوں کا وزن 3500  گرام فی ریبٹ ہوا تو جمشید خان ۔ ایگریمنٹ کے مطابق ۔13000 روپے میں تینوں خرگوش واپس لے گا ۔

۔ 6-6: لیکن اگر اں، تینوں میں سے کسی  ایک بھی خرگوش کا وزن ، تولتے وقت جمشید خان کے پاس 3499 گرام نکلا تو وہ تینوں ، خرگوشوں کے میٹ کے حساب سےجمشید خان ۔ ایگریمنٹ کے مطابق ۔1050 روپے میں تینوں خرگوش واپس لے گا ۔

  اہم نکتہ: ۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جمشید خان ۔ اپنے ایگریمنٹ کو تبدیل کر سکتا ہے ؟
جی کیوں نہیں ۔
اگر جمشید خان نے مارکیٹ گرنے کی وجہ سے ، اپنے خرگوش نئے خریدار کو 1/2 پلان میں  ایک لاکھ 40 ہزار  روپے کے بجائے  ، ایک لاکھ 10 ہزار روپوں میں بیچے ہوں تو وہ یقیناً اُسی تناسب سے ۔ بائے بیک کی قیمت کم کرگا اور اب وہ 13ہزار کے بجائے10 ہزار 2 سو 14 روپے دے گا ۔  


 شکریہ٭


٭٭٭٭٭٭٭جاری ٭٭٭٭٭٭

   مزید مضامین پڑھنے کے لئے جائیں ۔

 فہرست ۔ خرگوشیات  

 

جمعہ، 28 اکتوبر، 2022

جب ساری تعلیم اردو میں ہوتی تھی

 آج کوئی مشکل ہی سے یقین کرے گا کہ جب بڑے علاقے پر انگریزوں کی حاکمیت قائم ہوگئی اور جدید علوم کی، جنہیں آپ چاہیں مغربی علوم کہہ لیں، تعلیم شروع ہوئی تو سارے مضامین اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔

 کیا سائنس، کیا ریاضی، کیا انجینئرنگ اور کیا زبانیں، سب اردو میں پڑھائی جاتی تھیں۔اس سلسلے میں دہلی کالج اور حیدرآباد دکن میں جو بے مثال کام ہوا ، دنیا اسے بھول چلی ہے جس کا دکھ ہوتا ہے۔ جب سارے علاقے میں عوام کی بہبود کے تعمیراتی کام شروع ہوئے تو سو دو سو نہیں، ہزاروں انجینئروں کی ِضرورت پڑی۔ 

ماہروں کی اتنی بڑی فوج انگلستان سے لانا ممکن نہ تھا۔ تب انگریزوں نے ہمالیہ کے دامن میں چھوٹے سے شہر روڑکی میں ایک بڑا اور جدید سول انجینئرنگ کالج قائم کیا۔

 سڑکیں اور نہریں بنانے اور عمارتیں اور تار کا نظام قائم کرنے کے لئے ہندوستانی لڑکوں کو اردو میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ماہرین کی خدمات حاصل کر کے ان مضامین کی نصابی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرایا گیا۔ کالج میں اردو طباعت کا چھاپہ خانہ لگایا گیا اور اس طرح یہ بڑا کام چل نکلا۔ 

یہاں جی چاہتا ہے اس داستان کے کچھ دلچسپ پہلو بیان کئے جائیں۔سب سے پہلے دیسی ہیڈ ماسٹر مقرر کئے گئے۔ ریکارڈ میں ان کے نام ملتے ہیں: ۔

مُنّو لال،رام چندر،مدھو سُدن چٹر جی اور بہاری لال۔

اسی طرح نائب ماسٹروں میں مسیح اﷲ، عبدالرحمان، اکبر بیگ، مودود حسین، فصیح الدین، تجمل حسین، رحیم بخش، عبدالغنی اور شیخ بیچا کے نام بھی ملتے ہیں۔

یہ سلسلہ سنہ 1847سے 1871 تک جاری رہا۔ان میں کچھ سروے کے استاد تھے اور کچھ ڈرائنگ کے ، شیخ بیچا، تخمینے کے مضمون کے استاد تھے اور سترہ سال تک لڑکوں کو سٹیمیٹ پڑھاتے رہے۔

 تھامسن انجینئرنگ کالج روڑکی میں کتابیں لکھنے اور چھاپنے کے کام پر آج کے اسکالروں نے کافی تحقیق کی ہے۔بعض نے لکھا ہے کہ شروع میں ساری تعلیم لڑکوں کو انگریزی زبان میں دی جاتی تھی۔ 

مگر ہمارے پیش نظر کتاب کے مصنف ساجد صدیق نظامی نے بڑے وثوق سے لکھا ہے کہ یہ دونوں باتیں درست نہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ پہلے دن سے ہندوستانی لڑکوں کی تعلیم ہوئی اور ان کی نصابی کتابیں اردو ہی میں چھاپی جارہی تھیں۔ کالج کا اپنا چھاپہ خانہ سنہ 1850 کے آس پاس کام شروع کرچکا تھا۔ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ انجینئرنگ جیسے مضمون کی کتابیں ترجمہ کرنے کے لئے کالج میں ایک ترجمہ کمیٹی بھی مقرر کی گئی تھی۔

 کسی نے لکھا ہے کہ آزادی تک کالج میں مسلمانوں کا داخلہ تقریباً نا ممکن تھا۔ مگر کالج کے ایک پرانے کیلنڈر میں سنہ 1872 تک داخل ہونے والے لڑکوں کی مکمل فہرستیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندو اور مسلمان طلبا کی تعداد تقریباً برابر تھی۔

کالج کے قیام سے 1870 تک ہندوستانی لڑکوں کو سارے مضمون اردو میں ہی پڑھائے جاتے تھے۔ اُس وقت جدید مضامین پر کچھ کتابیں دستیاب تھیں لیکن سول انجینئرنگ کی نصابی کتابوں کا کسی نے ترجمہ نہیں کیا تھا۔

 تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس موضوع پر بنیادی کتابوں کا ترجمہ روڑکی ہی میں شروع ہوا۔پہلے پہلے یہ کتابیں سکندرہ (آگرہ) کے آرفن پریس میں چھپتی تھیں، بعد میں کالج کا اپنا چھاپہ خانہ قائم ہوگیا۔ کالج کی زیادہ تر کتابیں دو استادوں نے ترجمہ کیں، وہ تھے منو لال اور بہاری لال۔ دونوں نے چھ چھ کتابیں اردو میں ڈھالیں۔

 باقی کتابیں تیار کرنے والوں میں کنہیا لال، شنبھو داس اور شیخ بیچا کے نام شامل ہیں۔منو لال دہلی کے کائستھ تھے۔ ان کے والد سوہن لال کو 1857 کی بغاوت میں انگریزوں کی مدد کے صلے میں بلند شہر کے تین گاؤں جاگیر کے طور پر ملے تھے۔

خود منولال نے پہلے آگرہ کے انگلش اسکول میں تعلیم پائی جہاں سے وہ روڑکی آگئے اور تعلیم پوری کرکے یہیں پڑھانے لگے۔اسی دوران حیدرآباد دکن سے سالار جنگ نے روڑکی کالج کے پرنسپل کو لکھا کہ انہیں انجینئرنگ کے ایک استاد کی ضرورت ہے، جس پر منو لال کو وہاں بھیج دیا گیا۔ وہ حیدرآباد انجینئرنگ کالج کے نائب سربراہ مقرر ہوئے۔

منولال نے حیدر آباد میں اینگلو ورنا کیولرگرلز اسکول قائم کیا جہاں 1885 میں پچاس ہندو او رچھبیس مسلمان لڑکیا ں تعلیم پا رہی تھیں۔تین سال بعد منو لال کی وفات ہوئی۔ دوسرے مصنف لالہ بہاری لال ہیں جو شروع ہی سے استاد کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ انہوں نے سات کتابیں لکھیں۔

اگلے مصنف کنہیا لال ہیں جن کی کتاب ًتاریخ پنجاب‘ آج تک یاد کی جاتی ہے۔وہ 1830 میں ایٹہ یو پی میں پیدا ہوئے ۔ ثانوی درجات کی تعلیم آگرہ میں پائی جس کے بعد روڑکی میں داخلہ لیا۔ تعلیم پوری کرنے پر لاہور میں سب اسسٹنٹ سول انجینئر مقرر ہوئے اور آخر وہیں ریٹائر ہوئے۔ لاہور کا ریلوے اسٹیشن اور میو اسپتال ان ہی کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔

 بہت کتابیں لکھیں جن میں گلزار ہندی، یادگار ہندی، ظفر نامہ معروف بہ رنجیت نامہ، مناجا ت ہندی، اخلاق ہندی، تاریخ پنجاب اور تاریخ لاہور آج تک حوالے کے طور پر نظر آتی ہیں۔ بعد میں کالج میں ان کے نام سے ایک انعام بھی جاری ہوا تھا۔ان کی انجینئرنگ کی کتابوں میں ’رسالہ در باب آلات پیمائش‘ قابل ذکر ہے۔ سڑکوں یا نہروں کی تعمیر میں بڑا موڑ آجائے تو کیا کرنا چاہئے، تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ اسی کتاب میں ایک جگہ ایسی بھی آتی ہے کہ’’جب کبھی ایسا اتفاق آپڑتا ہے کہ سڑک کی سیدھ میں کوئی گاؤں یا اچھا باغ یا کوئی مکان کہ جس کے گرا دینے میں بہت نقصان ہوتا ہو، آجاتا ہے تو اس وقت گاؤں یا مکان کو کیسے بچانا چاہئے‘‘۔

 اُس زمانے اور اُن لوگوں کے گزر جانے کے بعد حالات نے ایسی کروٹ بدلی کہ کچھ بھی پہلا جیسا نہ رہا ورنہ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یوں بھی ہوتا کہ ہم اور ہمارے بچے دنیا کا ہر مضمون اپنی زبان میں پڑھ رہے ہوتے اور جب پڑھ رہے ہوتے تو انہیں اچھی طرح معلوم ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ اب تو یہ کسی دیوانے کا خواب لگتا ہے۔ 

 رضا علی عابدی 

 پس نوشت:۔

 اردو ایک مکمل، جدید اور زندہ زبان ہے، دنیا کی تمام زندہ زبانوں کی طرح اردو میں بھی سائنس، تاریخ جغرافیہ اور دیگر جدید علوم کی تدریس ہونی چاہیے۔ یہ بات مغرب زدہ اور احساسِ کمتری میں مبتلا لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی اور وہ طرح طرح کی تاویلیں دیتے ہیں۔ اردو جاننے والے جاپانی زبان جاننے والوں سے تقریباً دس گنا زیادہ ہیں، یہی تناسب جرمن زبان کا بھی ہے۔ جب جاپانی اور جرمن زبانوں میں جدید علوم کی تدریس ہورہی ہے تو اردو میں کیوں نہیں؟ 

حامد اقبال صدیقی

٭٭٭٭٭٭٭

منگل، 25 اکتوبر، 2022

ماضی کی ایک ٹویٹ ۔ شقشقیہ

 ٭آپ کے ایک خطبہ کا حصہ جسے شقشقیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

 آگاہ ہو جائو کہ خداکی قسم فلاں شخص ( ابن ابی قحافہ) نے قمیص خلافت کو کھینچ تان کر پہن لیا ہے حالانکہ اسے معلوم ہے کہ خلات کی چکی کے لئے میری حیثیت مرکزی کیل کی ہے۔علم کا سیلاب میری ذات سے گزر کرنیچے جاتا ہے اور میری بلندی تک کسی کا طائر فکر بھی پرواز نہیں کر سکتا ہے۔پھر بھی میں نے خلافت کے آگے پردہ ڈا ل دیا اور اس سے پہلے تہی کرلی اوریہ سوچنا شروع کردیا کہ کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کردوں یا اسی بھیانک اندھیرے پرصبر کرلوں جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف ہو جائے اوربچہ بوڑھا ہو جائے اور مومن محنت کرتے کرتے خدا کی بارگاہ تک پہنچ جائے۔ تو میں نے دیکھا کہ ان حالات میں صبر ہی قرین عقل ہے تو میں نے اس عالم میں صبر کرلیا کہ آنکھوں میں مصائب کی کھٹک تھی اورگلے میں رنج و غم کے پھندے تھے۔میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ پہلے خلیفہ نے اپنا راستہ لیا اور خلافت کو اپنے بعد فلاں کے حوالے کردیا بقول اعشی:''کہاں وہ دن جو گزرتا تھا میرا اونٹوں پر۔کہاں یہ دن کہ میں حیان کے جوار میں ہوں '' حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں استعفا دے رہا تھا اور مرنے کے بعد کے لئے دوسرے کے لئے طے کرگیا۔

بیشک دونوں نے مل کر شدت سے اس کے تھنوں کو دوہا ہے۔اور اب ایک ایسی درشت اور سخت منزل میں رکھ دیا ہے جس کے زخم کاری ہیں اورجس کو چھونے سے بھی درشتی کا احساس ہوتا ہے۔لغزشوں کی کثرت ہے اورمعذرتوں کی بہتات! اس کو برداشت کرنے والا ایس ہی ہے جیسے سر کش اونٹنی کا سوار کہ مہار کھینچ  لے تو ناک زخمی ہو جائے اور ڈھیل دیدے تو ہلاکتوں میں کود پڑے۔

تو خدا کی قسم لوگ ایک کجروی' سر کشی' تلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہوگئے ہیں اور میں نے بھی سخت حالات میں طویل مدت تک صبر کیا یہاں تک کہ وہ بھی اپنے راستہ چلا گیا لیکن خلافت کو ایک جماعت میں قرار دے گیا جن میں ایک مجھے بھی شمار کرگیا۔ جب کہ میرا اس شوریٰ سے کیا تعلق تھا؟مجھ میں پہلے دن کون سا عیب و ریب تھا کہ آج مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ ملایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود میں نے انہیں کی فضا میں پرواز کی اور یہ نزدیک فضا میں اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا اور اونچے اڑے تو وہاں بھی ساتھ رہا ۔مگرپھر بھی ایک شخص اپنے کینہ کی بنا پرمجھ سے منحرف ہوگیا اور دوسری دامادی کی طرف جھک گیا اور کچھ اوربھی ناقابل ذکراسباب واشخاص تھے جس کے نتجیہ میں تیسرا شخص سرگین اورچارہ کے درمیان پیٹ پھلائے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے اہل خاندان بھی کھڑے ہوئے جو مال خدا کو اس طرح ہضم کر رہے تھے ۔

 جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کو چرلیتا ہے یہاں تک کہ اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل گئے اور اس کے اعمال نے اس کا خاتمہ کردیا اور شکم پری نے منہ کے بل گرادیا اس وقت مجھے جس چیزنے دہشت زدہ کردیا یہ تھی کہ لوگ بجوں کی گردن کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہوگئے اور چاروں طرف سے میرے اوپر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے ۔یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔لیکن جب میں نے ذمہ داری سنبھالی اوراٹھ کھڑے ہوا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ دی اوردوسرا دین سے باہرنکل گیا اور تیسرے نے فسق اختیار کرلیا جیسے کہ ان لوگوں نے یہ ارشاد الٰہی سنا ہی نہیں ہے کہ،

' یہ دارآخرت ہم صرف ان لوگوں کے لئے قراردیتے ہیں جو دنیا میں بلندی اور فساد نہیں چاہتے ہیں اور عاقبت صرف اہل تقویٰ کے لئے ہیں ''

 

اہل تقویٰ کے عیال 

اہل  تشیع  کے مولا  علی  کی بیویاں اور لونڈیاں


٭۔ علی   بن ابو طالب  ، حضرت محمد  بن عبداللہ کے چچا زاد بھائی تھے 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،    کی پہلی بیوی  ان کے چچا زاد بھائی یعنی حضرت محمد کی بیٹی فاطمہ تھیں ، یعنی  علی   بن ابو طالب  ، کی بھتیجی تھیں۔( جو اوپر تصویر میں جلتے ہوئے دروازے کے پیچھے کھڑی ہے۔ یہ فن پارہ  کسی شیعہ سے منسوب ہے ۔)  
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،   ،   کی دوسری انکے چچا زاد بھائی یعنی حضرت محمد کی نواسی  عمامہ تھیں یعنی مولا علی نے اپنی بھتیجی کی بیٹی سے شادی کی  
٭۔ علی   بن ابو طالب  ، کی تیسری بیوی فاطمہ بنت حزام تھیں 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ، کی چوتھی بیوی آسما  بنت عمیس تھیں جو کہ پہلے مولا علی کے سگے بھائی جعفر طیار کی بیوی یعنی مولا علی کی سگی بھابھی تھیں ، انکی وفات کے بعد  حضرت ابو بکر کی بیوی اور پھر  بیوہ  رہیں پھر مولا علی کی بیوی بنیں 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ، کی پانچویں بیوی خولہ بنت جعفر تھیں ، یہ یمامہ سے تعلق رکھتی تھیں ، مسلیمہ بن حبیب کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ یمامہ  میں  قیدی بنیں اور پھر بعد میں مولا علی  نے انکو اپنی بیوی بنایا 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،  کی چھٹی بیوی لیلیٰ بنت مسعود  تھیں ، مولا علی کی وفات کے بعد مولا علی کے سگے   اور پیغمبر اسلام کے چچا زاد بھائی جعفر  طیار کے بیٹے  عبد اللہ طیار  یعنی مولا علی کے سگے  بھتیجے نے اپنی سگی  چچی سے شادی کی ، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مولا علی عبداللہ بن طیار کے سوتیلے باپ بھی تھے ،  یعنی عبد اللہ بن طیار کی ماں  اسما بنت عمیس نے انکے باپ کے مرنے کے بعد مولا علی  سے شادی  بھی  کی .... دو تین مرتبہ پڑھیں اور سر دھنیں ، اخلاقیات کے پیمانوں کو ماپنے کی کوشش کریں 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،    کی  ساتویں بیوی کا نام  صہبا بنت ربیعہ  تھا جن کے بارے  میں کوئی خاص معلومات نہیں ملتیں ، صہبا بنت ربیعہ مولا علی  کی لونڈی تھیں اور بہت سے علماء  اس بات پر متفق ہیں کہ وہ  مولا  علی  کی پہلے لونڈی ، پھر غلام بنیں ، زیادہ معلومات تو موجود نہیں  البتہ انکی مولا علی  کے ساتھ ایک بیٹی رقیہ بنت علی  پیدا ہوئیں ، لاہور میں بی بی پاک دامن  کے مزار کو بہت سے لوگ مختلف روایات کی بنیاد پر رقیہ بنت علی  کا مزار ہی گردانتے ہیں 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،  کی   آٹھویں بیوی کا نام ام سعید تھا ، انکے بارے میں بھی کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں ، بس اتنا معلوم ہے کہ انکے نانا ، والدہ  اور دوسرے ننھیال کے لوگ طائف کی وادی کے رہنے والے تھے جو اسلام قبول کر کے پیغمبر اسلام کے  دائرہ خاص میں شامل ہو چکے تھے 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،   کی  نویں بیوی کا نام ماہیہ بنت عمری القیس  تھا ، ان کے والد کا سلسلہ نسب عمری القیس بن عدی بن اوس بن جابر بن کعب بن علیم بن کلب تھا  انکے بارے میں بھی کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں 
٭۔ علی   بن ابو طالب  ،    کی چند لونڈیوں کے نام یہ ہیں 
ام  الاصغر ، ام کلثوم ، نفیسہ ، ام ہانی ، ام جمانہ ، میمونہ ، امامہ ، رملہ  الصغری ، ام ابیحہ 

مذہبی  تاریخ کی کتابوں کے مطابق مولا علی  کی نو بیویوں اور بے شمار لونڈیوں میں سے انکے چودہ  بیٹے  اور انیس بیٹیاں تھیں جبکہ  اکثر شیعہ علماء کے  مطابق  مولا علی  کے ٹوٹل اٹھائیس بچے تھے۔ 
مسند احمد ( بائیس ہزار نو سو سڑسٹھ)کے مطابق محمد بن عبداللہ کے قریبی ساتھ بریدہ ابن الحسیب نے پیغمبر اسلام سے بیان کیا کہ میں نے  علی  کو ایک غلام عورت سے ملنے کے بعد غسل کرتے دیکھا ہے ، جس پر
محمد بن عبداللہ نےحکم دیا  کہ  " علی کو پانچویں حصے پر (مال غنیمت کے پانچویں حصے)  پر مکمل اختیار ہے ، اس لیے اس سے نفرت مت کرو"۔


  ٭٭٭ ابتداءِ شیطان نامہ ٭٭٭ 

 

خرگوش کی اقسام ۔ ڈوارف اور لاپ

اُفق کے پار بسنے والے، ربیتانوز (خرگوش پال) کرہ ارض پر مختلف اقسام کےخرگوش قلانچیں بھرتےپھر رہے ہیں ۔ جن کا مختصر تعارف گوگل آنٹی کی مدد سے ، آپ کی خدمت میں پیش ہے :۔

نیدر لینڈ ڈوارف ۔ مستی سے بھرپور یہ ننھاساخرگوش گھریلوخرگوش کے طور پر پہچانا جاتا ہے ، خرگوشوں سے لڑائی میں یہ چھلانگوں کے کرتب دکھاتا ہے اور اگر اگلے خرگوش کے قابو میں آجائے تو شورمچاتا ہے۔

بوڑھے (70 سالہ)  کے فہم کے مطابق ، اِن دو بنیادی رنگوں نے دنیا میں نیدر لینڈ ڈوارف کی نسل میں کانوں کی لمبائی اور رنگوں    میں جدت پیدا کر دی ۔

کیا آپ کے گرینڈ چلڈرن ، اپنے پاس لان میں پھدکتے ہوئے چھوٹے کانوں کے خرگوشوں   سے محظوظ نہیں ہوتے ؟۔

یدر لینڈ میں پیدا ہونے والے   500 گرام سے 1800 گرام تک کے اِس خرگوش نے ، ذھانت اور جسمانی مضبوطی اور  پھرتی میں تمام اپنے چھوٹے خرگوشوں کو مات دے دی ہے ۔جس کی وجہ سے یہ یورپی مملک میں مقبول ہو گیاہے۔

ھالینڈ لاپ ۔ ڈھلکے کانوں والا ، شرمیلا سا دکھائی دینے والا یہ خرگوش اپنے گھنّوں کا پکا ہے ۔گو کہ اِس کی جائے پیدائش بھی نیدر لینڈ ہی ہے ۔لیکن مشہور یہ ھالینڈ جاکر ہوا۔ کہانی یہ ہے کہ ایک ربیتانو ، اڈریان ڈی کُک نے اپنے بڑے سائز کی وجہ سے اِس کا قد چھوٹا کرنے کا بیڑا اٹھایا ۔

تو اُس نے نیدر لینڈ ڈوارف (500 گرام) اور فرنچ لاپ  (4500 گرام)کی مدد1949 میں   لی ۔ اور یوں ھالینڈ لاپ وجود میں آیا۔

کُک نے کئی تجربات کئے ۔ فرنچ لاپ میل کی وجہ سے نیدر لین ڈوارف فی میل زچگی میں فوت ہو گئی ۔ لیکن وہ  ہمت نہ ہارا اور 1951میں اُس نے چھوٹے میل اور بڑی فیمیل پر تجربات کئے یوں 1964 میں وہ ڈھلکے کانوں والا چھوٹا لاپ (2700 کلوگرام)  تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔اور اِسے فوراً ڈچ بریڈر اتھارٹی ہے پاس رجسٹر کروادیا ۔(نئے خرگوش بان کے پاس اگر نئی نسل تخلیق ہوتی ہے تو وہ اُس کا نام رکھ کر فوراً رجسٹر کروائیں ) ۔ یوں تخلیق کا عمل یونائیٹڈ کنگڈم کے ربیتانوکے پاس پہنچا اور جارج سکاٹ نے 1964-1975 کے دوران ۔1500 گرام ۔ھالینڈ لاپ تخلیق کرنے میں کامیاب ہو گیا اور دنیا کو،  ریبٹ بریڈر ایسوسی ایشن میں رجسٹر کرواکر ، یونائیٹڈ کنگڈم   اور امریکن  پلیٹ فارم سے متعارف کروایا ۔

بوڑھے کے پاس نیدر لینڈ ڈوارف کا جوڑا  اور ھالینڈ لاپ کا میل ۔ ایک نیک دل ربیتانو  ، حسین خان کےتحفے  ہیں  ۔   

 

 

٭٭٭٭٭٭٭جاری ٭٭٭٭٭٭

   مزید مضامین پڑھنے کے لئے جائیں ۔

 فہرست ۔ خرگوشیات  

 

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔