Pages

میرے چاروں طرف افق ہے جو ایک پردہء سیمیں کی طرح فضائے بسیط میں پھیلا ہوا ہے،واقعات مستقبل کے افق سے نمودار ہو کر ماضی کے افق میں چلے جاتے ہیں،لیکن گم نہیں ہوتے،موقع محل،اسے واپس تحت الشعور سے شعور میں لے آتا ہے، شعور انسانی افق ہے،جس سے جھانک کر وہ مستقبل کےآئینہ ادراک میں دیکھتا ہے ۔
دوستو ! اُفق کے پار سب دیکھتے ہیں ۔ لیکن توجہ نہیں دیتے۔ آپ کی توجہ مبذول کروانے کے لئے "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ پوسٹ ہونے کے بعد یہ آپ کے ہوئے ، آپ انہیں کہیں بھی کاپی پیسٹ کر سکتے ہیں ، کسی اجازت کی ضرورت نہیں !( مہاجرزادہ)

جمعہ، 17 مارچ، 2023

مرغ بانی ۔ ایام ثمانی، کالی چونچ ۔ کالا گوشت اور لال خون

بوڑھے نے جب سے پنشرز ایسوسی ایشن میں قدم رکھا  اور وہاں سے چندا مانگنے والی سرکار  کو بے نقاب کرکے ، ایک مخلص دوست کو چیئرمین بنایا ، تو اُفق کے پار بسنے والے دوستوں میں نے پہلے نیک دل پنشنرز نے ، راؤ جعفر اقبال چیف پیٹی آفیسر (ریٹائرڈ)  ، پاکستان نیوی ، نے   ربیتانوز (خرگوش پال ) کے نو آموز شوقین میں شامل کر لیا ۔ 

جہاں مخلص خرگوش پال کے علاوہ لکھ پتی بنانے والے فراڈیئے بھی موجود تھے اور وہ آسمان کی طرف ھاتھ اُٹھا اُٹھا کر بددعائیں نکال رہے تھے ۔ مخلص دوستوں کی مدد سے اُنہیں بے نقاب کیا اور ایگریمنٹ کے جالے سے نجات دلوائی ۔کیسے پہلے آپ یہ نظم پڑھیں :۔

اک دن کسی مکھی سے یہ کہنے لگا مکڑا

 اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمہارا

 لیکن مری کٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

 بھولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھا

 غیروں سے نہ ملیے تو کوئی بات نہیں ہے

 اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا 

آؤ جو مرے گھر میں تو عزت ہے یہ میری 

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا 

مکھی نے سنی بات جو مکڑے کی تو بولی 

حضرت کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا

 اس جال میں مکھی کبھی آنے کی نہیں ہے 

جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا پھر نہیں اترا 

مکڑے نے کہا واہ فریبی مجھے سمجھے 

تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہوگا 

منظور تمہاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

 کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

 اڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے 

ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں برا کیا

 اس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں

 باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کٹیا 

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے 

دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا 

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے

 ہر شخص کو ساماں یہ میسر نہیں ہوتا 

مکھی نے کہا خیر یہ سب ٹھیک ہے لیکن

 میں آپ کے گھر آؤں یہ امید نہ رکھنا

 ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

 سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اٹھ نہیں سکتا 

مکڑے نے کہا دل میں سنی بات جو اس کی

 پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا

 سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں

 دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا

 یہ سوچ کے مکھی سے کہا اس نے بڑی بی

 اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رتبہ 

ہوتی ہے اسے آپ کی صورت سے محبت 

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا 

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کنیاں

 سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا 

یہ حسن یہ پوشاک یہ خوبی یہ صفائی

 پھر اس پہ قیامت ہے یہ اڑتے ہوئے گانا 

مکھی نے سنی جب یہ خوشامد تو پسيجي

 بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا 

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں برا میں

 سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھا نہیں ہوتا

 یہ بات کہی اور اڑی اپنی جگہ سے

 پاس آئی تو مکڑے نے اچھل کر اسے پکڑا

 بھوکا تھا کئی روز سے اب ہاتھ جو آئی 

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھی کو اڑایا



تو اُفق کے پار بسنے والے نیک دل دوستو ۔ پنشنرز۔ خرگوش پال۔ بکری پال ۔ پرندے پال کے علاوہ بوڑھا ۔ مرغی پال دوستوں کا وٹس ایپ پر بھی ممبر ہے ۔

بوڑھا حسبِ معمول صبح اٹھا ۔ وٹس ایپ کال پر سرخ نشان دیکھے جو جاننے والوں اور انجان نمبروں سے تھے ، انجان نمبرو ں کو 2023-01-10-001 نمبر دے کر محفوظ کر لیا ۔ کہ دوبارہ کال آئی تو اٹینڈ کروں گا ۔ اور ساتھ ہی وٹس ایپ میسج دیکھے ۔ 07 کے کالر کا یہ میسج پڑھا ۔

سر یہ وڈیو بھیج رہا ہوں دیکھیں ۔ اگر ہو سکے تو مجھے رنگ کریں ۔

 اِس بندے نے دوسال پہلے مجھے ایگریمنٹ کے نام پر دھوکا دیا    ۔

رقم کا ہندسہ سن کر بوڑھے کے ہوش نہیں اُڑے اور نہ ہی اوسان خطا ہوئے ۔ کیوں کہ ریبٹ کے فراڈیوں کے ہاں یہ تو معمولی رقم تھی ۔ 

بوڑھے نے ، اجمل حمید کی دھواں دھار جذبات بھڑکاتی ،  وڈیو دیکھی۔اور گوگل آنٹی سے پوچھا  ۔ 

گوگل آنٹی نے انڈونیشیئن  ریسرچ سینٹر کی راہ دکھائی جہاں نیوزی لینڈ وہائٹ ریبٹس کو   کے ملاپ سے  ھائی کول خرگوش کی جنس میں تبدیل کرنے کے بعد ، ایام ثمانی کالی زبان  اورگرے زبان میں  پاکستانیوں کو پاکستانیوں کو ہی لوٹنے کی نئی  راہ دکھائی ۔

 کالے پر ، کالی چونچ اور کالے گوشت کی مرغیوں کا یہ کاروبار، سفید خون والے یہ کاروبار کر رہے ہیں۔اور دھڑا دھڑ  100 کلو گرام روزانہ کے حساب سے ، کالا فرحت بخش  گوشت    مغربی ممالک میں ایکسپورٹ کرنے کی نوید ،   وزنی خرگوش کی طرح سنا رہے ہیں۔

 بوڑھے نے بھی جانگیہ پہن کر اِس مارکیٹ  کے تالاب میں چھلانگ مارنے کا فیصلہ  کر لیا   اور 10 انڈوں سے کروڑوں کا بزنس کرنے کے لئے ، موبائل کال،   کالی چونچ  مرغی ایام ثمانی کاکاروبار کرنے والے سے  ملائی  ۔ ۔ ۔

گھنٹی بجتی رہی کوئی جواب نہیں ملا۔۔ تو حسبِ عادت یہ پیغام بھیجا۔

 

جاری ہے  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

خیال رہے کہ "اُفق کے پار" یا میرے دیگر بلاگ کے،جملہ حقوق محفوظ نہیں ۔ !

افق کے پار
دیکھنے والوں کو اگر میرا یہ مضمون پسند آئے تو دوستوں کو بھی بتائیے ۔ آپ اِسے کہیں بھی کاپی اور پیسٹ کر سکتے ہیں ۔ ۔ اگر آپ کو شوق ہے کہ زیادہ لوگ آپ کو پڑھیں تو اپنا بلاگ بنائیں ۔